قربانی کی کھالوں کا شرعی مصرف اور انہيں جمع کرکے بیچنے کا حکم؟

Collecting the skins of the sacrificial animals and selling them?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:

’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ:  نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([1])

(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔

اس حدیث کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  ’’شرح زاد المستقنع‘‘ (7/514) میں فرماتے ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’ولا يبيع جلدها‘‘ یعنی ذبح کے بعد اس کی جلد نہ بیچے کیونکہ اس کے تمام اجزاء کا فی سبیل اللہ صدقہ ہونا متعین ہوچکا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے متعین ہوجائے تو اس کا عوض لینا جائز نہیں۔ اس کی دلیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نےاپنا گھوڑا کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیا۔ لیکن وہ شخص اسے ضائع کرنے لگا اس کا کوئی اہتمام نہ کرتا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسے خریدنے کی اجازت چاہی اس گمان کے ساتھ شاید کہ اس کا مالک اسے سستے داموں فروخت کردے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’لا تشتره ولو أعطاكه بدرهم‘‘([2])

(اسے نہ خریدنا اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں کیوں نہ دے)۔

اس میں علت یہ ہے کہ اگر اس نے اسے اللہ تعالی کے لیے نکالا تھا۔ تو جو کچھ انسان اللہ کے لیے نکالے تو جائز نہيں کہ وہ اسے واپس لے۔ اسی لیے جائز نہيں کہ جو بلاد شرک سے ہجرت کرکے اس سے نکل جائے تو پھر واپس وہاں جاکر بسنے لگ جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے وہاں سے نکلا ہے جسے وہ محبوب رکھتا تھا تو وہ اس چیز کی طرف نہ جائے اگرچہ وہ اسے محبوب ہے جسے اس نے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔ اور کیونکہ کھال جانور کا جزء ہے اس میں گوشت کی طرح حیات کا دخل ہے۔(یعنی اسے بیچنا جائز نہیں جیسے گوشت کو بیچنا جائز نہیں)۔ اور یہ فرمانا: ’’ولا شيئاً منها‘‘ یعنی اس کے اجزاء میں سے کوئی بھی نہ بیچے جیسے جگر، سری، پائے، اوجھڑی وغیرہ۔ اور اس کی علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔

فتویٰ کمیٹی ، سعودی عرب سے سوال ہوا: قربانی کرنے والوں کا اپنے جانوروں کی کھالیں کسی بھی دائرہ حیات سے متعلق اصلاحی تنظیم یا کمیٹی کو ہبہ کرنا، ہدیہ کرنا یا صدقہ کرنا کیسا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؟ اس سے فائدہ اٹھانے سے میری مراد ہے اس کو کسی مسلمان چمڑے کے تاجروں کو بیچ کر اس کے پیسوں سے فائدہ اٹھائیں  پھر اس کی قیمت کو مصلیٰ ومساجد ، مدارس قرآن، اسلامی ریاض الاطفال، یا خدام مسجد کی تنخواہیں، یا جھاڑو وصفائی کا سامان، یا پھر قبرستان کے گرد باڑ لگانا یا دیگر اصلاحی کاموں میں لگانا جس کا فائدہ عام مسلمانوں کو ہو۔۔۔؟

جواب: سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے جیسا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:

’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ:  نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([3])

(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردو، گوشت، کھال اور جھول سب ، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔

برابر ہے کہ جس پر صدقہ کیا جارہا ہے وہ بعینہ وہ شخص ہو یا کوئی ایسی جہت کی طرف سے ہو جس کا حکم شخصیت کا سا ہو کہ جس کے مصارف شرعی ہوں۔

وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتوى رقم (15703)۔

رکن: بكر أبو زيد،  رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔

ایک اور فتویٰ میں سوال کا مفہوم ہے کہ: مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتویٰ، سعودی عرب سے ملیشیا کے مسلمانوں نے تفصیلی فتویٰ پوچھا جو تقریباً مندرجہ بالا سوال ہی تھا مگر کچھ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ ترغیب وترہیب میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ‘‘([4])

(جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی اس کی قربانی نہیں)۔

کہا اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا صحیح الاسناد ہے۔ اور الحافظ کہتے ہیں اس کی اسناد میں عبداللہ بن عیاش القبانی المصری ہے جو کہ مختلف فیہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کی کھالیں بیچنے سے منع فرمایاہے۔ سائل کہتا ہے پھر میں نے ’’فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ‘‘ کے حاشیہ میں اس کا معنی دیکھا تو لکھا ہے کہ اسےاس کا ثواب نہيں ملے گا۔ (الکامل ص 156 ج 2 ط دار احیاء التراث العربی، بیروت)۔

مسئلہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والے اسے براہ راست فروخت نہیں کرتے بلکہ وہ تو صدقہ، ہبہ یا ہدیہ کرتے ہیں ان اسلامی تنظیموں کے کارکنوں کو  پھر اس کی ملکیت انہیں منتقل ہوجاتی ہے اور وہ فروخت کرتے ہیں۔  جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قربانی کا گوشت کھاتے پیتے لوگوں کو بھی دیا جاسکتا ہے جبکہ یہ تنظیمیں اشخاص تو نہیں لیکن قانونی طور پر شخصیت کا سا ان کا حکم ہوتا ہے۔ جو کہ اس علاقے کے مسلمانوں کی نیابت کررہی ہوتی ہیں، اگر ہم انہیں نہ دیں گے تو یہ ضائع ہوجائیں گی کیونکہ فی زمانہ لوگوں میں اس کا کوئی خاص مصرف نہیں۔۔۔؟

جواب: اس استفتاء کے پڑھنے کے بعد کمیٹی یہ فتویٰ دیتی ہے کہ اگر وہ اپنی قربانی کی کھال کسی فقیر یا اس کے وکیل کو دیتا ہے تو اس میں کوئی مانع نہيں وہ اسے بیچ کر ان پیسوں کا فقیرکو فائدہ دے۔ جسے بیچنے سے منع کیا گیا ہے وہ فقط خود قربانی کرنے والا ہے۔ اسی طرح سے خیراتی جمعیات وتنظیمیں جو کھالیں ان کے پاس جمع ہوں انہیں بیچ کر وہ پیسہ فقیروں کی فلاح وبہبود میں صرف کرسکتی ہے۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء فتوى رقم (16411)۔

رکن: بكر أبو زيد،  رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،نائب صدر: عبد الرزاق عفیفی، صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔

شیخ زید بن محمد بن ہادی المدخلی  رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ہمارے ہاں عید الاضحیٰ کے موقع پر عام عادت پھیلی ہوئی ہے کہ وہ قربانی کی کھالیں مساجد کو دیتے ہیں یہ بات علم میں رہے کہ مسجد کمیٹی یا جمعیت کے اراکین کھالیں صدقہ کرنے والوں کو بتادیتے ہیں کہ عنقریب ہم ان کھالوں کو بیچ دیں گے اور پھر اسے مسجد کے مصالح میں صرف کریں گے۔ ا س عمل کا کیا حکم ہے؟  اب اگر یہ کھالیں بیچ دی جاتی ہيں پھر حاصل  ہونے والے مال کو مسجد کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس عمل کا کیا حکم ہے؟ وجزاکم اللہ خیراً۔

جواب: قربانی کی کھالیں، دراصل قربانی کی کھالیں ہی ہیں یا تو ان سے قربانی کرنے والا فائدہ اٹھائے تو اسے اس کا حق حاصل ہے جیسا کہ گوشت کے کسی بھی جزء سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یا پھر وہ اسے فقراء ومساکین پر صدقہ کردے۔ نہ اسے خود بیچے نہ کسی ایسی جہت میں دے کہ جو اسے بیچے۔ بلکہ براہ راست فقراء ومساکین کو دے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اور اگر وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ اس مسئلے میں یہی قول راجح ہے۔


[1] أخرجه البخاري كتاب الحج باب يتصدق بجلود الهدي، ومسلم كتاب المناسك باب من جلّل البدنة، وأحمد (1/79)، والدارمي(2/74)، من حديث علي رضي الله عنه، وانظر الإرواء(1161)۔

[2] صحیح بخاری 1490 کے الفاظ ہیں:

’’لَا تَشْتَرِي وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ، وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ‘‘

(اسے نہ خرید اور اپنا کیا ہوا صدقہ واپس نہ لے، اگرچہ تجھے وہ ایک درہم میں کیوں نہ دے، کیونکہ اپنے دیے ہوئے صدقے کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کوئی قے (الٹی) کرکے اپنی ہی قے چاٹ لے)۔

[3] أخرجه البخاري كتاب الحج باب يتصدق بجلود الهدي، ومسلم كتاب المناسك باب من جلّل البدنة، وأحمد(1/79)، والدارمي(2/74)، من حديث علي رضي الله عنه، وانظرالإرواء(1161)۔

[4] صحیح ترغیب 1088۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی