ترجمۂ قرآن اور اس کا حکم – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Translations of the Qur’an and its rulings – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ترجمہ کا لغةً ایک سے زائد معانی پر اطلاق ہوتا ہے جو سب کے سب بیان و توضیح کے معنی میں آتے ہیں۔

اور اصطلاح میں: کسی زبان  کے کلام کی دوسری زبان میں تعبیر پیش کرنا۔

اور ترجمۂ قرآن کا مطلب ہے کہ کسی اور زبان میں اس کے معنی کی تعبیر پیش کرنا۔

ترجمے کی دو انواع ہیں:

پہلی نوع:  حرفی ترجمہ (حرف بہ حرف یا لفظی ترجمہ)، وہ اس طرح کے ایک ایک  کلمہ کا دوسری زبان میں بالکل اس کے مدمقابل معنی پیش کیا جائے۔

دوسری نوع: معنوی ترجمہ یا تفسیری ترجمہ، وہ اس طرح کے کلام کے معنی کی دوسری زبان میں عربی مفردات اور ترتیب کی رعایت کیے بغیر تعبیر کی جائے۔

اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

﴿اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ 

(بے شک ہم نے اس کو ایک عربی زبان کا قرآن کیا ہے تاکہ تم سمجھ لو)

(الزخرف: 3)

پس اس آیت کا حرفی یا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ اس آیت کے ایک ایک کلمے کا ترجمہ لکھا جائے جیسے ﴿اِنَّا﴾  (بے شک ہم نے) پھر ﴿جَعَلْنٰهُ﴾ (کیا اس کو) پھر ﴿قُرْءٰنًا﴾ (ایک قرآن) پھر ﴿عَرَبِيًّا﴾ (عربی زبان کا) اور اسی طرح باقی کلمات۔

اور اس آیت کا معنوی ترجمہ ایسے ہوگا کہ ہر کلمے اور ترتیب کے قطع نظر پوری آیت کا ترجمہ کیا جائے اور یہ اجمالی تفسیر کے معنی کےقریب قریب ہوتا ہے۔

ترجمۂ قرآن کا حکم

قرآن کریم کا حرفی یا لفظی ترجمہ بہت سے اہل علم کے نزدیک مستحیل و ناممکن ہے۔ کیونکہ اس نوع میں کچھ ایسی شرائط ہیں کہ جن کا اس کے ساتھ پورا ہونا ناممکن ہوجاتا ہے، اور وہ یہ ہیں:

1- جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے(جیسے اردو ) اس زبان میں وہ تمام مدمقابل حروف موجود ہوں کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے (یعنی عربی)۔

2- جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے اس میں ترجمہ کیے جانی زبان کے ادواتِ معانی بالکل مساوی یا مشابہ موجود ہوں۔

3- دونوں لغات، (ترجمہ ہونے والی اور جس میں ترجمہ کیا جارہا ہے) جب اسے جملوں، صفات اور اضافات میں ترتیب دیا جائے تو ترتیب ِکلمات کے اعتبار سے مماثل ہوں۔ اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں: حرفی ترجمہ بعض آیات کا ہونا ممکن ہے  لیکن  اگرچہ اس طرح کرنا ممکن ہی کیوں نہ ہو، ا س کا کرنا حرام ہے کیونکہ اس کلام کا معنی اس کے کمال کے مطابق بیان کرنا ممکن نہیں، اور نہ ہی وہ نفس میں واضح عربی قرآن مجید جیسی تاثیر پیدا کرسکتا ہے، اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوئی خاص حاجت ہے، کیونکہ  معنوی ترجمہ کردینا ہمیں ایسا کرنے سے مستغنی و بے نیاز کردیتا ہے۔

لہذا بعض آیات کا حرفی ترجمہ اگر  حسی طور پر کرنا ممکن بھی ہو تو بھی شرعی طور پر وہ ممنوع ہے، الا یہ کہ پوری ترکیب کو ترجمہ کرنے کے بجائے محض کسی خاص کلمے کا ترجمہ کسی دوسری زبان والے کو سمجھانے کے غرض سے بیان کردیا جائے تاکہ  وہ اس خاص کلمے کو سمجھ سکے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ جہاں تک تعلق ہے قرآن مجید کے معنوی ترجمہ کا تو وہ بنیادی طور پر بالکل جائز ہے کہ جس میں کوئی محذور نہیں۔ بلکہ کبھی تو وہ واجب بھی ہوجاتا ہے کہ جب وہ وسیلہ بنتا ہو غیر عربی لوگوں تک قرآن و اسلام کی دعوت پہنچانے کا۔کیونکہ اس کی تبلیغ و پہنچا دینا واجب ہے، اور یہ شرعی اصول ہے کہ جس واجب کو ادا کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز لازم ہو تو وہ بھی خودبخود واجب ہوجاتی ہے۔

لیکن اس کے جواز کی کچھ شرائط ہیں:

اول: اس کو قرآن کریم کا بدیل نہ بنادیا جائے کہ اصل عربی قرآن سے ہی بے نیاز ہوجائیں بلکہ ضروری ہے کہ عربی قرآن ضرور لکھا ہوا ہو پھر اس کی ایک جانب اس کا ترجمہ درج ہو، اس طرح گویا کہ وہ اس کی تفسیر بن جائے۔

دوم: مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے مدلولات کا اور سیاق و سباق جس تبدیلی کے متقاضی ہوتے ہیں اس کا مکمل علم رکھتا ہو۔

سوم: وہ قرآن مجید کے الفاظ کے شرعی معانی کا بھی پورا علم رکھتا ہو۔

قرآن کریم کا ترجمہ اسی شخص سے قبول کیا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں ہم مطمئن اور مامون ہوں کہ وہ ایک ایسا مسلمان ہو جو اپنے دین میں مستقیم ہو۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: اصول تفسیر

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*