سحری وافطاری کے بار ےمیں بھولی بسری سنتیں – شیخ محمد ناصر الدین الالبانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔ ایک حدیث ہے روزے کے تعلق سے جس کے بارے مسلمانوں کی اکثریت لاپرواہی برتتی ہے ایک دوسری حدیث کی وجہ سے کیونکہ وہ ان دونوں میں تطبیقاً وعملاً جمع نہیں کرپاتے۔ اور وہ حدیث نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمان ہے کہ:

’’لاتزال امتی بخیر ماعجلوا الفطر واخروا السحور‘‘([1])

(میری امت خیریت سے رہے گی جب تک وہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی)۔

پس یہاں دو امور ہیں کہ جن کے بارے میں اکثر لوگ لاپرواہی وکوتاہی کا شکار ہیں اور وہ ہیں افطار جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا۔

جہاں تک پہلی بات میں کوتاہی کا تعلق ہے یعنی افطار میں جلدی کرنا تو بعض لوگوں کے گمان کے مطابق یہ ایک دوسری حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مخالف ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’لا تزال امتی بخیر ما عجلوا بصلاۃ المغرب‘‘([2])

(میری امت اس وقت تک خیر سے رہے گی جب تک وہ نماز مغرب میں جلدی کرتی رہے گی)۔

چنانچہ یہ دو باتیں ہوگئی کہ جن میں جلدی کرنی ہے جبکہ بعض لوگوں کے نزدیک ان دونوں میں ایک ساتھ جلدی کرنا ممکن نہیں۔۔۔

حالانکہ افطار میں جلدی کرنا اور نماز مغرب میں بھی جلدی کرنے کے درمیان جمع وموافقت کرنا بہت ہی آسان وسہل بات ہے۔ اور اسے ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمارے لیے فعلا ًوعملا ًکرکے دکھایا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تین کھجوروں پر افطار فرمایا کرتے تھے پھر نماز مغرب پڑھتے اور پھر اس کے بعد لوٹ کر رات کا کھانا کھاتے اگر اس کی حاجت محسوس کرتے۔ اور ہم آج دو مخالفتوں کے مرتکب ہوتے ہیں:

اولاً: ایک تو اذان کو اس کے مشروع وقت سے مؤخر کرتے ہیں دوسرا افطاری کے وقت باقاعدہ کھانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ بہت قلیل لوگ ہی مسجد جاکر مغرب کی نماز باجماعت پڑھتے ہیں لیکن عام عوام ایک تو افطاری میں تاخیر کرتے ہیں اذان سننے کا انتظار کرکے اور جب اسے سن لیتے ہیں تو کھانے بیٹھ جاتے ہیں گویا کہ باقاعدہ رات کے کھانے پر بیٹھے ہوں ناکہ افطار پر۔

صد افسوس کے آج صرف اردن میں ہی نہیں بلکہ اکثر اسلامی ممالک میں کیونکہ میں نے خود دیکھا ہے ان ممالک میں کہ اذان مغرب اس کے اصل وقت سے مؤخر کرکے دی جاتی ہے۔ جس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے شرعی احکام کی عملی تطبیق کو چھوڑ کر صرف فلکی حسابات پر مکمل بھروسہ کرنا شروع کردیا ہے جسے آج ہم کلینڈر کہتے ہیں۔ یہ کلینڈرز ایسے حساب فلکی پر چلتے ہيں جو پوری زمین کو گویا کہ ایک ہی مستویٰ پر سمجھتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت زمین خصوصاً ہمارے ملک میں مختلف علاقوں میں مختلف ہے کہیں اونچی ہے تو کہیں نیچی، کہیں وادی ہے تو کہیں پہاڑ۔ لہذا یہ صحیح نہیں کہ اوقات ہر جگہ یکساں ہوں چاہے ساحل ہو یا میدان یا پہاڑ۔۔۔نہیں!۔ ہر قسم کی سطح زمین کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ لہذا جس کسی کے لیے ممکن ہو کہ وہ اپنے شہر یا بستی میں اپنی آنکھوں سے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھ سکے تو دراصل یہی وہ افطار میں جلدی ہے کہ جس کا ہمیں نہیں کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سابقہ حدیث میں حکم دیا ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس سنت کی حرص فرمائی تعلیماًبھی اور تطبیقاً بھی۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی حدیث میں جو کہ صحیح بخاری میں ہے فرمایا:

’’إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ‘‘([3])

(جب رات یہاں سے آئے (یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مشرق کی جانب اشارہ فرمایا) اور دن وہاں سے جائے (یہ کہتے ہوئے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مغرب کی جانب اشارہ فرمایا) اور سورج غروب ہوجائے تو روزے دار کا روزہ افطار ہوگیا)۔

روزے دار کا روزہ افطار ہوگیا کا کیا معنی؟ یعنی وہ افطار کے حکم میں داخل ہوچکا۔ یہاں وہ سابق حکم آجاتا ہے کہ جس کی جانب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حرص دلائی یعنی افطار میں جلدی۔ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کی تطبیق فرمایا کرتے تھے حتی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسافر ہی کیوں نہ ہوتے۔ صحیح بخاری ہی میں آیا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے ایک صحابی کو افطاری تیار کرنے کا حکم دیا۔ جس پر انہوں نے فرمایا: یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دن تو ہمارے سامنے ہے ابھی تک! یعنی سورج کی روشنی تو ابھی ہے اگرچہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہوکر غائب ہوچکا ہے لیکن ابھی تک اس کی روشنی مغرب کی جانب سے تو برقرار ہےتو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں کیا جواب ارشاد فرمایا؟ بلکہ مزید تاکید فرمادی کہ افطاری تیار کرو۔ اس حدیث کا راوی کہتا ہے: ہم دن کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہوتے تھے، یعنی افطار کے وقت دن کی یا سورج کی روشنی کواس طرح سے دیکھ رہے ہوتے تھے کہ اگر ہم میں سے کوئی ایک اپنی اونٹنی پر چڑھ جاتا تو ضرور سورج کو دیکھ لیتا([4])۔

سورج یہاں غروب ہوا اور فورا ًوہاں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے ایک صحابی کو افطار تیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیوں؟ تاکہ خیر میں جلدی کی جائے جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا کہ میری امت اس وقت تک خیر سے رہے گی جب تک افطار میں جلدی کرتی رہے گی۔

الغرض جس افطاری میں جلدی کی ہم بات کررہے ہیں چاہیے کہ وہ کچھ کھجوروں سے ہو پھر نماز کے لیے جلدی کی جائے پھر واپس آکر لوگ جو چاہیے کھائیں پیئں۔ ۔۔ یہ وہ پہلی بات تھی جس کے بارے میں میں یاددہانی کروانا چاہتا تھا۔ جس میں دونوں ایسے احکام کو جمع کیا گیا ہے کہ جن میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جلدی کا حکم دیا گیا ہے ۔

اول: افطاری میں جلدی ۔

 دوم: نماز مغرب میں جلدی۔

 پس افطار کھجور پر ہو جیسا کہ سنت ہے اگر وہ میسر نہ ہوں تو کچھ گھونٹ پانی پھر مسجد میں جاکر جماعت سے نماز پڑھی جائے۔

اب وہ دوسری بات جس کے بارے میں میں یاددہانی کروانا چاہتا تھا وہ اسی حدیث کا دوسرا ٹکڑا یعنی سحری میں تاخیر کرناہے۔ یعنی یہاں ہم سے افطاری کے بالکل برعکس مطلوب ہے۔ افطاری میں ہمیں جلدی کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ سحری میں تاخیر کا، لیکن لوگوں کی موجودہ حالت اس کے بالکل برعکس ہے کہ بہت سے لوگ طلوع فجر سے قبل ہی تقریباً  گھنٹہ پہلے ہی سحری سے رک جاتے ہیں۔ یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ قولی اور عملی سنت کے خلاف ہے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ سحری کو اتنا مؤخر کرتے تھے کہ وہ کھاپی رہے ہوتے کہ اچانک اذان ہوجاتی۔ بلکہ اس بارے میں خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے صحیح حدیث ثابت ہے کہ جس میں دین اسلام کی اس آسانی کی دلیل ہے کہ جو آسانی قواعد اسلام میں شمار ہوتی ہے اور اس پر مسلمان فخر کرتے ہیں اور بالخصوص جو روزوں سے متعلق ہو، کیونکہ اللہ تعالی نے روزوں کی آیات کے سیاق میں ہی اس بات پر آیات ختم فرمائی کہ:

﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ 

(اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور مشکل نہیں چاہتا)

(البقرۃ: 185)

پس اسی آسانی میں سے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمان ہے کہ:

’’إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ‘‘([5])

(اگر تم میں سے کوئی (فجر کی )اذان سنے اور (سحری کرنے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس میں سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے)۔

یعنی جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن کھانے کا یا پینے کا چاہے دودھ ہو، شربت ہو یا پانی کوئی بھی چیز ہوکہ جس سے سحری کرنے والے سحری کرتے ہیں اور وہ اذان سنے تو یہ نہ کہے اب بالکل مجھ پر کھانا پینا حرام ہوگیا۔ حرام اس شخص پر ہے جس نے کھانے سے سیر ہوکر بس کرلیا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اب مزید کچھ پیے یا پھل کھالے جبکہ جو اسے کھانا تھا جس کی ضرورت تھی وہ کرچکا ہے اور اس سے رک چکا ہے۔ لیکن جو اذان سنے اس حال میں کہ اس نے کھانا ختم نہیں کیا اور کھانے پینے سے اس کی ضرورت ابھی ختم نہیں ہو تو اس کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جائز قرار دیا ہے۔ پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بالکل واضح طور پر صاف عربی زبان میں ارشاد فرمایا کہ:

’’إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ‘‘([6])

(اگر تم میں سے کوئی (فجر کی )اذان سنے اور (سحری کرنے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس میں سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے)۔

یہاں اذان سے مراد دوسری اذان ہےناکہ پہلی اذان جسے بعض لوگ غلطی سے اذان امساک (یعنی سحری سے رک جانے کی اذان) کہتے ہیں۔

یہ بات بھی جاننا واجب ہے کہ پہلی اذان کو اذان امساک کہنے کی کوئی اصل موجود نہیں۔ وہ دوسری اذان ہے جو کہ اذان امساک ہے اور یہ بات تو صریح طور پر قرآن کریم میں موجود ہے:

﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ 

(اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو)

(البقرۃ: 187)

چنانچہ کھانا پینا اس وقت حرام ہوتا ہے جب فجر کا وقت داخل ہوتا ہے ان کے مابین کوئی فاصل وقت نہیں۔ کھانے سے رک جانے اور فجر کے وقت ہوجانے کے درمیان پندرہ منٹ پہلے یا اس سے کم وبیش رک جانے کی کوئی حیثیت نہیں۔کیونکہ فجر کا وقت صبح صادق ظاہر ہونے پر شروع ہوتا ہے اور کھانا پینا بھی عین اسی وقت حرام ہوتا ہے۔ان دو باتوں کے درمیان مطلقاً کوئی فصل نہیں۔ اسی لیے ایک متفق علیہ حدیث میں  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے آیا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’لَا يَغُرَّنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ[فانما یؤذن لیقوم النائم ویتسحر المتسحر] وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ‘‘([7])

(تمہیں  بلال  رضی اللہ عنہ  کی اذان کہیں مغالطے میں نہ ڈال دے (یعنی پہلی اذان) وہ تو اس لیے اذان دیتے ہيں کہ سوتے ہوئے لوگ جاگ جائیں اور سحری کرنے والے سحری کریں، پس کھاؤ پیو یہاں تک کہ  ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ  اذان  دیں)۔

اور  ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ  کا اصل نام عمرو تھا اور آپ نابینا تھے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  وہی صحابی ہیں کہ جن کے حق میں سورۂ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں:

﴿عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ، اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى﴾ 

(وہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ترش رو ہوئے اور منہ موڑ لیا، (صرف اس لیے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا)

(عبس: 1-2)

اور آخر تک جو آیات ہیں۔

یہی صحابی دوسری اذان دیا کرتے تھے جس کے ذریعے کھانا پینا حرام اور نماز فجر کا وقت شروع ہوجاتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اذان کیسے دیتے تھے جبکہ وہ تو نابینا تھے؟ یہ سوال بعض لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ عمرو ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ  مسجد کی چھت پر چڑھ جاتے مگر وہ فجر کو طلوع ہوتے دیکھ نہیں سکتے تھے، پس جب کوئی گزرنے والا گزرتا اور وہ فجر کو افق پر پھیلا ہوا دیکھتا تو ان سے کہتا: صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔ پھر وہ اذان دیتے۔ یہاں آپ نے ملاحظہ کیا کہ عمروابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ  کی اذان فجر طلوع ہونے کے بعد ہوتے تھی جب راستے میں چلتے پھرتے لوگ انہیں بتاتے صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس امر میں وسعت ہے کہ مؤذن اس وقت تک اپنی اذان کو مؤخر کرے کہ لوگ کہنے لگیں صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ بھی فرمان ہے جو پہلے گزرا کہ:

 (اگر تم میں سے کوئی (فجر کی )اذان سنے اور (سحری کرنے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس میں سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے)۔

اور اللہ تعالی نے سچ فرمایا جب روزوں سے متعلق آیات کا اختتام فرمایا کہ:

﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ 

(اللہ  تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ، وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو ، اور اللہ  تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو)

(البقرۃ: 185)

لہذا یہ غلط فقہ اور اس سنت کے مخالف بات ہے کہ کوئی کہنے والا کہے جب سحری کرنے والا اذان سنے اور لقمہ اس کے منہ میں ہو تو اسے پھینک دینا واجب ہے۔ یہ دین میں شدت پسندی اور غلو ہے۔

اور رب العالمین نے ہمیں وعظ فرمایا اور اپنی کتاب میں اور اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت میں اس بات کی یاددہانی فرمائی کہ ہم اپنے دین میں غلو نہ کریں۔ قرآن کریم میں فرمایا:

﴿يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ﴾ 

(اے اہل  کتاب ، تم غلو مت کرو اپنے دین میں، اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ مت کہو)

(النساء: 171)

اور ہمارے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمارے لیے فرمایا:

’’ایاکم والغلو فی الدین فانما ھلک من قبلکم بغلوھم فی دینھم‘‘

(تم دین میں غلو سے بچنا کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ دین میں غلو کرنے کی ہی وجہ سے ہلاک ہوئے)۔

یا فرمایا:

’’انما اھلک الذین من قبلکم غلوھم فی دینھم‘‘([8])

(تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو کرنے نے ہی ہلاک کیا)۔

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمارے لیے واضح فرمادیا ہے کہ روزے دار کے سحری کرنے کے مسئلے میں وسعت وآسانی ہے یہاں تک کہ فرمایا:

(اگر تم میں سے کوئی (فجر کی )اذان سنے اور (سحری کرنے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس میں سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے)۔

تو پھر یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی مخالفت ہوگی کہ انسان ایسے شخص کو جو اذان سنے اس حال میں کہ لقمہ اس کے منہ میں ہو سے یہ کہے اسے منہ سے نکال کر زمین پر پھینک دو۔ یہ سنت نہیں بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صریح فرمان کی مخالفت ہے۔

اور یہ حدیث مشہور ہے ضرورت نہیں کہ میں اس کی مزید تفصیلات بیان کروں کیونکہ یہ احادیث کی مشہور کتب جن میں سے سنن ابی داود بھی ہے جو کہ مشہور کتب ستہ میں سے تیسری کتاب ہے یعنی پہلی صحیح بخاری دوسری صحیح مسلم اور تیسری یہی ابوداود ہے۔ اور یہ حدیث اسی ابو داود میں موجود ہے اسی طرح سے اسے ابو عبداللہ الحاکم نے بھی اپنی مستدرک میں، امام اہل السنۃ احمد بن حنبل نے اپنی عظیم کتاب المعروف مسند الامام احمد میں روایت کیا ہے۔ پس یہ حدیث کوئی نایاب احادیث میں سے نہیں بلکہ مشہور احادیث میں سے جو قدیم آئمہ سنت نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔

یہاں میں ایک حدیث بیان کرکے اپنی بات ختم کروں گا پھر اگر آپ میں سے کسی کے پاس سوال ہو تو وہ بعد میں پوچھ سکتا ہے ان شاء اللہ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ، كَمَا يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى عَزَائِمُهُ‘‘([9])

(بے شک اللہ تعالی کو جس طرح پسند ہے کہ اس کے احکام کو بجالایا جائے اسی طرح سے اسے پسند ہے کہ اس کی دی گئی رخصتوں کو لیا جائے)۔

اور دوسری روایت میں ہے کہ:

’’كَمَا يَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِيَتُهُ‘‘([10])

(جیسا کہ اسے ناپسند ہے کہ اس کی معصیت کا ارتکاب کیا جائے)۔

دو روایات ہیں کہ اللہ تعالی پسند کرتے ہيں کہ ان کی دی ہوئی رخصتوں کو لیا جائے جیسا کہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے احکامات پر عمل کیا جائے اور دوسری روایت میں ہے جیسا کہ ناپسند کرتے ہيں کی ان کی معصیت کاارتکاب کیاجائے۔

لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ بناوٹی احتیاط وتقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس بات میں اطاعت نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سرکشی دکھائےکہ جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمیں رخصت دی اور اس کی ترغیب دلائی۔ اسی قدر بات کافی ہے الحمدللہ رب العالمین۔۔۔

سوال: کیا سحری کے وقت دو اذانیں سنت ہیں؟

جواب: جی، میرے خیال میں اس کا جواب سابقہ حدیث میں آجاتا ہے کہ:

(تمہیں  بلال  رضی اللہ عنہ  کی اذان کہیں مغالطے میں نہ ڈال دےوہ تو اس لیے اذان دیتے ہيں کہ سوتے ہوئے لوگ جاگ جائیں اور سحری کرنے والے سحری کریں، پس کھاؤ پیو یہاں تک کہ  ابن ام مکتوم  رضی اللہ عنہ  اذان  دیں)۔

اور وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نا جاتا کہ: صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے۔ اور یہ دو اذانیں محض رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ پورے سال جاری رہتی ہیں۔ اذان اول کی حکمت تو بالکل واضح ہے جو اسی حدیث میں بیان ہوئی تاکہ سونے والے جاگ جائیں اور سحری کرنے والے سحری کرنا شروع کردیں۔ سونے والے تو سارا سال ہی رات کے آخری پہر میں جاگتے ہیں تاکہ نوافل ادا کریں۔ اور سحری کرنے والے بھی پیروجمعرات کے روزے، اسی طرح سے ایام بیض (چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ) کے روزے، یا متبادل ایام کے روزے (یعنی ایک دن روزہ ایک دن ناغہ) رکھتے ہیں اور یہ سب مسنون ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو اس اذان کی تو پورے سال ہی ضرورت ہے لیکن بعض اسلامی ممالک میں یہ اذان صرف رمضان میں دی جاتی ہے تو یہ اس وسیع وسدابہار سنت کو جو کہ سارا سال جاری رہنی چاہیے کو کوتاہ اورمحدود کردینا ہے۔ تمام مؤذنین کو چاہیے کہ وہ پورا سال فجر کے لیے دو اذانیں دیں اور پہلی اور دوسری اذان کے مابین تقریبا ً10 یا 15 منٹ کا وقفہ ہو۔ بعض صحیح احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ پس یہ دو اذانیں ہیں جو صرف رمضان میں نہیں بلکہ پورے سال دی جانی چاہیے۔

سوال: شیخ فجر کی اذان میں تثویب یعنی ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ (نماز نیند سے بہتر ہے) لوگ دوسری اذان میں کہتے ہیں ہم اس بارے میں سنت جاننا چاہتے ہیں کہ آیا یہ پہلی اذان میں کہنا چاہیے یا دوسری میں، تاکہ فائدہ تمام ہوجائے؟

جواب: یہ ایک اچھا سوال ہے۔ سنن نسائی اور ابن خزیمہ وغیرہ کتب سنت میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے ایک صحابی جو ابو محذورہ  رضی اللہ عنہ  کے نام سے مشہور ہے کو اذان سکھائی۔ وہی اذان جو ہمارے یہاں آجکل دی جاتی ہے کچھ سابقے اور لاحقے لگا کر۔ لیکن شرعی اذان تو وہی ہے جو تکبیر’’اللہ اکبر‘‘ (اللہ سب سے بڑا ہے) سے شروع ہوکر تہلیل یعنی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں) پر ختم ہوتی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں اسی طرح سے اذان سکھائی لیکن فرمایا جب تم پہلی اذان دو تو ’’حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ‘‘ (نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ) کے بعد کہو ’’الصلاۃ خیر من النوم، الصلاۃ خیر من النوم‘‘۔ اسے یعنی ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کو شرعی لغت میں تثویب کہا جاتا ہےجس کی جگہ پہلی اذان ہے ناکہ دوسری۔

اور وہ اس لیے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ پہلی اذان کیوں مشروع کی گئی؟ تاکہ سوتے ہوئے جاگ جائیں اور سحری کرنے والے سحری کریں۔ اگر اسے دوسری اذان میں شامل کیا جائے گا تو اس کا فائدہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ دوسری اذان کے وقت تو لوگ پہلے ہی جاگے ہوئے ہوں گے سوئے ہوئے نہیں۔ لہذا نقل اور عقل کے اعتبار سے سنت اذان اول میں تثویب کہنا ہے نا کہ دوسری میں۔ اس لیے جو کوئی اس سنت کو زندہ کرسکتا ہے تو اسے بروز قیامت نہ صرف اپنا اجر ملے گا بلکہ جو اس کی وجہ سے عمل کریں گے ان کا بھی اجر ملے گا اور ان میں سے کسی کے اجر میں سے کچھ بھی کم نہیں کیا جائے گا جیسا کہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔

سوال: شیخ اگر مؤذن پہلی اذان کے وقت ناجاگ سکے اور دوسری اذان کے وقت اس کی آنکھ کھلے پھر کیا وہ اسی دوسری اذان میں تثویب کہہ لے؟

جواب: نہیں۔ اس کے لیے یہ جائز نہيں کیونکہ اس سے تو لوگوں کو وہم ہوجائے گا کہ سحری کا وقت ابھی ختم نہيں ہوا۔ درحقیقت دو اذانوں کی مشروعیت میں حکمت بالغہ پنہاں ہے۔ اس میں ایک اور حکمت یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہر اذان کے لیے الگ مؤذن مقرر فرمایا تھا۔ جس کی حکمت یہ تھی کہ سامعین مؤذن کی آواز پہچان کراذانوں میں تمیز کرسکیں کہ کونسی اول ہے اور کونسی دوم۔ یہ بھی ایک سنت ہے جسے زندہ کرنا چاہیے۔

جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو لازم ہے کہ سنت کو اس کے مقام پر ہی رکھا جائے پس ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کا مقام پہلی اذان ہی ہے۔

سوال: اگر کوئی شخص افطاری کے وقت لوگوں کے مجموعے میں بیٹھا ہو اور وہ جلدی افطار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کھانا شروع کردے جبکہ دوسرے کھانے سے انکاری ہوں جب تک اذان (جو تاخیر سے ہوتی ہے ) نا سن لیں، تو اسے کیا اس حال میں ان کے سامنے افطار کرلینا چاہیے؟ اور اسے کیسے معلوم ہو کہ رات یہاں سے آئی اور دن وہاں سے گیا؟

جواب: بارک اللہ فیک۔ ہم نے ابھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس فرمان کی جانب اشارہ کیا کہ جس نے اسلام میں کوئی سنت جاری کی تو اسے اور اس کی پیروی کرنےوالوں کو اس کا اجر ملے گا۔ پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ افطار کا وقت شروع ہوچکا ہے اور مزید یہ کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سنت افطار میں جلدی کرنا ہے،  اب اگر وہ ان تمام لوگوں کے سامنے سے گلاس اٹھا کر پینا شروع کردیتا ہے اور کھجور اٹھا کر کھانا شروع کردیتا ہے تو کیا یہ سنت حسنہ (اچھی) ہوگی یا سیئہ(بری)؟!

