
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Ruling regarding Delaying the Dhuhr Prayer in Hot Weather?
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب باندھتے ہیں:
بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
باب: اس بارے میں کہ سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا چاہیے
ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أَذَّنَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَالَ: أَبْرِدْ أَبْرِدْ، أَوْ قَالَ: انْتَظِرِ انْتَظِرْ، وَقَالَ: شِدَّةُ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن نے ظہر کی اذان دینا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ٹھنڈا کرو، ٹھنڈا کرو، یا فرمایا کہ : انتظار کرو، انتظار کرو، اور فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی آگ کی سانس یا بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت تیز ہو جائے تو نماز ٹھنڈی کرکے پڑھا کرو۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ: (پھر ظہر کی اذان اس وقت دی گئی) جب ہم نے ٹیلوں کے سائے تک دیکھ لیے۔[1]
صحیح مسلم میں اسی حدیث پر امام نووی رحمہ اللہ باب باندھتے ہیں:
باب اسْتِحْبَابِ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ لِمَنْ يَمْضِي إِلَى جَمَاعَةٍ وَيَنَالُهُ الْحَرُّ فِي طَرِيقِهِ
باب: سخت گرمی میں ظہر ٹھنڈا کرکےپڑھنا مستحب ہے اس کے لئے جوبا جماعت نماز کے لئے جائے اور اسے راستے میں سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ:
ظہر کی اذان دی سے مراد شروع کرنے والے تھے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
امام النووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
سایوں کے لیے الفاظ الْفَيْءاور الظِّلّ میں یہ فرق ہے کہ اہل لغت کے ہاں الْفَيْءزوال کے بعد ہی ہوتا ہے جبکہ الظِّلّ زوال سے پہلے اور بعد دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ٹیلے بچھے ہوئے سے ہوتے ہیں لمبے کھڑے ہوئے نہيں ہوتے عام طور پر اس کا سایہ سورج کے زوال کے بہت دیر بعد ہی نمودار ہوتا ہے۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امر ونہی کی تعظیم کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ:
دی گئی رخصت کو اس ناجائز حد تک نہ پہنچائے کہ وہ منہج وسط و اعتدال پر قائم نہ رہنے والا غیرمنصف و غیر مستقیم کہلائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بلاشبہ سنت میں یہ وارد ہوا ہے کہ ظہر کو شدید گرمی کے باعث ٹھنڈا کرکے پڑھا جائے، تو اس رخصت کا غیرمنصفانہ استعمال یہ ہوگا کہ اس میں اس کے وقت فوت ہوجانے تک یا اس کے بالکل قریب تک تاخیر کی جائے، تو اس صورت میں یہ غیرمنصف طور پر رخصت کا استعمال کرنے والا ہوگا۔
اور اس رخصت کی حکمت یہ ہے کہ بلاشبہ شدید گرمی میں نماز نمازی کو خشوع و خضوع و حاضر قلبی سے روکتی ہے، اور عبادت کو ناپسندیدگی اور بے چینی میں کیا جاتا ہے، تو یہ شارع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت ہے کہ انہيں اس کی تاخیر کا حکم دیا تاکہ گرمی کی شدت ٹوٹ جائے، اور تاکہ بندہ حاضر دل کے ساتھ نماز پڑھے اور اسے نماز کا اصل مقصود خشوع و خضوع اوراللہ تعالی کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہونا حاصل ہو۔
اسی میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنے کھانے کی موجودگی میں اور قضائے حاجت کو روک کر نماز پڑھنے سے منع کرنا بھی شامل ہے۔ کیونکہ دل اس میں مشغول ہوجاتا ہے اور نماز کے اصل مقصود میں تشویش کا باعث بنتا ہے، اور اس سے جو مراد مقصود ہوتی ہے حاصل نہیں ہوپاتی۔چنانچہ ایک انسان کا اپنی عبادت کے تعلق سے فقہ و فہم میں سے یہ ہے کہ جو کام اسے کرنا ہو اسے کرلے پھر نماز کے لیے مکمل فارغ ہو، تو اس صورت میں وہ اس طرح کھڑا ہوگا کہ اس کا دل اللہ تعالی کے لیے فارغ ہوچکا ہوگا اور اس کا چہرہ اسی کی طرف نصب کیا ہوگا، اور کلی طور پر اسی کی طرف متوجہ ہوگا۔ تو اس قسم کی نماز کی دو رکعتوں کے ذریعے نمازی کے اگلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔[2]
فقہاء مذاہب اربعہ اور ان کے علاوہ جمہور اہل علم شدید گرمی میں ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض نے کہا ٹھنڈا وقت ظہر کا پہلا وقت ہوتا ہے یہ غلطی ہے، بلکہ وہ تو شدید وقت ہوتا ہے۔
پھر آپ نے بہت سے علماء کرام کے اقوال ذکر فرمائے کہ بعض یہ شرط ذکر کرتے ہيں گرم علاقے ہوں، مسجد میں جاکر باجماعت نماز کی مشقت ہو وغیرہ۔ اس وجہ سے اس کی علت پر بھی بحث ہے کہ کس وجہ سے ٹھنڈا کرنے کا کہا گیا ہے:
بعض نے کہا کہ تاکہ خشوع خضوع حاصل ہو جیسے قضائے حاجت کو روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح شدید گرمی میں بھی کوفت ہوگی اور دھیان نہیں رہے گا۔لوگ اس وقت راحت، آرام اور قیلولہ کرنا چاہتےہیں، لہذا اس وجہ کے حساب سے تو کوئی فرق نہيں چاہے گھر میں اکیلا پڑھے یا مسجد میں جماعت سے ۔
بعض نے کہا گرمی میں دور سے آنے کی مشقت کی وجہ سے ہے تو پھر یہ خاص ہوجائے گا مسجد کے تعلق سے۔
اور بعض نے جہنم کی سانس والی حدیث کا ذکر کیا جو اسی سیاق میں آئی ہے، اور جن میں ذکر ہے زوال کے وقت جہنم کو بھڑکائے جانے کا اسے زوال کے بعد ٹھنڈا ہونے تک تاخیر کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس حساب سے بھی مسجد میں یا اکیلا پڑھنے میں کوئی فرق نہيں ہوگا۔
ٹھنڈا کرنے کا حکم مندوب و مستحب کے لیے ہے، ناکہ لازمی و وجوب کے لیے، اس بارے میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ اہل ظاہر حسب عادت ان کے خلاف گئے ہیں جن سے اجماع پر کوئی فرق نہيں پڑتا۔
اہل علم کا ایک گروہ ٹھنڈا کرنے کو رخصت شمار کرتا ہے اور اسے چھوڑنا سنت سمجھتا ہے، لہذا ان کے نزدیک ہر حال میں اول وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے، جبکہ صحیح احادیث اس کو رد کرتی ہیں۔ بلکہ امام مالک رحمہ اللہ تو ٹھنڈا کرنے کو ترک کردینا خوارج کا قول شمار کرتے ہيں۔
پھر آپ نے فقہاء کرام کے اقوال ذکر کیے ہيں کہ کب تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔[3]
سوال: کیا ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنے کی کوئی حد ہے جیسے مثال کے طور پر اس کا وقت داخل ہونے کے ایک گھنٹے یا دو گھنٹے بعد؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :
امام کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ ظہر کی نماز کو شدید گرمی کے باعث ٹھنڈا کرکے پڑھے اگرچہ وہ سفر میں ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
جب گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈی کرکے پڑھو کیونکہ بلاشبہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
جتنا ہمیں علم ہے اس کی کوئی محدود حد نہیں ہے ، بس یہ ہی مشروع ہے کہ امام اس بارے میں پوری کوشش کرے کہ جب گرمی کی شدت ٹوٹے اور بازار میں سائے زیادہ ہوجائيں تو یہ کافی ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔[4]
سوال: نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھو جو حدیث ہے اس کے بارے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہيں جو کہتے ہیں آجکل تو ائیر کنڈیشن موجود ہيں لہذا نماز کو ٹھنڈا کرکے (تاخیر سے) پڑھنے کی کوئی ضرورت نہيں ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :
نہیں نہيں، ضروری ہے کہ سنت کو لیا جائے کیونکہ راستوں میں تو گرمی ہوتی ہے، اور ہر ایک کے پاس ائیر کنڈیشن نہیں ہوتے۔ سنت کو استعمال کیا جائے گا، اس دعوے کے ساتھ اسے ضائع کرنا یا لاپرواہی برتنا جائز نہيں۔
جب گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو۔ اس طرح سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان۔ اسی طرح عشاء میں تاخیر کے متعلق ہے کہ جب لوگ (سویرے) جمع نہ ہوں اور وہ تاخیر کو پسند کریں، جب وہ تاخیر کریں تو دیر سے پڑھائی جائے، اور اگر سویرے پڑھیں تو سویرے پڑھی جائے، اس چیز کا لحاظ کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لازم بات ہے۔[5]
