
Ruling regarding calling a Christian “my Christian brother”?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کافر مسلمان کا کبھی بھی بھائی نہیں ہوتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10)
(مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ‘‘[1]
(مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے)۔
لہذا کافر چاہے یہودی ہو، یا نصرانی، بت پرست، مجوسی، کمیونسٹ وغیرہ مسلمان کا بھائی نہیں ہوتا، جائز نہیں کہ اسے اپنا یار و دوست بنایا جائے۔
(فتاوی شیخ ابن باز 6/392)
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کافر کو’’بھائی‘‘ کہنا کیسا ہے؟
شیخ رحمہ اللہ نے جواب ارشاد فرمایا کہ:
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافر کو چاہے کسی بھی نوعیت کا کافر ہو خواہ نصرانی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا ملحد، قطعاًجائز نہیں کہ اسے اپنا بھائی کہے۔ اے بھائی! تمہیں اس قسم کی عبارت استعمال کرنے سے خبردار رہنا چاہیے، کیونکہ کبھی بھی ایک مسلمان اور کافر میں اخوت (بھائی چارگی) نہیں ہوسکتی۔ اخوت تو دراصل ایمانی اخوت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10)
(مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)
(مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین 3/43)
سوال: بعض فضائی چینلوں پر ایسے بھی (مسلمان کہلانے والے داعی وغیرہ) لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ بے شک یہود و نصاریٰ ہمارے ایمان میں بھائی ہيں، ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح سے وہ کافر ہوجاتے ہیں؟
جواب از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:
جو یہ کہے کہ بے شک یہود و نصاریٰ ہمارے بھائی ہیں تو اس وجہ سے وہ کافر ہوجائيں گے۔ الا یہ کہ ایسا کہنے والا جاہل ہو تو پھر اس کے سامنے وضاحت کی جائے گی۔ لیکن اگر وہ اس کے باوجود مصر رہتا ہے تو پھر اس پر کفر کا حکم لگے گا۔ البتہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالی بھی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔
(شرح نواقض الاسلام [تیسرا ناقض ] – سوال و جواب)
[فطری محبت جیسے اہل کتاب بیوی سے، یا کافر والدین یا اولاد سے قابل مذمت نہيں، البتہ دلی اور ان کے دین کی وجہ سے محبت منع ہے بلکہ نواقض اسلام میں سے ہے]