سائل: ظاہر ہے اچھی سنت ہوگی۔۔۔

شیخ: جی، بارک اللہ فیک۔۔۔

سائل: لیکن وہ لوگ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ بلکہ ہمارا اذان کا انتظار کرنا یہ اچھی سنت ہے ۔۔۔

شیخ: یہاں ایک دوسری بحث چھڑ جاتی ہے اللہ تعالی آپ کو برکت دے وہ یہ کہ اگر جس اذان کا وہ انتظار کررہے ہیں وہ واقعی اپنے حقیقی شرعی وقت پر دی جاتی ہے تو پھر کسی کے لیے اس سے پہلے کھانا پینا جائز نہیں۔ لیکن ہمارا سارا کلام تو موجودہ دور کی اذانوں کے بارے میں تھا اور میرے خیال میں آپ نے یہ کلام سنا ہوگا کہ موجودہ اذانیں تو غروب آفتاب کے بھی دس منٹ بعد تک دی جاتی ہیں۔۔۔

سائل: وہ شخص تو موجودہ اذان کی بات ہی کررہا ہے ناکہ اصل شرعی اذان کی۔۔۔

شیخ: بس پھر وہ سنت نہیں کہ جس کے انتظار میں وہ بیٹھے ہیں وہ اس اذان کے انتظار میں بیٹھے ہيں کہ جو خلاف سنت ہے۔۔۔


[1] صحیح بخاری 1957 ومسلم  1100 کے الفاظ ہیں:’’لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ‘‘ اور جو الفاظ مصنف لے کر آئے ہیں وہ مسند احمد 20994 میں کچھ تقدیم وتاخیر کے ساتھ  ابوذر  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہیں: ’’كَانَ يَقُولُ: لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا أَخَّرُوا السَّحُورَ، وَعَجَّلُوا الْفِطْرَ‘‘ شیخ البانی کہتے ہیں: ان اختتامی الفاظ کے ساتھ یہ روایت منکر ہے جیسا کہ ’’الارواء الغلیل‘‘ میں بیان فرمایا۔ لیکن شیخ البانی نے حدیثِ  انس  رضی اللہ عنہ  کو مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح قرار دیا ہے ان الفاظ کے ساتھ کہ: ’’بکروا بالافطار واخروا السحور‘‘ دیکھیں شیخ کی تحقیق الصحیحہ 1773 میں۔

[2] ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث مجھے نہيں ملی البتہ سنن ابی داود وغیرہ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ:

’’لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ، أَوْ قَالَ: عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ‘‘

(میری امت خیر سے یا فطرت پر رہے گی جب تک نماز مغرب کو تارے نکلنے تک مؤخر نہيں کرے گی) (صحیح ابی داود 418)۔

[3] صحیح بخاری 1954، صحیح مسلم 1102۔

[4] صحیح بخاری 1955 کے الفاظ ہیں’’كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِي سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ لِبَعْضِ الْقَوْمِ: يَا فُلَانُ، قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَوْ أَمْسَيْتَ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ، فَشَرِبَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ‘‘  اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم 1102 میں بھی ہے۔ (مترجم)

[5] اخرج ابوداود فی سننہ واحمد فی مسندہ والحاکم فی مستدرکہ وصححہ الالبانی۔ صحیح ابی داود 2350۔

[6] حدیث گزر چکی ہے۔

[7] صحیح بخاری 623، صحیح مسلم 1094، البتہ بریکٹ کے درمیان والی عبارت مجھے کسی کتب حدیث میں نہیں ملی، اللہ اعلم۔

[8] شیخ نے بالمعنی حدیث بیان کی ہے جبکہ جو الفاط وارد ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: ’’إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ‘‘ اسے احمد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہاہے دیکھیں صحیح ابن ماجہ 2473۔

[9] اسے احمد، بیہقی نے  ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت کیا ہے شیخ البانی نے صحیح الجامع میں صحیح کہا ہے۔  صحیح الترغیب 1060۔

[10] اسے احمد اور ابن خزیمہ نے  ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہی دونوں الفاظ  ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے بھی طبرانی اور البزار میں ثابت ہیں۔صحیح الجامع 1886۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: خطبہ سنن مھجورۃ فی رمضان۔