علماء کرام کی غلطیوں کے تعلق سے ہمارا کیا مؤقف ہونا چاہیے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

What should be our stance towards the mistakes of Ulamaa? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: یہ بات معلوم ہے کہ تقویٰ انسان کو کتاب وسنت کی فہم سلف کے مطابق اتباع کی طرف لے جاتا ہے، پس ایک سلفی کا کیا مؤقف ہونا چاہیے بعض ان اہل علم کے تعلق سے جن سے کچھ باتیں صادر ہوجاتی ہیں؟  ہمارا ان کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے؟ کیونکہ بہت سے سوالات علماء کرام کے احترام اور ان کی فضیلت وغیرہ کے تعلق سے ہوتے ہیں تو کیا ہم بس یوں کہیں کہ ان کے یہ اقوال ساقط ہیں یا اس طرح کی بات؟

جواب: علماء سے مراد اہل سنت کے علماء ہیں ناکہ علماء رفض(رافضہ)، علماء تصوف اور علماء بدعات وخرافات۔ یہ تو اہل بدعت ہے ان کے تعلق سے نہيں کہا جائے گا کہ یہ علماء ہیں۔  حق بات یہ ہے کہ بلاشبہ ہر بدعتی درحقیقت عالم نہیں ہے۔

جیساکہ کئی ایک علماء سنت کا قول ہے کہ بے شک اہل بدعت غیر علماء ہيں۔

البتہ جو علماء سنت ہیں تو ان کے بارے میں بھی ہم کبھی عصمت کا عقیدہ نہيں رکھتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر تاقیام قیامت۔ عصمت تو خاص انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے ہے، کہ انہيں اللہ تعالی نے جو کچھ وہ اپنے امتوں تک پہنچاتے تھے اس بارے میں معصوم رکھا ہے۔ جبکہ جو ان کے علاوہ ہیں تو ان سے غلطی کا امکان موجود ہے۔ پس جس نے اجتہاد کیا اور صواب بات کو پالیا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کرگیا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ یہ وہ منہج ہے جس کے مطابق ہم ان علماء سنت کے ساتھ برتاؤ کرتے ہيں جن کے صدق واخلاص اور اللہ کے دین وصحیح منہج سے التزام کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔  لہذا ان میں سے جو غلطی کرجائے تب بھی ہمارے لیے کبھی جائز نہيں کہ ہم اس غلطی میں ان کی پیروی کریں۔ بلکہ واجب ہے کہ لوگوں کے سامنے ہم اس عالم کے احترام کے ساتھ یہ واضح بھی کریں کہ یہ ان کی غلطی ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو ساتھ میں اسے نصیحت کریں اور اس کے سامنے واضح کریں کہ یہ غلطی ہے، اور اگر وہ بہت دور ہو یا وفات پاچکا ہو تو اس کے لیے دعائے مغفرت کریں ، اور یہ عقیدہ رکھیں کہ اس کے لیے اس غلطی میں بھی ایک اجر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمایا ہے:

’’من اجتهد فأصاب فله أجران‘‘

(جس نے اجتہاد کیا اور صواب بات کو پالیا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے)

یعنی ایک اجر اس کے اجتہاد کا اور دوسرا صواب کو پالینے کا۔

اور فرمایا:

’’ومن اجتهد فأخطأ فله أجر واحد‘‘[1]

(اورجس نےاجتہاد کیا اور غلطی کرگیا تو اس کے لیے ایک اجر ہے)۔

یعنی اس کے اجتہاد کرنے کا اجر جبکہ غلطی کے بارے میں وہ معذور ہے۔

پس جو اجر وہ پاتا ہے وہ اپنے اس اجتہاد کے مقابل میں  حاصل کرتا ہے۔ جبکہ جو غلطی ہے اس کے مقابل میں سوائے اس کے کچھ نہيں کہ اللہ تعالی اس کا عذر قبول فرمائے۔

اور جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم کبھی بھی اس غلطی کو شرف قبولیت نہیں دیں گے چاہے اس کا قائل کوئی بھی ہو، کتنا ہی بڑا ہو، کتنا ہی عظیم ہو، اس کی کتنی ہی قدر ومنزلت ہو، ہمارے لیے کسی بھی حال میں جائز نہیں کہ ہم اس غلطی میں اس کی اتباع کریں، اور نہ ہی یہ کسی بھی حال میں جائز ہے کہ ہم کہیں: یہ غلطی ہی نہیں، ہرگز نہیں! (ہم ایسا نہيں کریں گے)۔ کیونکہ بعض لوگ اپنی قیادت کو عصمت کا درجے دے دیتے ہيں اگرچہ وہ بڑی بڑی گمراہیوں میں واقع ہوں، (ان کے نزدیک) آپ کے لیے (ان پر نکتہ چینی) جائز نہيں کہ آپ کہیں یہ غلطی ہے! حالانکہ یہی بہت دور کی اور پرلے درجے کی گمراہی ہے۔


[1] اسے الترمذی نے 1326 میں روایت کیا اور الالبانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ‘‘۔ (مترجم)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: کیسٹ بعنوان: جلسة استراحة الصفا۔