
Condition of a Muslim ruler for Jihaad
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام(حکمران) کی اجازت لازمی ہے، امام کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد طلب ودعوت نہیں
اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلتے رہے۔ کیونکہ ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے کہ وہ یونہی امام کی اجازت کے بغیر مجاہد بن کر نکل پڑا ہو۔ وہ اسی وقت جہاد کرتے اور جہاد کے لیے ہمیشہ اس وقت نکلتے جب امام کا جھنڈا موجود ہوتا اس کے جھنڈے تلے ہی جہاد کرتے۔ اور ان کے راستے سے خروج کرنا سبیل المومنین سے خروج ہوگا، حالانکہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا ﴾ (النساء: 115)
(اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ يُطِعْ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ‘‘([1])
(جس نے میری اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے یقیناً اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر (حکمران) کی اطاعت کی اس نے یقیناً میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے یقیناً میری نافرمانی کی۔ امام تو نہیں ہے مگر ایک ڈھال کہ اس کی آڑ لے کر جنگ کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے پناہ لی جاتی ہے۔ پس اگر وہ امیر لوگوں کو تقویٰ الہی کا حکم دے اور عدل وانصاف سے کام لے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے تو اس پر گناہ ہوگا)۔
(فتنوں کے دور میں بھی داعیان وجماعتوں کے امراء کی پیروی کے بجائے حکمرانوں کی پیروی کو لازم پکڑنے کا حکم ہے) ابو ادریس الخولانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ : نَعَمْ. قُلْتُ : وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ : نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ! قُلْتُ : وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ : قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ! قُلْتُ : فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ : نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا! قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ : هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا! قُلْتُ : فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ : تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ! قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ : فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ ‘‘([2])
(لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ ہمارے لیے یہ خیر لے آیا (یعنی اسلام) تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں! میں نے عرض کیا: پھر کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہو گی؟ فرمایا : ہاں! لیکن اس میں کدورت ہو گی! میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا: ایسی قوم ہوگی جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر ے گی بعض معروف چیزیں تو ان میں دیکھے گا اور بعض منکر بھی! عرض کیا: کیا اس خیرکے بعد بھی شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوں گیں جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو جہنم میں دھکیل دیں گے! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے اوصاف ہمارے لیے بیان فرما دیجیے۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں گفتگو کریں گے! میں نے عرض کیا: اگر میں وہ زمانہ یا لوگ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو ! میں نے عرض کیا کہ: اگر اس وقت ان کی جماعت نہ ہو اورنہ امام؟ فرمایا : تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ چبا کر گزارا کرنا پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے)۔
اور علماء کرام رحمہم اللہ نے اس پر نص بیان کی ہے کہ جہاد باقی رہے گا آئمہ وحکمرانوں کے جھنڈوں تلے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ اس میں اصل اصول یہی ہے کہ جہاد آئمہ کے ساتھ ہی ہوتا ہے ، امام کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م 241ھ) فرماتے ہیں:
’’غزوہ (جہاد) تاقیام قیامت جاری رہے گا امراء کےساتھ خواہ نیک ہوں یا بد، اسے چھوڑا نہیں جائے گا‘‘([3])۔
امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ (م 321ھ) فرماتے ہیں:
’’حج وجہاد تاقیام قیامت باقی رہیں گے مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ خواہ وہ نیک ہوں یا بد، انہیں کوئی چیز نہ باطل کرسکتی ہے نہ توڑ سکتی ہے‘‘([4])۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ (م 620ھ) فرماتے ہیں:
’’جہاد کا معاملہ امام (حاکم) اور اس کے اجتہادکے سپرد ہے، اور رعایا پر اس کی اطاعت کرنا لازم ہے اس بارے میں جو فیصلہ بھی وہ مناسب سمجھے‘‘([5])۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م728ھ) فرماتے ہیں:
’’اور ان کا (اہل سنت والجماعت کا) یہ عقیدہ ہے کہ وہ حج، جہاد اور جمعہ امراء کے ساتھ قائم رکھتے ہيں خواہ وہ نیک ہوں یا بد‘‘([6])۔
اور فرمایا:
’’یہ جاننا ضرورى ہے كہ بے شک لوگوں كے امور کی ولایت (حکمرانی) عظيم دينى واجبات ميں سے ہے، بلكہ اس كے بغير نہ تو دين کا قیام ممکن ہے نہ ہی دنیا کا، كيونكہ بنى آدم كى مصلحتیں وضروريات اجتماعیت كے بغير پورى نہيں ہو سكتیں، كيونكہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی حاجت ہوتی ہے، پھر اس اجتماع كے ليے ایک سربراہ بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ یہاں تک كہ رسول كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ‘‘
(جب تین لوگ سفر کے لیے نکلیں تو اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کرلیں)۔
اسے امام ابوداود رحمہ اللہ نے ابو سعيد خدرى اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روايت كيا ہے۔
اور امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:
’’لَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِفَلَاةٍ مِن الأَرْضِ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُم‘‘
(کسی بھی تین لوگوں کے لیے حلال نہيں کہ وہ کسی ویرانے میں ہوں اور اپنے میں سے ایک کو امیر نہ بنائیں (یعنی ضرور بنائيں))۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر جيسے قليل اور عارضی اجتماع ميں بھی ایک کو امير بنانا واجب قرار دیا ہے، جو كہ باقى ہر قسم کے اجتماعات پرتنبیہ ہے۔ اور یہ اس ليے كہ بلاشبہ اللہ تعالى نے امر بالمعروف اور نہى عن المنكر واجب قرار دیا ہے، اور يہ كام قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورا نہيں ہو سكتا۔ اور اسى طرح سے جتنی بھی باتیں واجب ٹھہرائی ہیں جیسے جہاد، عدل و انصاف، حج، جمعہ اور عيدوں کا قیام، اور مظلوم كى نصرت و دادرسی اورحدود كا نفاذ سب قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورے نہيں ہوتے۔
اسى ليے روايت کی گئى ہے كہ:
’’السُّلْطَانُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأَرْضِ‘‘([7])
(حکمران زمین میں ظلِ الہی (اللہ کا سایہ) ہے)۔
اور كہا جاتا ہے:
(ظالم حكمران كے ساتھ ساٹھ برس، بغیر حكمران كے ايك رات سے بہتر ہيں)۔
اور تجربہ بھی اس بات پر گواہ ہے‘‘۔
(مجموع الفتاوی 28/390-391)
سعودی عرب فتوی کمیٹی سے سوال ہوا:
سوال: کیا اب جہاد ہم پر فرض عین ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو باہر سے ہم پر حملہ آور ہیں یا ان کے علاوہ جو ہیں؟ اور اس حالت میں ان لوگوں کے بیٹھے رہنے کا کیا حکم ہے جن کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں، الا یہ کہ وہ منتظر ہیں اگر جہاد کے لیے نکلنے کا کہا جائے تو وہ لبیک کہیں گے، اور ضرور اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، انہیں تو صرف ان مسائل نے روک رکھا ہے جس کا یہ امت مسلمہ شکار ہے، یعنی ان میں حکم غیر اللہ کے حوالے ہے، دلائل سے جواب دیجیے؟
جواب: اعلائے كلمۃ اللہ (اللہ کے کلمے کی سربلندی)، دين اسلام كى حمايت وحفاظت اور اس كى نشر و تبليغ، اور اس كى حدود و حرمات كى حفاظت كے ليے جہاد كرنا اس پر فرض ہے جو ايسا کرسکتا ہو اور اس كى قدرت ركھتا ہو۔ليكن اس کے لیے ضروری ہے کہ لشکروں کو روانہ کیا جائے اور ان کو منظم کیا جائے تاکہ کسی قسم کی افراتفرى، بدنظمى یا ایسی بات جس كا انجام اچھا نہ ہو سے بچا جاسکے۔
اسى ليے اس كا شروع کرنا اور اس ميں داخل ہونا مسلمانوں کے حکمران کے اختیار میں سے ہے، پھر اس کے بعد علماء كرام کو چاہیے کہ لوگوں کو اس پر ابھاریں۔
پس جب اس طرح جہاد شروع ہوجائے اور مسلمانوں كو اس كے ليے نكلنے كا كہا جائے، تو پھر جو شخص بھى اس پر قادر ہو اسے چاہیے کہ وہ داعی کی پکار پر لبیک کہے، خالصتاً اللہ تعالى كى رضا ، حق كى نصرت اور اسلام كى حمايت و حفاظت کی چاہت ہو۔ پھر جو شخص اس داعیہ کے وجود اور عذر نہ ہونے کے باوجود پیچھے رہا تب وہ گناہ گار ہوگا۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن نائب صدر صدر
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الثاني عشر (الجهاد والحسبة) > الجهاد والحسبة > الجهاد > حكم الجهاد)
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (م 1421ھ) فرماتے ہیں:
’’فوج کا لشکر کشی کرنا بغیر امام کی اجازت کے جائز نہیں خواہ کیسے بھی حالات ہوں۔ کیونکہ غزوہ و جہاد کے مخاطب حکمران ہیں ناکہ انفرادی طور پر ہر انسان۔ انفرادی طور پر لوگ اہل حل وعقد کے تابع ہیں۔ کسی کے لیے جائز نہيں کہ وہ امام کی اجازت کے بغیر جہاد کرے الا یہ کہ دفاع کررہا ہو۔ اگر دشمن آدھمکے اور اس کے دل میں خوف ہو تو پھر وہ اپنا دفاع کرے کیونکہ اس وقت اس پر قتال متعین ہے۔ اور یہ جائز اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اس حکم کا دارومدار امام پر ہے اس کی اجازت کے بغیر جہاد کرنا گویا کہ اس پر اور اس کے دائرہ کار پر تجاوز کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر تمام لوگوں کے لیے جائز ہو کہ وہ امام کی اجازت کے بغیر جہاد کریں تو مسئلہ افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔ جس کا جی چاہے گا گھوڑے پر سوار ہوکر لڑنا شروع کردے گا۔ لہذا اگر ایسا ہی حکم ہو سب کو تو بہت سے مفاسد جنم لیں گے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ جنگی تیاری وجہادی ٹریننگ کرتا ہے اور ظاہر یہ کرتا ہے کہ دشمن سے جہاد کریں گے لیکن درحقیقت وہ امام پر خروج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، یا پھر لوگوں کی ایک جماعت پر زیادتی کرنا چاہتا ہو، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿وَاِنْ طَاىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات: 9)
(اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو)
اسی لیے ان تین وجوہات اور ان کے علاوہ وجوہات کی بنا پر جائز نہیں کہ امام کی اجازت کے بغیر جہاد کیا جائے([8])۔
اس ضابطے کے پیش نظر ہم یہ کہتےہیں کہ: کفر کے جھنڈے تلے جہاد نہیں اور نہ ہی امام (حکومت) کے جھنڈے کے بغیر کوئی جہاد ہے‘‘۔
علماء کرام نے جہاد دفاع تک کے لیے امام کی شرط بیان کی ہے کیونکہ وہی دشمن کے کثرت وقلت، مقامات وقوت کو جانتا ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں کہ اگر اس سے رابطہ ممکن ہو اور اگر ممکن نہ ہو تو شرط نہیں۔ کیونکہ علماء کرام نے جہاد دفاع کی دو اقسام بیان کی ہیں ایک اچانک دشمن ٹوٹ پڑے اور کسی تیاری یا امیر تک پہنچنے کا موقع ہی نہ دے اس صورت میں امیر کی شرط نہیں ہوگی لیکن اگر حملے کا قبل از وقوع علم ہو اور امیر سے رابطہ بھی ممکن ہو تو شرط ہے۔ جیسے غزوۂ خندق میں ہوا یا پھر قرآن کریم سورۂ بقرہ میں جالوت وطالوت کے معرکے جس میں بنی اسرائیل کو ان کے گھروں اور اولادوں سے بے دخل کردیا گیا تھا ،جو کہ دفاعی جہاد تھا مگر انہوں نے پھر بھی وقت کے نبی سے ایک امیر مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جس پر طالوت علیہ السلام کو ان کا امیر مقرر کردیا گیا۔
(مزید پڑھیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کلام مسائل عبداللہ لابیہ 2/258 اور امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کا کلام المغني 8/367 میں)۔
بلکہ شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ نے اس بارے میں اجماع نقل کرتے ہوئے فرمایا:
’’جہاد خواہ جہاد طلب ہو یا جہاد دفاع ولی امر حکمران کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کو نہیں نکلنا چاہیے، اس بارے میں مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر کسی نے اس اجماع کی مخالفت کی بھی ہے تو بھی اس سے اس اجماع میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اجماع کا استدلال شرعی دلیل پر قائم ہے، جو کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ﴾(النساء: 84)
(تم اللہ کی راہ میں قتال کرو، تم صرف اپنے نفس کے ہی ذمہ دار ہو اور مومنوں کو بھی قتال پر ابھارو)
اس آیت میں خطاب کس سے ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بطور مسلمانوں کے امام کے۔ تو کون جہاد کی رغبت دےگا، اس پر ابھارے گا، اس کی کال دے گا؟ امام ولی امر یعنی حکمران۔ علماء کرام ﴿وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ کے تحت فرماتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو جہاد پر ابھارنے اور اس کی کال دینے والے سے ولی امر حاکم مراد ہے۔ اور حکمران کا یہ حکم ہر ملک اور ہر مکان کااس کے اپنے حساب سے ہوگا‘‘۔
تقریر بعنوان: کیف یفکر المسلم فی الواقع [ایک مسلمان حالات حاضرہ کے بارے میں کیسی سوچ رکھے؟]۔
[1] أخرجه البخاري في كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الأمام، ويتقى به، حديث رقم (2957)، ومسلم في كتاب الإمارة باب وجوب طاعة الإمام في غير معصية وتحريمها في المعصية، حديث رقم (1835).
[2] أخرجه البخاري في كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حديث رقم (3606)، ومسلم في كتاب الإمارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين، حديث رقم (1847).
[3] أصول السنة للإمام أحمد بن حنبل رواية ابن عبدوس/ شرح وتعليق : الوليد بن محمد نبيه/ نشر مكتبة ابن تسيمية بالقاهرة/ توزيع مكتبة العلم بجدة/ ط الأولى 1416هـ/ ص64-65.
[4] الطحاوية مع شرحها لابن أبي العز /المكتب الإسلامي/ تحقيق الألباني/ ص437.
[5] المغني (8/354).
[6] مجموع الفتاوى (3/158) .
[7] تخریج کتاب السنۃ 1024 میں شیخ البانی اسے ’’حسن‘‘ قرار دیتے ہیں۔
[8] الشرح الممتع (8/25-26). الشرح الممتع على زاد المستقنع، لمحمد بن صالح بن عثيمين، اعتنى بطبعه وتخريج أحاديثه و عزو آياته : د. سليمان بن عبدالله أبا الخيل، و د. خالد بن على المشيقح، مؤسسة آسام، الرياض، الطبعة الأولى 1417هـ.
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی