ایک شیطانی مقولہ: آج کافر مسلمانوں سے زیادہ دیانتدار اور عمدہ اخلاق والے ہیں

An evil statement: The disbelievers are more honest and posses manners than the Muslims

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جو مسلم اور غیر مسلم ملازمین میں تقابلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غیر مسلمین امانت دار ہوتے ہیں، ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، ان کے مطالبات بھی کم ہوتے ہیں اور کام بھی کامیابی سے کرتے ہیں جبکہ مسلمان ملازمین ان کے بالکل برعکس ہوتے ہیں، پس سماحۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب: اس قسم کے لوگ جس طرح حقیقی مسلمان ہونے چاہیے وہ نہیں مگر اسلام پر مکمل چلنے کا بس دعویٰ ہے۔ کیونکہ جو حقیقی اور مکمل مسلمان ہوتے ہیں وہ ہی سب سے زیادہ اولیٰ اور حق دار ہیں اور وہی امانت داری اور سچائی کے لحاظ سے کافروں سے بہت بہتر ہے۔

البتہ جو کچھ انہوں نے سوال میں کہا غلط ہے جائز نہیں کہ ایسے کہا جائے۔ کفار اگر آپ کے ساتھ سچائی سے کام لیتے ہیں اور امانت ادا کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کی جو مصلحتیں آپ کے پاس ہوتی ہیں اسے حاصل کرسکیں، تاکہ ہمارے مسلمان بھائیوں سے مال کما سکیں۔ تو یہ ان کی اپنی مصلحت کی خاطر ہوتا ہے۔ ان کا  یہ سب اظہار کرنا  آپ کی مصلحت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی مصلحت کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ آپ سے خوب مال کما سکیں اور آپ ان کی جانب زیادہ راغب ہوں۔

لہذا آپ پر واجب ہے کہ مسلمانوں میں سے جو اچھے لوگ ہیں انہیں ملازمت میں ترجیح دیں۔ اور اگر آپ دیکھیں گے مسلمان غیر مستقیم ہیں تو انہیں نصیحت کریں اور توجہ دلائیں اگر وہ سیدھے ہوجائیں تو بہتر ورنہ انہیں ان کی ملک لوٹا کر کسی اور مسلمان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اور اپنے وکیل سے کہیں جو آپ کے لیے ملازمین منتخب کرتا ہے کہ وہ صرف اچھے اور امانت داری، نماز اور استقامت میں معروف لوگوں کو منتخب کیا کرے۔ ہر ایرے غیرے کو نہ لے آیا کرے۔

اور یہ بلاشبہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ آپ سے کہتا ہے: یہ کفار مسلمانوں سے بہتر ہیں، اور زیادہ امانت دار ہیں یا ایسے ایسے ہیں۔ یہ سب اس لیے کیونکہ اللہ کے دشمن اور ان کے لشکر یہ جانتے ہیں کہ کافروں کو یہاں لانا اور مسلمانوں کے بجائے ان کی خدمات حاصل کرنا کتنا عظیم شر ہے۔ اسی لیے آپ کو ان کی جانب راغب کرتا ہے اور انہیں یہاں لانے کو مزین کرکے پیش کرتا ہے تاکہ آپ مسلمانوں کو چھوڑ دیں، اور اللہ کے دشمنوں کو لاتے رہیں، اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں ولا حول ولا قوة إلا بالله۔

مجھے ان میں سے بعض کی یہ بات بھی پہنچی ہے کہ وہ کہتےہیں: مسلمان تو نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں اور نماز کی وجہ سے بعض اعمال معطل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کفار نماز نہيں پڑھتے لہذا وہ زیادہ کام کرسکتے ہيں۔ یہ بھی اسی قبیل کی بات ہے جو پہلے گزری، اور بہت بڑی آزمائش ہے کہ مسلمانوں کو محض اس لیے عیب دیا جائے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور کافروں کو لایا جائے کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتے، پھر ایمان کہاں ہے؟ تقویٰ کہاں ہے؟ خوف الہی کہاں ہے؟ کہ آپ اپنے مسلمان بھائیوں کو نماز پڑھنے کی وجہ سے معیوب سمجھتے ہیں! اللہ تعالی سے ہی عافیت وسلامتی کا سوال ہے۔

(فتاوی نور علی الدرب)

آپ ہی سے سوال ہوا : ہم مسلمانوں کے قول وعمل میں بہت بڑا تضاد دیکھتے ہیں۔ پس مسلمان جو لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دیتے ہیں، مساجد میں جاتےہیں فرائض ادا کرتے ہیں ہم ان میں سے بعض کا سلوک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلوک سے یکسر مختلف دیکھتے ہیں۔ اور جب لوگوں میں سے کوئی یورپ کا سفر کرتا ہے جو اب چرچ کی تعلیمات تک چھوڑ کر بے دین ممالک بن کر رہ گئے ہیں تو وہ مسافر واپسی پر کہتا ہے کہ: میں نے ان کا اخلاق مسلمانوں کے اخلاق سے بہتر پایا۔ پس آپ اس قسم کے لوگوں کے لیے کیا رہنمائی ووضاحت فرمائیں گے؟

جواب: اولاً: اہل شرک کے ممالک کا سفر کرنا جائز نہیں کیونکہ ان کی جانب سفر کرنا گمراہی ، دین سے پھر جانے، ان کے اسلام مخالف شبہات، گمراہیاں اور مکروفریب سننے کا سبب ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان اسباب کی وجہ سے واقعی گمراہ ہوجائے اور وہ اس کے دل میں شبہ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اہل شرک کے ملک کا سفر کرے نہ ہی ان کےپاس اقامت اختیار کرےکیونکہ ا س میں عظیم خطرات اور شبہات کا سامنا ہے۔ جب وہ انہيں عظیم فساد میں مبتلا دیکھے گا جیسے شرکیات، زنا، لواطت اور ہر قسم کی معاصی تو ہوسکتا ہے ان سے متاثر ہوجائے اور اس سبب سے اس کے دل میں ٹیڑھ پن پیدا ہوجائے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:

’’أنا بريء من كل مسلم يقيم بين المشركين لا تراءى نارهما‘‘([1])

(میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے، ان دونوں (یعنی مسلمان اور مشرکین) کی آگ ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دینی چاہیے (یعنی گھر قریب نہ ہوں))۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ:

’’من جامع مشرك أو سكن معه فهو مثله‘‘([2])

(جو مشرک کے ساتھ جمع ہوا یا اس کے ساتھ سکونت اختیار کی تو وہ اسی کے جیسا ہے)۔

پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہل شرک کے ملک کا سفر کرنے، ان کے درمیان اقامت اختیار کرنے سے بچے نہ تجارت کے لیے نہ کسی اور وجہ سے۔ واجب ہے کہ اس سے بچا جائے خصوصاً اس دور میں جس میں شر وفساد کی کثرت ہوگئی ہے اور ان میں کفروالحاد اپنے عروج پر ہے۔ لہذا بچنا اشد ضروری ہے الا یہ کہ کوئی علم وبصیرت والا ہو جو دعوت الی اللہ کا کام کرے، لوگوں کو خیر کی تعلیم دے، اور انہیں حق کی جانب رہنمائی کرے تو یہ معذور ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اور اپنے دین کا اظہار کررہا ہے جو کہ وہاں نافع ہے ۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کے ہاتھوں ایک جم غفیر کو ہدایت دے۔ لیکن جو جاہل ہے جس کے پاس اپنے دین کے بارے میں کوئی بصیرت نہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ بچے اور وہاں کا سفر ہرگز نہ کرے۔

جہاں تک ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر فریب کھانے کی بات ہے تو یہ بھی منجملہ ان فسادات میں سے ہے جس کے بارے میں خدشہ ہوتا ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ اسے اپنی جدید مصنوعات، ایجادات اور دیگر اشیاء کے ذریعے فریب میں مبتلا کردیں۔ اس جاہل مسکین کو کہ جو اسلام اور احکام اسلام کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں وہ تو بس بعض مسلمانوں کو ہی جانتا ہے ایسے مسلمان جن کے برے اخلاق ہیں، جھوٹ سے کام لیتے ہیں، سود کھاتے ہیں، زنا کرتے ہیں، نشہ کرتےہیں۔ ہر مسلمان اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوتا اور محرمات الہی کو ترک کرنے والا نہیں ہوتا۔ چناچہ جب یہ مسکین بلاد شرک کا سفر کرتا ہے تو ان کافروں میں سے بعض کے پاس اچھے دنیاوی ومعاشی اخلاق دیکھتا ہے اور اس سے فریب خوردہ ہوجاتاہے۔ لہذا ان کے پاس سفر کرنے اور اقامت اختیار کرنے سے بچنا ضروری ہے۔

 ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین سے جڑے، اپنے دین سے تمسک اختیار کرے، اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔اور باکثرت تلاوت قرآن اورتدبر قرآن کرے تاکہ وہ دین الہی کو سمجھ سکے۔ اسی طرح سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت صحابہ جو انبیاء کرام کے بعد بہترین لوگ ہیں سے بصیرت افروز ہو، تاکہ وہ ان کے پاک اعمال، سیرت حمیدہ اور جہاد صادق کو جانے،اور اسے یہ علم ہوجائے کہ وہ اہل خیر، بہترین نمونہ اور عظیم شخصیات تھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کے منہج پر چلنا چاہیے۔ لہذا اگر بعد میں آنے والے کچھ مسلمان ان کے بعض اخلاق کی مخالفت کریں تو ملامت صرف ان پر ہونی چاہیے جو مخالفت کرتے ہیں اور ان کے طریقے سے انحراف کرتے ہیں۔  پس اے اللہ کے بندے آپ پر واجب ہے کہ اس معروف طریقے کی پیروی کریں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا اخلاق میں، اعمال وسیرت میں۔ اور ان مسلمانوں یا دوسروں کی وجہ سے دھوکہ مت کھائیں جو ان کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سے ہی سلامتی کی سوال ہے۔

(فتاوی نور علی الدرب  18150)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے کافروں کو صدق، امانت اور حسنِ عمل کی صفات سے متصف کرنے کا حکم پوچھا گیا؟

جواب : یہ اخلاقیات جو بیان ہوئے اگر صحیح بھی ہوں یعنی واقعی ان میں ہوں ، حالانکہ ان میں جھوٹ، جعلسازی، خیانت اور چوری چکاری بعض اسلامی ممالک سے بھی بہت زیادہ ہے اور یہ بات معلوم ہے، لیکن اگر یہ اخلاقیات واقعی ان میں ہوں بھی تب بھی یہ تو وہی اخلاق ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو تو زیادہ چاہیے کہ وہ انہیں اپنائیں اور حسن اخلاق کو پانے کے ساتھ ساتھ اجر وثواب بھی حاصل کریں۔ جبکہ کافر اس کے ذریعے محض مادی امور کے طالب ہوتے ہیں پس وہ معاملات میں سچائی سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ان اخلاقیات کو اپناتا ہے تو وہ مادی امور پر ایک اضافی چیز یعنی شرعی امر کے بھی طالب ہوتےہیں جو کہ ایمان کی تکمیل اور اللہ تعالی کی جانب سے ثواب کی چاہت ہوتی ہے۔ اور یہی ایک مسلمان اور کافر میں اصل فارق ہے۔

البتہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کافر ممالک میں بڑی سچائی ہے چاہے مغرب میں ہوں یا مشرق میں  اگر یہ بات صحیح بھی ہو توبھی یہ  محض خیر کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو کہ ان کے شر ِکثیر کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اگر ان شر میں سے صرف ایک ہی ہوتا تو وہ بھی ان کے بدترین ہونے کے لیے کافی تھا اور وہ ہے ان کا تمام حقوق میں سے عظیم ترین حق کا انکار کرنا یعنی اللہ تعالی کے حق توحید کا، فرمان الہی ہے:

﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ 

(بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے)

(لقمان: 13)

پس یہ لوگ خواہ کتنے ہی خیر کے کام کرتے رہیں پھر بھی وہ ان کی برائیوں ، کفر وظلم کے سامنے کچھ نہیں اور وہ ان میں ڈھک جاتے ہیں۔  لہذا ان میں کوئی خیر نہیں۔

(مجموع الفتاوی والرسائل فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین ج 3، ص 23-24)

شیخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: بعض لوگ اس قول میں مبتلاہیں کہ کافروں کے اخلاق مسلمانوں کے اخلاق سے بہتر ہیں، ایسے کہنے سوچنے پر کیا کچھ مرتب ہوتا ہے؟

جواب: یہ مقولہ بعض لوگ بنا غوروفکر کے اور اس کے وسیع تر اثرات کی پرواہ کیے بغیر ہی کہہ دیتے ہیں۔ اور ان کا یہ قول محض بعض ظاہری باتوں کی وجہ سے جو وہ دیکھتے ہیں یا بعض تجربات جو انہیں ہوئے ہوتے ہيں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ورنہ اگر ہم حقیقت کی نگاہ سے کافروں کے اخلاق کو دیکھیں تو کیا یہ اخلاق:

اولاً: کیا تقرب الہی اور آخرت کے ثواب کی چاہت کی بنیاد پر ہوتےہيں؟ کیا وہ ان اخلاق کو اس فرمان الہی کے تحت بجالاتےہیں؟

﴿اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُوْرًا﴾ 

(ہم تو صرف لوجہ اللہ تمہیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ)

(الدھر: 9)

کیا وہ حسن اخلاق سے اس لیے پیش آتے ہیں کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہو ، ثواب کی امید میں اور جنت میں بلندئ درجات پر فائز ہونے کے لیے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:

’’بمَ يدخل الناس الجنة؟ قال: بتقوى الله وحسن الخُلُق‘‘([3])

(کن چیزوں کے سبب لوگ جنت میں جائیں گے؟ فرمایا: اللہ کے تقویٰ اور حسن اخلاق کی وجہ سے)۔

پس کیا وہ اخلاق سے ان بنیادوں کی بناء  پر پیش آتے ہیں؟ جواب: نہیں۔ جبکہ ایک مومن اخلاق سے اس لیے پیش آتا ہے اگرچہ وہ اس میں کم ہو مگر وہ ثواب الہی کی امید رکھتاہے۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔

دوسری بات: ان میں سے بہت سے کفار کے یہ اخلاق دراصل ان پابندیوں اور قوانین کی وجہ سے ہوتے ہیں جو ان کے ملکوں میں رائج ہوتےہیں جو ان پر اس قسم کے اخلاق کو لازم کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے پر سخت سزا دیتے ہیں۔ خصوصاً ان معاملات میں جو مصالحِ عامہ کو گزند پہنچائیں اور اس بارے میں وہ شدید قوانین ان کے خلاف بناتے ہیں جو ان کی مخالفت کرے۔ مثلاً ان کے اخلاق میں سے یہ ہے کہ لوگوں کے راستے میں کچرا نہ پھینکنا۔ پس بعض ممالک نے اس پر سخت جرمانہ مقرر کررکھا ہے اگر کوئی اپنے گاڑی کے شیشے سے باہر کوئی ٹشو یا کوئی بھی ایسی چیز پھینکتا ہے تو وہ اس پر بہت بڑا مالی جرمانہ عائد کرتے ہیں۔ لہذا آپ کسی کو اس عمل سے رکتا ہوا محض اس شدید سزا وجرمانے کی وجہ سے پائیں گے ۔ لیکن اس میں بہت فرق ہے کہ کوئی اس قسم کے جرمانے یا سزا سے بچنے کے لیے ایسا کام کرے اور کوئی تقرب الہی اور اللہ کے بندوں پر احسان کی نیت سے ایسا کرے۔

یہ بات بھی ہے کہ ان کا ان اچھے اخلاق سے معاملہ کرنا دنیاوی نفع ومصالح پر مبنی ہے اگر انہیں کوئی مصلحت وفائدہ نہ ملتا ہو تو وہ یہ معاملہ بھی نہ کریں۔ جب تک یہ مصلحت قائم رہے گی تو یہ معاملہ بھی بس اس وقت تک قائم رہے گا ۔ ایک جانب تو یہ ہوئی۔

دوسری جانب یہ کہ اگر آپ ان کے احوال کی صحیح معنوں میں تفتیش کریں تو پائیں گے ان کے ادیان کے فساد کی وجہ سے اخلاق میں بھی سوائے چند ایک عام مظاہر کے علاوہ فساد مرتب ہوتا ہے۔ ورنہ اگر آپ ان کے گھروں میں دیکھیں گے تو خاندانی نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ یہ لوگ خاندانی نظام کی تباہی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔آپ ان کے یہاں حسن سلوک میں سے سب سے عظیم ترین حسن سلوک نہیں پائیں گے یعنی اولاد کا والدین کے ساتھ حسن سلوک، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بس اسی حدود میں ان سےمعاملہ کرتےہیں جو ملکی قوانین اور ضوابط ان پر لاگو کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ان کے بہت سے گھروں میں جب نوجوان لڑکا یا لڑکی سولہ سال، یا سترہ سال، یا اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو گھر میں اس کے ساتھ کسی مہمان یا کرایے دار جیسا معاملہ کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ کہتےہیں بعض مائیں مہینے کے آخر میں اپنے ہی بیٹے یا بیٹی کو بل دیتی ہے ، یہ لانڈری کا بل، یہ کھانے کا بل یہ فلاں کا بل ادا کرو سب۔۔۔اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ان کے گھروں میں ہے(اسی طرح سے بھوڑے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں پھینک آنا)۔

لہذا یہ مقولہ کہنے والے نے محض چند عام مظاہر کو دیکھ کر یا بعض معاملات کا تجربہ کرکے یہ رائے قائم کرلی ہے جو کہ ان امور پر مبنی ہوتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کیے۔  بعض اوقات اچھے برے تجربے انسان کو ایسا حکم لگادینے پر ابھارتے ہیں یعنی اگرکوئی انسان کسی غیر اسلامی ملک میں گیا اور کسی ٹیکسی ڈرائیور سے اس کا معاملہ ہوا تو اس نے بڑی خوش اخلاقی اور نرمی کا مظاہرہ کیا۔ پھر وہی شخص کسی اسلامی ملک میں گیا تو ایسے ڈرائیور سے پالا پڑا جو بڑا بدمزاج اور برا تھا۔ چناچہ ان تجربات کے بعد جب آپ اس سے پوچھیں گے کہ آپ کی ان دوممالک کے بارے میں کیارائےہے؟ تو بعض اوقات کچھ لوگ محض ایک دو تجربات کی بنیاد پر اپنا مستقل نظریہ بنالیتے ہیں تو وہ کہے گا فلاں ملک والوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہيں کیا محض ایک، دو یا تین لوگوں سے معاملہ کرنے کی وجہ سے اس نے پورے ملک پر ہی عام حکم لگا دیا اور یہ بات عدل وانصاف میں سے نہیں۔ اس قسم کی باتیں کوتاہ نظر قسم کے لوگوں سے ہی صادر ہوتی ہے۔

اگر ہم ان تمام باتوں کو چھوڑ بھی دیں اور محض اخلاق کی طرف ہی واپس سے کلام کریں تو اخلاق کے باب میں بھی جو سب سے عظیم اخلاق وادب ہے وہ تو رب العالمین کے ساتھ ہونا چاہیے تو جو کوئی اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتاہے اس کا کوئی اخلاق نہیں۔ دنیا میں اس کے جو اچھے معاملات ہے اسے عنداللہ کوئی فائدہ نہيں پہنچاسکتے اگر وہ اللہ تعالی کےساتھ کفر کرتاہے:

﴿اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ 

(بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اوراس کے علاوہ جو ہے وہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا)([4])

(النساء: 48)

(انٹرنیٹ پر دستیاب ایک آڈیو بیان)


[1] صحیح ابی داود 2645 کے الفاظ ہیں: ’’أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا‘‘ (مترجم)

[2] صحیح ابی داود 2787 کے الفاظ یہ ہیں : ’’مَنْ جَامَعَ المُشْرِكَ، وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ‘‘ (مترجم)

[3] صحیح ابن ماجہ 3443 کے الفاظ ہیں:

’’سُئِلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ:  التَّقْوَى وَحُسْنُ الْخُلُقِ، وَسُئِلَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ؟ قَالَ: الْأَجْوَفَانِ: الْفَمُ وَالْفَرْجُ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ کن چیزوں کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا؟ فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق۔ اور پوچھا گیا سب سے زیادہ جہنم میں داخلہ کن چیزوں کی وجہ سے ہوگا؟ فرمایا: جو کھوکھلی چیزیں: منہ اور شرمگاہ۔

(مترجم)

[4] اس قسم کا مقولہ کہنے والوں کو اس آیت سے بھی ڈرنا چاہیے:

﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰٓؤُلَاءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا، اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰهُ ۭ وَمَنْ يَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِيْرًا﴾

(کیا آپ  نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں، یہی لو گ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے پھر آپ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہر گز نہ پائیں گے)۔

(النساء: 51-52)

اور یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی غور طلب ہے کہ فرمایا: :

’’الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘ (صحیح ترمذی 2507)

(وہ مسلمان جو (مسلمان) لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ ان کے ساتھ مل کررہتا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے)

اور فرمایا:

’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘ (صحیح ابن ماجہ 3273)

(وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے زیادہ عظیم اجر کا مستحق ہے اس مومن کی نسبت جو نہ ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتاہے)۔

(مترجم)

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*