حدیث نبوی : اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں لے جائے۔۔۔ کی صحیح تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

The correct interpretation of the Prophetic Hadith: If you were not to commit sins, Allah would have swept you out of existence

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ  سے سوال ہوا کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

 والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم ولجاء بقوم غيركم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم[1]

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ تعالی تمہیں لے جائے گا اورضرور تمہارے علاوہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا جو  گناہ کریں گے پھر اللہ تعالی سے استغفار کریں گے اور وہ انہيں بخش دے گا۔

 ہمارے لیے اس حدیث کی شرح بیان فرما دیجئے؟ جزاکم اللہ خیراً۔

جواب: اس حدیث کا معنی ہے  کہ اللہ تعالی اپنے سابق علم میں اس  بات کا فیصلہ فرماچکا ہے کہ لازماً   گناہ وقوع پذیر ہوں گے تاکہ اس کی مغفرت ورحمت کے آثار ظاہر ہوں۔ اور اس کے اسماء کریمہ التواب (بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا)، الغفور (بہت زیادہ بخشنے والا) اور العفو (درگزر فرمانے والا) کا ظہور ہو۔کیونکہ اگر گناہ ہی نہ ہوں گے تو پھر اللہ جل جلالہ کے اسماء العفو، الغفور اور التواب کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ پس اللہ  تعالی  نے اپنی سابق تقدیر وعلم میں یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ جن وانس گناہ کریں گے اور اللہ تعالی انہیں بخش دے گا جو اس کی جناب میں توبہ کریں گے، اور جسے چاہے کا معاف فرمادے گا، اور جس سے چاہے کا درگزر فرمائے گا۔

اس کا یہ معنی ہرگزنہیں ہے کہ گناہ کرنے کی رخصت دی جارہی ہے ، نہیں! اللہ تعالی نے تو اس سے منع فرمایا ہے اور حرام قرار دیا ہے۔ لیکن اللہ کے سابق علم میں پہلے ہی یہ بات ہے کہ لامحالہ یہ ہوکر رہیں گے۔ پھراللہ  تعالی  جس سے چاہے گا درگزر فرمائے گا،اور جو اس کی جناب میں تائب ہوں گے تو جسے چاہے کا بخش دے گا۔ اس میں اس بات کی دلالت ہے کہ یہ ہوکر رہے گا۔ لہذا اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا اور یہ جان لینا کہ اللہ تعالی نے ایسا لکھ دیا تھا پس اس کی جناب میں توبہ کرے اور اس کی رحمت سے آس نہ توڑے نہ مایوس ہو بلکہ توبہ میں جلدی کرے کیونکہ اللہ تعالی تو توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول فرماتا ہے۔ تقدیر کو گناہ کرنے پر حجت نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن آپ کو چاہیے کہ مایوس نہ ہوں اور اللہ تعالی کی جناب میں تائب ہوجائیں۔ کیونکہ یہ چیز اللہ تعالی نے آپ کے بارے میں مقدر کردی تھی اور آپ کے علاوہ بھی لوگوں کے لیے مقدر کی ہے، لہذا مایوس نہ ہوں اور توبہ میں جلدی کریں۔ اللہ تعالی تو اس کی جناب میں تائب ہونے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اس کے سابق علم میں یہ بات مقدر ہے جن وانس سے لامحالہ گناہ سرزد ہوں گے، لیکن ساتھ ہی وہ ان کی توبہ قبول بھی کرے گا جو اس کے دربار میں تائب ہوجائیں، اور ان سے درگزر کرے گا جو اس کی جانب رجوع کرے، اور اگر کوئی مصر بھی ہو تو وہ جس سے چاہے درگزر کرے فضل واحسان فرماتے ہوئے، تاکہ اس کے اسمائے حسنیٰ میں سے التواب، الرحیم، العفو اور الغفور کے آثار کا ظہور ہو۔[2]

سوال: سماحۃ المفتی الشیخ اس حدیث کی صحت کیا ہے جس کا معنی ہے کہ:

إذا لم تخطئوا أو تذنبوا ليأتين الله بقوم يخطئون فيتوبون

اگر تم غلطی نہ کرو یا گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ تعالی ایسی قوم لے آئے گا جو غلطیاں کرے گی اور وہ توبہ کرے گی۔

اس کی کیا تفسیر ہے اور اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

جواب: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ[3]

اگر تم گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ تعالی تمہیں لے جائے گا اور ضرور کوئی دوسری قوم لے آئے گا جو گناہ کریں گے پھر اللہ تعالی سے استغفار کریں گے اور وہ انہيں بخش دے گا۔

یہ اللہ تعالی کی رحمت اور جودوکرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں غلطیوں کا وجود مقدر فرمایا پھر ان کی توبہ بھی قبول کی جو اس کی جناب میں تائب ہوں۔ لہذا بندے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مایوس ہو یعنی اس کا معنی ہے کہ وہ مایوس نہ ہو، آس نہ توڑے، بلکہ توبہ میں جلدی کرے، جیسا کہ فرمان الہی ہے:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو نا، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتاہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔[4]

یعنی تائب لوگوں کے لیے۔ پس اس نے گناہوں کو مقدر فرمایا اور مغفرت کو بھی۔ لہذا کسی بندے کے لیے جائز نہيں کہ وہ مایوس ہو بلکہ اسے چاہیے کہ توبہ واستغفار میں جلدی کرے۔ اور اللہ تعالی سے حسن ظن رکھے۔ اگرچہ کیسے بھی گناہ سرزد ہوگئے ہوں لیکن اسے بھرپور کوشش کرنی چاہیے اپنی محافظت کی، گناہوں سے بچنے کی۔ البتہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے جو اس کے جناب میں تائب ہوجائے۔[5]

امام ابن رجب الحنبلی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمان:

لو لم تذنبوا لجاء الله بخلق جديد حتى يذنبوا فيغفر لهم

اگر تم گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ ایک نئی مخلوق لے آئے یہاں تک کہ وہ گناہ رکریں اور وہ انہیں معاف فرمائے۔

اور مسلم نے ایک اور صورت کے ساتھ ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ   سے روایت کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے فرمایا:

لو لم تذنبوا لذهب الله بكم ثم لجاء بقوم يذنبون ثم يستغفرون فيغفر لهم

اگر تم گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ تعالی تمہیں لے جائے گا، پھر ضرور ایک ایسی قوم لائے گا جو گناہ کریں گے پھراستغفار کریں گے اور وہ انہيں بخش دے گا۔

اور ابو ایوب  رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے فرمایا:

لولا أنكم تذنبون لخلق الله خلقا يذنبون ثم يغفر لهم

اگر تم گناہ نہ کرو تو ضرور اللہ تعالی ایک ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے پھر وہ انہيں معاف فرمادے گا۔

اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ:

لو لم يكن لكم ذنوب يغفرها الله لجاء الله بقوم لهم ذنوب فيغفر لهم

اگر تمہارے گناہ نہ ہوتےکہ جنہیں اللہ معاف کرے تو اللہ تعالی ضرور ایسی قوم لے آتا جن کے گناہ ہوتے اور وہ انہیں معاف فرماتا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی یہ حکمت ہے کہ بسا اوقات وہ اپنے بندوں کے دلوں پر غفلت کے پردے ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ ان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہمیشہ وہ اس ایمانی بیداری کی حالت میں رہیں جس میں وعظ ونصیحت سنتے وقت ہوتے ہیں تو ان سے کبھی گناہ ہی سرزد نہ ہوں۔ پس ان کے بسااوقات گناہ میں مبتلاہوجانے سے دو عظیم فائدے حاصل ہوتے ہیں:

1- گنہگاروں کا اپنے گناہ اور اپنے مولیٰ تبارک وتعالی کے حق میں کوتاہی کا اعتراف کرنا۔ اپنے ذات کے بارے میں شیخی میں مبتلا ہوجانے کا سرجھک جانا۔ اور یہ بات اللہ تعالی کو بہت سارے اطاعت پر مبنی اعمال سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ اطاعت الہی پر مداومت کبھی نیک شخص کے اندر عجب (شیخی وگھمنڈ) پیدا کردیتی ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ:

لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَخَشِيتُ عَلَيْكُمْ مَا هُوَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ الْعُجْبَ[6]

اگر تم گناہ نہ کرو تو مجھے ضرور تم پر اس چیز کا ڈر ہے جو اس سے بھی بڑھ کر ہے یعنی عجب(پارسائی کا گھمنڈ)۔

امام حسن  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: اگر ابن آدم جو کچھ بھی کہے صواب (درست )کہے اور جو بھی کرے احسن (صحیح) کرے، تو مجھے ڈر ہے کہ وہ عجب سے پاگل ہی نہ ہوجائے۔

اور بعض نے کہا: وہ گناہ جس کی وجہ سے عاجزی اختیار کی جاتی ہے مجھے اس اطاعت سے زیادہ محبوب ہے جس پر فخر کیا جاتا ہے، اور گنہگاروں کی آہیں اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں تسبیح کرنے والوں کی بھنبھاہٹ سے، کیونکہ تسبیح کرنے والوں کی بھنبھاہٹ میں کبھی فخر وغرور کی مشابہت آجاتی ہے، جبکہ گنہگاروں کی آہوں کو عاجزی وانکساری مزین کردیتی ہے۔

اور حدیث میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَيَنْفَعُ الْعَبْدَ بِالذَّنْبِ يُذْنِبُهُ[7]

اللہ تعالی کسی بندے کو ضرور اس کے کیے گئے گناہ تک سے فائدہ پہنچا دیتا ہے۔

امام حسن  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: ایک بندہ گناہ کرتا ہے تو وہ اسے بھولتا نہیں اور ڈرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے ۔ ایک مومن کی لغزش سے مقصود اس کی ندامت ہوتی ہے، شدت افسوس اور ٹیڑھ پن سے مقصود اسے سیدھا کرنا ہوتا ہے، تاخیر وکوتاہی سے مقصود اس کی تقدیم اور بلندی ہوتی ہے، اس کے خواہشات کے گڑھے میں پھسلنے سے مقصود اس کا ہاتھ پکڑ کر سرمین نجات پر لانا ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے:

قرة عيني لا بد لي منك وإن … أوحش بيني وبينك الزلل

قرة عيني أنا الغريق فخذ … كف غريق عليك يتكل

2-  دوسرا فائدہ بندے کا اللہ تعالی سے مغفرت ودرگز ر کا حصول ہے۔ کیونکہ وہ درگزر کرنے اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ اور اس کے اسماء میں سے الغفار، العفو اور التواب ہیں۔ اگر تمام مخلوق گناہوں سے معصوم ہو تو پھر کس کے لیے عفو ومغفرت ہو۔

بعض سلف فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، پس لکھا: بے شک میں ہی بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہوں، اور میں تائب ہونے والوں کی توبہ قبول کرلیتا ہوں۔ ابو الجلد رحمہ اللہ    فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے ایک فرمانبرداربندے نے یوں دعاء کی کہ: اے اللہ میری ایسی اصلاح فرمادے کہ کبھی فساد میں مبتلا نہ ہوسکوں۔ تو اللہ تعالی نے اس کی طرف وحی کی کہ: بے شک میرے تمام بندے مجھ سے یہی طلب کرتے ہیں جو تو نے طلب کیا، لیکن اگر میں اپنے تمام بندوں کی ہمیشہ کے لیے اصلاح کردوں تو پھر میں کس پر فضل وکرم کروں گا اور مغفرت کے ساتھ اس کی جانب رجوع کروں گا۔ سلف میں سے کسی نے فرمایا:  اگر میں جان لوں جو عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو اسے پانے کے لیے میں اپنی جان قربان کردوں گا۔ پس اس نے خواب میں دیکھا کوئی کہنے والا اس سے کہہ رہا ہے: تم ایک ایسی چیز چاہتے ہو جو کبھی ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ وہ (گنہگاروں کی) مغفرت کرے۔ یحییٰ بن معاذ  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: اگر عفوودرگزر اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ بات نہ ہوتی تو وہ اپنی اکرم واشرف مخلوق کو اس میں مبتلا نہ ہونے دیتا۔

يا رب أنت رجائي … وفيك حسنت ظني

يارب فاغفر ذنوبي … وعافني واعف عني

العفو منك إلهي … والذنب قد جاء مني

والظن فيك جميل … حقق بحقك ظني[8]

شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ سے سوال ہوا: میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی ایک حدیث سنی ہے اس کے مکمل طور پر الفاظ تو یاد نہیں ہیں لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمان گناہ نہ کریں اور استغفار نہ ہو تو اللہ تعالی دوسرے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور پھر توبہ واستغفار بھی کریں گے۔ اگر یہ حدیث صحیح ہے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   سے وارد ہے تو اس کا آخر کیا معنی ہے؟ اور یہ کس جانب اشارہ ورہنمائی کرتی ہے؟

جواب: اس حدیث کو امام سیوطی نے الجامع الصغیر میں ابن عباس  رضی اللہ عنہما   سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ:

لو لم تذنبوا لذهب الله بكم وجاء بقوم يذنبون

اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی ضرور تمہیں لے جائے گا اور ایسی قوم لائے گا جو گناہ کریں گے۔

اسے امام مسلم نے بھی اپنی صحیح میں ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ   سے روایت کیا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے:

ثُمَّ يَسْتَغْفِرُونَ فَيَغْفِرُ لَهُم

پھر وہ استغفار کریں گے تو اللہ تعالی انہیں بخش دے گا۔

انہوں نے اپنی روایت کو امام احمد کی مسند کی طرف منسوب کیا۔اس کے شارح المناوی فرماتےہیں کہ امام الیہثمی نے فرمایا: اس میں یحییٰ بن عمرو بن مالک البکری ہيں جو کہ ضعیف ہيں۔ البتہ اس کے باقی رجال کی ثقات نے توثیق کی ہے۔ (الہیثمی کا کلام ختم ہوا)

اور المناوی فرماتےہیں: اسے امام مسلم نے بھی توبہ کے باب میں ابی ایوب  رضی اللہ عنہ   کی حدیث کے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:

لولا أنكم تذنبون خلق الله خلقًا يذنبون فيَغفر لهم

اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی ایسی مخلوق پیدا فرمائے گا جو گناہ کریں گے اور وہ انہیں معاف فرمائے گا۔

             دیکھیں صحیح مسلم حدیث ابو ایوب  رضی اللہ عنہ  ۔اور اس حدیث کا معنی ظاہر ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے یہ پسند فرماتا ہے کہ وہ استغفار کریں اور وہ انہیں بخش دے، تاکہ اس سے اس کا فضل وکرم اور اس کی صفت الغفار اور الغفور کے آثار ظاہر ہوں۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس فرمان الہی میں ہے:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ، وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ

کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو نا، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتاہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے، اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے مطیع ہو جاؤ۔[9]

یہ حدیث دو عظیم مسائل پر دلالت کرتی ہے:

1- اللہ تعالی عفو (درگزر کرنے والا) ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے، غفور(بخشنے والا ہے) او رمغفرت کو پسند فرماتا ہے۔

2- اس میں توبہ کرنے والوں کے لیے بشارت ہے کہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی اور ان کے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور یہ کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے ہرگز بھی ناامید نہ ہوں، کہ جس کی وجہ سے اپنے گناہوں پر ڈٹے رہیں اور مصر رہیں، بلکہ انہیں چاہیے کہ جلد توبہ کریں اور اللہ تعالی سے استغفار کریں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے لیے استغفار اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ اس حدیث کا یہی صحیح معنی ہے۔

اور اس حدیث میں انسان کے عجب کو بھی توڑا گیا ہے، اور یہ کہ انسان اپنے نفس اور عمل پر عجب نہ کرے نہ اترائے۔ کیونکہ لامحالہ اس سے خطاء ، لغزش اور نقص کا احتمال ہے۔ لہذا اسے اپنے تقصیر وکوتاہی  اور خطاء ولغزش سے فوراًتوبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ وہ یہ گمان نہ کرے کہ وہ عبادت میں بالکل کامل ہے یا اسے استغفار کی حاجت نہيں۔ پس اس حدیث میں استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے استغفار اور اس کی جناب میں توبہ کرنا بہت پسند فرماتا ہے۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ:

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

ہر بنی آدم خطاء کار ہےاور بہترین خطاء کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔

اسے امام احمد نے اپنی مسند میں انس بن مالک  رضی اللہ عنہ   سے روایت کیا۔ اس حدیث کا یہ معنی نہيں ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے پسند کرتا ہے کہ وہ گناہ کریں اور اس کی نافرمانی کریں۔ اللہ تعالی کفر کو پسند نہیں کرتا نہ اس سے راضی ہوتا ہے اسی طرح سے معصیت کو پسند نہیں کرتا نہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ لیکن جس چیز کو پسند فرماتا ہے وہ یہ ہے کہ بندے گناہ کریں یا نافرمانی کریں تو اس کی جناب میں توبہ کریں اور استغفار کریں یہ ہے اس حدیث کا صحیح معنی۔[10]


[1] صحیح مسلم 6965کے الفاظ ہیں:  وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ۔

[2] شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی نور علی الدرب 12041

[3] حدیث گزر چکی ہے۔

[4] الزمر: 53

[5] شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی نور علی الدرب 18373

[6] حسن لغیرہ، صحیح الترغیب 2921۔

[7] السلسلۃ الضعیفۃ 3105۔

[8] لطائف المعارف – ابن رجب الحنبلي رحمه الله ص20-21 مکتبة الشاملة

[9] الزمر: 53

[10] شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی نور علی الدرب 6061

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply