
The ruling on imitating the voices of famous reciters?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید کو اچھی آواز و خوش الحانی سے تلاوت کرنا مطلوب ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب صفۃ الصلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باب باندھتے ہیں :
’’ ٹھہر ٹھہر کر، اطمینان اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھنے کا بیان‘‘
اس کے تحت یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ:
۔۔۔اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش الحانی([1]) کے ساتھ آواز کو حلق میں گردش دے کر تلاوت فرماتے جیسا کہ آپ نے فتح مکہ کے روز اپنی اونٹنی پر سواری کی حالت میں سورۂ فتح کی تلاوت نرم آواز سے کی تھی([2])۔
عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوش الحانی اور آواز کو حلق میں گردش دینے کا نقشہ (آآآ)([3]) کے الفاظ میں کھینچا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن پاک کو اچھی آواز سے پڑھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ [فَإِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ يَزِيدُ الْقُرْآنَ حُسْنًا]‘‘ ([4])
(قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کیا کرو۔ کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن کر دوبالا کرتی ہے) ۔
اور فرماتے کہ :
’’إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللَّهَ‘‘([5])
(سب سے اچھی آواز سے قرآن وہ شخص پڑھتا ہے کہ جسے تم جب قرآن پڑھتے سنو تو تمہیں گمان ہو کہ یہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترنم اور رقت آمیز انداز میں قرآن پاک پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے اور فرماتے:
’’تَعَلَّمُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى وَتَعَاهَدُوهُ، وَاقْتَنُوهُ وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنْ الْمَخَاضِ فِي الْعُقُلِ‘‘([6])
(قرآ ن سیکھو اور پابندی سے اسے بار بار دھراتے رہو، اور اس کی ترنم اور رقت آمیز آواز سے تلاوت کیا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قرآن دلوں سے اس اونٹ سے بھی تیز بھاگ نکلتا ہے جو اپنی رسی اور بندھن سے آزاد ہو گیا ہو)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ‘‘([7])
(جو شخص قرآن ترنم اور رقت آمیز انداز میں نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے) ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ (وفي لفظ: كأذنه) لِنَبِيٍّ [حَسَنِ الصَّوْتِ (وفي لفظ: حسن الترنم)] يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ[يجهر به]‘‘([8])
(ﷲ تعالیٰ کسی بات کو اس قدر شوق سے([9]) نہیں سنتا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جس طرح کہ وہ کسی خوش آواز اور مترنم نبی کے خوش الحانی سے بآواز بلند قرآن پڑھنے کو سنتا ہے) ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا([10]) مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ‘‘
(کاش کل رات تم نے مجھے اپنا قرآن پڑھنا سنتے دیکھا ہوتا ، تمہیں تو داود علیہ الصلاۃ والسلام کی خوش الحانی کا ایک حصہ ملا ہوا ہے)۔
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرما یا:
’’ لَوْ عَلِمْتُ مَكَانَكَ، لَحَبَّرْتُ([11]) لَكَ تَحْبِيرًا‘‘([12])
(اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف فرما ہیں تو اور بھی حسين آواز اور خوش الحانی سے کام لیتا)۔اھ
ان کے علاوہ یہ بھی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([13])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) کی قرأت کی طرح پڑھے)۔
یہاں محض آواز کی نقالی مراد نہيں بلکہ جس طرح جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سناتے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح حاصل کرکے اسی اصول و قواعد و انداز میں تلاوت فرماتے([14])۔ جس کی مزید وضاحت علماء کرام کے مندرجہ ذیل فتاویٰ سے ہوتی ہے:
سوال: قاریوں کی آواز کی نقالی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ :
واللہ! اس سوال کا سوائے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے ہم کوئی جواب نہيں پاتے کہ:
’’أَنَا وَأُمَّتِي بُرَاءُ مِنَ التَّكَلُّفِ‘‘ ([15])
(میں اور میری امت تکلف سے بری ہیں)۔
ایک بات تو یہ رہی۔
دوسری بات اس کے پیچھے فتنے کا خدشہ ہے کہ وہ تلاوت کی اصل حقیقت کو بھول جائے گا اور اصل کام یہ ہی نقالی رہ جائے گا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے بعض خطباء حضرات سے پوچھا کہ جو اپنی خطبوں میں کشک مصری کی نقالی کرتے تھے، تو (گفتگو سے یہ ہی ثابت ہوا کہ) ان میں تصنع و بناوٹ صاف ظاہر تھی۔
جبکہ اللہ کی کتاب اس سے بلند و منزہ ہے کہ اس میں لوگوں کی تقلید و نقالی کی جائے۔
اور آخری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ إن أحسن الناس قراءة من إذا سمعته يقرأ رأيت أنه يخشى الله ‘‘ ([16])
(بے شک قرأت کے اعتبار سے بہترین شخص وہ ہے کہ جب تم اسے قرأت کرتے ہوئے سنو تو لگے کہ وہ واقعی اللہ تعالی کی خشیت رکھتا ہے)۔
جبکہ یہ نقالی کرنے والے ہیں تو اس طرح کے نہیں محسوس ہوتے([17])۔
سوال: بعض آئمہ مساجد نماز تراویح میں دوسرے قاریوں کی آواز کی نقالی کرتے ہیں تاکہ قرآن کے ساتھ اپنی آواز کو خوبصورت بنائیں، پس کیا یہ عمل مشروع و جائز ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ :
قرآن کے ساتھ اپنی آواز کو خوبصورت رکھنا یہ ایک مشروع بات ہے جس کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی قرأت کو سنتے رہے اور بہت پسند فرمایا اور ان سے کہا:
’’لقد أوتيت مزماراً من مزامير آل داود ‘‘([18])
(تمہیں داود علیہ الصلاۃ والسلام کی خوش الحانی میں سے حصہ دیا گیا ہے)۔
لہذا اگر مسجد کا امام کسی اچھی آواز و قرأت والے شخص کی نقالی کرتا ہے اس لیے تاکہ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس کی آواز و قرأت اچھی ہوجائے تو بذات خود بھی اور ایک مقصد کے حصول کے لیے بھی یہ مشروع بات ہے۔کیونکہ اس میں پیچھے مقتدیوں کے لیے بھی نشاط و چستی رہتی ہے، اور ان کی تلاوت کے لیے حضور قلبی، بغور سننے اور خاموش رہنے کا سبب بنتا ہے۔ اور اللہ تعالی کا فضل تو وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے([19])۔
البتہ شیخ کے فتویٰ کی مزید وضاحت اس طور پر ہوتی ہے کہ آپ رحمہ اللہ سے ہی سوال پوچھا گیا:
سوال: امام کا اپنی قرأت میں کسی ایک قاری کی نقالی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جائز ہے کہ کسی قاری کی اپنی قرأت میں نقالی کی جائے، بشرطیکہ جس قاری کی وہ نقالی کررہا ہے وہ اچھی طرح سے ادائیگی کرتا ہے (یعنی تجوید میں)، البتہ جہاں تک آواز کا معاملہ ہے تو اس میں اس کی نقالی نہ کرے([20])۔
شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ سے جب اسی کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
جس بات کی ہم نصیحت کریں گے وہ عدم تقلید ہے (یعنی نقالی نہ کرے)۔ کیونکہ ہوسکتا ہے یہ ایک شخص کو تدبر قرآن سے ہٹا کر اسی میں مشغول رکھے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾ (محمد: 24)
(کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں)
اور یہ اپنے آپ کو فلاں کی نقالی میں ہی مشغول رکھتا ہے۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اگر جس شخص کی نقالی کررہا ہے وہ پوری آیت آخر تک اسی سانس میں پڑھتا ہو اور جو نقالی کرنے والا ہے اس میں کچھ کمزوری ہو تو وہ خوامخواہ تکلف کرکے اور اپنے کو نقصان پہنچا کر اس کی طرح کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن بہرحال یہ حرام ہونے کی حد تک تو نہیں پہنچتا، البتہ جس بات کی ہم نصیحت کرتے ہیں وہ عدم تقلید ہے۔
اس کے بعد شیخ نے وہی احادیث ذکر فرمائيں جن میں اچھی و خوبصورت آواز میں قرآن مجید پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
آخر میں یہ حدیث ذکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سالم مولیٰ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر کر سننے لگے جبکہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے، تو فرمایا:
’’الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا ‘‘([21])
(تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ان جیسے پیدا فرمائے)([22])۔
سوال: قراء و مشایخ کی آواز کی نقالی کرنا کیسا ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ :
ان کی تقلید(نقالی) سے مراد اگر قرأت کا نظم و ضبط و تجوید ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، آواز کو خوبصورت بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو تکلف ہے وہ ممنوع ہے، رہا تجوید اور قرأت و آواز میں حسن و خوبی پیدا کرنا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں([23])۔
ایک اور آڈیو فتویٰ میں فرماتے ہیں:
۔۔۔کسی کی نقالی نہ کرو، کیوں فلاں فلاں کی نقالی کرتے ہو! آپ کو اللہ تعالی نے اپنی آواز دی ہے اور آپ کو قرأت کے احکام کی معرفت دی ہے۔۔۔آوازوں کی نقالی کرنا اچھی بات نہيں ہے۔ یہ تو گویا کہ اداکاری ہوئی، اگر آپ فلاں فلاں کی آواز کی نقالی کرتے ہیں تو یہ اداکاری ہوگئی۔
ہاں اگر آپ اس کی پیروی کرتے ہیں قرأت کو درست کرنے میں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرأت میں درستگی و خوش الحانی کی غرض سے آپ کسی کی اقتداء کرتے ہيں تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن باقاعدہ اس کی آواز کی طرح اتار چڑھاؤ میں نقالی کرنا تو یہ اداکاری بن جاتی ہے([24])۔
سائل: قاریوں کی آواز کی نقالی کرنا کیسا ہے۔ایک امام مسجد میں ہوتا ہے تو وہ کسی قاری کی نقالی کرتا ہے، دوسرا کسی اور کی۔۔۔؟ کسی مسجد کا امام مثلاً شیخ السدیس کی نقالی کرتا ہے؟ یعنی بنا سختی اپنائے، کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟
جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ :
بارک اللہ فیک اگر مراد یہ ہےکہ اس نے اس قاری کی آواز پر تعلیم حاصل کی ہے، بارک اللہ فیک، اور وہ اس کی طبیعت کا حصہ بن گئی ہے تو خیر ہے۔ لیکن باقاعدہ سُر اپناتے اورریاضت کرتے ہوئے کبھی کسی قاری کی نقالی کررہا ہے تو کبھی کسی کی، میں نے دیکھا بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کبھی سدیس کی کررہے ہوتے ہیں تو کبھی شریم کی اور کبھی فلاں کی بلکہ کبھی تو ایسا ایک ہی نماز میں کرلیتے ہيں۔ میرے خیال سے یہ قلتِ حیاء میں سے، ایسا بالکل بھی لائق نہيں۔ انسان بس قرآن پڑھے اپنے فطری انداز میں۔ اگر کسی شخص کی آواز پراس نے تعلیم پائی ہے ، بارک اللہ فیک، اور وہ اس کی طبیعت کا حصہ بن گیا ہے تو وہ کرسکتا ہے۔ لیکن کبھی اِس کی طرح کرنا کبھی اُس کی طرح تو ایسا نہیں کرنا چاہیے([25])۔
شيخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آوازوں کی نقل اتارنا جائز ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم سب سے پہلے خوش الحان (خوبصورت آواز) والوں کی نقل اتارتے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو خبر بھی دی کہ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو داود علیہ الصلاۃ والسلام کی خوش الحانی کا ایک حصہ ملا ہوا ہے، ان کی آواز کی خوبصورتی اور حسنِ تلاوت کے بناء پر۔ اور کسی ایک بھی صحابی یا ان کی بہترین طور سے اتباع کرنے والے تابعین میں سے کسی نے ان (ابو موسیٰ ) کی نقل نہ اتاری۔ تو جب انہوں نے اس سے گریز کیا حالانکہ وہ سب سے زیادہ خیر کی حرص رکھا کرتے تھے تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عمل ان تکلفات میں سے ہے جو بعد کے زمانے میں ایجاد ہوا۔
اور ہمارے زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو مشہور قاریوں کے آواز نقل کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حتیٰ کے ان میں سے بعض تو بہت سے قاریوں کی یعنی تھوڑے بہت نہیں بلکہ اچھی خاصی تعداد کی نقل اتارتے ہیں۔ اور ان کی آوازوں کے اتار چڑھاؤ اور الفاظ کی ادائیگی کے طور طریقے میں بھی کوئی غلطی نہیں کرتے (یعنی ہوبہو نقالی)۔ پھر ان سے یہ کہا جاتا ہے: فلاں فلاں کی نقل اتارو، اور پھر لوگ اس کی نقل اتارنے کو سنتے ہیں نہ کہ قرآن کو۔ اور کبھی تو یہ ہنس بھی دیتے ہیں اور تعجب بھی کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے دل میں قرآن پر غور و تدبر قائم ہو۔ اور اللّٰہ عز وجل کی کتاب اس لیے تو نازل نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی یہ طور طریقے اس کے ہوسکتے ہيں جو اللّٰہ عز وجل کے کلام کی تعظیم کرتا ہو([26])۔
[1] وضا حت مزید کیلئے ملا حظہ ہو فتح الباری ج ۹/۹۲ باب الترجیع۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ترجیع کا مطلب قرأت میں حرکات کو ہلا کر پڑھنا۔ اس کا اصل تردید (گردش دینا ) ہے، آواز کی ترجیع سے مراد حلق میں اس کی تردید ہے۔ علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ یہ کیفیت عام طور پر نشا ط و انبساط سے پیدا ہو تی ہے ، اور یہ چیز محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے روز وافر مقدار میں حاصل ہوئی تھی۔
[2] بخاری، مسلم۔
[3] حا فظ ابن حجر نے (آآآ) کی شرح میں فرمایا: ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پھر اس کے بعد الف سا کن ، پھر اس کے بعد دوسرا ہمزہ۔ملا علی قاری نے یہ بات حا فظ ابن حجر کے علاوہ اوروں سے بھی نقل کی ہے ،پھر اس کے بعد کہا ہے کہ : ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین الف ممدود ہیں۔
[4] بخاری نے تعلیقاً، ابوداود، دارمی ، حاکم، تمام الرازی نے دو صحیح اسناد کےساتھ۔
تنبیہ: اس حدیث کو بعض رواۃ نے الٹ کر روایت کر دیا ہے اور کہا ہے: ’’اپنی آوازوں کو قرآن سے مزین کرو‘‘ جبکہ یہ حدیث روایت اور درایت دونوں حيثیت سےواضح طور پر غلط ہے،اور جس نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے وہ غلطی میں ڈوبا ہوا ہے،کیونکہ یہ مقلوب حدیث اس باب میں وارد ساری واضح حدیثوں کی مخالف ہے ،بلکہ حدیث مقلوب کی یہ ایک بڑی اچھی مثال ہے۔ اس اجمال کی تفصیل الا حادیث الضعیفۃ (۵۳۲۸) میں ملاحظہ فرمائیں۔
[5] یہ صحیح ہے، زہد ابن مبارک (۱۶۲/امن الکواکب ۵۷۵) ،دارمی،ابن نصر،طبرانی،ابو نعیم کی اخبار أصبہان ،اور ضیاء کی المختارۃ۔(اس کے علاوہ ابن ماجہ 1109 میں بھی شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)۔
[6] دارمی،احمد بسند صحیح۔المخاض یعنی الابل (اونٹ) اور العقل عقال کی جمع ہے یعنی وہ رسی جس سے اونٹ کو باندھا جاتا ہے۔
[7] ابو داود ،حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی تا ئید کی ہے۔
[8] بخاری ،مسلم، طحاوی اور توحید ابن مندہ (۱/۸۱)۔
[9] امام منذری کہتے ہیں کہ: ذال کی کسرہ کے ساتھ یعنی اللہ تعالی لوگوں کی کسی بات کو اس طرح نہیں سنتا جس طرح کہ حسن آواز اور ترنم سے قرآن پاک پڑھنے والے کی آواز کو سنتا ہے۔ مگر سفیان ابن عیینہ وغیرہ نے اس کا معنی قرآن کو غنائیت (ترنم) سے پڑھنے کے بجائے استغناء بتایا ہے، حالانکہ یہ معنی مردود ہے۔
[10] علماء فرماتے ہیں مزمار سے مراد یہاں خوش الحانی ہے۔ جبکہ الزمر کا اصل گانا ہے۔ اور آل داود سے سے مراد خود داود علیہ الصلاۃ والسلام ہیں۔ اور آل فلاں کبھی خود اس شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا ہے کہ: داود علیہ الصلاۃ والسلام بڑی ہی اچھی آواز کے مالک تھے۔
[11] اس سے ان کی مراد مزید خوش الحانی اور سوز وگداز پیدا کرنا تھا۔ (نہایۃ)
[12] امالی عبدالرزاق (۱/۴۴/۲)، بخاری ، مسلم، ابن نصر اور حاکم۔
[13] اخرجہ ابن ماجہ (138) اور شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ 114 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[14] سنیں شرح سنن ابن ماجہ از شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کیسٹ رقم 19۔ 20 منٹ کے بعد۔
[15] قَالَ النَّوَوِيُّ: لا يَثْبُتُ.نَعَمْ رَوَى الْبُخَارِيُّ عَنْ عُمَرَ قَالَ: نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ۔ (الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة المؤلف: مرعي بن يوسف بن أبى بكر بن أحمد الكرمى المقدسي الحنبلى ج 1: ص 94)۔
[16] حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
[17] فتاوي جدة شريط رقم 4 دقيقة 34.37۔
[18] یہ حدیث گزر چکی ہے۔
[19] كتاب الدعوة 5 ابن عثيمين 2/201۔
[20] مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله – المجلد الخامس عشر – باب صلاة الجماعة. محمد بن صالح العثيمين۔
[21] اسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن 1338 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ 1108 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[22] من شريط “أسئلة المدينة”۔
[23] یوٹیوب پر موجود فتویٰ: حكم تقليد القراء ۔
[24] ویب سائٹ سحاب السلفیۃ سے آڈیو کلپ۔
[25] من مجالس رمضان لعام 1428هـ ۔
[26] التبيان في شرح أخلاق حملة القرآن، ص 182-183۔
Be the first to comment