
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Is touching the private parts nullify Wudu? – Shaykh Muhammd bin Saaleh Al-Uthaimeen
سوال: شرمگاہ خواہ دُبُر ہو یا قبُل(سبلین) [یعنی آگے یا پیچھے کی شرمگاہ] کو چھونے خصوصاً وضوء کے دوران یا پھر وضوء کی حالت میں چھونےکا کیا حکم ہے؟
جواب: ظاہراً یہ محسوس ہوتا ہے کہ سائل کا مقصد شرمگاہ کو چھونے سے وضوء ٹوٹنے کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ عرض یہ ہے کہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ شرمگاہ کو چھونا نواقضِ وضوء میں سے نہیں کیونکہ اس بارے میں مختلف قسم کی احادیث وارد ہوئی ہیں، جبکہ اصل اصول وضوء کا نہ ٹوٹنا ہے۔ مگر ہم ان دونوں احادیث کو دیکھیں گے، ایک تو طلق بن علیرضی اللہ عنہ کی حدیث کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو نماز کی حالت میں اپنے ذَكَر(مردانہ شرمگاہ) کو چھوئے کیا اس پر دوبارہ وضوء کرنا ضروری ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::
’’هُوَبَضْعَةٌ مِنْكَ‘‘([1])
(یہ تمہارے جسم کا محض ایک ٹکڑا ہی تو ہے)۔
اور دوسری حدیث بسرہ رضی اللہ عنہ کی کہ:
’’مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأَ‘‘([2])
(جو اپنے ذکر کو ہاتھ لگائے تو اسے چاہیے کہ وضوء کرلے)۔
ان دونوں احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل ممکن ہے کہ اگر وہ شرمگاہ کو شہوت کے ساتھ چھوتا ہے تو وضوء ٹوٹ جائے گا اور اگر بلاشہوت چھوتا ہے تو وضوء برقرار رہے گا۔
اس طرح سے یہ دو احادیث جمع ہوجاتی ہیں، اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضوء نہ ٹوٹنے کی دلیل اس بات کو بنایا تھا کہ یہ تمہارے ہی جسم کا ایک ’’بَضْعَةٌ‘‘ (ٹکڑا) ہے۔ چنانچہ جب یہ تمہارے جسم کا محض ایک ٹکڑا ہی ہے تو اس کو چھونا ایسا ہی ہے جیسے بقیہ اعضاءِ جسم کو چھونا مثلاً انسان کا اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو چھونا ہے یا پھر اپنی ٹانگ، سر، ناک یا کسی بھی حصہ کو چھونا ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی ایک حصہ کو چھولینا ہو، عین اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے ذکر کو بلاشہوت چھوتا ہے تو اس کا چھونا جسم کے دیگر اعضاء کے چھونے کی مانند ہے لیکن اگر شہوت کے ساتھ چھوتا ہے تو ظاہر ہے اب اس کا چھونا دیگر اعضاء کے چھونے کی طرح نہ رہا۔ لہذا اس طرح سے ان دونوں احادیث کے مابین جمع کیا جاسکتا ہے کہ ہم کہیں اگر اپنے ذکر کو شہوت سے چھوا تو وضوء جاتا رہا اور اگر بلاشہوت چھوا ہے تو وضوء برقرار رہے گا۔
البتہ بعض علماء کرام نے اس کے علاوہ بھی ایک طریقے سے دونوں احادیث کے مابین جمع فرمایا ہے وہ اس طرح کے ’’فَلْيَتَوَضَّأَ‘‘ (چاہیے کہ وضوء کرلے) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو حکم ہے وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ بہرحال ذکر یا فرج کو مطلقاً چھونے پر وضوء کے وجوب کا حکم لگانے میں میرے نزدیک نظر ہے اور صواب رائے میرے نزدیک اس کے خلاف ہے (جو اوپر بیان ہوئی)۔
[بعض اہل علم یہ بھی تفریق کرتے ہيں کہ بناحائل یعنی کپڑے وغیرہ کے اوپر سے چھونا اور براہ راست چھونے میں فرق، اللہ اعلم]
Be the first to comment