کیا ہر وہ شخص جو بدعت میں واقع  ہو بدعتی کہلائے گا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Is anyone who involved in innovation (Bidah) an innovator?

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

پس تکفیر کا حکم شخصیات کے اختلاف کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، لہذا ہر غلطی کرنا والا بدعتی نہیں ہوتا، نہ ہی جاہل، اور نہ ہی ہر گمراہ کافر ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق اور نافرمان تک نہيں ہوتا۔

[مجموع الفتاوى-  12/180]

گمراہی یعنی صحیح راہ کو نہ پانے سے ہمیشہ بدعتی ہونا لازم نہیں آتا۔ اس تعلق سے فرماتے ہیں:

بسا اوقات حق سے  گمراہ وہ شخص بھی ہوجاتا ہے جو حق کا قصد رکھتا تھا اور اس کی طلب میں اس نے اجتہاد و کوشش کی لیکن عاجز ہوگیا تو اس کی پکڑ نہیں۔ اس نے بعض وہ کام تو بہرحال کیے جن پر وہ مامور تھا تو اسے اس کے اجتہاد کا اجر ملے گا، اور اس کی غلطی جس میں وہ اس معاملے کی حقیقت کے تعلق سے صحیح راہ نہ پاسکا کو اس کے لیے بخش دیا جائے گا۔

کتنے ہی سلف و خلف کے مجتہدین ایسی بات کہہ چکے ہيں یا ایسے کام کرچکے ہيں کہ جو بدعت ہوتے ہیں  لیکن انہیں علم نہ تھا کہ یہ بدعت ہیں، کسی ضعیف حدیث کی وجہ سے کہ جسے وہ صحیح سمجھ بیٹھے تھے، یا ایسی آیات کے جن سے وہ مفہوم لے بیٹھے جو ان سے مراد نہ تھا، یا کسی رائے کی وجہ سے جو وہ رکھتے تھے، یا اس مسئلے میں جو نصوص تھے وہ ان تک نہ پہنچے۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنے رب سے استطاعت بھر ڈرتا ہے تو وہ  اللہ کے اس فرمان میں داخل ہے:

﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ:286)

(اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے غلطی ہو جائے)

اور الصحیح میں روایت ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

’’قَدْ فَعَلْتُ “[1]

 (میں نے ایسا کردیا)۔

[مجموع الفتاوی ج 19 ص 191-192]

اس بارے میں تو شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  کی باقاعدہ مشہور و معروف کتاب بھی ہے ’’رفع الملام عن الأئمة الأعلام“۔

اس کے علاوہ شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  کا اس بارے میں بہت سا کلام موجود ہے جو اہل سنت کے اصولوں پرمبنی ہے، اگر اس تعلق سے کہیں اشکال ہو تو اسے ان کے اصولوں کی جانب لوٹا کر دیکھنا چاہیے۔ آپ  رحمہ اللہ  کا کلام بہت تفصیلی اور مختلف زاویوں سے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے بعض کوتاہ فہم  یہاں وہاں سے ماخوذ کچھ عبارتوں سے شیخ  رحمہ اللہ  کے اصولوں کے خلاف کوئی عقیدہ و منہج و مسئلہ ثابت کرنے اور ان پر تہمت لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علماء کرام نے تو خود شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  کی کتب پڑھنے کے متعلق ضوابط تک ذکر کیے ہیں جیسے شیخ صالح آل الشیخ  حفظہ اللہ  کا محاضرہ ’’ كيف تقرأ كتب شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى“۔ اسی طرح سے خصوصاً شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  کے نزدیک اہل بدعت و گمراہی پر حکم اور فعل و فاعل کی تفریق کے تعلق سے  لکھا گیا ہے جیسے کتاب’’أصول الحكم على المبتدعة عند شيخ الإسلام ابن تيمية“۔

جانتے بوجھتے بدعات پر عمل پیرا لوگوں کے متعلق شیخ ابن باز  رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا:

سوال: کیا ہر وہ شخص جو بدعت پر عمل پیرا ہو بدعتی کہلائے گا، اور کب کسی شخص پر بدعتی ہونے کے لفظ کا  اطلاق کیا جائے گا؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

اصل تو یہی ہے کہ  جو کوئی بھی بدعت پر عمل کرے اسے بدعتی کہا جائے گا، یہی اصل ہے۔ جو کوئی بدعت پر عمل کرے اسے بدعتی کہا جائے گا۔ لیکن اگر وہ جاہل ہو تو اسے تعلیم دی جائے، پس جب وہ اس سے تائب ہوجائے گا تو بدعتی نہیں کہلائے گا۔ البتہ اگر اس پر مصر رہا تو اپنی بدعت کے اعتبار سے بدعتی کہلائے ۔ جو کوئی جشن عید میلاد  یا اس کے علاوہ جتنے عرس برسیاں  سالگراہیں منائی جاتی ہيں ان پر مصر رہے  تو وہ بدعتی کہلائے گا یہاں تک کہ توبہ کرلے۔

اسی طرح جو  قبروں پر تعمیرات، وہاں نماز پڑھنا اور مساجد بنانے پر مصر ہو، یا اس پر کتب پڑھتا ہو تو وہ بدعتی کہلائے گا۔

لہذا یہ اسی طرح ہے کہ  جو کوئی بدعت کرے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے تو وہ بدعتی کہلائے گا۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُور، فَإِنّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ‘‘[2]

 (دین میں نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ بے شک ہر بدعت گمراہی ہے)۔

اور ایک صحیح حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے خطبۂ جمعہ میں فرمایا کہ:

’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كَلَامُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘[3]

(اما بعد: سب سے بہترین بات اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، اور سب سے بہترین ہدایت  محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہدایت ہے، اور سب سے بدترین کام (دین میں ) نئے نکالے گئے کام ہیں، اور ہر نیا کام (دین میں)  بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے )۔

اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘[4]

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔

پس ایک مسلمان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی بجاآوری کرتا ہے اور اسی عمل کی تائید کرتا ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہو، اور بدعات سے پرہیز کرتا ہے۔ اور بدعت والے لوگوں کو بدعتی ہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے حضور تائب ہوں۔ اور اگر کوئی جاہل ہے تو اسے تعلیم دی جائے اور جو توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔

(متى يطلق على الشخص أنه مبتدعا؟)

اور مختلف شرعی عذر  کے پیش نظر غیر ارادی طور پر جو غلطی و بدعت میں واقع ہوتے ہيں ان کے متعلق علماء کرام کے بعض اقوال:

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  شیخ البانی  رحمہ اللہ  کی کتاب ”فتنۂ تکفیر“ پر تعلیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کبھی کوئی نص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فلاں عمل  یا فلاں قول کفر ہے لیکن ساتھ ہی کوئی ایسا مانع موجود ہوسکتا ہے جو اس شخص معین پر کفر کے اطلاق کی راہ میں مانع ہو۔ اور موانع تو بہت سے ہو سکتے ظن یعنی جہل اور جذبات کا غلبہ وغیرہ۔

مثال کے طور پر وہ شخص جس نے اپنے گھر والوں کو کہا کہ: ’’جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا اورمیری راکھ کوریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہا دینا کیونکہ اگر اللہ تعالی نےمجھ پر قابو پالیا تو ایسا عذاب کرے گا جو سارے جہان میں سے کسی کو نہیں دیگا‘‘۔ اس حدیث کو بخاری 3478 ومسلم 2759 نے ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے۔ اب اگردیکھا جائے تو اس شخص کا ظاہر عقیدہ تو کفر اور اللہ کی قدرت کاملہ پر شک کرنے پر مبنی تھا لیکن جب اللہ تعالی نے اس کی راکھ کو جمع کرکے زندہ سالم کھڑا کردیا اور مخاطب ہوا تو اس شخص نے کہا:

’’اے میرے رب میں تجھ سے ڈر گیا تھا‘‘۔

یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا اوراللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ گویا کہ اس کا یہ فعل اس سے تأویلاً صادر ہوا۔ (یعنی اس کی یہ مراد ومقصود نہ تھا)۔

اسی کی مانند اس شخص کا قصہ جس کے خوشی کے جذبات اس پر غالب آگئے اور وہ اپنی اونٹنی کو پکڑتے ہی پکار اٹھا:

’’اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ‘‘ [5]

 (اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب!!)۔

 اسے بھی بخاری ومسلم نے انس رضی اللہ عنہ   سے روایت کیا ہے۔

بےشک یہ تو ایک کلمہ کفر ہے مگر کیا اس شخص کی اس بنا پر تکفیر کی گئی؟ کیونکہ وہ تو اپنی شدت خوشی میں اپنے آپے سے باہر ہوگیا اور اس شدت جذبات کی رو میں بہہ کر اس سے اس صحیح کلمے کی ادائیگی میں خطا ہوگئی۔ یعنی وہ کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ اے اللہ! میں تیرا بندہ اورتو میرا رب لیکن کہہ یہ گیا کہ اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔

اسی طرح سے وہ شخص جسے کفر پر مجبور کیا جائے اوروہ حالت اکراہ میں کلمہ کفر کہہ دے یا کسی کفریہ فعل کا ارتکاب کرلے تو نص قرآنی(النحل: 106)  اس بات پر شاہد ہے کہ وہ کافر نہیں کیونکہ اس میں اس کا اپنا ارادہ واختیار شامل نہیں تھا۔

[تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری کتاب ’’فتنۂ تکفیر‘‘ از علامہ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ ]

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمہ اللہ  کا خصوصی طور پراس تعلق سے کلا م مشہور ہے اور آپ خود فرماتے ہیں کہ لوگ جانتے ہيں میں بدعت میں واقع ہوجانے اور بدعتی میں اسی طرح کفر میں واقع ہوجانے اور کافر میں فرق کرتا ہوں۔ اور اس اصول کو بارہا ذکر فرماتے ہیں کہ:

’’ليس كل من وقع في البدعة وقعت البدعة عليه‘‘

(ہر وہ شخص جو بدعت میں واقع ہو لازمی نہيں کہ اس پر بدعتی کا نام لگے)۔

اسی طرح سے فقہی مسائل میں کسی مجتہد کی غلطی پر اسے اجر تو بہرحال ملے گا۔ عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ‘‘[6]

(اگر کوئی حاکم فیصلہ کرتا ہے اور اجتہاد کرتا ہے پھر صواب کو پہنچتا ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور اگر فیصلہ کرتا ہے اور خطاء کرجاتا ہے تو اس کے لیے ایک اجر ہے)۔

 البتہ جب ہمارے نزدیک وہ کام ثابت نہ ہو تو کام بدعت کہلایا  جائے گا لیکن وہ شخص بدعتی نہیں کہلایا جائے بلکہ عالم و مجتہد ہونے کی صورت میں ایک ثواب حاصل کرے گا۔ جس کی مثالیں سلف صالحین سے بہت سے ملتی ہیں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم   تک سے۔

پھر شیخ  رحمہ اللہ  نے کچھ مثالیں بھی بیان فرمائيں۔ جیسے عثمان  رضی اللہ عنہ  کا بغیر انزال کے جماع پر غسل کو واجب نہ سمجھنا۔

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کا اس بارے میں جو رسالہ ہے ” رفع الملام عن الأئمة الأعلام “ اس کا بھی حوالہ دیا، جس میں وہ سب اصول اور مثالیں  مل جائيں گی۔

اسی وجہ سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو جو شیخ البانی  رحمہ اللہ  نے بدعت کہا ہے، اس کا ان کے نزدیک ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو علماء و مجتہدین اس کے قائل ہيں انہیں وہ بدعتی سمجھتے ہيں، اسی کی وضاحت میں شیخ نے یہ جواب ارشاد فرمایا جس کا کچھ خلاصہ یہاں پیش کیا گیا۔ اور کچھ آگے آئے گا ان شاء اللہ۔

[سلسلۃ الھدی والنور 233]

اسی طرح شیخ کا کلام ”من هو المبتدع ومن هو الكافر“  (بدعتی کون ہے؟ اور کافر کون ہے) کو کیسٹ رقم 666 میں سنا جاسکتا ہے۔

شیخ  رحمہ اللہ  کا کلام مختصرا ً یہ ہے کہ:

جب اللہ کی حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال کرنا یعنی تحلیل و تحریم ایک مستقل کفر اور اللہ کے ساتھ شریعت سازی میں شریک بننا ہے، لیکن ایک مجتہد عالم کو کسی دلیل کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کسی کوشش و اجتہاد کے باوجود فتویٰ پر  بھی ایک اجر ملتا ہے اور غلطی معاف ہوتی ہے، اور اس پر یہ حکم نہیں لگتا، البتہ ان لوگوں پر جن پر بعد ازیں یہ غلطی واضح ہو پیروی کرنا حرام ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی عالم کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے اس پر  بدعتی ہونے کا حکم نہيں لگتا۔ البتہ جن پر بعدازیں آشکارا ہو کہ یہ عمل سنت سے ثابت نہيں نیا اور بدعت ہے تو وہ اس عمل کو یہی حکم دیں گے اور اس میں پیروی نہيں کریں گے۔

[سنیں سلسلۃ الھدی والنور 233]

بدعتی کون ہے؟

جواب از شیخ البانی  رحمہ اللہ :

جب میں نے ابھی یہ بات واضح کی کہ ایک عالم کا بدعت میں واقع ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بدعتی ہے، اسی طرح سے ایک عالم کا کسی حرام کام کا مرتکب ہونا یعنی ظاہر ہے میرا مقصد ہے یہاں وہاں محنت و اجتہاد کرنے کے باوجود کسی حرام قول کی اباحت کا قائل ہونا، لہذا میرا یہ مطلب نہيں کہ اس نے (جانتے بوجھتے) حرام کام کیا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں جو ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا اثر ہے کہ جس میں واضح طور پر ہے کہ آپ جمعہ کے دن نماز سے  پہلے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے، تو یہ ایک مناسب مثال بن سکتی ہے اس بات کی کہ ایک عالم شخص سے ایک بدعت واقع ہوئی حالانکہ اس کے باوجود وہ بدعتی نہيں۔

اس سے پہلے کہ ہم جواب کے مزید اندر جاکر اسے مکمل کریں میں کہتا ہوں کہ بدعتی وہ ہوتا ہے کہ:

1- جس کی عادت ہو دین میں بدعات ایجاد کرنا، ناکہ وہ جس سے کوئی ایک بدعت سرزد ہوجائے، جو کہ اجتہاد سے ہونا تو دور کی بات خواہ ہوائے نفس کی وجہ تک سے ہو اس کے باوجود وہ باقاعدہ بدعتی نہيں کہلاتا۔  اس کی واضح ترین مثال وہ ظالم حاکم ہے جو اپنے بعض احکام میں  عدل و انصاف کرجاتا ہے تو اسے عادل نہیں کہا جاتا، اسی طرح اگر ایک عادل حاکم کبھی اپنے بعض احکام میں ظلم کرجاتا ہے تو اسے ظالم نہيں کہا جاتا۔ اس سے اسلامی فقہی قاعدے کی مزید تاکید ہوتی ہے وہ یہ کہ: بے شک ایک انسان کا حکم اس پر غالب خیر یا شر کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ جب ہم نے اس حقیقت کو جان لیا تو ہم جان لیں گے کہ بدعتی کون ہوتا ہے۔

چنانچہ باقاعدہ بدعتی ہونے کے لیے  دو شرائط ہیں:

1- وہ مجتہد نہ ہو بلکہ محض اپنی ہوائے نفس کا پیروکار ہو۔

2- یہ اس کی باقاعدہ عادت اور وطیرہ ہو۔

پس ہم ان  دو شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے واپس سے ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے اس اثر کی طرف آتے ہيں کہ یہ دونوں شرائط ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  میں عدم دستیاب ہیں۔ لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ ہاں یہ بدعت ہے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے اور عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ لیکن ہم ہرگز یہ نہيں کہتے کہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  بدعتی ہیں۔

تو یہ اصول ہمارے بہت سے اہل سنت بھائیوں کے ذہن سے غائب رہتا ہے۔۔۔جب وہ مجھے انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس بات پرکہ  میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھ کر رکوع کے بعد والے قیام میں کھڑے ہونے کو  بدعت کہتا ہوں۔ تو وہ حیران ہوجاتے ہيں آپ کیسے اسے بدعت کہتے ہیں جبکہ فلاں فلاں شیخ فرماتے ہیں یہ سنت ہے، اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ فلاں شیخ بدعتی ہیں۔

تو آپ نے ابھی اس کا جواب جان لیا ، کہ یقیناً وہ بدعتی نہيں ہیں، لیکن کم از کم یہ فعل میری نقد اور نکتۂ نظر کے مطابق بدعت ہے۔

اب ہم ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے اثر کی طرف واپس لوٹتے ہيں اس نص میں کوئی ایسی بات نہيں جس سے یہ محسوس ہو، دلالت تو دور کی بات ہے، کہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی یہ مستقل عادت اور اوڑھنا بچھونا تھا، جیسے خطیب بروز جمعہ خطبہ دیتے ہیں، یا جیسے آجکل  مدرسین جمعہ کے دن نماز سے پہلے درس دیتے ہيں، اس اثر میں کوئی دلالت نہيں کہ ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے اسے عادت بنالیا ہو، بلکہ میرا تو ظن غالب ہے کہ وہ تب ہی ایسا کرتے ہوں گے جب دیکھتے ہوں گے کہ کسی عارضی بات کی وجہ سے اسی وقت لوگوں کو وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے، جیسا کہ آج بھی آپ دیکھتے ہيں کہ ہمارے خطیب ابو مالک بھائی جزاہ اللہ خیراً بہت سے مواقع پر  نماز کے بعد کچھ نہیں بولتے، لیکن کئی ایک بار انہیں بولنا پڑتا ہے اور لوگوں کو صدقے کی ترغیب دیتے ہیں یا بعض نکات جو خطبے میں رہ گئے تھے انہيں بیان کردیتے ہیں۔

تو یہ ایک عارضی بات ہے جسے نہيں کہا جاسکتا کہ انہوں نے کوئی بدعت ایجاد کی ہے۔ لہذا یہ تمام باتیں ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے اثر پر بھی  وارد ہوتی ہیں۔ اور اگر ہم تصور کریں کہ یہ وعظ و نصیحت  پابندی سے ہوا کرتا تھا جیسا کہ آجکل لوگ کرتے ہيں  تو پھر بلاشک و شبہہ یہ بدعت تو ہوگا لیکن  آپ کو اہل علم کی یہ وضاحت سننی چاہیے کہ وہ کہتے ہيں  کہ صحابی کا قول یا فعل حجت ہے اگر اس کا کوئی معارض نہ ہو، لیکن یہاں تو بہت سے معارضین موجود ہيں۔

کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم   جب جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوتے تو جس قدر ہوتا رکعات پڑھتے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض کے متعلق مروی ہے کہ وہ آٹھ رکعات تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ کیونکہ اسی بات کا احادیث صحیحہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اور ترغیب دی  جیسا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ من غسل يوم الجمعة واغتسل وبكر وابتكر ثم دنا من الإمام وصلى ما كتب الله له‘‘ [7]

(جس نے جمعہ کے دن غسل کیا ، اور خوب اچھی طرح سے کیا (یا محنت کے ساتھ سر بھی دھویا، یا اپنی بیوی  سے مباشرت کرنے کی وجہ سے اسے بھی غسل کروایا)، اور جلدی آیا ، پھر امام سے قریب ہوکر بیٹھا اور جتنی اللہ تعالی نے اس کے لیے لکھ دی تھیں نماز پڑھی)۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’ما قدر له إلا غفر الله له ما بينه وبين الجمعة التي تليها‘‘[8]

