نعت خوانی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

Ruling regarding reading Naat (praising the prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

نعت خوانی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح وتعریف اشعار وقصائد کی صورت میں بیان کرنا ہے۔ جو کہ جائز اور مرغوب عمل ہے جیسا کہ مشہور صحابئ رسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے ثابت ہے۔ جو جنگوں کے مواقع وغیرہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع، مشرکین کے جواب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اشعار پڑھتے، جو کفار پر تیر ونشتر سے بڑھ کر اثر کرتے۔

لیکن بعد کے زمانوں میں اس تعلق سے غلو پیدا ہوجانے کے سبب کہ اس میں شرکیہ اشعار پڑھنے، نماز کے انداز میں دست بستہ اور قیام کی حالت میں پڑھنے، بدعتیانہ مناسبات جیسے میلاد وغیرہ میں پڑھنے، موسیقی شامل کرنے، گانوں کی دھنوں اور طرز پر پڑھنے، اور اسے باقاعدہ ایک فیلڈ، پیسہ کمانے  کا ذریعہ اور مشغلہ بنالینا قابل مذمت ہے۔ لہذا جب اہل توحید کی جانب سے نعتوں کا رد کیا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی صورتحال ہوتی ہے۔ اس تعلق سے علماء کرام کے بعض فتاویٰ  پیش خدمت ہیں۔

سوال:ہمارے یہاں التواشيح والابتهالات الدينيةدینی قصائد ونعتیں ہوتی ہیں، جو کہ عبارت ہوتی ہيں مدح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، ساتھ کچھ دعائیں ہوتی ہیں جسے بعض خوش الحان افراد ادا کرتے ہیں؟ ان التواشيح میں  کسی قسم کی موسیقی نہيں ہوتی، پس آپ سماحۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے، اور اسے سننے کا کیا حکم ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

 ہم ان التواشيح کی تفصیل نہيں جانتے۔ اگر یہ عبارات ہيں تو ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں غلو میں واقع ہوتے ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان اوصاف سے متصف کرتے ہوں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متصف کرنا جائز نہيں تو یہ حرام ہوں گی۔ یا پھر ایسے بدعتی الفاظ ہوں  تو بھی حرام ہوگی۔ بلکہ دعاء کے وقت سنت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جائے اور بس۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا کہ جب ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا  کہ وہ دعاء کررہا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام نہیں بھیجا نہ اللہ کی حمد بیان کی تو فرمایا:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ ، وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – ثُمَّ يَدْعُو[1]

(جب تم میں سے کوئی دعاء کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے، پھر دعاء کرے)۔

یہ التواشيح  سے زیادہ  بہتر ہے، اس التواشيح کی ضرورت نہیں۔ کبھی تو اس میں شر بھی ہوسکتا ہے، کبھی اس میں بدعت بھی ہوسکتی ہے۔ لہذا جب دعاء کرنی ہو تو اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کی جائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود بھیجاجائے، پھر دعاء کی جائے۔

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہيں تعلیم دی کہ کس طرح سے آپ پر دورد بھیجا جائے، فرمایا کہ کہو:

’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘

 (اے اللہ !درود بھیج  محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجے ابراہیم پر اور آل ابراہیم، بےشک  تو ہی قابل حمد اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! برکتیں نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکتیں نازل فرما ئیں ابراہیم پر اور آل ابراہیم، بےشک  تو ہی قابل حمد اور بزرگی والا ہے)

پس ایک مومن کسی بھی دعاء کے وقت اللہ کی حمد بیان کرتا ہے:

’’ اللهم لك الحمد، اللهم لك الحمد على كل حال، اللهم لك الحمد حمداً كثيرا ‘‘

(اے اللہ !تیرے ہی لیے حمد ہے، اے اللہ!ہر حال میں تیری ہی تعریفیں ہيں، اے اللہ! تیری حمد ہے بہت زیادہ)۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثابت شدہ مشروع درود بھیجتا ہے، پھر دعاء کرتا ہے۔

ان تواشیح کی حاجت نہيں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہيں فرمائی جیسے اشعار ہوتے ہیں یا ایسے کلمات جن میں کبھی غلو آہی جاتا ہے۔

بس اللہ کی حمد وثناء بیان کرے، پھر نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مسنون درود و سلام بھیجے، پھر دنیا وآخرت کی بھلائی کی جو چاہے دعاء کرے۔

(فتویٰ :  حكم التواشيح التي تقال في مدح النبي)

سوال: سوڈان سے ہمیں یہ خط آیا ہے جناب ابراہیم محمد عبداللہ قدس کہتے ہیں:

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی قصیدوں کے ذریعے کرنا جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہيں تو پھر وہ کونسی مدح ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کرنا جائز ہے؟ یا پھر یہ مطلقا ًہی جائز نہيں؟ ہماری رہنمائی فرمائیں اللہ تعالی آپ کو ہر اس کام کی توفیق دے جس میں خیر وبرکت ہو۔

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح وتعریف کی جائے ان خصال حمید ، مناقب عظیمہ اور اخلاق کاملہ کے تعلق سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے، یہ تو ایک مشروع اور محمود (قابل تعریف) عمل ہے، کیونکہ اس میں ایک قسم کی دعوت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی طرف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ومحبت کی طرف، اور یہ تمام مذکورہ امور تو شرعی طور پر مقصود ہیں۔

البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح اس غلو کے ساتھ کرنا کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو پھر یہ کسی طور پر بھی جائز نہيں، جیسا کہ کہنے والے کے اس قول (قصیدہ بردہ) کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنا:

إن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم

(دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)

کیونکہ بلاشبہ اس قسم کا غلو جائز نہيں، بلکہ یہ حرام ہے۔ اور اگر جائز صورت میں بھی ہو تو بھی کسی رات یا دن کو اس کے ساتھ یوں مخصوص  نہ کیا جائے کہ جب کبھی بھی وہ رات یا دن آئے تو اس قسم کے قصیدے پڑھے جائیں اور مدح سرائی کی جائے۔ کیونکہ کسی چیز کا کسی وقت کے ساتھ مخصوص کرنا جس کو شریعت نے مخصوص نہيں کیا، اسی طرح سے کسی جگہ کو مخصوص کرنا جسے شریعت نہيں مخصوص نہيں کیا، وہ بدعت ہے کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

(فتاویٰ  نور علی الدرب، کیسٹ – 53)

سوال: مدح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نعت خوانی) کو بطور تجارت و پیشہ اپنا لینا کیسا ہے؟

جواب: اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ اور یہ جاننا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:

1-  ایسی بات کے ساتھ آپ کی مدح بیان کرنا جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستحق ہيں بنا غلو کی حد تک پہنچے، تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ یعنی اس میں کوئی مضائقہ نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اخلاق و طریقے میں جن اوصاف حمیدہ و کاملہ کے اہل ہيں  ان کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بیان کی جائے۔

2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی مدح کہ جس کے ذریعے مدح کرنے والا (نعت خواں) اس غلو کی طرف نکل جائے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود منع فرمایا ہے، فرمایا:

’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘[2]

(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ  نے ابن مریم  کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔

لہذا جس کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح یوں کی کہ آپ فریاد کرنے والوں کے فریاد رس (غوث) ہیں، اور لاچار کی پکار سنتے قبول کرتے (مشکل کشائی کرتے) ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دنیا وآخرت کے مالک (و مختار کل) ہيں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں یا اس جیسے دیگر مدح کے الفاظ بالکل حرام ہیں، بلکہ کبھی تو اس شرک اکبر  تک پہنچتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتے ہیں۔ چنانچہ جائز نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح غلو کی حد تک کی جائے، کیونکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

اب ہم لوٹتے ہيں اس مسئلے کی طرف کہ جائز والی مدح کرنے والے مدح خواں کا اسے  پیشہ بنا لینا جس کے ذریعے سے انسان کمائے، تو ہم مکرر کہتے ہيں کہ یہ حرام ہے جائز نہيں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مکارم اخلاق، صفات حمیدہ اور صراط مستقیم  پر ہونے کی مدح کرنا جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستحق ہيں  اور اہل ہيں، اس مدح کے ذریعے انسان ایک عبادت کررہا ہوتا ہے جس کے ذریعے سے اسے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ پس جو چیز بھی عبادت ہو تو جائز نہیں کہ اسے دنیا کمانے کا ذریعے بنالیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ ، اُولىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾(ھود:  15-16)

(جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی، یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے اس میں کیا ،اور بےکار ہوئے جو اعمال وہ کرتے رہے تھے)

اور اللہ تعالی ہی سیدھی راہ کی جانب ہدایت دینے والا ہے۔

(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الأول – باب الرسل)


[1] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 1481 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3261)۔

ترجمہ وترتیب

طارق بن علی بروہی