بہتری کے لیے گھر تبدیل کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Changing House for Better?

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی:

” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثِيرٌ فِيهَا عَدَدُنَا، وَكَثِيرٌ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ أُخْرَى فَقَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَقَلَّتْ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَرُوهَا ذَمِيمَةً “[1]

 ( یا رسول اللہ! ہم ایک گھر میں ہوا کرتے تھے ہمارے افراد کی تعداد بھی وہاں زیادہ رہتی تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ ہوتا تھا، پھر ہم ایک دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے تو ہمارے افراد کی تعداد بھی کم ہونے لگی اور مال بھی کم ہونے لگا، اس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، قابل مذمت حالت میں)۔

صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:

یہ کہنا کہ: ”ہماری تعداد “ اس سے مراد ہے ہمارے اہل عیال۔ اور یہ کہنا: ”تو ہم ایک دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے۔۔۔الخ“ یعنی : کیا ہم اسے چھوڑ دیں اور اس کے علاوہ کسی اور گھر میں چلے جائيں یا پھر یہ بدشگونی لینے کے باب میں سے ہے؟ یہ فرمان کہ: ”اسے چھوڑ دو، قابل مذمت حالت میں“ یعنی اسے ترک کردو مذموم حالت میں ”مَذْمُومَة“  فعیلہ کے وزن پر ہے بمعنی مفعولہ، ایسا ابن الاثیر نے فرمایا۔

معنی یہ ہے کہ کسی دوسری جگہ چلے جاؤ اور اسے چھوڑ دو اس حال میں کہ یہ مذموم ہے، کیونکہ اس کی ہوا تمہارے لیے غیرموافق ہے۔

الاردبیلی الازھار میں فرماتے ہیں: یعنی اسے چھوڑ دو اور کسی اور جگہ چلے جاؤ تاکہ اسےچھوڑنے پر بدگمانی اور بلاؤں کو دیکھنے سے خلاصی حاصل ہو۔

الخطابی اور ابن الاثیر فرماتےہیں: آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں گھر تبدیل کرنے کا حکم صرف اس لیے دیا تھا کہ جو کچھ ان کے دل میں بات پیدا ہوئی اس کا ازالہ ہو کہ جن ناپسندیدہ باتوں کا انہیں سامنا ہے وہ اس گھر کی وجہ سے ہے، لہذا اگر وہ اسے چھوڑ دیں گے تو  اس وہم کو ابھارنے والا مادہ ختم ہوجائے گا اور اس شبہے کا ازالہ ہوجائے گا جو ان کے ذہن سے چمٹ گیا ہے۔

اس حدیث پر المنذری نے سکوت اختیار کیا ہے۔اھ([2])

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک عورت ہے جو جنوبی علاقے میں رہتی ہے اس کے ساتھ بیٹے اور بیٹیاں ہیں، جب وہ اسی جنوبی علاقے کے اپنے ایک نئے گھر میں منتقل ہوئی تو اس کا ایک بیٹا مر گیا اور جلد ہی ایک بیٹی بھی۔ اس نے ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا کہ اگر وہ اسی گھر میں رہی تو عنقریب اس کے سارے بچے مرتے جائيں گے۔

ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اس بارے میں استفادہ چاہتے ہيں یہ بات علم میں رہے کہ اب بھی اس کے پاس پانچ بیٹے بیٹیاں ہيں۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بعدہ:

اگر حالت واقعی وہ ہے جو آپ نے بیان کی تو اسے اختیار ہے اگرچاہے تو اسی گھر میں رہے اور اگر چاہے تو کسی نئے گھر میں منتقل ہوجائے، کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

”الشؤم في ثلاثة: في البيت والمرأة والدابة “

(نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے: گھر، عورت اور جانور والی  سواری میں)۔

وفق الله الجميع والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

مفتي عام المملكة: عبد العزيز بن عبد الله بن باز([3])

سوال: بعض لوگ ایک گھر میں رہتے تھے تو بہت خیر و عافیت میں تھے، پھر اچانک اس  گھر میں ان پر حادثات ومصائب ٹوٹنا شروع ہوگئے یہاں تک کہ وہ اس سے نحوست لینے لگے اور اس کے بیچنے کی ٹھان لی، ان حادثات  میں سے وہ فتنے ہیں جن کا انہیں سامنا ہوا اور اس گھر کے بعض افراد نے خودکشی تک کرلی، پس کیا یہ بدشگونی لینے میں سے شمار ہوگا؟ لوگوں کی رہنمائی فرمائيں، جزاکم اللہ خیراً۔

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

یہ بدشگونی لینے میں سے نہیں ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا جیسا کہ صحیح حدیث ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوسکتی  ہے گھر، سواری اور عورت۔۔۔ اسی طرح سے اگر گھر ہو اور اس میں پے در پے حادثات ہوتے رہیں اور حالت بری ہوتی جائے، اسے اور اس کے گھر والوں کو مرض ہی مرض لاحق ہونے لگیں تو کوئی حرج نہیں  اس صحیح حدیث کی بنیاد پر اسے چھوڑ کر  یا بیچ کر کوئی اور گھر لے لیں یا کرایے پر چلے جائيں۔ ۔۔اھ([4])

سوال: سوڈان سے ایک بہن پوچھتی ہے: ہم ایک گھر میں چار سال سے رہ رہے ہیں  اور ہم جب سے اس گھر میں آئے ہیں ہمیں برے حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے جیسے گھر کے لوگوں کا اور جو ہمارے مویشی ہيں  ان کا مرض میں مبتلا ہونا ، مویشیوں کی افزائش نہ ہونا کہ ان میں سے نہ نسل چل رہی ہے نہ دودھ آتا ہے نہ کوئی فائدہ، اس وجہ سے ہم اس گھر سے نحوست لیتے ہيں، کیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ اور اگر ہم اس سبب کی وجہ سے اس گھر کو چھوڑ کر کسی اور گھر منتقل ہوجائيں تو کیا ہم اس وجہ سے گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ :

کبھی کبھار بعض گھر منحوس ہوتے ہیں۔۔۔اللہ تعالی نے اپنی حکمت سے ان  کے ساتھ رہنے پر نقصان کا یا نفع کا فوت ہونا یا اس کے سوا اور باتوں کو مقدر فرمایا ہوتا ہے۔

چنانچہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں  کہ اس گھر کو بیچ دیں اور اس کے علاوہ کسی اور گھر میں منتقل ہوجائيں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی  آپ کے لیے وہاں خیر  رکھ دے جہاں آپ منتقل ہوں۔ یہ بات نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے وارد ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: تین چیزوں میں نحوست ہے۔ اور ان میں سے گھر کا بھی ذکر فرمایا۔

جب شیخ سے پوچھا گیا کہ کن تین چیزوں میں نحوست ہے تو فرمایا: گھر، عورت اور گھوڑے میں۔ یعنی بعض سواریوں میں نحوست ہوتی ہے، بعض  بیویوں میں نحوست ہوتی ہے، بعض گھروں میں نحوست ہوتی ہے۔اگر آپ ایسا کچھ دیکھیں تو سمجھ لیں کہ یہ اللہ کی تقدیر میں سے ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالی  نے اپنی حکمت سے اسے مقدر فرمایا تاکہ آپ کسی اور جگہ منتقل ہوجائيں([5])۔

شیخ زید المدخلی  رحمہ اللہ  الادب المفرد کی شرح میں فرماتے ہیں:

راجح بات یہ ہے کہ اگر وہ یہ عقیدہ رکھتا ہےکہ یہ تین چیزیں بلاؤں کے نازل ہونے کا سبب ہیں  تو یہ حرام ہے، لیکن اگر اس کا مقصد انہیں ناپسند کرنا، ان سے سینہ تنگ ہونا اور مطمئن نہ ہونا ہو تو اسے چاہیے ان سے جدائی اختیار کرلے([6])۔

مزید تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری کتاب ”اسلام میں بدشگونی کی مذمت“ ۔


[1] سنن ابی داود 3924، صحیح ابی داود “حسن”

[2] عون المعبود میں مندرجہ بالا حدیث کی شرح۔

[3] یہ سوال  ذاتی طور پرشیخ سے کیا گیا، اور شیخ نے اس کا جواب 1/7/1419ھ میں دیا

[4] فتویٰ : حكم ترك البيت الذي تتوالى فيه الحوادث والمصائب

[5] فتاوى نور على الدرب، الشريط رقم [106]

[6] عون الاحد الصمد شرح الادب المفرد ج 3 ص 48۔

ترجمہ، جمع و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*