(جتنی اس کے لیے (اللہ تعالی  کی طرف سے) مقدر ہوئيں (نماز پڑھی) مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کے لیے اس جمعہ اور آنے والے جمعے تک  کے گناہ بخش دیتا ہے)۔

چنانچہ جمعہ کے دن خطبے سے پہلے مسجد ذاتی عبادت کی مجلس ہوتی ہے۔ جو بھی آئے ضروری ہے کہ  تحیۃ المسجد پڑھے اور جتنی چاہے نمازیں پڑھے جیسا کہ ہم نے بعض صحابہ کے “جس قدر اللہ نے ان کے لیے لکھا ہو اتنے نوافل کا ذکر کا”، یا پھر بیٹھ کر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام پڑھا جائے، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس بات کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے:

’’أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة فإن صلاتكم تبلغني قالوا كيف ذلك وقد أرمت قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء“[9]

(مجھ پر جمعہ کے دن باکثرت درود بھیجا کرو   کیونکہ تمہارا درود  مجھے پہنچایا جاتا ہے، انہوں نے کہا: ایسا کیسے ہوگا جبکہ آپ کی ہڈیاں تو مٹی ہوچکی ہوں گی۔ فرمایا: بے شک اللہ عزوجل نے تحقیق زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء  کرام کے جسموں کو کھائے)۔

یا بیٹھ کر سورۃ الکھف پڑھے یہ بھی سنت سے ثابت ہے جیسا کہ معلوم ہے۔

لہذا جمعہ کے دن خطیب کے خطبے سے پہلے مسجد میں جو مجلس ہے وہ انفرادی  ذکر کی مجلس ہے۔ ایک نماز پڑھ رہا ہے تو دوسرا قرآن پڑھ رہا ہے، اور کوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود بھیج رہا ہے۔ اب جو کھڑے ہوکر لوگوں کو وعظ ونصیحت شروع کردے تو وہ ان لوگوں کی توجہ منتشر کرنے اور تشویش پیدا کرنے کا سبب بنے گا، اور بلاشبہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ بلکہ نبی  حفظہ اللہ  کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ:

’’يا أيها الناس كلكم يناجي ربه فلا يجهر بعضكم على بعض بالقراءة “[10]

(اے لوگو! تم میں سے ہر کوئی اپنے رب سے مناجات کررہا ہوتا ہے لہذا ایک دوسرے  کو بلند آواز میں قرأت کے ذریعے تشویش کا شکار نہ کرو )۔

شاہد یہ ہے کہ تدریس یا وعظ و نصیحت خطبۂ جمعہ سے پہلے کرنے میں ان نمازیوں کو تشویش میں مبتلا کرنا ہے۔ ہاں کوئی شخص آتا ہے اس حال میں کہ خطیب خطبہ دے رہا ہو تو اسے دو رکعات پڑھ کر بیٹھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اور کوئی خطبے سے پہلے آجاتا ہے تو وہ یہاں وہاں جتنی چاہے نوافل پڑھ لے۔ البتہ جو دین میں نئی ایجاد کرتے ہوئے درس تدریس شروع کردیتا ہے تو یہ ان نمازیوں کے لیے تشویش کا سبب بنتا ہے۔

پس ہم کہتے ہيں کہ ہم ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے  اثر کے متعلق اسی قاعدے کو لاگو کریں گے جو ابھی میں نے ابو طلحہ بھائی کے سامنے بیان کیا اور بعض دیگر مناسبات پر کہ: اپنے بھائی کے لیے عذر پیش کرو۔ چنانچہ ہم صحابہ کے حافظ بلکہ حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حافظ ترین صحابی ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے لیے عذر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس وقت عارضی طور پر کوئی ضرورت پیش آئی ہو۔۔۔ یہ ان کا لازمی اور پابندی کے ساتھ طریقہ نہيں تھا، ضرور ایسا ہی ہوگا۔

