ختمِ قرآن کی دعاء کا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابن القاسم سے روایت ہے کہ امام مالک  رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا کہ جو قرآن پڑھ کر ختم کرتا ہے پھر دعاء کرتا ہے؟

فرمایا: میں نے نہيں سنا کہ اسے ختم قرآن پر دعاء کرنی چاہیے، یہ لوگوں کا عمل نہیں رہا([1])۔

احناف کے نزدیک بھی یہ ثابت نہیں۔ ابن مازہ البخاری  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

ماہ رمضان میں ختم قرآن  کے وقت اور (نماز) باجماعت (میں) ختم قرآن کے وقت دعاء کرنا مکروہ ہے، کیونکہ بلاشبہ یہ نہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے منقول ہے نہ ہی صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے۔ اور فقیہ ابو القاسم الصغار کہتے ہیں: اگر اس شہر والے یہ نہ کہنے لگتے کہ دیکھو یہ ہمیں دعاء سے منع کررہے ہيں تو ہم ضرور انہيں اس سے منع کرتے([2])۔

سوال: ختم قرآن کی دعاء کا کیا حکم ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

سلف قرآن ختم کرنے پر دعائے ختم قرآن رمضان میں نمازوں میں کرتے چلے آئے ہيں۔ ہم اس بارے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہيں پاتے۔ جو اقرب بات ہے اس  جیسی باتوں میں وہ یہی ہے کہ وہ (دعاء) پڑھے لیکن لوگوں پر طوالت نہ کرے۔ اور کوشش کرے جو مفید اور جامع قسم کی دعائيں ہوں وہ کرے جیسا کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا:

” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  يَسْتَحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَاءِ وَيَدَعُ مَا سِوَى ذَلِكَ “([3])

 (نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جامع قسم کی دعائيں پسند فرماتے اور اس کے سوا دیگر کو چھوڑ دیتے)۔

چنانچہ امام کے لیے یہی افضل کے ہے کہ وہ دعائے ختم قرآن اور قنوت میں جامع کلمات کی کوشش کرے اور لوگوں پر طوالت نہ کرے۔ وہ پڑھے:

” اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ۔۔۔“([4])

جو حسن  رضی اللہ عنہ  سے قنوت مروی ہے۔ اور اس کے ساتھ جتنی اچھی دعائيں آسان ہوں وہ بھی اضافہ کرلے جیسا کہ عمر  رضی اللہ عنہ  اضافہ کرتے تھے۔تکلف سے کام نہ لے نہ ہی لوگوں پر طوالت کرکے انہيں مشقت میں ڈالے۔ اسی طرح جو ختم قرآن کی دعاء ہے اس میں جو جامع دعائيں میسر ہوں وہ پڑھے۔ اللہ کی حمد سے ابتداء کرے اور نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود و سلام پڑھے اور جس طرح آسان ہو رات کی نماز یا وتر میں اسے ختم کرے، لوگوں پر اتنی طوالت نہ کرے کہ وہ مشقت میں پڑجائيں۔

یہ سلف میں معروف تھا  اور خلف نے اسے اپنے سلف سے حاصل کیا ہے۔ اسی طرح ہمارے مشایخ جو کہ سنت کی پابندی اور اہتمام کی خوب کوشش کرتے تھے اس طرح کیا کرتے تھے۔ ان کے بعد والوں نے  ان کے پہلے والوں سے اسے لیا ہے، سیکھا ہے۔ یہ بات اس دعوت کے آئمہ جو کہ سنت کی پابندی کی شدید حرص کرتے تھے پر مخفی نہ تھی۔

حاص کلام یہ ہے کہ بے شک اس میں کوئی نقصان یا حرج نہيں ان شاء اللہ بلکہ یہ مستحب ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ کی تلاوت کے بعد دعاء کی قبولیت کی امید پر کوشش کی جاتی ہے اور انس  رضی اللہ عنہ جب قرآن مکمل کرتے تو اپنے اہل وعیال کو جمع کرکے نماز کے علاوہ دعاء کرتے۔ اسی طرح نماز میں بھی کیونکہ دونوں ایک ہی باب ہیں۔ اور اس لیے کیونکہ دعاء مشروع ہے خواہ نماز کے اندر ہو یا باہر۔ لہذا جو دعاء کی جنس ہے وہ نماز میں مشروع ہے، تو منکر بات نہيں۔

