عظیم تر دعوتی مصلحت کی خاطر بعض سنتوں کو وقتی طور پر چھوڑا جاسکتا ہے

Few Sunnah acts may be left out Temporarily for the sake of the Greater Benefit of Dawah

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ ایک داعی و طالب علم کے کچھ آداب ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ شریعت کے تقاضے کے مطابق تمام مسائل کو اپنی جگہ پر رکھنا چاہیے جیسے واجبات، محرمات، مستحبات ومکروہات وغیرہ اسی طرح سے  ایسے مسائل جن میں سنت ظاہر و مشہور ہوتی ہے، اور ایسے مسائل جن میں سنت کچھ مخفی ہوتی ہے، جس میں لوگ وہ  چیز لیتے ہيں کہ جو ان کی بہتری کا سبب بنے ناکہ تفرقے کا۔

اس کی مثال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ داعیان میں سے کسی نے  دادا محترم شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ (سابق مفتئ اعظم سعودی عرب) کی جانب ایک خط لکھا، جس میں یہ بات تھی کہ:

میں ہندوستان دعوت کے لیے جارہا ہوں، اور وہاں اگر لوگ مجھے (نماز میں) آمین بالجہر اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ (رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے) رفع الیدین  کرتے ہوئے، اسی طرح سے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھتے دیکھیں گے تو کہیں گے: یہ وہابی ہے، اور ہوسکتا ہے پھر وہ میری کوئی بات ہی نہ سنیں، اور ہوسکتا ہے اپنے مسجد میں مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہی نہ دیں۔

تو سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا جواب تھا:

بلاشبہ اگر آپ کو ان کے درمیان ان سنتوں کے ترک کرنے پر توحید کی جانب اور دیگر بڑی سنتوں کی جانب دعوت دینے کی امید ہےتو پھر آپ پر واجب ہے کہ ان سنتوں کو اس چیز کے لیے جو زیادہ واجب تر ہیں ترک کردیں۔لیکن اگر یہ امید نہ ہو تو پھر سنت کو نہ چھوڑیں۔

(الطریق الی النبوغ العلمی ص 90-91)

سوال: کیا نماز میں آمین بالجہر اور رفع الیدین کو ترک کیا جاسکتا ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

جی اگر کوئی ایسے لوگوں کے درمیان ہو جو رفع الیدین نہیں کرتے اور نہ ہی آمین بالجہر کرتے ہیں تو اولیٰ یہی ہے کہ وہ ان کی تالیف قلب کی خاطر ایسا کرے ، تاکہ اسے ان کو خیر کی طرف بلانے، تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے کا موقع مل سکے، اور تاکہ وہ ان کے مابین اصلاح کرپائے۔

کیونکہ بے شک اگر وہ ان چیزوں میں ان سے الگ عمل کرے گا تو وہ اسے معیوب جانیں گے، کیونکہ وہ  تو اسے ہی دین سمجھتے رہے ہیں، ان کے نزدیک تو تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنا ہی دین ہے، اور اپنے علماء کے ساتھ اسی طور پر وہ جیتے آئے ہیں۔ اسی طرح سے آمین بالجہر کو ترک کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں بھی اہل علم میں اختلاف مشہور ہے، بعض ان میں سے جہرا ً کہنے کے قائل ہیں تو بعض کہتے ہيں جہراً آمین نہ کہا جائے۔ کیونکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی آواز کو بلند فرماتے اور بعض میں آیا ہے کہ پست فرماتے۔ اگرچہ صواب بات یہی ہے کہ آمین جہرا ً کہنا ہی مستحب ہے۔

اور ایک داعی الی اللہ انہیں ترک اس صورت میں کرتا ہے جب اس کے نتیجے میں اس سے بڑھ کر عظیم ترین مصلحتیں حاصل ہوں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبۃ اللہ کو منہدم کرکے اسے پھر سے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے طرز پر بنانے کے معاملے کوترک فرمادیا[1]، اور فرمایا چونکہ قریش ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے ہيں (ان کے لیے یہ کسی فتنے کاباعث نہ بن جائے) لہذا اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا، اور مصلحت عامہ کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس سنت کی خواہش ہونے کے باوجود) اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔

(شیخ کی ویب سائٹ سے ’’حكم ترك الجهر بالتأمين في الصلاة‘‘ – من أسئلة الحج، الشريط الثاني)


[1] صحیح بخاری 1584، صحیح مسلم 1336۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی