کیا غیر مسلموں کو قربانی کے گوشت میں سے کچھ دیا جاسکتا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Can non-Muslims be given some of the sacrificial meat?

امام مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر ان کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی ، چنانچہ جب وہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے ہدیہ دیا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے ہدیہ دیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ‘‘[1]

(جبریل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ بے شک عنقریب وہ اسے وارث ہی بنا دیں گے)۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ بھی جائز ہے کہ اس (قربانی کے گوشت) میں سے کافر کو کھلایا جائے۔۔۔، کیونکہ بلاشبہ یہ نفلی صدقہ ہے، اسی لیے  یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسا کہ دیگر صدقات (انہیں دیے جا سکتے ہیں)‘‘[2]

سوال3 فتویٰ رقم 1997:

کیا  اس کے لیے جائز ہے کہ جو دین اسلام کو نہیں اپناتا (غیرمسلم) کہ وہ عید الاضحیٰ کے قربانی کے گوشت میں سے کھائے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

جی ہاں، ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم معاہد کافر اور قیدی کو قربانی کا گوشت کھلائیں، اور انہیں ان کی غربت یا قرابت داری یا پڑوس یا تالیفِ قلبی کی وجہ سے دینا جائز ہے۔ کیونکہ جو نسک ہے وہ تو اس کے ذبح ونحر کے تعلق سے ہے یعنی اللہ تعالی کے لیے قربان کرنا بطور اس کی عبادت کے، لیکن اس کا جو گوشت ہے تو اس بارے میں افضل یہ ہے کہ ایک تہائی خود کھائے، اور اپنے اقارب، پڑوسی اور دوستوں کو ایک تہائی ہدیہ دے، جبکہ باقی کا ایک تہائی فقراء پر صدقہ کردے، اور اگر اس تقسیم میں کچھ کمی زیادتی بھی کرلے یا ان میں سے بعض پر اکتفاء کرلے تو بھی کوئی حرج نہيں، اس معاملے میں وسعت ہے۔ البتہ جو حربی کافر ہے (جن سے مسلمانوں کی جنگ ہے) اسے اس میں سے نہ دے۔ کیونکہ اسے تو ذلیل وکمزور رکھنا واجب ہے، ناکہ اس سے ہمدردی رکھنا اور اسے صدقے کے ذریعے تقویت دینا۔ اور یہی حکم نفلی صدقات کا ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کے عموم کی وجہ سے کہ:

﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾  (الممتحنۃ: 8)

(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)

اور اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم فرمایا تھا کہ وہ اپنی والدہ  کے ساتھ مالی طور پر صلہ رحمی کرے  حالانکہ وہ مصالحت (صلح حدیبیہ) کے وقت مشرکہ تھیں۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو                       نائب رئيس اللجنة                    الرئيس

عبد الله بن قعود           عبد الرزاق عفيفي          عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(المجموعة الأولى > المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة > الأضاحي > إعطاء الكافر من الأضحية)

سوال: کیا غیر مسلم کو قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ﴾  (الممتحنۃ: 8)

(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو)

پس ایسا  کافر جس کے ساتھ ہماری لڑائی نہیں ہے جیسے مستأمن (جسے ہماری طرف سے امن کا پروانہ دیا گیاہو) یا معاہد (جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو ) تو اسے (عید الاضحیٰ کی)  قربانی اور صدقے میں سے دیا جائے گا۔

(فتاویٰ ابن باز  المجلد الثامن عشر > الحج القسم الثالث > باب الهدي والأضحية والعقيقة > حكم إعطاء غير المسلم من لحم الأضحية)

سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت میں سے کافر کو دے؟ اور کیا قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے گوشت سے افطار کرے(یعنی عید کے دن کھانا شروع کرے)؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

ایک انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ کافر کو اپنی قربانی کے گوشت  میں سے بطور صدقہ دے بشرطیکہ وہ کافر مسلمانوں سے قتال وجنگ کرنے والوں میں سے نہ ہو، پس اگر وہ ان میں سے ہو جو مسلمانوں سے قتال کرتے ہیں تو اسے کچھ بھی نہيں دیا جائے گا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ، اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾  (الممتحنۃ: 8-9)

(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تو تمہیں بس انہی لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے محبت ودوستی کرو ۔ اور جو ان سے محبت ودوستی کرتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں)

انسان کا اپنی قربانی سے افطار کرنا بالکل جائز ہے، جب وہ عید کی نماز پڑھ لے اور اپنی قربانی کو ذبح کرلے، اور کسی دوسری چیز کو کھانے سے پہلے اس میں سے کھائے  تو کوئی حرج نہیں، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ یہ افضل ہے۔

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين ج 25 ص 133)


[1] الترمذی 1943۔

[2] المغنی 9/450۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی