کیا ہم کسی معین شخص کو شہید کہہ سکتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Can we call a specific person a martyr?

سوال: کیا کسی شخص پر بعینہ شہید لفظ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے جیسے کہا جائے فلاں شہید؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

جائز نہيں کہ ہم کسی شخص کے لیے بعینہ شہادت (گواہی)  دیں کہ وہ شہید ہے۔ اگرچہ وہ مظلومیت میں مارا گیا ہو، یا وہ حق کی مدافعت کرتے ہوئے مارا گیا ہو، پھر بھی جائز نہیں کہ ہم کہیں فلاں شہید ہے۔

مگر لوگوں کی موجودہ حالت اس کے برخلاف ہے کہ انہوں نے شہید ہونے کو اتنی سستی شے سمجھ لیا ہے۔ لہذا جو بھی مارا جاتا ہے حتی کہ کوئی جاہلی عصبیت کے لیے بھی مرتا ہے تو اسے شہید کا لقب دے دیتے ہیں! یہ حرام ہے۔ کیونکہ آپ کا کسی شخص کے لیے جو قتل ہوجائے یہ کہنا کہ وہ شہید ہے ایک شہادت (گواہی) شمار ہوتا ہے۔ اور عنقریب بروز قیامت آپ سے کہا جائے گا کہ: کیا آپ کے پاس علم تھا کہ وہ شہید ہوا ہے؟! اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرمایا:

’’مَا مِنْ مَكْلُومٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،  وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَكَلْمُهُ يَدْمَى اللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ، وَالرِّيحُ رِيحُ مِسْكٍ‘‘([1])

(کوئی بھی زخمی نہیں جو اللہ تعالی کی راہ میں زخمی ہوتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے، مگر وہ بروز قیامت آئے گا اور اس کے زخم سے خون رس رہا ہوگا، اس کا رنگ تو خون کا سا ہوگا لیکن اس کی خوشبو کستوری کی سی ہوگی)۔

پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر غور کریں:

’’وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ‘‘

(اور اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے)۔

اور ’’يُكْلَمُ‘‘  کا معنی ہے ’’یجرح‘‘ یعنی زخمی ہونا۔ کیوں کہ بعض لوگوں کا ظاہر تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑرہا ہے لیکن اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے، اور ہوسکتا ہے اپنا یہ فعل جو وہ ظاہر کررہا ہے دل میں اس کی نیت اس کے مخالف ہو۔

اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا ہے:

’’بَاب لَا يَقُولُ فُلَانٌ شَهِيدٌ‘‘

(باب اس بارے میں کہ کسی کو نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے)([2])

کیونکہ شہادت کا مدار دل پر ہے اور دل میں کیا ہے اسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس نیت کا معاملہ بہت عظیم معاملہ ہے۔ کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ دو اشخاص بظاہر بالکل ایک جیسا عمل کرتے ہيں لیکن ان کے مابین زمین وآسمان جتنا فرق ہوتا ہے محض ان کی نیت کی وجہ سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ‘‘([3])

(اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے، اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہے کہ اس کو پالے یا عورت کی طرف ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے)۔

واللہ اعلم۔

(مجموع فتاوی ورسائل الشیخ ابن عثیمین  ج 3 سوال 475)

سوال: احسن اللہ الیکم، سائل کہتا ہے: کیا بعینہ کسی کو فلاں شہید کہنا جائز ہے؟

جواب از شیخ عبید بن عبداللہ الجابری رحمہ اللہ:

 آج کے اس دن تک میں کوئی ایسا مستند نہيں جانتا جو ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہو کہ ہم کسی کو فلاں شہید کہیں لیکن ممکن ہے کہ میں کہوں فلاں ان شاء اللہ اللہ کی راہ میں مارا گیا۔ کیونکہ ہمارے پاس اب وحی نہیں آتی جبکہ عہدی نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے ذریعے جان لیتے تھے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔

(آڈیو فتوی ٰسے ماخوذ)

اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:

الرَّجُلُ: يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلذِّكْرِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

 ایک شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے، اور ایک شخص اپنی ناموری کے لیے لڑتا ہے، اور ایک شخص اپنے مقام و مرتبے کے اظہار کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے کون اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ فرمایا: جس نے اس لیے قتال کیا تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو تو وہ فی سبیل اللہ ہے۔ [صحیح بخاری 2810]

دوسری روایت صحیح بخاری 7458 میں ہے جو قبائلی حمیت، یا بہادری کے جوہر دکھانے یا ریاءکاری و دکھلاوے کے لیے لڑتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا بھی رد فرمایا۔

اور بروز قیامت ریاءکاری پر مبنی اعمال کرنے والوں ہی کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا،  جن میں سب سے پہلے شہید کو لایا جائے گا، پھر ایک عالم اور سخی کو، فرمایا:

إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟، قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ

بے شک قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا وہ ایسا شخص ہوگا جو شہید کر دیا گیا۔ پس اسے لایا جائے  گا تو اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں منوائے گا تو وہ مان جائے گا ، تو اس سے پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟  کہے گا: میں نے تیری خاطر قتال کیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ بلکہ تو نے اس لیے قتال کیا تاکہ تجھے جری و نڈر کہا جائے، اور یہ کہا جاچکا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔[صحیح مسلم 4923]


[1] صحیح بخاری 5533، صحیح مسلم 1877۔

[2] اور اس کے تحت یہ حدیث لے کر آئے ہیں: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں اس کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنے جوش و جذبے کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر فرمایا : لیکن وہ شخص جہنمی ہے! مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کیوں جہنمی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔ اب وہ صحابی  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ:

’’أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا لَكُمْ بِهِ فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘ (صحیح بخاری 2898)

( میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کا یہ فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آجائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ایک آدمی زندگی بھر لوگوں کی نظروں میں بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں بظاہر اہل جہنم کے سےکام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے)۔ (مترجم)

[3] صحیح بخاری 1، 5070وغیرہ۔

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی