مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کا کیا حکم ہے؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

What is the ruling on helping disbelievers against Muslims? – Shaykh  Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب  رحمہ اللہ  اپنے رسالے ”نواقض الاسلام“ میں آٹھواں ناقض ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مشرکوں کی پشت پناہی کرنا اور مسلمانوں کے خلاف ان کی معاونت کرنا۔ اس کی دلیل فرمان الہی ہے:

﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ (المائدۃ: 51)

(اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان ہی میں سے ہے

موالات و مظاہرۃ کا معنی اور ان کا حکم

شیخ صالح الفوزان  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

شیح  رحمہ اللہ   کفار سے موالات (محبت و دوستی) کی مختلف انواع میں سے صرف ایک نوع کو لائے ہيں جو کہ مظاہرہ (یعنی ان کی مدد و پشت پناہی کرنا) ہے، ورنہ موالات میں تو یہ بھی شامل ہيں جیسے: ان سے دلی محبت کرنا، مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مدد کرنا، کافروں کی تعریف و ستائش کرنا وغیرہ۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر کافروں سے بغض ونفرت  رکھنا اوران سے برأت وبیزاری کا اظہارکرنا واجب قرار دیا ہے۔ اور اسے اسلام میں باب الولاء والبراء([1]) (یعنی اللہ کے لیے دوستی و دشمنی) کہتے ہیں۔

آپ کا یہ فرمانا:

مشرکوں کی پشت پناہی کرنا اور مسلمانوں کے خلاف ان کی معاونت کرنا۔

معاونت اسی مظاہرت کو کہتے ہیں، تو ظاہر یہی ہوتا ہےکہ یہ عطف تفسیری ہے، پس المظاہرۃ کا معنی یہی المعاونۃ ہے۔

پھر آپ  رحمہ اللہ  نے اس آیت سے استدلال فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاءَ  ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ (المائدۃ: 51)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ  تو بس ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان میں سے ہے، بے شک  اللہ تعالی ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا)

پس اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾  (اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان میں سے ہے) دلیل ہے ایسا کرنے والے کے کفر کی۔ کیونکہ اللہ تعالی کے اس فرمان ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾  (تو یقیناً وہ ان میں سے ہے) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کفر میں ان کے ہی جیسا ہے۔ یہ ہے شیخ  رحمہ اللہ  کا وجۂ استدلال۔

موالات کی اقسام

ہم نے یہ بات ذکر کی کہ موالات کی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

دل میں محبت رکھنا اگرچہ ان کی پشت پناہی نہ کرنا۔

ان کی مدد، معاونت وپشت پناہی کرنا اگرچہ ان سے محبت نہ ہو۔

ان کی اور ان کے دین کی تعریف و مدح کرنا۔

اور یہ سب موالات میں داخل ہے کہ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾  (اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان میں سے ہے) ان سے موالات رکھے محبت کے ذریعے، یا موالات رکھے مسلمانوں کے خلاف ان سے معاونت و نصرت کے ذریعے، یا ان کی اور جس چیز پر وہ ہیں اس کی مدح و تعریف کے ذریعے موالات رکھے، یہ آیت سب کو عام ہے۔

مظاہرت (مدد و پشت پناہی)کی اقسام

مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مظاہرت (مدد و پشت پناہی) کرنے کی اقسام ہیں:

پہلی قسم: مسلمانوں کے خلاف ان کی پشت پناہی و معاونت کرنا ساتھ میں جس کفر و شرک و گمراہی پر وہ ہیں اس سے بھی محبت رکھنا۔ تو اس قسم کے بارے میں کوئی شک نہيں کہ یہ ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا کفر اکبر ہے۔ جس کسی نے  مسلمانوں کے خلاف ان کی پشت پناہی، مدد و معاونت کی ساتھ میں ان کے دین اور جس چیز پر وہ ہيں اس سے محبت رکھتے ہوئے ان سے راضی ہوکر اپنے اختیار سے بنا کسی اکراہ (مجبوری) کے کی، تو یہ ایسا کفر اکبر ہوگا جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے اللہ تعالی کے اس فرمان ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾  (تو یقیناً وہ ان میں سے ہے) کے ظاہر کے مطابق۔

دوسری قسم: وہ مسلمانوں کے خلاف تعاون کریں لیکن اپنے اختیار سے نہیں، نہ ہی و ہ ان سے محبت کرتے ہيں بلکہ انہیں اس پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے درمیان رہتے ہیں۔ اس پر بھی شدید وعید ہے اور خدشہ ہے ان پر بھی اس کفر کا جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔ وہ ا س لیے کیونکہ جب بدر والے دن مشرکین نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو مجبور کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف قتال کے لیے نکلیں، تو اللہ تعالی نے ان پر نکیر فرمائی کیونکہ خود انہوں نے ہجرت کو ترک کیا اور مشرکین کے ساتھ رہائش باقی رکھی، لہذا انہوں نے اپنے آپ کو خود ایسی حالت میں مبتلا کروایا جس سے وہ انہيں مجبور کرسکے کہ انہيں اپنے ساتھ جنگ کے لیے نکالیں حالانکہ وہ تو کافروں کے دین سے بغض رکھتے اور مسلمانوں کے دین سے محبت کرتے ہیں، لیکن بس اپنے مالوں، وطن اور اولاد کی لالچ میں مکہ میں ٹکے رہے)[2]) ، ناکہ کافروں یا ان کے دین سے محبت کی وجہ سے، (لیکن پھر بھی ) اللہ تعالی نے ان کے متعلق یہ نازل فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ﴾

(بے شک وہ لوگ جنہیں فرشتے اس حال میں وفات دیتے (روح قبض کرتے ) ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کہا ان سے تم کس کام میں تھے؟)

یعنی تم کس فریق کے ساتھ تھے؟ یہ ان پر نکیر کی گئی ہے مطلب تم کیوں مشرکوں کے ساتھ تھے حالانکہ تم مسلمان تھے؟

﴿قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ﴾

(انہوں نے کہا ہم اس سرزمین میں نہایت کمزور تھے)

یعنی ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا، انہوں نے ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی اس بات پر مجبور کیا۔

﴿قَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا﴾

(انہوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟)

آخر تم نے مسلمان ہونے کے باوجود کافروں کے ساتھ رہنے پر صبر کیوں کیا؟ اور خود ہی اپنے آپ کو اس خطرناک حالت سے دوچار کرنے کا سبب بنے؟

﴿فَاُولٰىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾(النساء: 97)

(تو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے)

یہ ان کے لیے شدید وعید ہے۔

﴿اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا،  فَاُولٰىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْھُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾ (النساء: 98-99)

(ہاں البتہ وہ نہایت کمزور مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ کسی تدبیر کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ کوئی راستہ پاتے ہیں، تو قریب ہے کہ ان لوگوں سے اللہ تعالی درگزر فرمائے گا اور اللہ تعالی تو صدا بے حد معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والا ہے)

جو کوئی ہجرت کو ترک کرتا ہے حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا  ہے پھر بھی ہجرت نہیں کرتا اور مشرکین کے پاس ہی رہائش باقی رکھتا ہے پھر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے ساتھ نکالتے ہیں، تو ایسوں کے لیے شدید وعید ہے:

﴿اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ﴾

(ہاں البتہ وہ نہایت کمزور مرد اور عورتیں اور بچے)

تو یہ لوگ معذور ہیں وہاں باقی رہنے میں کیونکہ وہ ہجرت کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)

(اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہيں دیتا)۔

تیسری قسم: جو مسلمانوں کے خلاف کافروں سے تعاون کرے حالانکہ وہ بالکل مختار ہے اس پر کوئی اکراہ و دباؤ نہيں، ہاں البتہ وہ کافروں کے دین سے بغض رکھتا ہے اور اس سے راضی نہیں ہے۔ تو یہ بلاشبہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے اور اس کے بارے میں کفر کا خدشہ ہے۔

چوتھی قسم: جو مسلمان ایسے کافرو ں کے خلاف دوسرے کافروں کی مدد کرتے ہیں جن سے مسلمانوں کا معاہدہ  ہو تو یہ حرام ہے جائز نہيں۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کی عہد شکنی کرنا ہے۔ وہ کفار جن سے معاہد ہ ہو تو تمام مسلمانوں پر ان سے قتال کرنا جائز نہيں اس عہد کی وفاء کرتے ہوئے جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہے۔ جو کوئی ایسے معاہد کافروں کے خلاف لڑنے  میں دوسرے کافروں کی مدد کرے گا  تو یہ مسلمانوں کی عہد شکنی  کرنا اور مسلمانوں کی طرف سے غداری  کہلائے گی۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘([3])

(جس کسی نے معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا)۔

جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خود ایسے مسلمانوں کی مدد کرنے سے منع فرمایا ہے جن کے خلاف لڑنے والے کافروں سے دوسرے مسلمانوں کا معاہدہ ہو، تو پھرا س کا کیا حال ہوگا جو مسلمانوں کی عہد شکنی میں کافروں کی مدد کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ﴾  (الانفال: 72)

(اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے، مگر اس قوم کے خلاف کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو(مدد نہيں کرنی چاہیے))

یعنی جب ہم سے مسلمان کافروں کے خلاف مدد چاہیں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم مسلمانوں کی کافروں کے خلاف مدد و نصرت کریں  سوائے ایک حالت کے (اور وہ یہ ہے کہ)  : اگر ان کافروں کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم ان کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں، تو پھر کس طرح  ہم مسلمانوں کے حلیف (کافروں) کے خلاف دیگر کافروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بات جائز نہیں  ہے۔ اور یہ سب اپنے عہد سے وفاء کی بنا پر ہے۔

پانچویں قسم: کافروں سے محبت و مودت رکھنا ان کی مسلمانوں کے خلاف مدد ومعاونت کیے بغیر اس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے، اور ایسے شخص سے ایمان کی نفی کی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاءَهُمْ اَوْ اَبْنَاءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ اُولٰىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ﴾ (المجادلۃ: 22)

(آپ کوئی ایسی قوم نہيں پائیں گے کہ جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت بھی رکھتی ہو اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ  تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے)

اور فرمایا:

﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ  ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ﴾ (التوبۃ: 114)

(اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ سے جو انہوں  نے اس سے کیا تھا، پھر جب ان کے لیے واضح ہوگیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےتعلق ہوگئے۔ بے شک ابراہیم یقیناً بہت نرم دل، بڑے بردبار تھے)

اور فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ﴾سے لے کر ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ﴾ تک آیات۔۔۔(الممتحنة: 1-4)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انہوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمہارے پاس آیا ہے۔۔۔یقیناً تمہارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بلاشبہ ہم تم سے اور ان تمام چیزوں سے بری ہیں جن کی تم اللہ تعالی کے سوا عبادت کرتے ہو، ہم تمہیں نہیں مانتے اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا، یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ)

یہ سورۃ الممتحنة ساری کی ساری کافروں سے محبت کو حرام قرار دینے کے بارے میں ہے اگرچہ وہ کسی مسلمان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اور اسے اپنے اس فرمان پر ختم فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ﴾ (الممتحنة: 13)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ تعالی غصے ہوا، جو آخرت سے اسی طرح ناامید ہوچکے ہیں جیسے کافر ناامید ہوگئے ہيں قبر والوں (کے دوبارہ جی اٹھنے) سے)

پس پوری سورۃ  الممتحنة اول تا آخر کافروں سے عداوت اور عدم ِمحبت کے موضوع پر ہی ہے۔

[کافروں کے دین سے محبت نہ ہونے کے باوجود کسی دنیاوی وجہ سے ان کی مدد کرنے پر بھی مطلق کفر کا حکم تکفیری قسم کے لوگ لگاتے ہيں، چنانچہ اس سلسلے میں صحیح بخاری وغیرہ میں یہ ہی سورۃ الممتحنۃ کے شان نزول میں بدری صحابہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا مشہور قصہ ہے کہ انہوں نے مکہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حملے کی اطلاع مشرکین مکہ کو دینی چاہی صرف اس لیے کہ ان کے جو اہل و عیال وہاں موجود ہیں مشرکین اس احسان کو مان کر کم از کم ان کی حفاظت کرلیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے اس عذر کو مانا، اور یہ ایسی غلطی تھی جو بدری صحابی ہونے کی فضیلت کے سبب معاف کردی گئی، اگر مطلق کفر و شرک ہوتا تو ظاہر ہے بدری ہونا تو دور کی بات نبوت و رسالت تک کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: اگر تم نے بھی شرک کیا تو تمہارے سارے اعمال برباد [الزمر: 65] لہذا اس کی تفصیل جاننا اور فرق کرنا ضروری ہے، ورنہ کتاب و سنت بلکہ سلفیت کی جانب منسوب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا شکار ہوسکتے ہیں جیسا کہ شیخ توصیف الرحمن پاکستان کے سابقہ صدر پرویز مشرف کی کافروں کو ائیر بیس دینے کو دلیل بنا کر برسرمنبر کافر قرار دیے ہیں، ملاحظہ ہو، اللہ المستعان]


[1] اس موضوع پر شیخ  حفظہ اللہ  کی کتاب ”الولاء والبراء فی الاسلام“ بھی موجود ہے۔ (مترجم)

[2] أخرجه البخاري 4596 عن إبن عباس رضی اللہ عنہما، وإبن جرير 5/274-275، وانظر: تفسير البغوي 1/469، ط. دار المعرفة.

[3] أخرجه البخاري 3166 من حديث عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما  اس سے متعلق مزید احادیث جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹ پر مقالہ پڑھیں ’’ معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کو عمداً یا خطاً قتل کرنے کی حرمت‘‘ از شیخ عبدالمحسن العباد  حفظہ اللہ ۔ (مترجم)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