اور اگر ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کے راستے بند ہوجائيں تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ ان کی اپنی رائے تھی جس میں ہم ان کی پیروی نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے ایک اور عمل کے بالکل مشابہہ لگتا ہے  کہ آپ  رضی اللہ عنہ  وضوء کرتے ہوئے  ہاتھ دھوتے ہوئے پانی کو بغلوں تک لے جاتے تھے اور پیر دھوتے ہوئے پنڈلیوں تک، تو وہ بھی ان کی رائے تھی، بلکہ وہ تو کوشش کرتے تھے کہ چھپ کر ایسا کریں یہاں تک کہ جب ان سے ایک شخص نے اس کے بارے میں پوچھا جو ان کا پیچھا کرکے دیکھ رہا تھا، تو انہوں نے فرمایا: کیا تو یہاں موجود تھا مجھے نہيں پتہ تھا کہ تو میرا پیچھا کرکے دیکھ رہا ہے۔   الغرض رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں وضوء کی ایسی تعلیم نہيں دی اور یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے میں سے نہيں کہ آپ اس قدر مبالغہ کرتے ہوں، لیکن یہ بہرحال ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہے صحیح مسلم وغیرہ میں، تو ہم ان کی اس میں پیروی نہیں کرتے، یہ نہيں کہتے کہ انہوں نے بدعت ایجاد کی کیونکہ اس میں وہ دونوں شرطیں نہیں پائی جاتیں جو ابھی ہم نے بیان کی تھیں کہ:

1- اس شخص کی عادت میں سے ہو دین میں بدعات ایجاد کرنا۔

2- اور وہ کوئی عالم مجتہد نہ ہو۔

تو یہ تھا جواب اس اثر کے متعلق اور امید ہے کہ یہ واضح ہوگا ان شاء اللہ۔

[سلسلۃ الھدی والنور 786]

سوال:  الحداد کی فکر سے متاثر بعض ایسے بھی ہيں جو کہتے ہيں کہ آپ ان کی اس قول میں تائید کرتے ہيں کہ: جو کوئی بھی بدعت میں واقع ہو تو وہ بدعتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ آپ نے یہ بات اپنی کیسٹ ” أسئلة شباب شبوه“  میں کہی ہے، آپ اس بارے میں کیا فرمائيں گے؟

جواب از شیخ مقبل بن ہادی الوادعی  رحمہ اللہ :

ہم جو بات کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ: بلاشبہ کوئی سنی شخص اگر اس سے کوئی بدعت واقع ہوجاتی ہے، تو ہم اس عمل پر تو حکم لگاتے ہيں کہ بے شک یہ بدعت ہے، البتہ جو شخص ہے اس پر ہم یہ حکم نہیں لگاسکتے کہ وہ بھی لازماً بدعتی ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ: وہ اس کے فضائل میں ڈھک جائے گی جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے جمعہ کے روز (جب دور عثمانی میں دو اذانیں مکرر کی گئی تھیں) پہلی اذان کو بدعت کہا لیکن یہ نہيں فرمایا کہ عثمان  رضی اللہ عنہ  بھی بدعتی ہیں۔

ہاں جو بالکل بدعات میں غرق ہو، میلادیں مناتا ہو، اسی طرح سے نماز کے بعد بدعتی اذکار کرتا ہو، اور سنت کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہو تو ہم اسے بدعتی کہیں گے،  ایسوں کی کوئی عزت و کرامت نہیں۔

چنانچہ ان کی بات درست نہيں ہے۔ ہوسکتا ہے ان کی بات البیضانی کی کتاب کی طرح ہو جس کا حال یہ تھا، جیسا کہ شاعر نے کہا:

دع المساجد للعمّـــــار تعمـــرها واعمد بنا حانة الخمار يسقيـــــــنا

مـا قـال ربـك ويـل للأولى سكروا إنما قــال ويــل للمصليــــــــــــنا

تو اس شاعر نے بھی ” فويل للمصلين “   اچک لیا، اور جو اس سے پہلے اور بعد میں تھا وہ ذکر ہی نہيں کیا۔ البیضانی کی کتاب بھی اسی کے مشابہہ ہے، کہ بس ایک بات اس کے آگے پیچھے کا کلام  ذکر کیے بغیر اچک لی، اور یہی حال اصحاب اہواء کا ہوتا ہے۔

