
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Correct Salafi stance regarding differences among Salafees nowadays – Shaykh ‘Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
سوال: ان دنوں سلفیوں کے مابین جاری اختلافات کے بارے میں آپ کا کیا قول ہے؟ اور سلف صالحین کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے؟
جواب:
اولاً: اہل سنت کے سلف اور ان کے خلف ایسے ہی بےلگام مطلق کلام نہیں کرتے اور نہ ہی یوں چڑھ دوڑتے ہیں بلکہ وہ شریعت کے میزان کے ساتھ نظم وضبط رکھتے ہیں، لہذا وہ دو باتوں کو دیکھتے ہیں:
1- وہ مخالفت یا اختلاف کیسا ہے؟
2- مخالفت یا اختلاف کرنے والا کون ہے؟
پس اس دنیا میں جو اختلافات چل رہے ہیں اور علمی میدان میں جو اختلافات چل رہے ہیں وہ دو قسم کے ہیں:
اول: ایسے اختلاف جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے اور رائے ونزاع کا میدان وسیع ہے۔ اس صورت میں نظر دلائل پر ہوگی اگر فریقین کے پاس ایسے شرعی دلائل ہوں جو اس کے مذہب کو صحیح قرار دینے کے لیے مؤثر ہوں تو پھر ایک کی طرفداری کرتے ہوئے دوسرے کو ملامت نہیں کیا جائے گا۔ اس بارے میں تو سلفیوں کا بھی حصہ رہ چکا ہے یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی۔
اگر کوئی ایک فریق کو دوسرے پر بڑائی دے (میں بالفرض یہ بات کررہا ہوں) اگر کوئی ایک فریق کو دوسرے پر بڑائی دے اور اس پر خونی جنگیں اور محاذ آرائی شروع کردے، اور اپنے مذہبی مؤقف کو الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کی بنیاد بنالے تو وہ اہل سنت کے دائرے سے نکل کر اہل بدعت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
اور ہم اہل سنت کے اختلاف سے متعلق بہت سے واقعات جانتے ہیں لیکن کسی نے بھی ایک کی طرفداری کرتے ہوئے دوسرے کو ملامت نہیں کیا ۔ اور میں یہاں دو مثالوں پر اکتفاء کروں گاایک عقیدے کی فروع (شاخ) سے تعلق رکھتا ہے اور ایک فقہ کی فروع (شاخ) سے تعلق رکھتا ہے۔
جہاں تک عقیدے کے ایک فروعی مسئلے کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسراء ومعراج کے تعلق سے کوئی تنازع نہیں کیا بلکہ ان سب کا اس پر اجماع تھا۔ اسی طرح سے آئمہ نے ان سے یہ حاصل کیا اور اس پر ان کا بھی اجماع ہوگیا۔ تو پھر اختلاف کس میں تھا؟ اس مسئلے کی ایک فروع میں اختلاف تھا اور وہ یہ ہے کہ: آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا یا نہیں؟
پس صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہما (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا ) انہیں نہایت برا کہتیں جو کہتا کہ اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رات اپنے رب کا دیدار فرمایا، پس یہ کہتیں کہ اس نےجھوٹ بولا:
’’من حدَّثك هذا فقد كَذَب‘‘[1]
(جس نے تمہیں یہ بات کہی تو یقیناً اس نے جھوٹ بولا)۔
جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کو دیکھا۔ کبھی تو مطلقاً روئیت کے بارے میں مروی ہے جبکہ کبھی فرمایا:
’’رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ‘‘[2]
(اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا)۔
پس اہل علم نے ا ن دو خبروں کے درمیان جمع فرمایا ہے پس انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی کی خبر کو آنکھوں سے دیکھے جانے کی نفی پر محمول فرمایا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اثبات کی خبر کو علمی روئیت یعنی دل سے دیکھے جانے پر محمول فرمایا ہے۔
جبکہ فقہی مسئلے کی مثال میں ہم ایک مثال لیں گے اور وہ ہے قیام سے سجدے کی طرف جانا جسے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد سجدے کے لیے گرنا (جھک کر نیچے جانا) کہا جاتا ہے، کیا یہ ہاتھوں کے بل ہونا چاہیے یا گھٹنوں کے؟
اہل علم کے دو اقوال ہیں:
1- یہ ہاتھوں کے بل ہونا چاہیے۔
2- یہ گھٹنوں کے بل ہونا چاہیے۔
سابقہ مثال میں بھی ہم نہ اِس میں سے فریق دیکھتے ہیں نہ اُس میں سے، اور نہ ہی اہل اختلاف میں سے ایک کی طرفداری کرکے دوسرے کو ملامت کرتے ہیں۔ البتہ کوئی امام مجتہد جو احسن طور پر استدلال جانتا ہو اگر وہ بطور مذاکرہ یا سوال کے وہ بات پیش کردے جسے وہ اس کی دلیل کی وجہ سے راجح سمجھتا ہو(تو کوئی حرج نہیں)۔ اسی طرح سے ہم نے حفظ کیا (سیکھا) امام مجتہد علامہ فقیہ الاثری شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے وہ اختصار کے ساتھ دو اقوال پیش کرتے پھر کہتے: صحیح ترین قول، راجح ترین قول، دونوں میں سے برمنبئ صواب قول یہ یہ ہے اور اس کی دلیل بیان کرتے۔
ثانیاً: مخالفت واختلاف میں سے کچھ وہ ہیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ اصول دین میں سے یا فروع میں سے جو کہ نص سے ثابت شدہ ہو یا پھر نص اور اجماع سے ثابت ہو۔ اس میں گنجائش نہیں۔ اور یہ اس کے لیے ہے جو ایک تو سلفی ہو، دوسرا یہ کہ کٹر ہو، تیسرا یہ کہ علم کی روشنی میں ہو جو اپنے بھائیوں کی اس میں مخالفت نہیں کرتا، بلکہ اگر اس کا قدم کہیں پھسل بھی جائے اور اسے حق بات پہنچ جائے تو وہ رجوع کرلیتا ہے۔
لیکن عجیب وغریب، انوکھے ومنفرد قاعدے گھڑنا اور مسلک سلف سے ہٹے ہوئے اصول وضع کرنا تو کوئی سلفی بھی اس مسلک پر کبھی نہیں چل سکتا۔ کبھی بھی وہ اس مسلک پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو سلفی ہے آخر وہ سلفی کیوں کہلاتا ہے؟ کیونکہ وہ لوگوں کے پاس عجیب وغریب ، انوکھی، منفرد قسم کی باتیں نہیں لاتا ، نہ ہی اپنی طرف سے اصول وضع کرتا ہے، نہیں! بلکہ ان سلف صالحین کے آثار پر رک جاتا ہےجنہوں نے اپنے احکامات کی بنیاد کتاب وسنت پر رکھی تھی۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔
دوسری بات: کسی بات کا اگر نص یا اجماع سے مخالف ہونا ثابت ہوجائے تو اہل سنت اسے کسی بھی حال میں قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے پاس جو لوگوں کے اقوال اور اعمال آتے ہیں انہیں وہ محض اپنی عقل کی دوربین سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے شریعت، نص واجماع کے ترازو پر تولتے ہيں۔ جس بات کی موافقت نص یا اجماع کریں تو اسے وہ قبول کرلیتے ہیں اور جس چیز کی مخالفت نص یا اجماع کریں اسے رد کردیتے ہیں۔ خواہ کہنے والا کتنی ہی قدرومنزلت والا کیوں نہ ہو۔
پھر اگر مخالف اہل اہوا میں سے ہو تو وہ اس پر سختی کرتے ہیں ، ملامت کرتے ہیں ، ہر جانب واطراف سے اس کے خلاف چیختے چلاتے ہیں، اور بہت تگ ودو اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کے اور امت کے مابین حائل ہوجائیں تاکہ وہ کہیں ان کا دین نہ بگاڑ دے۔ لیکن یہ اس حال میں جب ان (رد کرنے والوں ) کی طاقت شان وشوکت قوی ہو، ان کا پلڑا بھاری ہو اور ان کے پاس غلبہ ہو۔ البتہ کمزوری کی حالت میں مخالفتوں کا تو رد کریں گے جبکہ مداراۃً (مصلحتاً) مخالف پر سکوت اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ حکومت کی وزارت مذہبی امور میں کوئی وزیر ہو یا ملک میں رئیس القضاۃ (چیف جسٹس) ہو یا اسی قسم کے کسی عہدے پر فائز ہو۔ لیکن جہاں تک بدعت کا معاملہ ہےتو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
