
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Don’t believe in the predictions of astrologers
نیا سال کیسا رہے گا؟ آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا؟ علم نجوم یا horoscopes اور اس قسم کے دیگر دعوے سراسر باطل ، شرکیات وبدعقیدگی میں داخل ہیں، لہذا ایسے تمام ذرائع، رسائل، اخبارات، ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ کے ذرائع سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ‘‘ (اسے ابو داود نے اپنی سنن 3905 میں روایت فرمایا اور شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے)
(جس کسی نے علم نجوم میں سے کچھ لیا، تو اس نے جادو کی شاخوں میں سے کچھ لیا، جتنا زیادہ وہ اسے لے گا اتنا ہی زیادہ (وہ جادو میں سے) لے گا)۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری، باب فی النجوم میں فرماتے ہیں کہ: امام قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ﴾ (الملک: 5)
(اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آسمان ِدنیا کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی)
اللہ تعالی نے ان ستاروں کو تین مقاصد کے لیے پیدا فرمایا:
1- آسمان کی زینت 2- شیاطین کو مارنے کے لیے (جوآسمان کی خبریں چرانے آتے ہیں)
3- بطور نشانی وعلامات ان سے راستے کا اندازہ لگانے کے لیے(خصوصاً سمندری سفر میں)
جس نے ان کے علاوہ ان کے تعلق سے کسی اور چیز کا عقیدہ رکھا تو اس نے بہت بڑی غلطی کی، اپنی آخرت کا حصہ گنوایا، اور جس چیز کا اسے مطلقاً علم ہی نہیں اس میں بے جا تکلف سے کام لیا۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
جو کوئی (میگزین وغیرہ میں شائع ہونے والا) وہ صفحہ پڑھتا ہے جس میں برج کا حال ذکر ہوتا ہے (آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا؟) اور وہ جانتا ہے اس برج کو جس میں وہ پیدا ہوا ، یا جو برج اس کے مناسب حال ہے، اور اس میں سے پڑھتا ہے، توگویا کہ اس نے کاہن سے کچھ پوچھا لہذا اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں(جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے)۔ اور اگر ان برجوں میں جو باتیں ذکر ہوئی ہیں اس کی تصدیق بھی کی تو اس نے اس چیز سے کفر کیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی(یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہيں)۔
(التمہید شرح کتاب التوحید ص 349)
زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جبکہ اس سے پہلے رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگ بولے کہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: (رب تعالی نے) فرمایا:
’’أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ‘‘ (صحیح بخاری 846)
(آج میرے بندوں میں سے بعض نے صبح کی مجھ پر ایمان لاکر اور بعض نے(مجھ سے) کفر کرکے۔ پس جس نے یہ کہا کہ: اللہ تعالی کے فضل و رحمت سے ہمیں بارش عطاء ہوئی، تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں (کی تاثیر) سے کفر (انکار) کیا، البتہ جس نے یہ کہا کہ: فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے (بارش ہوئی) تو اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا)۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہمارے اس دور میں بھی موسمی پیشنگوئی کرنے والے ہوا کے دباؤ وغیرہ کے ذریعے بتلاتے ہیں اگرچہ ہوسکتا ہے یہ حقیقی سبب بھی ہو مگر اسے بھی پیدا کرنے والا اللہ تعالی ہے، لیکن ہمیں لوگوں پر اس دروازے کو نہيں کھولنا چاہیے ۔ لہذا ان چیزوں سے بارش کو جوڑنا جاہلیت کے امور میں سے ہے جو انسان کا تعلق اس کے رب کے ساتھ نہيں جوڑتے۔
فرمان باری تعالی ہے:
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ﴾ (النور: 43)
(کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بےشک اللہ تعالی بادل کو چلاتا ہے، پھر اسے آپس میں ملاتا ہے، پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر تم بارش کو دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے)
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ﴾ (الروم: 48)
(اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں، پھر وہ اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے جیسے چاہتا ہے اور وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پس تم بارش کو دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے) ۔
(القول المفید علی کتاب التوحید ص 364 بالاختصار)
مصدر: کتاب التوحید کی شروحات۔
ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی
Be the first to comment