اور کیا ہی خوب فرمایا وکیع بن الجراح  رحمہ اللہ  نے کہ:

اہل سنت تمام باتیں (عدل و انصاف سے) ذکر کرتے ہیں جو ان کے حق میں ہوں یا خلاف، لیکن اہل بدعت صرف وہی باتیں ذکر کرتے ہيں جو ان کے حق میں ہوں۔

[کیسٹ  أسئلة أهل تهامة سے]

اس بارے میں ہماری ویب سائٹ پر شیخ صالح الفوزان  حفظہ اللہ  کی کتاب ”تبدیع، تفسیق اور تکفیر کے مظاہر اور ان کے ضوابط“ کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔

سوال:کیا ہر وہ شخص جو بدعت میں مبتلا ہو بدعتی ہے؟

جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی  حفظہ اللہ :

جو کوئی ایسی بدعت میں مبتلا ہو جو بالکل ظاہر اور واضح ہے  جیسا خلق قرآن کا قول، یا غیراللہ کو پکارنا یا غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا یا اس جیسے دیگر واضح امور تو وہ ایک ہی بدعت سے بدعتی بن جائے گا۔

لیکن اگر بدعت کچھ مخفی امور میں سے ہو اور اس میں وہ شخص مبتلا ہوجائے جو حق بات کی جستجو میں تھا لیکن اس سے غلطی ہوگئی تو اسے پہلے پہل ہی بدعتی قرار نہيں دیا جائے گا، بلکہ اسے نصیحت کی جائے گی اور اس کی غلطی کی اس کے سامنے وضاحت کی جائے گی ، البتہ  اگر وہ اس پر مصر رہتا ہے تو پھر اسے بدعتی قرار دیا جائے گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

بہت سے علماء سلف  و خلف بدعت میں لاشعوری طور پر واقع ہوئے، یا تو کسی ضعیف حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے، یافہم نصوص میں  اللہ کی مراد سے کچھ ہٹ کر سمجھ بیٹھے، یا انہوں نے اجتہاد کیا۔

 پس اگر کسی عالم فاضل کے بارے میں یہ جانی پہچانی بات ہو  کہ وہ بدعات کے خلاف لڑتا ہے اور سنت کی طرف دعوت دیتا ہے، اس کی سچائی و اخلاص اور بدعات سے خبردار کرنا بھی معلوم و معروف  ہو  لیکن  اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے وہ قدرے مخفی بدعات میں سے کسی چیز میں واقع ہوجاتا ہے  تو ہم اس کی تبدیع (بدعتی قرار دینے) میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے۔ یہی صحیح قول ہے ورنہ  اگر ہم ہر اس شخص پر جو کسی بدعت میں واقع ہوجائے  اگر بدعتی ہونےکا حکم لگانا شروع کردیں تو پھر آئمہ اسلام میں سے کوئی نہيں بچ پائے گا ان کے علاوہ لوگوں کی تو دور کی بات رہی۔

[شريط بعنوان: لقاء مع الشيخ في مسجد الخير]


[1] مسلم فی الایمان 126/200۔

[2] صحیح ترمذی 2676 ، صحيح الترغيب والترهيب1/92/34.

[3] رواه مسلم: كتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث رقم (867)۔

[4] البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).

[5] صحیح مسلم 2748۔

[6] أخرجه البخاري في صحيحه في كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب أجر الحاكم إذا اجتهد، برقم 6805، ومسلم في صحيحه، كتاب الأقضية، باب بيان أجر الحاكم إذا اجتهد، برقم 3240.

[7] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 343 میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

[8] صحیح مسلم 857۔

[9] رواه أبو داود (1047) وصححه ابن القيم في تعليقه على سنن أبي داود (4/273) . وصححه الألباني في صحيح أبي داود (925) .

[10] السلسلۃ الصحیحۃ  7/455۔

ترجمہ و ترتیب: طارق علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*