بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ درود و سلام ہو اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔
اما بعد:
اندھی تقلید کے بارے میں جو گفتگو آگے آرہی ہے، وہ امام، محدث اور مجدد شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ابتدائی باب سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب سنہ 1370ھ (1951ء) میں شائع ہوئی تھی۔
اس باب کا عنوان ہے : آئمہ کرام کے وہ فرامین جو سنت کی پیروی اور اپنے اقوال کے ترک سے متعلق ہیں، جب وہ سنت کے خلاف ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس عظیم عالم پر اپنی رحمت نازل فرمائے، اور امتِ مسلمہ کو توفیق دے کہ وہ شریعت کے دلائل کی پیروی کرے، اور جب حق واضح ہو جائے تو لوگوں کی غلط آراء کو چھوڑ دے۔
محدثین کا منہج ، جو اس امت کے بڑے حدیث کے علماء تھے ، یہ تھا کہ وہ اپنے دینی عقائد و احکام کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر قائم کرتے تھے۔ یہی طریقہ اہلِ سنت کے علماء کا ہے، ماضی میں بھی اور آج بھی۔ کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ خود کو اہلِ علم یا اہلِ سنت کہے جبکہ وہ واضح سنت کے مقابلے میں کسی انسان کے قول کو ترجیح دے۔
لوگوں کا یہ طریقہ درست نہیں کہ وہ اندھی تقلید کرتے ہوئے صرف فقہی مذاہب اور علماء کی آراء پر چلیں بغیر اس کے کہ ان کے دلائل جانیں۔ کیا ہی خوب فرمایا اُس شخص نے جس نے کہا
أهلُ الحديثِ هم أهلُ النبيِّ وإنْ لم يصحبوا نفسَهُ أنفاسَهُ صَحِبوا
اہلِ حدیث ہی وہ لوگ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہیں؛ اگرچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانۂ حیات میں نہ پایا، پھر بھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقِ عمل کو اپنایا۔
( یہ شعر الحسن بن محمد النسوي کی نظم سے ہے، جیسا کہ الحافظ ضیاء الدین المقدسی نے اپنی رسالہ “فضلُ الحديث وأهله” (حدیث اور اس کے اہل کی فضیلت) میں روایت کیا ہے۔
یہ بات یاد دہانی اور نصیحت کے طور پر بہت فائدہ مند ہے کہ ہم سلف صالحین کے اقوال اس باب میں ذکر کریں تاکہ اُن لوگوں کو متنبہ کیا جائے جو آئمہ کی اندھی تقلید کرتے ہیں، یا ان سے بھی کم درجے کے متأخر علماء کی رائے پر جمے رہتے ہیں، اور اپنے مذہب و فقہی مسلک کی باتوں کو ایسے پکڑ لیتے ہیں جیسے وہ آسمان سے نازل ہونے والی وحی ہو۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
ٱتَّبِعُوا۟ مَاۤ أُنزِلَ إِلَیۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ مِن دُونِهِۦۤ أَوۡلِیَاۤءَ قَلِیلࣰا مَّا تَذَكَّرُونَ
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
(سورۃ الأعراف: 3)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنࣲ وَلَا مُؤۡمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥۤ أَمۡرًا أَن یَكُونَ لَهُمُ ٱلۡخِیَرَةُ مِنۡ أَمۡرِهِمۡۗ وَمَن یَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلَـٰلࣰا مُّبِینࣰا
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا۔(سورۃ الأحزاب: 36)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا
قُلۡ إِن كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِی یُحۡبِبۡكُمُ ٱللَّهُ وَیَغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورࣱ رَّحِیمࣱ
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
(سورۃ آل عمران: 31)
یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ سچا ایمان اور حقیقی محبتِ الٰہی اسی وقت معتبر ہے جب بندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ہدایت کی پیروی کرے، اور اپنی خواہشات، آراء یا کسی انسان کے قول کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مقابلے میں نہ رکھے۔
حصہ 1: امام ابو حنیفہ (رحمہ اللہ)
