تمام گھر والوں کی طرف سے صرف ایک قربانی کفایت کرتی ہے – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

One sacrifice is sufficient on behalf of the members of a household – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا ایک قربانی میرے اور میرے والد کی طرف سے کافی ہے، یہ بات مدنظر رہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور میری اپنی بھی فیملی ہے، اسی طرح سے والد کی اپنی فیملی ہے؟

جواب: اگر آپ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو پھر ایک ہی قربانی آپ دونوں کی طرف سے کافی ہے، یہ سنت آپ کی طرف سے، آپ کے والد، آپ کی بیویوں اور اولاد کی طرف سے ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ کا مستقل الگ گھر ہے اور والد صاحب کا بھی الگ مستقل گھر ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اور اپنے اہل عیال کی طرف سے اپنے اپنے گھر میں الگ قربانی کریں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو بڑے موٹے تازے، سینگوں والے، چتکبرے (سفید وسیاہ مخلوط رنگت والے) دنبے ذبح فرمائے، ایک اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے ، اور دوسرا امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے۔ جلیل القدر صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كنا في عهد النبي صلى الله عليه وسلم نضحي بشاة واحدة، يضحي بها الرجل عنه وعن أهل بيته”([1])

(ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے، جو ایک شخص اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے ذبح کیا کرتا تھا)۔

سوال: بھائی خ – خ فلسطین سے سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں، ہمارے ساتھ ہمارا ایک بھائی جو کہ شادی شدہ ہے وہ بھی رہتا ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، پس میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہی قربانی یعنی جو میرے والد کرتے ہيں وہ ہم تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوگی، یا پھر میرے شادی شدہ بھائی کو الگ سے قربانی کرنی ہوگی؟

جواب: ایک قربانی ایک گھر کے تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے اگرچہ ان کی تعداد سو ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا اگر وہ ایک قربانی ذبح کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے، اس کی بیوی، اولاد اور تمام گھر والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک ہی بکری کیوں نہ ہو وہ کفایت کرتی ہے، اسی طرح سے ایک گائے یا ایک اونٹنی کافی ہوتی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے ایک بکری ذبح فرمایا کرتے تھے ۔ اللهم صل عليه وسلم.

سوال:  میں اور میری بیوی بچے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کے گھر سے بہت دور کے علاقے میں رہتے ہیں البتہ عید وغیرہ کی مناسبات پر ہم ان کے پاس جاتے ہیں، تاکہ عید ان کے ساتھ منائيں، چنانچہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم وہاں جمع ہوکر بس ایک ہی قربانی کرتے ہيں، پس کیا یہ کافی ہوگی؟

جواب: سنت یہ ہے کہ ہر گھر کی ایک قربانی ہو۔ آپ بھی قربانی کریں اور آپ کے والد بھی قربانی کریں۔ اسی طرح سے جو دوسرے گھر ہیں ، چنانچہ اگر کوئی انسان ایک الگ مستقل گھر میں رہتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرے، یہی سنت ہے۔


[1] سنن الترمذی  کے 1505 کے الفاظ ہیں:

’’كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى‘‘

(ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا، جس سے وہ کھاتے بھی اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگوں نے باہم فخر کرنا شروع کردیا، تو پھر ان کا حال یہ ہوگیا جو تم دیکھ رہے ہو)۔ (یعنی ایک دوسرے پر فخر وبڑائی ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ قربانیاں کرکے دکھاتے)۔

(مترجم)

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: فتاوى نور على الدرب > المجلد الثامن عشر > كتاب الحج وكتاب الجهاد > بيان إجزاء الذبيحة الواحدة في الأضحية عن الأسرة.