یہاں میں ایک بات پر تنبیہ کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ : آخر وہ کیا چیز ہے جو اہل سنت کو مخالفات کے رد کرنے کے مسلک پر چلنے کے لیے مجبور کرتی ہے؟
اہل سنت اہل اعتدال وعدل ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان کے متعلق فرمایا:
’’هُم أعرفُ النَّاسِ بالحق، وهُم أَرْحمُ النَّاسِ بالخلق‘‘
(لوگوں میں سب سے زیادہ حق کو جاننے والے، اور مخلوق پر سب سے زیادہ رحمدل)۔
لہذا وہ اسی راستے کو لیتے ہیں جس راستے سے وہ مخالفت ان تک پہنچتی ہے اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ اگر مخالفت کسی مجلس میں کی گئی ہے تو اس کی دو حالتیں ہیں:
1- رد کرنے والا اس مجلس میں سامنے حاضر ہو تو اس مخالفت کو وہ دلیل کے ساتھ مگر حکمت سے بیان کر ےگا۔ لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ بیان کرے گا تاکہ وہ اس کو لے کر تفرقے کا شکار نہ ہوجائیں۔ اور اگر اس مخالفت کو کوئی نقل کرکے بتارہا ہے تو نقل کرنے والا (یعنی بات پہنچانے والا) یا تو ثقہ (قابل اعتبار) ہوگا یا غیرثقہ (ناقابل اعتبار) :
اگر وہ غیر ثقہ ہے تو اس کی بات کو نظر انداز کردیا جائے گا ،پھینک دیا جائے گا، چھوڑ دیا جائے گا۔
اگر نقل کرنے والا ثقہ ہو تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کا مزید امتحان لیا جائے تاکہ مزید علم حاصل ہو اور اس سے مزید سوالات کیے جائیں۔ جیسے: کیا تم نے خود سنا (اس کی یقین دہانی کی جائے)، اگر وہ کہتا ہے: نہيں، بلکہ مجھے بھی یہ بات نقل ہوکر کسی سے پہنچی ہے۔ (تو پوچھا جائے کہ) کس نے تمہاری طرف نقل کی؟ تو وہ کہے کہ: فلاں نے، یعنی جو آپ کے نزدیک ثقہ ہے، ٹھیک ہے جب تک وہ آپ کے نزدیک ثقہ ہے تو خلاص اس کی بات قبول کی جائے گی۔
پس میں کہوں کہ مجھے فلاں نے فلاں سے بیان کیا جو کہ ثقہ ہے۔ اور اگر مجہول ہو تو میں کہوں گا: یہ مجہول ہے میں اسے نہیں جانتا، کون تمہارے لیے اس کا تزکیہ دے گا؟ اگر وہ ثابت نہ ہوسکے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ اور اگر مجلس سے نقل کرنا ثابت ہوجائے تو یوں کہا جائے گا کہ: یہ غلطی ہے، جبکہ صحیح بات ایسے ایسے ہے۔ فلاں کو میری طرف سے پہنچا دو۔ بلکہ اس میں بھی کوئی مانع نہیں کہ یوں کہو: میری طرف سے اسے سلام دینا اور کہنا جو تم نے کہا وہ غلط ہے، اسے نشر نہ کرو، یہ خطاء ہے، یہ اس اس دلیل کے مخالف ہے، اس کے لیے اس کی وضاحت کریں۔ اگر وہ کسی کتاب میں ہے اور وہ کتاب لوگوں میں عام ہوچکی ہے تو بقدر استطاعت اس کا رد کریں خواہ آڈیو ریکارڈنگ میں ہو یا کتاب کے ذریعے یہاں تک کہ اس کا اثر زائل ہوجائے۔ اور اگر وہ بات کسی کیسٹ میں ہے جس کی ریکاڈنگ محفوظ ومامون ہوئی ہے(یعنی کسی قسم کی کتر بیونت نہیں) اور اسے ثقہ وامانت دار لوگوں نے ان تک نقل کیا ہے تو اس کا رد واجب ہے۔ اہل علم میں سے جن لوگوں تک یہ بات پہنچی اور وہ اس کا رد نہيں کرتے تو ان میں کتمان حق کے تعلق سے اہل کتاب کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَـــنًا قَلِيْلًا ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ﴾ (آل عمران: 187)
(اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے، تو انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی۔ سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں)
لازم ہے کہ اس کا ایسا رد کیا جائے جس سے اس مخالفت کا اثر زائل ہوجائے۔ میں آپ کے لیے خلاصہ بیان کردیتا ہوں:
اولاً: اس کا ثبوت؛ اس کے ثبوت کا طریقہ کیا ہو؟ ثبوت کے تین طریقے ہیں ہمارے پاس:
1- صحتِ نقل، صحت اسناد۔
2- (جس کا رد ہورہا ہے) اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا، جو کہ کتاب میں ہوگا جس کے انکار کی گنجائش ہی نہیں۔
3- ایسی ریکارڈنگ میں ہو جو مامون محفوظ ہو (یعنی کتر بیونت اس میں نہ کی گئی ہو)۔
چنانچہ اگر ایسی مخالفت ثابت ہوجائے کہ جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، نہ نزاع کی، نہ اختلاف رائے کی تو اس کا رد کرنا واجب ہے۔
اس کے کچھ شواہد موجود ہیں جن میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ہے کہ:
’’تحدث البدعة في المشرق أو المغرب فيحمِلُها الرَّجلُ إليّ، فإذا انتهت إليّ قَمَعْتُها بالسُّنة‘‘
(مشرق یا مغرب میں بدعت رونما ہوئی تو اسے ایک شخص میرے پاس لے آیا، جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے سنت کے ساتھ اس کا قلع قمع کردیا)۔
اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’إيَّاكُم وأهلَ الرأي، أعداءَ السُّنَن الذين أعْيَتهُم أحاديث رسول الله – صلَّى الله عليه وسلَّم – أن يحفظوها؛ فقالوا بالرأي فضلُّوا وأَضَلُّوا‘‘
(تمہیں سنت کے دشمن اہل رائے سے بچنا چاہیے، جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد کرنے میں نکمے ہیں، تو پھر اپنی رائے سے باتیں کرنے لگتے ہیں جس سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں)۔
یہ جتنی بھی عجیب وغریب باتیں، شذوذ اور منفرد وانوکھی باتیں یا پھر قواعد اور اصول لاتے ہیں اسی فاسد رائے کی وجہ سے یہ سب ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے لیے نمونہ اور سلف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ جن کی سنتوں میں سے یہ بات بھی محفوظ ہے کہ:
’’يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلْفٍ عُدُولُهُ، يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ، وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ‘‘[3]
(اس علم کو ایک عادل جماعت سے اس کے ہی جیسی جماعت حاصل کرے گی جو اسے غالی لوگوں کی تحریف سے، باطل پرستوں کی ہیرا پھیری سے اور جاہلوں کی تاویل سے پاک کرے گی)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’سَيَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي أُنَاسٌ يُحَدِّثُونَكُمْ مَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ‘‘[4]
(عنقریب اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے نہ تمہارے آباءواجداد نے سنی ہوگی، تمہیں ان سے دور اور بچ کر رہنا چاہیے)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلْ‘‘[5]
(بندہ اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ کسے دوست بنارہا ہے)۔
تلاش کرو ایسے صاحب سنت کو جو قولاً، عملاً، اعتقاداً، تقریراً وتعلیماً سنت والا ہو، تاکہ آپ کو اس دوست وساتھی کے ذریعے اہل سنت کی پیروی نصیب ہو۔ اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’إنَّ هذا العِلمَ دين، فانظروا عمَّن تأخذونَ دينكم‘‘
(بے شک یہ علم دین ہے، پس تم اچھی طرح سے دیکھ لوکہ تم کس سے اپنا دین حاصل کررہے ہو)۔
میں نے یہ جو کلام نقل کیے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:
اولاً: اس زمانے میں جو مخالفین کا رد کرتے ہيں ان کے لیے یہ دلیل ہے۔
ثانیاً: اس پر کتاب، سنت اور آئمہ کا اجماع اور ان کی وصیتیں متفق ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں علمی ردود سے کچھ قلق سا ہوتا ہے اگرچہ وہ ردود کتاب وسنت اور اقوال آئمہ کے دلائل پر مبنی ہوں۔ جس کی وجہ دو میں سے ایک ضرور ہوتی ہے:
1- غیر منضبط و بے لگام جذبات جو کہ عقل پر حاوی ہوجائیں، اور اس پر پردے ڈال دیں، یہاں تک کہ انسان ان حیران و اندھوں میں سے ہوجائے جو بصیرت سے اندھے و بے بہرہ ہیں۔ جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ رد کرنا لازماً جس کا رد کیا جارہا ہے اسے بدعتی قرار دینے کے مترادف ہے، اور جو رد کرنے والا ہے وہ لازماً اسے بدعتی قرار دے رہا ہے، اسی لیے وہ کہتے ہیں: فلاں سے تم کیوں لوگوں کو روکتے خبردار کرتے ہو؟ یہ صحیح نہیں۔
حالانکہ سلف صالحین ایسے لوگوں سے بھی دوسروں کو خبردار کرتے تھے جو کہ اصلاً سنت پر ہوتے تھے لیکن ان کے ہاں غلطیاں اور خبط (اوٹ پٹانگ باتیں) پائی جاتی تھی، اور ان کے ہاں ایسے امور پائے جاتے تھے جس سے وہ راضی نہ تھے پس وہ ان سے تحذیر (خبردار) کیا کرتے تھے۔
2- دوسری بات حزبیت ہے۔ شدید کٹر حزبیت کبھی بھی رد سے راضی ہی نہیں۔
یہاں میں ان لوگوں کو تقسیم کروں گا جو ردود سے کوفت محسوس کرتے ہیں، اس کی قدر گھٹاتے ہیں، اور لوگوں کی نظروں میں اس سے اور جن علمی دلائل کے یہ ردود حامل ہوتے ہیں ان سے بے نیازی برتنے کو مزین کرکے دکھاتے ہیں، ان کی اقسام ہیں:
1- جو ان رد کرنے والوں کو چھوڑ دیتا ہے اور خاموش ہوجاتا ہے۔ تو حال یہ ہوجاتا ہے کہ جو پہلے آپس میں کچھ تعلق ہوتا تھا وہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اور ا ن میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ شیطان انہیں وسوسہ اندازی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: میں کیسے جانوں؟ اس لیے میں سب کو ہی چھوڑ دیتا ہوں، یہ بھی سلفی ہے وہ بھی سلفی ہے۔ کیسے ایک دوسرے پر رد کررہے ہیں؟! ایسے لوگوں سے کہا جائے گا: آخر آپ کو تعجب کیوں ہے؟
جو مثالیں اوپر گزری ہیں ان پر مزید کچھ اور مثالیں بیان کردیتا ہوں کہ شیخ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ نے آل الشیخ میں سے ایک شخص پر رد کیا۔ میرے خیال سے اسے عمان کی طرف دعوت کے لیے مبعوث کیاگیا تھا تو وہ بعض جہمی نظریات میں واقع ہوگیا۔ ان پر تنقید کی گئی ، کہا جاتا ہے ان کے والد نے یا ان کے چچا نے ان پر سخت تنقید و رد فرمایا، دیکھیں وہ تو ان کا بیٹا تھا! ان کا رد کیا گیا اور انہوں نے ان کے رد کی تائید بھی فرمائی۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے امام ابن عقیل رحمہ اللہ کا رد فرمایا اس بارے میں جس میں انہوں نے مخالفت کی تھی، حالانکہ وہ اس سے تائب بھی ہوچکے تھے، لیکن جب وہ رائے پھیل چکی تھی تو رد ضروری تھا۔ یہی سلوک موجودہ دور کے رد کرنےوالوں کا ہے۔ کیونکہ جو اس شخص کے پاس بیٹھے گا جو اصول وقواعد کے بارے میں شاذ وانوکھی باتیں لاتا ہے تو وہ اس سے یہ باتیں لےلے گا۔ جو اسے اس طور پر لے گا کہ یہ اللہ کا دین ہے، اور یہ اہل سنت کے اصول ہیں کہ جن کے ذریعے وہ اللہ تعالی کے دین کا اعتقاد رکھتے ہیں، تو پھر لازم ہے کہ اس کا ازالہ ہو ۔ پس سلف نے الحمدللہ اسے ظاہر فرمایا کہ یہ کتاب ہے، یہ سنت ہے اور یہ قول امام ہے۔
ثانی: جو لوگوں کو ردود سے بے نیازی اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ: تمہیں کہیں بس یہی ردود مشغول نہ کردیں، چھوڑ دو ان ردود کو، کیوں؟ یہ ایک مجمل کلام ہے، جو صرف دو قسم کے افراد سے ہی صادر ہوسکتا ہے:
1- خواہش نفس (ہویٰ) کی پیروی کرنے والا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ردود اس کی نقاب کشائی کرکے اسے ننگا کردیں گے اور اس کا بھانڈا پھوڑ دیں گے جس کی وجہ سے ظاہر ہے لوگ اسے چھوڑ دیں گے۔
