بسم اللہ الرحمن الرحیم
The correct position regarding the disputes between the Companions, Muawiyyah (رضی اللہ عنہ) and Yazeed – Fatwa Committee, Saudi Arabia
سوال: بہت سے ترک مسلمان معاویہ رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے یزید پر ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں کیا وہ ان کی لعنت کے مستحق ہیں یا نہیں؟
جواب: جہاں تک معاويہ رضی الله عنہ کا تعلق ہے تو وہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم کے صحابی ہیں، اور کاتبین وحی میں سے ایک ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم بہتریں مؤمنین ہیں، ان کو گالی دینے اورسب وشتم کرنے کے بارے میں ممانعت وارد ہے، اور لعنت کرنا تو بالاولیٰ ممنوع ہے۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘[1]
(بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ان سے ملے ہوئے ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ان سے ملے ہوئےہوں گے)۔
اور صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ‘‘[2]
(میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد(پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے کسی کے مد بلکہ نصف مد کے برابر تک بھی نہیں پہنچ سکتا)۔
اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جید سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
’’اللهم علمه الكتاب والحساب، وقه سوء العذاب‘‘[3]
(اے اللہ تو انہیں کتاب اور حساب کا علم سکھا، اور تو انہیں برے عذاب سے بچا)۔
اسے شيخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے ذکر کیا ہے۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی تو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے یہ ہیں:
1- جس نے اصحاب رسول الله رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک پر لعنت کی خواہ وہ معاويہ رضی اللہ عنہ ہوں یا کوئی اور رضی الله عنہم اجمعین، تو مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ سنگین سزا کا مستحق ہوگا، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کیا اسے قتل کی سزا دی جائیگی یا اس کے علاوہ کوئی۔
2- اور مسلمانوں کے دل وزبانیں اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں پاک رہنے چاہیے، جیساکہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ان کی تعریف کی ہے کہ:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الحشر:١٠)
(اور جو ان (مہاجرین وانصار صحابہ) کے بعدآئے وہ دعاء کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے)
3- اور اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ: بلاشبہ جو آثار ان کی برائیوں کے بارے میں مروی ہیں ان میں سے کچھ تو محض جھوٹ ہیں، اور کچھ میں زیادتی وکمی کی گئی ہے اور صحیح تناظر سے ہٹا کر پیش کیا گیا ہے۔ اور ان میں سے جوصحیح ہیں بھی تو اس میں وہ معذور ہیں یا تو صواب پانے والے مجتہد ہیں تو ان کے لیے دوہرا اجر ہے یا تو غلطی ہوجانے والے مجتہد ہیں تو ان کے لیے ایک اجرہے، اور ان کی غلطی معاف ہے۔ اور اس کے باوجود ان کا یہ عقیدہ نہيں کہ ہر صحابی گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہے، بلکہ ان سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں لیکن ان کی اسلام میں سبقت ، اور ایسی نیکیاں اور فضائل ہیں کہ اگر ان سے کچھ صادر ہوا بھی تو وہ ان کی خطاؤں کو بخشنے کا باعث بنتے ہیں، جو ان کے بعد میں آنے والوں کو حاصل نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس برائیوں کو مٹانے والی ایسی نیکیاں ہیں جو ان کے بعد میں آنے والوں کےپاس نہیں۔ اور یہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے کہ بلاشبہ وہ خیر القرون (بہترین زمانے کے بہترین لوگ) ہیں، اور ان میں سے کسی کا مٹھی بھر خیرات کرنا ان کے بعد آنے والوں کے جبل احد کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل ہے جیساکہ پہلے بیان میں گزر چکا ہے۔ پھر اگر ان میں سے کسی ایک سے گناہ سرزد ہو بھی گیا ہو تو وہ یقیناًاس سے توبہ کرچکا ہوگا،یا ایسی نیکیاں کی ہوں گی جو اسے مٹا چکی ہوں گی، یا اس کو اسلام کی جانب سبقت کرنے کے سبب بخش دیا گیا ہوگا ،یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے بخش دیا جائے گا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، یا دنیا میں وہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیے گئے ہوں گے جو ان کے گناہوں کا کفارہ بن گئی ہوگی، اگر ایسا ان گناہوں کے لیے ہے جو حقیقی ہیں تو پھر ان امور کا کیا حال ہوگا جن میں انہوں نے اجتہاد کیا، اگر اس میں صواب کو پایا ہوگا تو دو ہرا اجر ، اور اگر خطاءکر گزرے ہوں گے تو ایک اجر کے ساتھ ساتھ وہ غلطی بھی معاف۔
پھر غلطیوں کی وہ مقدار جس کے بارے میں ان میں سے بعض پر نکیر کی جاتی ہے وہ تو بہت قلیل ہے اور ان کے فضائل، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان، اس کی راہ میں جہاد، ہجرت، نصرت، علم نافع اور عمل صالح جیسے محاسن کے بے پایاں سمندر میں غرق ہوجاتی ہیں۔
4- اور وہ (اہل سنت والجماعت) كہتے ہيں کہ: صحابہ کے معاملے میں میانہ روی اور اعتدال واجب ہے اور ان کے مابین جو مشاجرات ہوئے ان میں زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، یہ نہ کہا جائے کہ ایک گروہ معصوم ہے اور دوسرا گنہگار، جیساکہ اہل بدعت شیعہ اور خوارج کہتے ہيں جنہوں نے فریقین میں مبالغہ آرائی کی، ایک گروہ کو معصوم اور دوسرے کو گنہگار ٹھہرایا اس طرح ان میں بدعت نے جنم لیا اور انہوں نے اسلاف کو سب وشتم کرنا شروع کردیا، بلکہ چند ایک کو چھوڑ کر سب کو فاسق اور کافر تک قرار دیا، جیسا کہ خوارج نے علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کو جائز قراردیا، یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے نبی صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ‘‘[4]
(مسلمانوں کے افتراق کے وقت مارقہ (فتنہ انگیز) جماعت نکلے گی جسے مسلمانوں کا وہ گروہ قتل کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہوگا)۔
چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جنگ کی، جو کہ مارقہ (خوارج) تھے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا اور ان کے ساتھ جن لوگوں کو آپ نے حکمران مقرر کیا تھا ان کی بھی تکفیر کی، نبی صلى الله علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
’’إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَسَيُصْلِحُ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِين‘‘[5]
(بےشك میرا یہ بیٹا سید ہے، اور(امید ہےکہ) عنقریب اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں كے درميان صلح کروادے گا)۔
تو ان کے ذریعے شیعان علی ( علی رضی اللہ عنہ کے حامیان) اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے درمیان صلح کروائی۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انہوں نے وہ کام کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے، اور یہ کہ یہ دونوں گروہ خوارج کی طرح نہیں ہیں جن کو قتل کرنے کا رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا، اسی لیے علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں خوش تھےلیکن صفین اور جمل کی جنگ پر غمگین تھے آپ کو اس سے شدید صدمہ اور دکھ ہوا۔
علاوہ ازیں فریقین کو بری قرار دینا اور ان کے مقتولین پر رحم کا اظہار کرنا واجب ہے ، کیونکہ یہ متفق علیہ امور میں سے ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر فریق مومن ہے اور قرآن نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ مومنین کی آپسی جنگ انہیں ایمان سے خارج نہیں کرتی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنْ طَاىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات: 9)
(اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو ان میں میل ملاپ کروادیا کرو)
اور یہ جو حدیث میں مروی ہے کہ:
’’إذا اقتتل خليفتان فأحدهما ملعون‘‘
(جب دو خلیفہ باہمی قتال کریں تو ان میں سے ایک ملعون ہوگا)۔
یہ جھوٹ اور افتراء ہے محدثین میں سے ایسی حدیث کسی نے روایت نہیں کی۔ اور معاويہ رضی اللہ عنہ نے نہ تو خلافت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کسی نے ان کی اس وقت بیعت کی جب وہ علی رضی اللہ عنہ سے لڑ رہے تھے۔ اور نہ ہی انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اس لیے جنگ کی کہ وہ ( معاویہ رضی اللہ عنہ ) خلیفہ ہیں، یا خلافت کے حقدار ہیں ،اور نہ ہی وہ اور ان کے ساتھی شروع میں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی ابتداء کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ ان پر واجب ہے کہ وہ ان کی بیعت کریں اور ان کی اتباع کرے کیونکہ لوگوں کے لیے دو خلیفہ نہیں ہو سکتے ، اور کیونکہ یہ لوگ ان کی اطاعت سے خارج ہیں انہوں نے یہ سوچا کہ وہ اس وقت تک لڑیں گے جب تک وہ واجب پورا نہیں کرتے اورا طاعت وجماعت کو لازم نہيں پکڑتے۔ جبکہ دوسری طرف والے یہ کہتے تھے کہ ان پر یہ (اطاعت) واجب نہيں جب تک عثمان رضی اللہ عنہ کا حق ان سے نہیں لیا جائے جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج کیا اور ان کو قتل کردیا، اور ایسے لوگ خود علی رضی الله عنہ کے لشکر میں موجود ہیں۔
