زمین سے خارج ہونے والی چیزوں پر زکوٰۃ

Zakat on Crops, Treasures and Minerals etc

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ اس وقت واجب ہوتی ہے جب فصل اور ثمرات پک جائیں۔ اس میں سال گزرنے کی شرط نہيں۔

یہ تمام وہ اجناس ہيں جن کا ماپ اور ذخیرہ ہوسکتا ہے جیسے گیہوں، جَو، مکئی، چاول، کھجور اور انگور۔ پھلوں اور سبزیوں میں زکوٰۃ نہيں۔

ان کا نصاب پانچ اوسق ہوتا ہے جبکہ ایک اوسق ساٹھ نبوی صاع کے  برابر ہوتا ہے جس حساب سے یہ 300 صاع ہوا جو کہ موجودہ دور میں اگر صاع کو0 2.4 کلو گرام مان کر اچھی قسم کی گیہوں کا 612 کلوگرام کے قریب بنتا ہے۔

اور یہ کہ بندہ زکوٰۃ کے وجوب کے وقت ان کا مالک ہو۔

مقدار

غلہ ،اناج و ثمرات میں دی جانے والی زکوٰۃ عشر (دسواں حصہ ) ہے اگر ان کھیتوں،  فصلوں و باغات کو پانی دینے میں  مشقت نہ اٹھانی پڑتی ہو جیسے بارش و سیلاب کے پانی سے سیراب ہونے والی زمین۔

اور اگر اس کے لیے مشقت اٹھانی پڑتی ہو جیسے کنویں وغیرہ سے پانی کا انتظام کرکے تو نصف عشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے[1]۔

شہد پر زکوٰۃ کے بارے میں جمہور کا مذہب اور زیادہ ظاہر یہی ہے کہ اس پر زکوٰۃ نہيں جیسا کہ  الشافعی، ابن عبدالبر اور ابن المنذر رحمہم اللہ  نے ذکر فرمایا۔

جاہلیت کے دفن شدہ خزانوں  پر خواہ سونے چاندی ہوں یا ان کے علاوہ جن کی پہچان کفر کی علامتوں سے ہوسکتی ہے جیسے  ان کے نام و تصاویر وغیرہ ان پر کنندہ ہوں، انہيں نکالنے کے لیے زیادہ مشقت اور مال خرچ نہ کیا گیا ہو تو اس پر خمس (پانچ حصے کرکے ایک حصہ) ہوگا، خواہ مقدار کم ہو یا زیادہ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

دفن شدہ خزانوں پر خمس ہے[2]۔

اور اسے مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔

اور جہاں تک معدنیات کی بات ہے تو جو کچھ بھی زمین میں سے نکلتا ہے جو اس کی جنس میں سے نہیں اور نہ ہی نباتات میں سے ہو چاہے مایہ کی صورت میں ہو جیسے تیل (پیٹرول) یا تارکول یا پھر جامد ہو جیسے لوہا، تانبہ، سونا، چاندی وغیرہ۔ سونے چاندی پر ان کے حساب سے زکوۃ ہوگی جبکہ دیگر معدنیات اگر تجارتی غرض سے ہوں تو مال تجارت کی طرح زکوۃ ہوگی۔


[1] البخاری 1483، ابو داود 1596۔

[2] البخاری 1499، مسلم 1710۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*