سالگرہ منانے کا شرعی حکم؟

Shari’ah ruling regarding celebrating birthdays?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

سوال: کوئی شخص اپنی ہی سالگرہ مناتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ سب ہی منکر ہے، اپنی سالگرہ منائے یا اپنی ماں کی یا اپنی بیٹی یا بیٹے کی یہ سب سالگرہیں اب لوگوں نے یہود ونصاریٰ کی مشابہت میں ایجاد کررکھی ہیں۔ ان کی کوئی اساس وبنیاد نہیں۔مدر ڈے یا فادرڈے یا انکل کی سالگرہ اور خود انسان کی اپنی سالگرہ یا اپنی بیٹی یا بیٹے کی سالگرہ، یہ سب منکرات ہيں، یہ سب بدعات ہیں، یہ سب اللہ کے دشمنوں کی مشابہت ہے۔ ان میں سے کچھ بھی کبھی بھی جائز نہيں ہوسکتا۔ اسے چاہیے کہ وہ ان کا سدباب کرے اور ان نوایجاد یافتہ امور سے بچے۔

لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہيں کہ اللہ تعالی کی ان پر نعمتیں زیادہ ہوتی ہيں اور ان کے پاس اتنا مال جمع ہوجاتا ہے کہ انہيں سمجھ نہيں آتا کہاں خرچ کروں، تو اسے توفیق ہی نہيں ملتی کہ وہ اسے اللہ تعالی کی اطاعت میں خرچ کرے، مساجد تعمیر کرنےاور فقراء کی دلجوئی میں خرچ کرے تو وہ اس مال کو ایسی سالگرہوں اور دیگر خرافات میں اڑاتے ہيں۔

اور اگر اس سے مراد سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا احیاء ہو تو وہ میلادوں (سالگرہوں) سے نہیں ہوتا بلکہ اسے زندہ کریں اسلامی دروس منعقد کرکے اسکولوں میں، مساجد وتقاریر کے ذریعے، تو یہ بدعت نہ ہوگا، بلکہ یہ تو مشروع ہے اور اس کا حکم دیا گیا ہے۔سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پڑھیں، اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیدائش کے بارے میں جو واقعات ہیں انہيں اسکولوں اور انسٹی ٹیوٹس میں اسلامی دروس کے تحت بیان کریں، اور مساجد وتقاریر میں بھی۔ لیکن اس کا مخصوص وقت مقرر کرلینا کہ جس میں یہ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منایا جائے جیسے ربیع الاول یا ا س کے علاوہ (میلاد کی تقریب) اور اس میں کھانا پینا وغیرہ ہو، تو اس کی کوئی اصل وبنیاد نہيں، بلکہ یہ تو بدعات ومحدثات میں سے ہے۔

(شیخ رحمہ اللہ  کی ویب سائٹ سے ’’حكم أعياد الميلاد‘‘)

سوال: ہر ایک سال یا دو سال یا اس سے کم وبیش  گزرنے پر کسی شخص کی یوم پیدائش کی خوشی میں تقریب منانا جسے وہ سالگرہ کہتے ہيں کا کیا حکم ہے؟ اور اس سالگرہ کی دعوت میں شرکت اور کھانا کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی شخص کو سالگرہ کی دعوت دی جائے کیا وہ اسے قبول کرے یا نہيں؟ ہمیں افادہ پہنچائيں اللہ تعالی آپ کو ثواب سے نوازے۔

جواب: کتاب وسنت کے شرعی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہيں کہ سالگرہ منانا دین میں بدعات ومحدثات میں سے ہے، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل و بنیاد نہيں۔ اس قسم کی دعوت کو قبول نہيں کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں بدعت کی تائید اور حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے۔۔۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿ اَمْ لَهُمْ شُرَكٰؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ﴾ (الشوری: 21)

(کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر ومشروع کیا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی)

اور فرمایا:

﴿ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ، اِنَّهُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ﴾ (الجاثیۃ: 18-19)

(پھر ہم نے آپ کو دین شریعت  کے معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی کی اتباع وپیروی کریں،  اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو نہیں جانتے، بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہرگز آپ کے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور اللہ تعالی متقی لوگوں کا دوست ہے)

اور فرمایا:

﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاءَ  ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (الاعراف: 3)

(اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اور اس کے سوا اور اولیاء وپیشواؤں کے پیچھے مت چلو، بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو)

اور یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے صحیح طور پر ثابت ہےکہ فرمایا:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔

اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])

(بے شک سب سے بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہدایت ہے، اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے گئے ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔

اور اس معنی کی بہت زیادہ احادیث آئی ہيں۔

پھر ان تقریبات کا بدعت ومنکر ہونے کے ساتھ ساتھ اور یہ کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اس کے ساتھ یہ یہود ونصاریٰ کی بھی مشابہت ہے کہ وہ سالگرہیں مناتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے طریقوں اور سنتوں سے ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرمایا:

’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله! اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([3])

(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔

اسے صحیح بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔۔۔ او رآپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمانا: ’’فَمَنْ‘‘ (تو اور کون؟!) کا مطلب ہے کہ واقعی اس کلام سے یہی لوگ مراد ہیں۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([4])

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔

اور اس معنی کی احادیث بھی بہت کثیر تعداد میں ہيں اور معلوم ہيں۔

اللہ تعالی سب کو اس کام کی توفیق دے جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔

(شیخ رحمہ اللہ  کی ویب سائٹ سے ’’حكم الاحتفال بمرور سنة أو سنتين لولادة الشخص‘‘)

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سے سالگرہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس میں جو کھانا بناتے ہیں اور پیش کرتے ہيں کیا اس میں سے کھانا جائز ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

سائل: اگرچہ سالگرہ کی تقریب کے بعد ہی کیوں نہ ہو؟

الشیخ: نہيں نہيں، یہ (بہرحال) جائز نہیں۔

(السلسلۃ الھدی النور 565)

شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ

سوال: کچھ عرصہ قبل ہم ایسی باتيں نہيں سنا کرتے تھے کہ عید المیلاد (سالگرہ) اور میوزک جائز ہے، نہ ہی ہم بعض داعیان کو دیکھتے تھے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اختلاط اختیار کرتے ہوں، نا ہی یہ سنتے تھے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج پر لوگوں کو اکسایا جائے، لیکن ان دنوں یہ تمام باتيں سننے میں آرہی ہيں جو لوگوں کو معاصی کی طرف لے جارہی ہيں، تو معالی الشیخ آپ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرمائيں گے؟

جواب: یہ غلطی ہے اس میں کوئی شک نہيں کہ یہ واضح غلطی ہے۔عید میلاد یا سالگرہ منانا بدعت ہے ہمارے یہاں بس دو ہی عیدیں ہیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ، یہ اسلام کی عیدیں ہيں اور جو اس کے علاوہ ہیں وہ مسلمانوں کی عیدیں نہیں۔ اسی طرح جمعہ کا دن ہفتہ وار عید ہے۔ پورے ہفتے کی عید جمعے کا دن ہے اور سالانہ عیدیں عید الفطر اور عیدالاضحیٰ ہيں اس کے علاوہ اسلام میں اور (خودساختہ) عیدیں نہيں ہيں۔ نہ ہی عید میلاد نہ برسیاں یہ سب کی سب باطل ہيں۔

لیکن اگر آپ لوگ شروع میں جہالت کی بنا پر ایسا کرتے رہے ہيں تو اب آپ نے حق بات کو جان لیا ہے الحمدللہ، پس اب آپ کو چاہیے کہ حق بات کو لیں اور جو کچھ پہلے کرتے آئے ہيں اسے چھوڑ دیں، تو اللہ تعالی بھی آپ سے درگزر فرمائے گا۔

(شیخ  حفظہ اللہ  کی ویب سائٹ سے ’’ما حكم الاحتفال بغير أعياد المسلمين‘‘)

فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب

سوال: ہمارے بعض مسلمان بھائی اپنی اور اپنی اولاد کی سالگرہ مناتے ہيں، اسلام کی ایسی عیدوں (میلاد وسالگرہوں) کے بارے میں کیا رائے  ہے؟

جواب: عبادات کے بارے میں اصل توقیف ہے (یعنی کتاب وسنت سے جب تک ثابت نہ ہوں نہيں کرنی چاہیے)۔ لہذا کسی کے لیے جائز نہيں کہ وہ ایسی چیز کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت بجالائے جو اس نے مشروع نہيں قرار دی۔ کیونکہ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([5])

(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔

اور فرمایا:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([6])

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔

اور یہ میلادیں سالگرہیں منانا انہی اللہ کے دین میں نوایجاد یافتہ عبادات کی انواع میں سے ہے، جائز نہيں کہ ان پر عمل کیا جائے اگرچہ زندگی میں اس کا کیا ہی مقام اور کردار ہو۔ کیونکہ تمام مخلوق میں سے سب سے اکرم اور تمام رسولوں  علیہم الصلاۃ والسلام  میں سے سب سے افضل  سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے یہ بات محفوظ ہوکر نہيں پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے یوم پیدائش کو عید یا سالگرہ منانا ہو، نہ ہی اپنی امت کو اس جانب رہنمائی فرمائی۔ اور اس امت میں اس کے نبی کے بعد سے سب افضل ترین خلفائے راشدین اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے بھی یہ بات محفوظ ہوکر نہيں پہنچی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا عید میلاد یا اپنے میں سے کسی کی بھی سالگرہ منائی ہو رضی اللہ عنہم۔ اور ہر قسم کی بھلائی اور خیریت انہی کی اتباع میں ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مدرسے سے تربیت پائی۔ ساتھ ہی اس پر اس بات کا اور اضافہ کرلیجئے کہ اس میں یہود ونصاریٰ وغیرہ جیسے کافروں نے جو عیدیں بنارکھی ہيں ان سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ واللہ المستعان۔

فتویٰ رقم 2008

وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء

عضو              عضو                        نائب رئيس اللجنة                   الرئيس

عبد الله بن قعود  عبد الله بن غديان          عبد الرزاق عفيفي           عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثالث (العقيدة 3)>بدع الأعياد>الاحتفال بعيد ميلاد الأولاد)

سوال: بعض اسکولز  بچوں سے ان کی سالگرہ پر تحفے منگواتے ہیں،  کیا مسلمان طلبہ کو ایسے تحائف لینے چاہیے؟

جواب: سالگرہ کے موقع پر تحائف دینا یا لینا جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ایسی عیدیں (سالگرہیں) اسلام میں حرام ہيں۔ اور جو حرام پر مبنی ہو وہ خود بھی حرام ہوتا ہے۔

فتویٰ رقم 19504 سوال 8۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو              عضو              نائب الرئيس                          الرئيس

بكر أبو زيد       صالح الفوزان      عبد العزيز آل الشيخ       عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الثانية>المجلد الثاني (العقيدة)>الأعياد>أعياد الميلاد)

سوال: آپ کی کیا رائے ہے ان خوشی کی تقریبات کے بارے میں جو Trinidad میں مسلمان شادی بیاہ، نئے گھر میں منتقلی، شخصی سالگرہ وغیرہ جیسی خوشی کے مناسبات پر کرتے ہیں۔ جس میں وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہيں، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی مدح سرائی میں نعتیں بھی پڑھتے ہيں، پھر اپنے اس تقریب ومحفل کو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ادب واحترام میں کھڑے ہوکر ختم کرتے ہیں؟

جواب:

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے خفیہ نکاح سے منع فرمایا ہے، اور حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے، اور شادی کے موقع پر تقریب ہونا پھر دلہن کا اپنے شوہر کے گھر رخصت ہوکر جانا اس کے اعلان میں شمار ہوتا ہے۔ تو یہ مشروع ہے الا یہ کہ اگر اس میں منکر گانا بجانا ہو یا مردوزن کا اختلاط ہو یا اس جیسے محرمات ہوں تو یہ صحیح نہيں۔

2- اسلام میں عیدیں صرف تین ہیں: عید الفطر، عید الاضحیٰ اور یوم جمعہ۔ جبکہ شخصی عیدیں (سالگرہ) وغیرہ جس میں لوگ خوشی کے مواقع پر جمع ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہجری سال یا عیسوی سال کی پہلی تاریخ کو، یا نصف شعبان کے دن یا رات (شب برأت) کو،  یا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں، یا جس دن شاہان مملکت یا جمہوری ریاست کے سربراہ کی تاج پوشی  یا تقریب حلف برداری وغیرہ ہوتی ہے، تو یہ اور اس جیسی دیگر تقریبات عہدنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں نہيں تھیں، نہ ہی خلفائے راشدین یا ان تین زمانوں میں جن کے خیر پر ہونے کی گواہی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دی ان میں تھی۔ چنانچہ یہ ان بدعات ومحدثات میں سے ہے جو کہ مسلمانوں میں غیروں سے سرایت کرچکے ہيں، اور وہ اس فتنے میں مبتلا ہوگئے ہيں، لہذا وہ اس کو یوں ذوق وشوق سے منانے لگے ہيں جیسے اسلامی عیدوں کو مناتے ہيں یا پھر اس سے بھی بڑھ کر۔ اور ان میں سے بعض جشن وتقریبات میں تو شخصیات کے تعلق سے غلو کیا جاتا ہے، مال کا اسراف ہوتا ہے، مردوزن کا آزادانہ اختلاط ہوتا ہے، اور کافروں کے اپنے جشن میں یا جسے وہ عید کہتے ہيں میں جو عادات وروایات ہوتی ہيں اس میں ان کی نقالی اور برابری کی جاتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُور، فَإِنّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ‘‘([7])

(دین میں نئے نئے کاموں سے بچنا، کیونکہ بے شک دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔

اور فرمایا:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([8])

(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔

اور یہ بالکل ظاہر ہے اگر جس کے لیے محفل منعقد کی گئی ہے اس سے اس کی تعظیم مقصود ہو، یا اس کی برکت کی امید ہو، یا عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منانے پر ثواب کی امید رکھے، یا الحسین کا میلاد، البدوی کا میلاد اور ان کے علاوہ دوسروں کا، یا ان دنوں یا راتوں کی تعظیم جن میں یہ محفل یا جشن منایا جاتا ہے، اس میں جشن منانے کے ثواب اور برکت کی امید رکھتے ہوئے، جیسا کہ نصف شعبان کی رات یا اس کے دن کو مناتے ہيں، یا شب معراج منانا یا اس جیسے دیگر ایام۔  کیونکہ جو ہم نے مثالیں بیان کی ہيں ایسی محافل ہیں جو تقرب حاصل کرنے اور ثواب کی نیت سے کی جاتی ہيں۔ البتہ جو تبرک وثواب کی نیت سے نہ ہوں جیسے بچوں کی سالگرہ، یا نئی ہجری یا عیسوی سال کا جشن، یا قوم کے زعماء کا منصب سنبھالنے پر جشن وغیرہ تو اگرچہ یہ عادات سے متعلق بدعات میں سے ہیں مگر ساتھ ہی اس میں کافروں کی نقالی ہے ان کی عیدوں میں، اور دیگر ایسی حرام محافل منانے کے لیے ایک ذریعہ ہےجس میں باقاعدہ غیر اللہ کے لیے تعظیم وتقرب ہوتا ہے۔ لہذا یہ سدذرائع  اور کفار کی عیدوں اور محافل میں مشابہت سے بچنے کے لیے بھی ممنوع ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے واضح طور پر فرمادیا ہےکہ:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([9])

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔

3- تلاوت قرآن افضل ترین تقرب کا ذریعہ اور اعمال صالحہ میں  سے ہے، لیکن  اسے اپنے بدعتی تہواروں اور مجالس کے لیے سند جواز بنانا جائز نہيں، کیونکہ اس میں اس کی اہانت ہے کہ اسے اس کے لائق مقام سے ہٹ کر رکھا گیا ۔ اور جہاں تک بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی مدح سرائی میں نعتیں پڑھنا تو یہ اچھی بات ہے لیکن اگر اس میں غلو ہو تو یہ جائز نہيں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([10])

(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم  علیہما الصلاۃ والسلام کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں ایک بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔

اور فرمایا:

’’إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْغُلُوُّ‘‘([11])

(تم دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلوں کو اس غلو نے ہی ہلاک وبرباد کیا تھا)۔

جیسا کہ یہ بھی جائز نہيں کہ اس کام کے لیے کوئی دن مخصوص کیا جائے اور اسے باقاعدہ اس کا موسم اور عید کے طور پر منایا جائے۔

4- محفل کا اختتام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ادب واحترام میں تعظیمی قیام کرکے کرنا ایک ایسا برا اختتام ہے کہ جس سے نہ اللہ تعالی راضی ہوتا ہے نہ اس کا رسول، نہ ہی شریعت نے اس کا اقرار کیا ہے بلکہ یہ تو حرام بدعات میں سے ہے۔

فتویٰ رقم 1002 س 1۔

وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو              عضو                        نائب رئيس اللجنة                   الرئيس

عبد الله بن منيع  عبد الله بن غديان          عبد الرزاق عفيفي           إبراهيم بن محمد آل الشيخ

(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثامن (الصلاة 3)>صلاة العيدين>إقامة الاحتفالات)


[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).

[2] صحیح مسلم 870۔

[3] صحیح بخاری 7320 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ‘‘۔

[4] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔

[5] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).

[6]یہ حدیث گزر چکی ہے۔

[7] مسند الامام احمد 4/126-127، صحيح الترغيب والترهيب1/92/34.

[8] حدیث گزر چکی ہے۔

[9] حدیث گزر چکی ہے۔

[10]البخاري أحاديث الأنبياء (3261)۔

[11] النسائی مناسک الحج (3057)، اخرجہ الامام احمد (1/215، 347)، والنسائی برقم (5/268، 269)، وابن ماجہ برقم (3029)، وابن ابی عاصم (98)، وابن خزیمۃ (4/247)، وابن الجارود فی (المنتقی) برقم (473)، وابن حبان (1011)، والطبرانی فی (الکبیر) برقم (12747)، والحاکم (1/466)، والبیھقی (5/127)، وابو یعلی الموصلی (4/316، 357) من حدیث ابن عباس۔

ترجمہ، جمع و ترتیب

طارق بن علی بروہی