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اول وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے سوائے دو مقامات کے پہلا عشاء کی نماز اس میں تاخیر کرنا افضل ہے اگر جماعت کے لیے مشقت نہ ہو، اور دوسرا ظہر کی نماز جب شدید گرمی ہو۔[6]
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ زاد المستقنع کی شرح میں فرماتے ہیں:
ظہر جلدی پڑھنا افضل ہے الا یہ کہ شدید گرمی ہو۔ شدید گرمی کے وقت تاخیر کرنا افضل ہے تاکہ گرمی کا زور ٹوٹے۔ اس کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ملتا ہے:
جب شدید گرمی ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھو، کیونکہ بے شک گرمی کی شدت جہنم کی سانس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں تھے تو مؤذن نے چاہا کہ اذان دے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھنڈا کرو، پھر مؤذن نے چاہا کہ اذان دے تو کہا ٹھنڈا کرو، پھر چاہا کہ اذان دے، تو فرمایا ٹھنڈا کرو۔ پھر اس نے جاکر اس وقت اذان دی جب ٹیلوں کے سائے برابر ہوگئے۔
یعنی نماز عصر کا وقت قریب آگیا تھاکیونکہ جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے تو اس سایے میں سے کچھ اور ساقط ہونا باقی نہيں رہتا سوائے زوال کا جو سایہ تھا، اور جو زوال کا سایہ ہوتا ہے وہ گرمی کے دنوں اور شدید گرمی میں بہت مختصر ہوتا ہے۔ لہذا اس حدیث میں یہ فرمانا کہ: یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے برابر ہوگئے یعنی زوال کے سائے کو ملا کر اور یہ بات متعین ہے۔ کیونکہ اگر آپ زوال کے سائے کے بعد سے حساب لگا کر سائے کو برابر کریں گے تو ظہر کا وقت نکل چکا ہوگا۔ چنانچہ ہمیں چاہیے کہ اس وقت کو ٹھنڈا کریں یعنی نماز عصر کے قریب قریب تک کردیں۔
بعض علماء فرماتے ہیں: یہاں تک کہ بلند چیزوں (جیسے عمارتوں) کے سائے آجائيں جس سے لوگ سایہ لیں۔ لیکن یہ ایک بے ضابطہ سی چیز ہے کیونکہ اگر عمارت لمبی ہوگی تو وہ سایہ جو لوگوں کو پہنچے گا قریب ہوگا اور اگر چھوٹی ہوں گی تو اس کے برعکس معاملہ ہوگا، تو پھر لوگوں کے لیے کب وہ سایہ بنے گا جس میں چلیں پھریں؟!
لہذا صحیح ترین بات یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے اس کے ساتھ زوال کے وقت کے سایے کا اضافہ کیا جائے، یعنی نماز عصر کے قریب قریب، اس طرح کرنے سے ٹھنڈا کرنے کا حکم حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ لوگ جو کچھ پہلے کیا کرتے تھے کہ سورج کے زوال کے آدھے یا ایک گھنٹے بعد نماز پڑھ لیتے اور کہتے یہ ہے اسے ٹھنڈا کرنا، تو یہ ٹھنڈا کرنا نہيں ہے! یہ تو گرم ہی ہوا، کیونکہ یہ بات اچھی طرح پتہ ہے شدید ترین گرمی زوال کے گھنٹے بعد تک ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم مان لیں کہ گرمی کے دنوں میں سورج کا زوال تقریباً 12 بجے ہوتا ہے، اور عصر کی نماز تقریباً 4:30 بجے ہوتی ہے تو ٹھنڈا کرنا تقریباً 4 بجے کہلایا جائے گا۔
اگر چہ وہ اکیلا ہی نماز کیوں نہ پڑھے، کیونکہ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ ٹھنڈا کرنا صرف(مسجد میں) جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لیے ہے(یا سب کے لیے)، اور بعض نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ اگر اس کا گھر مسجد سے اتنا دور ہے کہ نماز کے لیے جانے سے اسے تکلیف ہو۔
حالانکہ یہ اپنی طرف سے قید لگانا ہے ایسی بات پر جسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام رکھا ہے کہ جب بھی گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو۔ اس میں تمام لوگوں سے خطاب ہے ہمیں یہ حق نہيں پہنچتا کہ جسے شارع نے عام رکھا ہو اسے ہم مقید کردیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وجہ نہيں بتلائی کہ یہ نماز میں جانے کی مشقت کی وجہ سے ہے، بلکہ فرمایا: بلاشبہ گرمی کی یہ شدت جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے۔ اور یہ تو دونوں ہی لوگ پاتے ہیں چاہے جماعت سے پڑھنے والے ہوں یا کوئی اکیلا پڑھنے والا ہو، اور اس میں عورتیں بھی شامل ہیں، ان کے لیے بھی مسنون ہے کہ وہ شدید گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کرکے پڑھیں[7]۔
سوال: کیا عورت جو گھر پر نماز پڑھتی ہے اسی طرح سے اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈا کرنا مسنون ہے؟
جواب از شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ :
نہیں، اس کے لیے مسنون نہيں کیونکہ وہ تو سایے تلے ہی ہے سورج کا اسے سامنا نہيں، یہ ٹھنڈا کرنا تو بس ان کے لیے ہے جو باہر جاکر مساجد میں نماز پڑھتے ہيں کہ اسے تاخیر سے پڑھا جائے کیونکہ انہيں گرم ریت پر اور سورج کے نیچے چلنا پڑتا ہے، البتہ جو لوگ گھر پر ہیں جیسے عورتیں تو وہ پہلے ہی سایے میں ہیں لہذا وہ اسے اول وقت میں ہی پڑھیں۔
سوال: اسی طرح جو لوگ ٹھنڈے ممالک میں رہتے ہیں؟
جواب: ٹھنڈے ممالک کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہے ظہر کا وقت تو دھوپ سیکنے کا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت سورج موجود ہوتا ہے، اور سردی تو غالباً رات میں ہوتی ہے۔ اور یہ ٹھنڈا کرنا تو ظہر کے لیے ہے تاکہ دوپہر کے وقت گرمی کی شدت سے بچا جائے۔
سوال: کیا اس ٹھنڈا کرنے کے حکم پر اب عمل ہوگا جبکہ مساجد میں ائیر کنڈیشن کے بہت سے وسائل موجود ہیں؟
جواب: بعض جگہوں پر اس پر عمل نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو ایسی گاڑیوں کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے جن میں ائیر کنڈیشن کی سہولت ہوتی ہے، اسی طرح سے آجکل مساجد میں بھی ائیر کنڈیشن ہوتے ہيں۔ لہذا لوگوں کو اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش نہ ہو جس میں اس رخصت پرعمل کی ضرورت پڑتی ہو تو بے شک انہيں نماز کو اس کے اول وقت میں ہی پڑھنا چاہیے۔
سوال: میں نےکسی دن اپنے ملک کی ایک مسجد میں نماز پڑھی تو انہوں نے ظہر کو یہاں تک ٹھنڈا کرکے پڑھا کہ اس کے تھوڑی دیر بعد ہم نے عصر بھی پڑھی ایک ہی اذان سے، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
جواب: یہ غلط ہے، پہلی بات یہ کہ اتنی تاخیر ٹھیک نہيں کہ عصر کے قریب تک پہنچ جائے، تاخیر بس اتنی ہو کہ گرمی کی شدت کم ہوجائے۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ایک اذان سے پڑھی تو یہ غلط ہے۔ ظہر کی اذان الگ ہوگی عصر کی الگ ہوگی۔
سوال: ہمارے ملک میں نمازوں کو صورت کے لحاظ سے جمع کرتے ہیں یعنی ظہر میں تاخیر کرکے عصر کے وقت کے قریب تک لے جاتے ہیں، تو کیا ہم ظہر کی نماز اول وقت میں اکیلے ہی پڑھ لیں، اور بعد میں جماعت کے ساتھ دہرا لیں یا پھر دہرائے بغیر بس جماعت کے ساتھ پڑھیں؟
جواب: انہیں چاہیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں تنبیہ کریں کہ یہ عمل صحیح نہيں ہے، اور ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا چاہیے اور ٹھنڈا کرنا اس کے آخر وقت تک نہیں ہوتا، اتنا کہ جمع کی صورت بن جائے بلکہ ٹھنڈا کرنے سے مراد ہے کہ اول وقت سے اتنی تاخیر ہو کہ گرمی کی شدت میں کمی آجائے ۔ آپ انہیں نصیحت کریں کہ وہ ایسا نہ کریں ، اور اتنا ٹھنڈا نہ کریں کہ دو نمازیں جمع ہوجائيں ، کیونکہ اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ وہ ان دو میں سے ایک نماز اس کے وقت کے علاوہ پڑھ لیں کیونکہ ان دو نمازوں کے مابین وقت کی بالکل صحیح طور پر تحدید کرنا بہت مشکل کام ہے، جو یہ فعل کرتا ہے گویا کہ وہ اپنے آپ کو اس چیز میں مبتلا کرتا ہے کہ کہیں کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ نہ پڑھ لے۔[8]
[1] صحیح بخاری 535، صحیح مسلم 1400
[2] الوابل الصیب ص 26-27۔
[3] فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 4 ص 238-243۔
[4] كتاب الدعوة (الفتاوى) لسماحته الجزء الثاني ص 93. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 10/ 385)۔
[5] فتاوى الدروس حكم الإبراد بصلاة الظهر في وقتنا الحالي۔
[6] فتاوی نور علی الدرب ج 4 ص 167۔
[7] الشرح الممتع علی زاد المستقنع ج 2 ص 103-105۔
[8] شرح سنن ابن ماجہ کیسٹ 57۔
ترجمہ، جمع و ترتیب
طارق بن علی بروہی