2- یا کوئی تھکا ہوا، پست حوصلہ وشکست خوردہ قسم کا انسان ہو تو یہ بدعتیوں کے لیے ایک پل کا کام دے رہاہے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر۔ یہ بدعتیوں کے لیے ایک پل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جب دیکھو یہی کہتا ملے گا: جی معلوم ہے فلاں نے رد کیا ہے، اوریہ ہمارا بھائی ہے، ہاں اس کا رد بہت مفید ہے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ علم کو چھوڑ کر بس یہی ردود کی کتب لیے پھرتے ہیں تو انہیں زجر (منع )کرنا چاہیے۔ (مگر) وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے اس وقت یا کچھ وقت کے لیے چھوڑ دو اور علم میں لگ جاؤ یہ مطلب نہیں ہوتا ان کا بھی کہ دائماً ہی چھوڑ دو، ایسا نہیں۔ ایسا کلام کسی بھی امام سے صادر نہیں ہوسکتا۔ جن سے ایسا کلام صادر ہوا ہے وہ تو ایک خاص حال میں وقتی نصیحت ہوتی ہے، ناکہ دائمی۔
3- جو مردود علیہ (جس کا رد ہوا ہے) کے لیے دوستی ودشمنی کرتا ہے، یعنی اس کا رد کیسے ہوسکتا ہے(یعنی گویا کہ اس کے نزدیک یہ ناممکن بات ہے کہ اس کی پسندیدہ شخصیت کا بھی علمی بنیادوں پر رد ہوسکتا ہے)؟! ان رد کرنے والوں سے متنفر کرنا، اس طور پر انہیں مشہور کردینا، ان کے لیے مکروفریب کرنا، ان سے خبردار کرنا۔ تو ایسے شخص پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول صادق آتا ہے کہ:
’’مَن نَصَبَ للناس رَجُلًا يوالي ويعادي فيه فهو من الذين فَرَّقوا دينهم وكانوا شِيَعا‘‘
(جو کوئی لوگوں کے لیے کسی شخصیت کو نصب کردیتا ہے کہ وہ اسی کے لیے دوستی ودشمنی کرتے ہیں تو وہ ان لوگو ں میں سے جنہوں نے دین کو تفرقہ کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور مختلف گروہ بن گئے)۔ یہی مقولہ یا اس معنی میں آپ کا فرمان ہے۔
پس وہ موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق حزبی ہے۔ حزبی جو ان مردود علیہم (جن کا رد کیا گیا) کے لیے حزبیت اختیار کرتا ہے، الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کو انہی کے ساتھ مربوط کرلیتا ہے۔
4- جو جگ ہنسائی کرتے ہوئے دشمن کو ان رد کرنے والے علماء پر ہنسنے کا موقع دیتے ہیں، متنفر کرتے ہیں، رد کرنے والوں کے خلاف خونی جنگ شروع کردیتے ہیں، قریب ہیں کہ ان کا نام ہی لے لے لیکن ایسے اشارے کنایوں سے بات کرتے ہیں کہ جو ان کے ردود پڑھ لے تو وہ ان کی مراد جان لے۔ تو ایسا شخص مسکین وفریب خوردہ ہے۔
اس سوال کے جواب میں یہی کچھ اللہ تعالی نے میرے لیے آسان فرمایا، اور میں تھوڑا سا جواب طویل ہونے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
[1] صحیح بخاری 4855 کے الفاظ ہیں: ’’عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ۔۔۔‘‘۔
[2] صحیح مسلم: بَاب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِعزوجل ﴿وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى﴾ وَهَلْ رَأَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَبَّهُ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ؟۔
[3] ہیثمی مجمع الزوائد: 1/189، صححہ الالبانی – صحیح الجامع: 52/9۔
[4] أخرجه مسلم من حديث أبي هريرة في مُقدِّمة صحيحه، وحَسَّنه البغوي.
[5] یہ الفاظ مسند احمد 8212 کے ہیں جبکہ صحیح ترمذی 2378 اور صحیح ابی داود 4833 کے الفاظ ہیں: ’’الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ‘‘۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: ما قولكم فيما يجري من خلاف بين السلفيين هذه الأيام؟ ویب سائٹ میراث الانبیاء۔
آڈیو
یوٹیوب
Be the first to comment