سورۃ البقرۃ اصول ایمان واحکام پر مشتمل ہے – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Surah Al-Baqarah contains the principles of faith and commandments – Shaykh Rabee bin Hadi Al-Madkhali

یہ سورۃ بہت عظیم سورۃ ہے جو کہ احکام اور عقائد پر مشتمل ہے، اسی طرح اوامر و نواہی اور جو شرعی احکام ہیں، حلا ل اور حرام سے متعلق احکام، طلاق کی  کیا شروط ہیں اور اس سے متعلقہ جو باتیں ہیں ، اور اس سے پہلے حج  اورجہاد کا ذکر ہے ۔ چنانچہ ان امور کا ذ کر اس آیت میں ہے جیسے عقائد اور ایمان وغیرہ:

﴿لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ  ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا  ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ:177)

(نیکی  یہی نہیں کہ بس تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، لیکن (اصل) نیکی یہ ہے کہ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر  ، یوم آخرت پر ، فرشتوں ، کتابوں  اور  نبیوں پر،اور مال کو وہ دے اس کی محبت کے باوجود، قرابت داروں کو ، یتیموں کو ،مساکین کو ، مسافروں کو، مانگنے والوں کواور گردنیں (یعنی غلام) آزاد کرانے میں،اور نماز قائم کرےاور زکوٰۃاداکرے،اور جو اپنے عہد سے وفا کرتے ہیں جب وہ عہد کرتے ہیں، اور جو صبر کرتے ہیں تنگ دستی میں ،اور مصیبتوں میں  اور جنگ کے وقت، یہی لوگ سچے ہیں ،اور یہی لوگ متقی ہیں)۔

چنانچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دل کے اعمال ذکر کیے اور بتایا کہ یہ ایمان میں سے ہیں، اور عقائد کا ذکر کیا،  اسی طرح جو اعضاء وجوارح کے اعمال ہیں انہیں بھی ذکر کیا۔ اور بلاشبہ جو ایمان ہے وہ قول ، عمل اور اعتقاد کا نام ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ﴾

(نیکی  یہی نہیں کہ بس تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، لیکن (اصل) نیکی یہ ہے کہ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر  )

یہ آیت اصول ایمان جتنے بھی ہیں ان کی اساس ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا  ، اس کی توحید ، عبادت کو اس کے لیے خالص کرنا ، اللہ  سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے  اسماء و صفات پر ایمان لانا ،اور اس کی عبادت اس کی بتائی گئی شریعت کے مطابق کرنا ، ساتھ ہی ساتھ اس شرک سے اجتناب جو کہ اس ایمان کے اور اس توحید الہی کے منافی ہے ۔ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے ان تمام چیزوں میں جو ایمان باللہ کے موضوع کے تحت آتی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود پر، اس کے اسماء و صفات پر، اور یہ کہ وہ بلاشبہ سمیع و بصیر ہے،  علیم و قدیر ہے ، اور وہ اپنے عرش پر مستوی ہے، اور وہ نازل ہوتا ہے آسمان دنیا پر جس طرح اس کی شان کے لائق ہے، اور آخر تک جتنی بھی صفات  کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   میں وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان لایا جائے۔

اسی طرح آخرت پر ایمان لانا اور  جن چیزوں پر آخرت پر ایمان لانا مشتمل ہے ان پر بھی ایمان لانا جیسے مرنے کے بعد زندہ کیا جائے گا،  جزاء اور سزا ہو گی، پل صراط ہو گا، جنت اور جہنم ہے، اور جو کچھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان نعمتوں بھری جنت میں تیار کر رکھا ہے جیسے باغات اورنہریں، جیسا کہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بہت ساری آیات میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح اس آگ (جہنم ) پر ایمان لانا العیاذ باللہ،  اور جو اس میں شدید عذاب ہیں ، اور وہ آگ جو اللہ تعالیٰ نے  کافروں کے لیے تیار کر رکھی ہے،  اور ان کے ساتھ ان کے شریک اہل بدعت بھی  ہیں جو اپنا حصہ اس آگ میں سے اسی بقدر  لیں گے جتنا وہ اللہ تعالی کے دین حق سے منحرف ہوں گے اور جتنا انہوں نے اللہ تعالی کے دین حق کی مخالفت کی ہو گی۔

اور یہ شدید وعید ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اس حدیث میں  ذکر ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إلَّا وَاحِدَةً، قَالُوا: مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟  قَالَ: مَنْ كَانَ  عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي“([1])

(بلاشبہ یہ امت عنقریب تفرقے کا شکار ہو کر تہتر ملتوں (یعنی اہواء)میں تقسیم ہو جائے گی، وہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   نے پوچھا وہ ایک کون ہو گا اے اللہ کے رسول؟  فرمایا کہ :  جو اس چیز پر ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں)۔

اس حدیث میں جو شاہد ہے وہ یہ ہے  کہ بلاشبہ  جو یہ فرقے ہیں  انہیں وعید سنائی گئی ہے آگ کی کیوں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے منہج کی مخالفت کی عقائد میں ، عبادات میں ،احکام میں تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں یہ وعید سنائی، کیوں کہ بے شک انہوں نے کتاب اللہ اور سنت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو مضبوطی سے نہیں  تھاما، اور نہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بجا آوری کی کہ اتباع کرنی ہے اس رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی، اور جو اس رسول کی  اطاعت کا حکم ہے،اور کتاب اللہ اور اس کے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت کو جو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے، پس انہوں نے ان امور کا التزام وپابندی نہیں کی۔ چنانچہ انہوں نے بہت سےعقائد وعبادات میں  مخالفت کی تو پھر وہ مستحق قرار پائے اس عذاب کے جس کی انہیں وعید سنائی گئی تھی۔  لہذا لازم ہے کہ لوگوں میں سے بعض جہنم میں داخل ہوں گے۔ البتہ جو غیر کافر یا غیر مشرک ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت ہیں ۔

اصحابِ کبائر(کبیرہ  گناہ کے مرتکب )، (عام) گناہوں کے مرتکب اور اہل بدعت اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت ہیں، پس وہ   جسے چاہے گا عذاب دے گا اس قدر جتنے عذاب کا وہ مستحق ہے،  اور اگر چاہے گا  تو ان پر احسان کر کے اپنے عفو و درگزر اورفضل و کرم سے انہیں معاف کر دے گاکہ  انہیں جہنم میں داخل ہی نہ کیا جائے۔  لیکن کفر و شرک ایسی چیزیں ہیں  کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے مرتکب کو  ہرگز بھی معاف نہیں فرماتا، فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ (النساء:48)

(بے شک اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرماتا  کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے )۔

چنانچہ کفر و شرک ایسے گناہ ہیں  کہ جن کی معافی نہیں  جبکہ جو دیگر نافرمانیاں اور کبیرہ گناہ ہیں ان کی معافی ہے برخلاف خوارج کے یا جو بھی ان کے منہج وعقیدے کے مطابق چلتے ہیں کہ ان کے نزدیک جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے وہ کافر ہے، اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں رہے گا، یہ فکرِ خوارج ہے ۔ اور اس کے بالمقابل غالی مرجئہ ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ : ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا(اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں برباد کرے  ) اس طریقے سے وہ جتنے بھی اوامر اور نواہی ہیں انہیں ساقط کر دیتے ہیں۔

  پس ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ صراط مستقیم  پر چلتا رہے اور جو گمراہی کی راہیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچا کر چلے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ، وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ﴾ (الانعام:153)

(اور بے شک یہ میری راہ ہے سیدھی اسی کی پیروی کرو ، اور جو دیگر راہیں ہیں ان کی پیروی نہ کرو  کہ یہ تمہیں اس  (اللہ سبحانہ و تعالیٰ) کے راستے سے جدا کر دیں گی)

 اسی طرح فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام:159)

(بلاشبہ جنہوں نے تفرقہ کرکے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور مختلف گروہ بن گئے،آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں)

اس آیت ﴿الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ﴾ کی تفسیر اہل بدعت([2]) سے بھی کی گئی ہے، اور اس کی تفسیر یہود و نصاریٰ([3]) سے بھی کی گئی ہے،  جبکہ یہ آیت ان دونوں  اصناف کے لوگوں کو شامل ہے ۔ یعنی یہود و نصاریٰ میں سے جو کفار ہیں ان کو بھی یہ آیت شامل ہے اسی طریقے سے اہل بدعت کو بھی  کہ جو اللہ تعالیٰ کے دین  میں تفرقہ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ، وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ﴾ (الروم: 31-32)

(اور نماز قائم کرو ،اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ،ان (مشرکوں ) میں سے جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ کیا اور مختلف گروہ بن گئے ،ہر حزب ہر گروہ اسی چیز پر خوش  ومگن ہے جو اس کے پاس ہے)

صد افسوس  کہ اس امت کی یہی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب بالکل واضح ہے،  اس کی آیات بالکل واضح ، روشن اور منور ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  :

’’تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لا يَزِيغُ عَنْهَا إِلاَّ هَالِكٌ‘‘([4])

(میں نے تمہیں (دین کی) ایسی روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے کہ  جس کی راتیں بھی دن کی طرح  (روشن)  ہیں، اس سے گمراہ نہیں ہو سکتا مگر صرف وہ جس کی ہلاکت مقدر ہو)۔

  پس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت کو مضبوطی سےپکڑے  رہیں اپنے عقائد،  عبادات اور تمام اعمال میں ،اور جتنے بھی  شعبہ ہائے زندگی ہیں ان میں ہم پابندی کریں جنہیں اللہ  سبحانہ و تعالیٰ نے شریعت بنا کر مشروع قرار دیا ہے تو ہم اوامر کو بجا لائیں جو نواہی سے اجتناب کریں ۔

﴿ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ ﴾ (اور نماز قائم کی)۔

جب اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان کا ذکر کیا  جو کہ ارکان ایمان کے دواساسی رکن ہیں، جس نے بھی ان دونوں کے ساتھ کفر کیا  یا ان میں سے ایک کے ساتھ کفر کیا  تو وہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والا سمجھا جائے گا اور ملت اسلامیہ سے خارج ہو جائے گا ، جیسےجو جنت اور جہنم کا انکار کرے وہ کافر ہے ملحد ہے جیسا کہ کمیونسٹ لوگ ہوتے ہیں  یا بہت سارے مشرکین بھی ۔اس کے بعد فرمایا   ﴿وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ﴾ (اور نماز قائم کی) اور نماز اسلام کا ستون ہے ،اور شہادتین  کے بعد ارکان اسلام میں سے سب سے اہم ترین ہے۔

﴿وَاٰتَى الزَّكٰوةَ﴾ (اور زکوٰۃ ادا کی)۔ یہ ارکان اسلام میں سے تیسرا رکن ہے۔ اور جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف آئے جیسا کہ  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ   کی روایت میں ہے:

’’فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا. قَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ! قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّه،ِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. قَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا؟ قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ. قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ ! أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ؟ قُلْتُ:اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ‘‘([5])

( تو انہوں نے اپنے گھٹنے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دئیے، اور اپنے گھٹنوں پر اپنی ہتھیلیاں رکھ دیں اور کہا اے محمد! مجھے اسلام سے متعلق خبر دیں ؟ پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا  :  اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو  کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں،اور نماز قائم کرو ،اور زکوٰۃ ادا کرو،اور رمضان کے روزے رکھو ،اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تم اس کی  استطاعت رکھتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ :آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سچ فرمایا ۔ عمر رضی اللہ عنہ   کہتے ہیں  کہ : ہمیں تعجب ہوا کہ وہ (سائل ) خود ہی سوال کرتا ہے اور (پھر جواب ملنے پر)  اس کی تصدیق کرتا ہے!  پھر فرمایا کہ : مجھے ایمان سے متعلق خبر دیں؟ ایمان یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ پر،  اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر،اور آخرت کے دن پر ،اور تقدیر پر ایمان لا‎ؤ خواہ اچھی ہو یا بُری،پھر کہا کہ :آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سچ فرمایا ۔پھر پوچھا کہ :مجھے احسان کے متعلق خبر دیں ؟تو فرمایا: کہ تم اللہ تعالیٰ کی یوں عبادت کرو  گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو بلاشبہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔پھر مجھے قیامت کے متعلق خبر دیں (وہ کب آئے گی)؟ فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ اس کا علم نہیں رکھتا (یعنی ہم دونوں ہی اس بارے میں لا علم ہیں)پھر کہا کہ : اچھا تو پھر مجھے قیامت  کی علامات بتائیے؟ فرمایا  : لونڈی اپنے آقا کو جنے کہ تم دیکھو کہ ننگے پیر ،ننگے بدن ،محتاج ومسکین بکریوں کے چرواہے وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے پر باہم فخر کریں گے۔فرمایا کہ:  وہ چلے گئے اور  میں یوں گم سم بیٹھا رہا  ۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:  کیا تم جانتے ہو کہ وہ سائل کون تھا؟ میں نے کہا کہ : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانیں۔ فرمایا کہ : بلاشبہ وہ جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   تھے  جو آئے تھے تمہارے پاس تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے )۔

چنانچہ اس حدیث میں ارکان اسلام ذکر کیے گئے ہیں پھر ارکان ایمان سے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا: تم ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ  پر  ، فرشتوں پر ،اس کی کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت پر  ،اور اچھی بُری تقدیر پر ۔

پھر احسان سے متعلق پوچھا گیا جو دین کا سب سے اعلیٰ ترین مرتبہ ہے  تو فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ،اور اگر تم اسے نہیں دیکھتے پھر یقیناً وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔  یہ اخلاص کی انتہا ہے ، یہ مراقبۃ اللہ (یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے) کی انتہا  ہے، کہ اللہ تعالیٰ رقیب ہے  ہمارے اعمال پر  (ان کو دیکھ رہا ہے  ،ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور جانتا ہے)، اور وہ جو انسان کے سینے  اور دل میں   خیالات ابھرتے ہیں، اس کی جو حرکت اور اضطراب ہوتا ہے اسے بھی جانتا ہے، اور اس کے اخلاص اور اس کی سچائی  اور صداقت کو بھی ۔ تو ایک بندے کو چاہیے  کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ  کے لیے مخلص ہو جائے اپنی عبادت میں اوراپنی عبادت میں غفلت برتتے ہوئے دوسری چیزوں میں مشغول نہ ہو،   بلکہ وہ یہ شعور دل میں پیدا کرے  کہ وہ اپنے ربّ سے مناجات کر رہا ہے اس سے سرگوشی کر رہا ہے، اس ربّ سے جو آسمانوں اور زمینوں کا ربّ ہے ۔ یہ ہے احسان کا مقام  جو ایک عظیم مقام ہے اور دین کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے ۔

پھر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے قیامت کی نشانیوں  کے متعلق پوچھا گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہی فرمایا  کہ: جو پوچھ رہا ہے مجھ سے یعنی جتنا اسے علم نہیں ہے تو مجھے بھی اس کا علم نہیں ہے ۔

 پھر اس کی نشانیوں سے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : لونڈی اپنے آقا کو جنے گی، اور تم ننگے بدن ننگے پیر اور غریب چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے پر باہمی فخر کریں گے۔

یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں، اور قیامت کی نشانیاں بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض وہ ہیں جو یہاں اس حدیث میں ذکر ہوئیں، اور بعض اس کے علاوہ بھی ہیں  جیسا کہ دجال کا نکلنا یا نزول عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام   یا خروج الدابۃ( زمین سے ایک جانور کا نکلنا جو لوگوں سے کلام کرے گا) اور اس کے علاوہ مختلف علامات ذکر کی گئی ہیں۔

شاہد یہ ہےکہ  بلاشبہ ایک مومن کو چاہیے  کہ وہ ایمان اور اس کے ارکان کو قائم رکھے اور جو  اسلام کے ارکان ہیں ان کو بھی قائم رکھے ۔

چنانچہ یہ آیتیں  جو سورۃ البقرۃ کی ہیں وہ ایمان باللہ اور یوم الآخر  کو لے کر چلتی ہیں۔

 پھر فرمایا: ﴿وَالْمَلٰىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ﴾ (اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر )۔ یعنی ایمان لانا فرشتوں پر اور ایمان لانا رسولوں پر  یہ ارکان ایمان   میں سے ضروری  اور لازم ہے، جس نے ان میں سے کسی بھی چیز کا انکار کیا تو اس نے کفر کیا، وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا اور تمام انبیاء کرام  oکی ملت سے خارج ہو گیا۔

آگے فرمایا : ﴿وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ﴾ (اور وہ مال دیتا ہے اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں کو  ، یتیموں کو ، مساکین کو ، مسافروں کو ، سائلین (مانگنے والوں) کو اور گردنیں آزاد کرانے میں) ۔ یہ سب اعمال الجوارح  (یعنی اعضاء و جوارح سے انسان جو اعمال کرتا ہےوہ ) ہیں۔  جو اس سے پہلے ذکر ہوئے تھےوہ ارکان ایمان تھے ، اللہ تعالیٰ پر ، آخرت پر  ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان لانا ۔

 اسی طریقے سے جو حدیث جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   ہم نے ابھی ذکر کی تھی اس میں ارکان ایمان ذکر کیے گئے جو کہ وضاحت ہے اس قسم کی آیات کی اور اس کے علاوہ جو چیزیں ابھی ذکر کی گئیں جیسے نماز قائم کی جائے ، زکوٰۃ ادا کی جائے اور اس جیسے دیگر امور تو ان تمام کو ذکر کر کے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے بارے میں یہ فرمایا : ’’فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ‘‘  (یہ جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   تھے جو آئے تھے تمہارے پاس تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے )۔

پس یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   کو محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی طرف بھیجا تاکہ اس دین کی وضاحت کر دیں کیوں کہ انہوں نے خود اسے دین کا نام دیا چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  فرمایا: یہ جبریل علیہ الصلاۃ والسلام   تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے۔

  چنانچہ یہ دین کی اساس  اور اس کے ارکان ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جو محرمات (حرام چیزیں ) ہیں جنہیں  اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ان سے بھی اجتناب کیا جائے جیسے شراب خوری ، زنا ، چوری  اور جتنی بھی قسم کی معاصی اور نافرمانیاں ہیں  چاہے کبیرہ ہوں یا صغیرہ ہوں۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :

’’إِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘([6])

(جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کیا کروں تو اس سے رک جایا کرو،اور جب کسی چیز کا تمہیں حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اپنی طاقت بھر)۔

چنانچہ جتنی بھی فرماں برداری اور اطاعت کے کام ہیں جن کو بجا لایا جاتا ہے اس کا دارومدار انسان کی طاقت اور قدرت پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی چیز کا مکلف نہیں ٹھہراتا جس سے آپ عاجز ہوں جسے آپ کر  نہ سکیں ۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نماز کے متعلق یہ فرمایاکہ :

’’صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ‘‘([7])

( کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو،اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کروٹ پر  لیٹ کر ہی نماز ادا کرو)۔

اسی طرح اگر آپ سفر کرتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے ساتھ آسانی کا معاملہ کیا،  اور آپ کو یہ چھوٹ دی  لہذا آپ جو رباعی (چار رکعتوں والی ) نماز ہے اسے دو گانہ (دو رکعتوں کی صورت میں)ادا کریں گے۔آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب سفر کرتے تو نماز کو قصر کرتے یعنی جو چار رکعتیں ہیں انہیں دو رکعتیں کر کے پڑھتے جب کہ جو ثلاثیہ (تین رکعتیں ) ہیں  یعنی مغرب کی یا ثنائیہ (دو رکعتیں)  ہی ہیں یعنی فجر کی  تو ان میں قصر نہیں  کیا جاتا، بلکہ صرف رباعیات (چار رکعتوں والی نماز) میں قصر کیا جاتا ہے ظہر،  عصر اور عشاء ۔آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب سفر کرتے تو  اپنی نمازوں میں جاتے ہوئےاور آتے ہوئے  قصر کرتے ۔ یہ وہ رخصتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دی ہیں ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے ۔اسی طریقے سے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، اگر اس کی طاقت  نہیں تو بیٹھ کر نماز پڑھیں اور  اس کی بھی طاقت نہیں تو لیٹ کر نماز پڑھیں ۔ چنانچہ یہ بھی   رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس قول میں داخل ہے  جو ہم نے اوپر ذکر کیا ہے:

’’إِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘([8])

(جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کیا کروں تو اس سے رک جایا کرو،اور جب کسی چیز کا تمہیں حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اپنی طاقت بھر)۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بھی فرمان ہے  (سورۃ البقرۃ کے آخر  میں ہی) :

﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا، لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ، وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا، اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ﴾ (البقرۃ:286)

(اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ،اسی کے لیے ہے جو نیکی اس نے کمائی  یا جو برائی اس نے کمائی، اے ہمارے ربّ ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے غلطی ہو جائے،اے ہمارے ربّ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارےربّ ہم پر وہ بوجھ بھی نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو ،اور ہم سے درگزر فرما ، اور ہماری مغفرت فرما ، اور ہم پر رحم فرما،تو ہمارا مولیٰ مدد گار ہےپس ہمیں کافر قوم کے اوپر نصرت دے)۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خبر دی  کہ بلاشبہ وہ کسی نفس کو اس کی وسعت سے، اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اور ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہم یہ دعاء پڑھیں  کہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالا جائے جس کی ہم میں طاقت نہ ہو، سکت نہ ہو۔تو یہ دین اسلام کی آسانیوں میں سے ہے، اس کے امتیازات میں سے ہے کہ انسان کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر صرف اسی چیز کا جس کی اس میں طاقت  ہو ۔ لہذا ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے  جس کی بھی وہ طاقت رکھتا ہے اسے وہ بجا لائے  جس سے وہ عاجز ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے تخفیف فرماتے ہیں اس کو ہلکا کر دیتے ہیں اور صرف اسی چیز کا اسے مکلف ٹھہراتے ہیں  جس کی وہ طاقت رکھتا ہے ۔

اگر آپ مسافر ہیں تو آپ چاہیں تو روزہ رکھیں نہ چاہیں تو افطار کریں روزہ نہ رکھیں،  لیکن آپ کو بعد میں قضا رکھنے ہوں گے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سفر فرماتے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   رمضان میں  بعض ان میں سے روزہ رکھتے تھے اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے، تو جو روزہ رکھنے والے تھے وہ روزہ نہ رکھنے والوں پر انکار نہیں کرتے (انہیں طعنہ نہیں دیتے) تھے اور نہ ہی جو روزے نہ رکھنے والے ہیں وہ روزے رکھنے والوں پر انکار کرتے (یا انہیں کوئی عیب لگاتے ) ۔  یہ اس شریعت کی آسانی ہے تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں،  اور ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی اطاعت اور فرماں برداری  میں محنت کریں، اور جس کی بھی ہم استطاعت رکھتے ہیں اقوال اور اعمال میں سے انہیں بجا لائیں، جن میں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  (نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا) بھی ہے (اس کو بھی استطاعت کے ساتھ ذکر گیا ہے )۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے :

’’مَن رَأى مِنكُم مُنكَرَاً فَليُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِقَلبِه وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإيمَانِ‘‘([9])

(تم میں سے جو  شخص  کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے ،اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر اپنی زبان سے، اس کی بھی اگر طاقت نہیں رکھتا تو اسے اپنے دل میں بُرا جانے،اور یہ سب سے کمزور ترین ایمان ہے)۔

انکارِ منکر کے مراتب

1-  پہلا مرتبہ:  ہاتھ سے روکنا برائی کو۔ یہ سلطان( حکمران) کے لیے ہے،اور گھرکے  سربراہ کے لیے ہے   اپنے گھر میں، اور صاحب ادارہ کے لیے اپنے ادارے میں۔

2-  دوسرا مرتبہ:  زبان سے انکار کرنا ۔ اس کی استطاعت بہت سے لوگ رکھتے ہیں، جو بھی منکر کو دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی زبان سے اسے تبدیل کریں( اس کا رد وانکار کریں )۔

3-  تیسرا مرتبہ :  اگر آپ کو خوف ہو کہ آپ کو پکڑ لیا جائے گا یا آپ کو قید کر لیا جائے گا یا اس جیسی چیزوں کا خدشہ ہو تو پھر آپ پر واجب نہیں  کہ آپ اپنی زبان سے یا ہاتھ  سے اس کا انکار کریں لیکن لازمی طور پر آپ پر یہ واجب ہے کہ آپ دل سے اس چیز کو بُرا جانیں۔

تو لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو ہاتھ کے ذریعے منکر کا انکار کر سکتے ہیں تو وہ ہاتھ کے ذریعے کریں ، جو زبان کے ذریعے کر سکتے ہیں منکر کا انکار تو انہیں چاہیے کہ وہ زبان کے ذریعے  کریں  کیوں کہ یہ وہی چیز ہے جس کی وہ طاقت رکھتے ہیں۔ جو نہ اُس کی نہ اِس کی طاقت رکھتا ہو تو  اسے چاہیے کہ منکر کا انکار وہ اپنے دل سے کرے اور اس پر سے یہ ساقط ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے یا ہاتھ سے اسے تبدیل کرے، یا اس کا انکار کرے البتہ اس (دلی انکار)سے بھی پیچھے  رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ۔

شاہد یہ ہے  کہ بلاشبہ  ہم پر لازمی ہے کہ ہم ارکان اسلام اور اعمال کو قائم کریں، ان کی پابندی کریں، اور ارکان ایمان اور عقائد جو اللہ تعالیٰ نے شریعت بنا کر نازل  کیے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں، اس کےفرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، یوم آخرت اور تقدیر سے متعلق ہیں ان کو لازم پکڑیں ۔

 اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے  ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم یہ جو اسلامی اعمال ہیں،اور جو اس کے عقائد ہیں، اور وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ نے شریعت بنا کر مشروع قرار دئیے ہیں انہیں قائم کرنے والا، ان کی پابندی کرنے والا، ان کے ذریعے سے سرخرو ہونے والا  بنائے،  اور ہمیں  نبی کریم محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اچھے طریقے سے پیروی کرنے والوں میں سے  بنا دے  جن کی اطاعت اور فرماں برداری کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے، اور ہمیں ہر قسم کے گمراہ لوگوں اور جو مستحق ہیں جہنم میں جانے کے ان کے طریقوں پر چلنے سے بچائے اور محفوظ رکھے ۔

گمراہ فرقوں کے تعلق سے ہم نے یہ حدیث ذکر کی کہ وہ لوگ آگ میں ہوں گے سوائے ایک فرقے کے (جو فرقہ ناجیہ ہے) تو جب اس کے متعلق پوچھا گیا: یہ کون ہوں گے یا رسول اللہ!  تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ كَانَ  عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘

(وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر  میں اور میرے صحابہ کرام ہیں)۔

تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس چیز پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم    تھے  عقائد میں ، عبادات میں ، اعمال میں اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں۔

 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ  وہ ہمیں توفیق دے اپنی صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی، بلاشبہ ہمارا ربّ دعاؤں کو سننے والا ہے،  اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اور آپ کی آل اور آپ  کے  اصحاب پر ۔


[1] أخرجه الترمذي فى كتاب الإيمان – باب افتراق الأمة، حديث برقم 2641، عن عبدالله بن عمرو  رضی اللہ عنہما ، قال الترمذي: “حديث مفسر غريب”.

[2] مروي عن أبي هريرة وعمر وأبي أمامة وإبن عباس وأم المؤمنين أم سلمة y، ويروى عن مرة الهمداني وعطاء بن أبي رباح. تفسير سعيد بن منصور (5/121)، وتفسير ابن جرير (12/270)، وتفسير ابن أبي حاتم (5/1429-1430)، وذم الكلام للهروي (4/51- الأنصاري)، وتاريخ لابن عساكر (39/325-326)، والدر المنثور (3/403).

[3] هو قول مجاهد وقتادة والسدي والضحاك والحسن، وهو مروي عن علي وابن عباس، تفسير ابن جرير (12/269-270)، وتفسير ابن أبي حاتم (5/1429-1430)، وزاد المسير لابن الجوزي (3/158)، والدر المنثور للسيوطي (3/ 401-402).

[4] أخرجه احمد (17142 – الرسالة)، وابن ماجه المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين (43)، عن العرباض بن سارية t.

[5] اخرجه مسلم كتاب الإيمان – باب معرفة الإيمان والإسلام والقدر وعلامة الساعة (102) عن عمر بن الخطاب t.

[6] متفق عليه:أخرجه البخاري، كتاب الأعتصام – باب الإقتداء بسنن رسول الله  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  (6858) ومسلم، كتاب الحج – باب فرض الحج (3321) عن أبي هريرةt.

[7] أخرجه البخاري، كتاب تقصير الصلاة – باب إذا لم يطق قاعداً صلى على جنب (1117) عن عمران بن حصين t.

[8] حدیث گزر چکی ہے۔

[9] أخرجه مسلم، كتاب الإيمان – باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان (186) عن أبي سعيد الخدري t.

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن (المجلس الأول)۔