البتہ جہاں تک یزید بن معاويہ کا تعلق ہے تو لوگ اس کے بارے میں دو طرف اور اعتدال پر ہیں، تینوں میں سے درمیانہ ومعتدل قول یہ ہے کہ : بلاشبہ وہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا اس کی کچھ نیکیاں ہیں اور برائیاں بھی ہیں اور وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا مگر عثمان رضی الله عنہ کے دور خلافت میں۔ کافر نہیں تھا لیکن اس کی وجہ سے حسین رضی اللہ عنہ کا قتل واقع ہوا، اور اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا وہ بھی ، وہ نہ تو صحابی تھا اور نہ ہی صالحین اولیاء اللہ میں سے تھا۔ شيخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے فرمایا[6]:
اور عام طور پر اہل علم ودانش اور اہل سنت وجماعت کا قول بھی یہی ہے، جہاں تک اس پر لعنت کرنےکا معاملہ ہے تو لوگوں میں تین گروہ ہیں: ایک گروہ اس پر لعنت کرتا ہے، ایک گروہ اس سے محبت کرتا ہے، اور ایک گروہ نہ تو اسے سب وشتم کرتا اور نہ ہی اس سے محبت کرتا ہے۔
شيخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله تعالى مزید فرماتے ہیں:
یہی بات امام احمد رحمہ اللہ سے منصوص ہے اور اسی پر ان کے ساتھی وغیرہ اور تمام مسلمانوں میں سے اعتدال پسند قائم ہیں، اور یہی میانہ روی پر مبنی قول ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ : اس سے ایسا فسق ثابت نہیں جو اس پر لعنت کا متقاضی ہو یا اس پر مبنی ہے کہ کسی معین فاسق پر لعنت نہیں کی جا سکتی تحریمی طور پر یا تنزیہی طور پر۔ صحيح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن حمار رضی اللہ عنہ کا قصہ ثابت ہے جنہوں نے کئی بار شراب پی اور رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے ان کو کوڑے بھی مروائے، لیکن جب بعض صحابہ نے ان پر لعنت کی تو نبی صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ‘‘[7]
(ان پر لعنت مت کرو، کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں)۔
اور نبی كريم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ‘‘[8]
(مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے كى مانند ہے)۔
اسی طرح سےجیسے وعید کی نصوص یتیموں کا مال کھانے، زنا اور چوری کے بارے عام ہوتے ہیں تو اس لیے کسی ایک معین شخص کے لئے گواہی نہیں دی جا سکتی کہ وہ دوزخی ہے کیونکہ اس کا جو تقاضہ بنتا ہے اس کے نافذ ہونے میں کسی چیز کے رکاوٹ بن جانے کا امکان ہوتا ہے جو کہ راجح ہو جیسے ہو سکتا ہے وہ توبہ کرلے، یا پھر اس کی نیکیاں زیادہ ہوں ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس پر آنے والی مصیبتیں اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائيں، یا پھر اس کے حق میں شفاعت قبول ہو جائے یا ان کے علاوہ گناہوں کے کفارے کے لیے اور بہت سی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ تو تھی اسےسب وشتم اور لعنت سے منع کرنے کے بارے میں وضاحت۔
جہاں تک معاملہ اس سے محبت ترک کرنے کا ہے تو بلاشبہ اس سےایسے کوئی خاص اعمال صالحہ صادر نہيں ہوئے جو اس سے محبت کو واجب کریں۔
لہذا باقی یہی رہ جاتا ہے کہ وہ دیگر سلاطین وبادشاہوں کی طرح بس ایک بادشاہ تھا۔اس قسم کے اشخاص سے محبت کوئی مشروع نہیں ہے،کیونکہ بلاشبہ اس سے ایسے اعمال سرزد ہوئے ہیں جو اس کے فسق اور ظلم کے متقاضی ہیں، جیسا کہ جو باتيں اس کی سیرت ، حسین رضى الله عنہ اور اہل حرہ کے معاملہ کے متعلق ہیں۔
وبالله التوفیق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح بخاری 2652، صحیح مسلم 2536۔
[2]البخاري المناقب (3470)، مسلم فضائل الصحابة (2541)، الترمذي المناقب (3861)، أبو داود السنة (4658)، ابن ماجه المقدمة (161)، أحمد (3/55).
[3] یہ الفاظ بھی وارد ہیں کہ: ’’اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ‘‘ (مسند احمد 16702، شیخ البانی نے السلسلة الصحيحة 3227 میں شواہد کے اعتبار سے صحیح کہا ہے) (مترجم)۔
[4] صحیح مسلم 1065۔
[5] صحیح بخاری 2704۔
[6] مجموع الفتاویٰ 3/409،414 اور4/443، 484، 506۔
[7] البخاری [فتح الباری] برقم 6780، وابویعلی ٰالموصولی فی المسند برقم 176،177۔
[8] صحیح بخاری 6047، صحیح مسلم 112۔
ترجمہ: فتوی کمیٹی ویب سائٹ۔
نظر ثانی وتصحیح: طارق بن علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الثالث (العقيدة 3) > ما يتعلق بالصحابة > يزيد بن معاوية الناس فيه طرفان ووسط، فتوی رقم 1466۔
YouTube