
Interpreting the narrations regarding Fitan with current affairs & circulating it among the masses is not the Manhaj of AhlusSunnah – Shaykh Saaleh bin Abdul Azeez Aal-Shaykh
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسی طرح بعض لوگوں کا فتنوں سے متعلق احادیث کو موجودہ صورتحال پر فٹ کرنا درست نہیں۔ اس بارے میں ایک عام قاعدہ شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ بیان فرماتے ہیں: ’’الضوابط الشرعية لموقف المسلم في الفتن‘‘ میں نواں اور آخری قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ:
ان ضوابط اور قواعد میں سے آخری قاعدہ یہ ہے کہ اے مسلمان! فتنوں سے متعلق احادیث کو ہمیشہ اپنے ماحول پر فٹ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ لوگوں کا یہ پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے کہ فتنوں کے ظہور کے وقت اس سے متعلق احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں ،اور ان کی مجالس میں اکثر یہ گفتگو ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ پیش گوئی فرمائی ہے ،اس کا وقت یہی ہے اور اس سے مراد یہی فتنہ ہے!! وغیرہ وغیرہ۔
سلف صالحین نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ احادیثِ فتن کو حالات حاضرہ پر چسپاں نہیں کرنا چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن حوادث وفتن کی پیش گوئی فرمائی ہے اس کی حقانیت کا پتہ اس وقت ہی چلتا ہے جب وہ وقوع پذیر ہو جائیں اورگذر جائیں۔ البتہ تمام فتنوں سے بالعموم ہمیں خبردار رہنا اور خبردار کرنا چاہیے۔
مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول:
’’إن الفتنة في آخر الزمان تكون من تحت رجل من أهل بيتي‘‘([1])
(آخری زمانہ میں میرے خاندان کے ایک آدمی سے فتنہ کا ظہور ہوگا )۔
کی تفسیر بعض لوگوں نے یہ کی کہ اس سے فلاں ابن فلاں مراد ہے۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (اسی حدیث میں آگے ) فرمانا:
’’حتی يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ‘‘
(لوگ ایک آدمی پر اس طرح اکٹھے ہوں گے جیسے کولہے پسلی پر)([2])۔
اس سے مقصود فلاں ابنِ فلاں ہے۔
یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا:
’’یکون بینکم وبین الروم صلح آمن‘‘([3])
(تم (مسلمانوں) میں اور روم میں پر امن صلح ہوگی)۔
حدیث کے آخری حصہ تک، کہ اس سے مراد عہدِ حاضر کی صلح ہے وغیرہ وغیرہ۔
حالات ِحاضرہ پر ان احادیث ِفتن کو فٹ کرنا اور مسلمانوں میں اس کی اشاعت و ترویج کرنا اہل سنت والجماعت کا مذہب نہیں ہے۔
اہلِ سنت والجماعت تو فتنوں کو اور فتنوں کے متعلق احادیث کو ذکر کر کے لوگوں کو ان سے ڈراتے وخبردار کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو ان سے دور رہنے یا اس کے قریب نہ جانے کی تلقین کرتے ہیں ،تاکہ مسلمان فتنہ میں نہ پڑ جائیں، اور ان(فتنوں کے متعلق ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خبر دی ہیں ان کی صحت کا اعتقاد رکھیں۔
[1] صحیح ابی داود 4242 کے الفاظ ہیں: ’’كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ مِنْ غَدِهِ ‘‘
[2] یعنی لوگ ایک آدمی پر ایک کمزور بنیاد پر صلح کریں گےکیونکہ کولہے پسلی پر صحیح حالت میں قائم نہیں رہ سکتے۔
[3] مسند الشامیین للطبرانی 212 کے الفاط ہیں: ’’ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الرُّومِ‘‘ اور المعجم الکبیر للطبرانی کے الفاط ہیں: ’’سَيَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الرُّومِ أَرْبَعُ هُدَنٍ‘‘۔
ترجمہ: وزارت مذہبی امور و اوقاف، سعودی عرب
مصدر: الضوابط الشرعية لموقف المسلم في الفتن ۔