صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے کا حکم؟  – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Ruling on hating the Sahaba? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ رضی اللہ عنہم  سے بغض رکھے؟ کیا وہ نواقض اسلام میں سے اس ناقض([1]) میں داخل ہے؟

جواب: جی، جو کوئی بھی صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بغض رکھتا ہے تو یہ اس کے نفاق کی دلیل ہے۔ صحابہ سے بغض نہیں رکھتا مگر منافق، بلکہ بے شک اللہ تعالی نے اسے کافر بھی قرار دیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾ 

(محمد اللہ کے رسول ہیں، اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تم انہیں اس حال میں دیکھو گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا کے طالب ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدے کرنے کے آثار ہیں،  یہ ان کا وصف توراۃ میں ہے۔ اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کاروں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے)

(الفتح: 29)

پس اللہ تعالی نے صحابہ رضی اللہ عنہم  کو وجود کافروں کو غیظ و غصہ دلانے کے لیے بخشا، لہذا جو صحابہ رضی اللہ عنہم  سے بغض رکھتا ہے تو یہ اس کے کفر ونفاق کی دلیل ہے، اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔

اللہ تعالی نے مومنین کا وصف تو یہ بیان کیا ہے کہ وہ بلاشبہ ان پر رحم کرتے، رحمت کی دعاء کرتے اور اپنے سے پہلے گزرے ہوؤں کے لیے دعاء گو رہتے ہیں، فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ 

(اور جو ان کے بعد آئے وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے رب! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو  ہم سے پہلے ایمان لائے، اور ہمارے دل میں کوئی کدورت اور رنجش نہ رکھ ان لوگوں کے لیے جو مومنین ہیں، اے ہمارے رب بے شک تو  بڑا شفقت کرنے والا مہربان اور رحم کرنے والا ہے )

(الحشر:10)

یہ ہے ایک مسلمان کا مؤقف صحابہ رضی اللہ عنہم  کے تعلق سے کہ وہ بلاشبہ ان کے لیے بخشش کی دعاء کرتا ہے، ان سے راضی رہتا ہے، اور یہی دعاء کرتا رہتا ہے کہ : اے ہمارے رب! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو  ہم سے پہلے ایمان لائے، اور ایک مسلمان ان کی تعریف ہی کرتا رہتا ہے۔


[1] شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب  رحمہ اللہ  کے رسالے نواقض اسلام میں ذکر کردہ پانچواں ناقض : ”جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی لائی ہوئی کسی بھی چیز سے بغض رکھے اگرچہ وہ اس پر عمل ہی کیوں نہ کرتا ہو کافر ہے“ کے حوالے سے یہ سوال ہے۔ اس مکمل رسالے کی شرح ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ (مترجم)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شرح نواقض الإسلام ص 125۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*