چاروں آئمہ کرام میں سب سے پہلے امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (رحمہ اللہ) ہیں ، جن کا وصال 150 ہجری میں ہوا۔ ان کے شاگردوں نے اس موضوع پر آپ سے کئی اقوال نقل کئے ہیں، جو سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ علم کو حدیث سے حاصل کرنا واجب ہے، اور ان آئمہ و علما کی رائے کو ترک کرنا لازم ہے جو احادیث کے مخالف ہوں۔
پہلا قول
امام ابو حنیفہ (رحمہ اللہ) نے فرمایا
إذا صح الحديث فهو مذهبي
“جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔”
(حوالہ: ابن عابدین نے ’’الحاشیہ‘‘ (1/63) میں، نیز اپنی رسالہ ’’رسم المفتی‘‘ (1/3) میں ’’مجموعۃ الرسائل‘‘ سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح شیخ صالح الفلانی نے”إيقاظ همم أولي الأبصار”(ص 62) میں اور دیگر علماء نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔)
ابن عابدین ’’شرح الهداية‘‘ از لابن الشَّحْنَة الكبير (جو ابن الھُمَام کے شیخ تھے) سے نقل کرتے ہیں جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہو اور وہ امام کے قول کے خلاف ہو، تو اس حدیث پر عمل کرنا ہی دراصل امام کا اصل مذہب ہے۔ جو شخص صحیح حدیث پر عمل کرے، وہ حنفی ہونے سے خارج نہیں ہوتا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ بات صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے، تو وہی میرا مذہب ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سمیت دوسرے آئمہ سے بھی نقل کیا ہے۔
امام البانی رحمہ اللہ نے فرمایا
یہ بات آئمہ کے علم کے کمال اور ان کے تقویٰ کی دلیل ہے۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتے۔امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیا ہے، جیسا کہ آگے ذکر آئے گا۔کبھی ایسا ہوتا کہ ان میں سے کسی کا قول سنت کے خلاف معلوم ہوتا، لیکن وہ اس لیے نہیں کہ انہوں نے سنت کو چھوڑا، بلکہ اس لیے کہ وہ حدیث ان تک پہنچی ہی نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، اور خود بھی یہی کہا کہ سنت پر عمل کرنا ہی ہمارا مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب آئمہ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
(حوالہ: صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از شیخ ناصر الدین البانی، صفحات 41-42)
دوسرا قول
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا
لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا؛ ما لم يعلم من أين أخذناه
کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہمارا قول لے، جب تک یہ نہ جان لے کہ ہم نے وہ کہاں سے لیا ہے۔
ایک اور روایت میں انہوں نے فرمایا
حرام على مَن لم يعرف دليلي أن يُفتي بكلامي
جس شخص کو میری بات کی دلیل معلوم نہیں، اس کے لیے حرام ہے کہ وہ میرے قول کی بنیاد پر فتویٰ دے۔
اور ایک دوسرے موقع پر فرمایا
فإننا بَشَر؛ نقول القول اليوم، ونرجع عنه غداً
ہم بھی انسان ہیں، آج کوئی بات کہتے ہیں تو کل اس سے رجوع کر لیتے ہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اگر آئمہ کرام نے یہ بات اُن لوگوں کے بارے میں کہی ہے جو اُن کے دلائل سے واقف نہیں تو سوچو! اُن لوگوں کے بارے میں وہ کیا فرماتے جنہیں پتا ہو کہ ان کے اقوال سنت کے خلاف ہیں، پھر بھی وہ انہی اقوال پر فتویٰ دیتے رہیں؟
لہٰذا اس بات پر غور کرو یہ ایک جملہ ہی اندھی تقلید کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی وجہ سے جب میں نے ایک مقلد شیخ کو اس بات پر تنبیہ کی کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیتا ہے بغیر ان کی دلیل جانے، تو اس نے ان اقوال کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف ماننے سے ہی انکار کر دیا۔
(صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 42)
ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد ابو یوسف رحمہ سے فرمایا
ويحك يا يعقوب! – وهو أبو يوسف – لا تكتب كل ما تسمع مني؛ فإني قد أرى الرأي اليوم، وأتركه غداً، وأرى الرأي غداً، وأتركه بعد غد
اے یعقوب! (یعنی ابو یوسف) جو کچھ تم مجھ سے سنتے ہو، سب نہ لکھا کرو۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آج میں ایک رائے دوں اور کل اسے چھوڑ دوں اور کل جو بات کہوں اسے پرسوں ترک کر دوں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں، جیسے امام زُفَر، امام ابو یوسف اور عافیہ بن یزید رحمہم اللہ سے بھی اسی مفہوم کی روایات منقول ہیں، جیسا کہ یہ بات “ایقاظ الھمم” (صفحہ 52) میں مذکور ہے۔ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “إعلام الموقعین” (جلد 2، صفحہ 344) میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ قول دراصل امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا ہے۔ یہ اضافی روایت “ایقاظ الھمم” کے حواشی (صفحہ 65) میں بھی ملتی ہے، جہاں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ، امام ابن القیم رحمہ اللہ اور دیگر آئمہ کے حوالوں سے اسے نقل کیا گیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
دراصل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے اقوال قیاس پر مبنی تھے پھر کبھی ان کے سامنے اس سے زیادہ مضبوط قیاس آجاتا، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ان تک پہنچ جاتی تو وہ فوراً اپنے پچھلے قول کو چھوڑ دیتے اور حدیث یا مضبوط دلیل اختیار کر لیتے۔
علامہ شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ہماری رائے اور ہر منصف عالم کی رائے یہی ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اُس زمانے تک زندہ رہتے جب احادیثِ نبویہ جمع کر کے مدون کر لی گئیں، اور محدثین مختلف شہروں اور علاقوں میں جا کر احادیث کو تلاش کر کے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو وہ بھی ان احادیث کو اختیار کر لیتے اور اپنے قیاسات کو چھوڑ دیتے۔ اسی لیے اگر آج وہ ہوتے، تو ان کے مذہب میں قیاس اتنا نایاب ہوتا جتنا دوسرے آئمہ کے مذاہب میں ہے۔ البتہ اُن کے زمانے میں احادیث بکھری ہوئی تھیں تابعین اور تبع تابعین مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے تھے، اس لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قیاس پر زیادہ انحصار کرنا پڑا۔ جب محدثین نے سفر کر کے احادیث کو جمع کیا اور کتابوں میں محفوظ کیا، تو ان احادیث نے ایک دوسرے کی وضاحت کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں قیاس نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے،جبکہ دوسرے مذاہب میں کم۔
امام شَعْرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “المیزان” (جلد 1، صفحہ 62) میں اس بات کا خلاصہ ذکر کیا ہے۔اور علامہ ابو الحسنات اللكنوی رحمہ اللہ نے “النّافع الکبیر” (صفحہ 135) میں امام شَعْرانی رحمہ اللہ کے کلام کو مکمل طور پر نقل کیا ہے،اور حاشیے میں اس کی مزید وضاحت اور تائید بھی فرمائی ہے۔لہٰذا جو شخص تفصیل دیکھنا چاہے، وہ وہاں رجوع کر سکتا ہے۔
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ عذر تسلیم کیا جائے کہ ان سے بعض صحیح احادیث کے خلاف اقوال بغیر ارادہ کے سرزد ہوئے، تو یہ عذر بالکل درست اور قابلِ قبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ لہٰذا ان کے بارے میں زبان درازی کرنا، جیسا کہ بعض جاہل لوگ کرتے ہیں، بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ بلکہ واجب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کیا جائے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے بڑے آئمہ میں سے ایک امام ہیں، جن کے ذریعے دینِ اسلام ہم تک اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ پہنچا ہے۔ چاہے وہ کسی مسئلے میں درست ہوں یا غلطی کر بیٹھے ہوں، وہ بہرحال اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ جو لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں وہ اُن کے ان اقوال پر جم جائیں جو صحیح احادیث کے مخالف ہوں۔ کیونکہ یہ رویہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے منہج کے خلاف ہے، جیسا کہ اُن کے اپنے اقوال سے ظاہر ہے۔ پس ایک گروہ افراط میں ہے (جو تنقید و گستاخی کرتا ہے)، اور دوسرا تفریط میں (جو اندھی تقلید پر جم جاتا ہے)، جبکہ حق ان دونوں کے درمیان ہے۔
:اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَٱلَّذِینَ جَاۤءُو مِنۢ بَعۡدِهِمۡ یَقُولُونَ رَبَّنَا ٱغۡفِرۡ لَنَا وَلِإِخۡوَانِنَا ٱلَّذِینَ سَبَقُونَا بِٱلۡإِیمَـٰنِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِی قُلُوبِنَا غِلࣰّا لِّلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ رَبَّنَاۤ إِنَّكَ رَءُوفࣱ رَّحِیمٌ
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے۔
(سورۃ الحشر، آیت 10)
تیسرا قول
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا
إذا قلتُ قولًا يخالف كتاب الله وخبر الرسول – صلى الله عليه وآله وسلم – فاتركوا قولي
اگر میں کوئی ایسی بات کہوں جو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہو، تو میری بات کو چھوڑ دو۔
(ایقاظ الھمم، ص 50 از شیخ صالح الفلانی)
شیخ صالح الفلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مجتہد عالموں کے لیے نہیں کہی، کیونکہ مجتہد پر کسی امام کی تقلید واجب نہیں، بلکہ یہ نصیحت مقلدین کے لیے ہے تاکہ وہ سمجھیں کہ جب امام کا قول قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے ترک کرنا ہی واجب ہے۔
علامہ شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ اگر کوئی پوچھے کہ میں اُن احادیث کا کیا کروں جو میرے امام کی وفات کے بعد صحیح ثابت ہوئیں اور انہیں ان کا علم نہ تھا؟ تو جواب یہ ہے کہ تم پر لازم ہے کہ صحیح احادیث پر عمل کرو، کیونکہ اگر تمہارے امام کو ان احادیث کا علم ہو جاتا اور وہ انہیں صحیح سمجھ لیتے تو وہ ضرور تمہیں ان پر عمل کرنے کا حکم دیتے، کیونکہ تمام آئمہ دین شریعت کے تابع اور اسی کے پابند تھے، اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ دراصل دونوں ہاتھوں سے خیر کو تھام لیتا ہے۔
جو شخص یہ کہے کہ “میں کسی حدیث پر تبھی عمل کروں گا جب میرا امام اس پر عمل کرے”، وہ خیرِ کثیر سے محروم ہو گیا، جیسا کہ آج کل بہت سے مقلدین کا حال ہے۔ ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ جب کوئی حدیث ان کے امام کی وفات کے بعد صحیح ثابت ہو جائے تو وہ اس پر عمل کریں، کیونکہ یہی عمل خود آئمہ کرام کی وصیت کے مطابق ہے۔ ہمارا عقیدہ آئمہ کے بارے میں یہی ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے اور ان احادیث کو صحیح ثابت ہوتا دیکھتے تو وہ ضرور ان پر عمل کرتے، اپنے سابقہ قیاسات (اجتہادی آراء) کو چھوڑ دیتے، اور ان احادیث کو اختیار کر لیتے۔
(الميزان للشعراني، 1/26 )
امام ابن ابی العِزّ الحنفی رحمہ اللہ (وفات: 792 ہجری) فرماتے ہیں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکمل طور پر جھک جانا،ان کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا،ان کی احادیث کو قبول کرنا اور دل سے ان کی سچائی کا اقرار کرنا واجب ہے۔ان احادیث کو اپنی عقل، رائے، فلسفے یا خودساختہ فہم کے تابع کرنا درست نہیں۔ ہمیں ان کی احادیث کے بارے میں کسی شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے،اور نہ ہی کسی انسان کے قول یا امام کی رائے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مقدم کرنا چاہیے۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی فیصلے میں اصل اور حجت ہیں،ان کے لیے جھکنا اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے، جیسے اللہ تعالیٰ، جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، عبادت، دعا، عاجزی، توبہ، بھروسہ اور توکل میں یکتا ہے، ویسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اطاعت اور اتباع کے معاملے میں اکیلے ہیں، اور انہی کی پیروی واجب ہے ۔
یہ دونوں پہلو دراصل دو اقسام کی توحید ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو عبادت میں اکیلا ماننا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں اکیلا ماننا۔
اللہ کے عذاب سے نجات صرف اسی وقت ممکن ہے جب بندہ ان دونوں توحیدوں پر قائم ہو ، اللہ کو صرف اسی کی عبادت میں اکیلا مانے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے سے رکے، یا ان کی خبر پر ایمان لانے میں تردد کرے، یا ان کے قول کو اپنے کسی شیخ، امام، گروہ، یا محبوب شخصیت کے قول کے ساتھ تولے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر اس کا امام یا شیخ کسی بات کو مان لے تو وہ بھی مان لے، اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کریں تو وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے منہ موڑ لے، اور اپنی بے عملی کو “احتیاط” یا “تاویل” کا نام دے دے۔ یا پھر وہ حدیث کے معنی کو اپنی مرضی سے بدل دے، اور اس تحریف کو “فہم” اور “تفسیر” قرار دے ، یہی وہ کام ہے جو اندھے مقلدین کرتے ہیں تاکہ اپنے امام کے قول کو صحیح حدیث کے خلاف بھی درست ثابت کر سکیں۔ یہ طرزِ عمل بہت خطرناک ہے۔ انسان اگر اللہ کے ساتھ شرک کے علاوہ تمام گناہوں میں مبتلا ہو جائے تو بھی اس حال سے بہتر ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں کسی کے قول کو ترجیح دے۔بلکہ جب کسی شخص تک کوئی صحیح حدیث پہنچ جائے، تو اسے ایسے قبول کرنا چاہیے جیسے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سنی ہو۔
پھر کیا یہ جائز ہے کہ وہ اس پر عمل کرنے میں تاخیر کرے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے امام یا شیخ نے اس بارے میں کیا کہا؟ ہرگز نہیں! بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ فوراً اس حدیث پر عمل کرے، کسی دوسرے قول یا نظریے کی طرف نہ دیکھے، اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کسی شخص کی رائے کے خلاف ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو صحیح سمجھے اور انسان کے قول کو باطل جانے۔ کسی نصِ شرعی کو قیاس یا عقل سے رد کرنا درست نہیں۔ اگر کوئی قیاس یا رائے کسی حدیث کے خلاف ہو، تو اسے چھوڑ دینا واجب ہے، اور حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے معنی کو اپنی عقل سے نہیں بدلتے، اور نہ ہی ان کے فرمان کو کسی انسان کی رائے کے تابع بناتے ہیں۔
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو کسی امام یا شیخ کے قول سے مشروط نہیں کرتے،کہ اگر وہ اس سے متفق ہوں تو مانیں، اور اگر نہ ہوں تو چھوڑ دیں ایسا کرنے والا گمراہ ہے۔ بلکہ سچا مومن وہ ہےجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو سنے، مانے،اور بلا تاخیر اس پر عمل کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِی رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةࣱ لِّمَن كَانَ یَرۡجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلۡیَوۡمَ ٱلۡـَٔاخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّهَ كَثِیرࣰا
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
(سورۃ الاحزاب: 21)
اور فرمایا
وَمَاۤ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُوا۟
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو۔
(سورۃ الحشر: 7)
تمام تعریفیں اللہ ربّ العالمین کے لیے ہیں
اور درود و سلام ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے اہلِ بیت، اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر۔
مصدر: یہ مقالہ شیخ ابو خدیجہ عبد الواحد حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے ترجمہ کیا گیا ہے
https://abukhadeejah.com/imams-madhhabs-following-the-sunnah-dispraise-of-taqleed-abu-hanifah/