اور یہ بات معلوم ہے کہ نماز میں دعاء مطلوب ہے جب عذاب والی آیت پڑھے، اسی طرح رحمت والی آیت پڑھتے وقت انسان دعاء کرے جیسا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رات کی نماز میں کیا کرتے تھے۔ تو یہ بھی اسی طرح ہے کہ ختم قرآن کے بعد دعاء مشروع ہے۔ (جو اعتراض ہوتا ہے) وہ نماز کے اندر والی دعاء کے تعلق سے جبکہ جونماز کے علاوہ ہے اس بارے میں تو میں کوئی اختلاف ہی نہيں جانتا کہ ختم قرآن کے بعد دعاء کرنا مستحب ہے۔ لیکن نماز کے اندر دعاء کے بارے میں آجکل باتیں اور بحثیں ہورہی ہيں۔ سلف میں سے میں کسی کو نہيں جانتا کہ انہوں نے نماز کے اندر دعاء پر انکار کیا ہو، جیسا کہ میں نہيں جانتا کہ نماز کے علاوہ پر کسی نے نکیر کی ہو۔

تو یہ وہ بات ہے جس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ یقیناً یہ سلف میں معلوم بات تھی اور اسی پر ان کے پہلے اور بعد والے چلتے آئے ہیں۔ جو یہ کہتا ہے کہ یہ ایک منکر کام ہے، تو اس کے ذمے ہے کہ وہ دلیل لائے۔ کیونکہ دلیل اس کے ذمے نہیں جو وہ کام کرتا ہے جو سلف کرتے آئے ہیں بلکہ دلیل اس کے ذمے ہے جو اس کا انکار کرے اور کہے یہ ایک منکر ہے یا یہ ایک بدعت ہے۔  اس چیز پر تو اس امت کے سلف چلتے آئے ہيں اور ان کے خلف نے اپنے سلف سے اسے لیا ہے۔ جن میں علماء، اخیار و محدثین بھی تھے۔ اور نماز میں دعاء کی جو جنس ہے  وہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے رات کی نماز میں ثابت ہے، لہذا اسے بھی اسی جنس میں سے ہونا چاہیے([5])۔

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمہ اللہ  سلسلۃ احادیث ضعیفہ میں ختم قرآن سے متعلق موضوع حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

ترکی وغیرہ میں جو بعض مصاحف شائع ہوتے ہیں ان کے آخر میں جو دعاء ختم قرآن کے عنوان سے دی گئی ہوتی ہے  اور جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کی جانب منسوب کیاجاتا ہے تو ہم اس کی کوئی اصل نہ ابن تیمیہ سے جانتے ہیں  نہ ہی ان کے علاوہ دیگر علماء اسلام سے۔ اور میں پسند نہیں کرتا  تھا کہ اس مصحف کے آخر میں اسے ڈال دیا جائے جو شیخ احمد بن علی بن عبداللہ آل ثانی  رحمہ اللہ  کے خرچے پر المکتب الاسلامی  نے بیروت میں 1386ھ میں شائع کیا، اگرچہ وہ اس عبارت کے ساتھ صادر ہوا  کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کی جانب منسوب کیا جاتا ہے، کیونکہ محض اس طرح لکھ دینے سے یہ تصور نہيں ہوتا کہ اس کی نسبت ان کی طرف صحیح نہيں جیسا کہ عام عوام کے سمجھ میں آتا ہے۔ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کریں!

اور جس بات میں کوئی شک نہيں وہ یہ ہے کہ کسی معین و مخصوص دعاء کا ختم قرآن پر التزام و پابندی کرنا ان بدعات میں سے ہےجو جائز نہیں، ان عام دلائل کی روشنی میں جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

” وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ“ ([6])

 (اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے)۔

اور یہ وہ بدعت ہے جسے امام الشاطبی  رحمہ اللہ  بدعت ِاضافی کا نام دیتے ہيں۔اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  تو تمام لوگوں سے بڑھ کر اس قسم کی بدعات لانے سے دور تھے۔تو کس طرح وہ جن کا اپنے اور بعد والے زمانوں میں  بڑا کارنامہ ہے سنت کے احیاء اور بدعات کے خاتمے کے سلسلے میں ایسا کرسکتے ہيں؟! جزاہ اللہ خیراً([7])۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

یقیناً نماز میں ختم قرآن کی دعاء  کے بارے میں شک نہيں کہ یہ غیرمشروع ہے، کیونکہ اس بارے میں جو انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے وارد ہوا ہے کہ وہ ختم قرآن کے وقت اپنے اہل وعیال کو جمع کرکے دعاء فرماتے تھے، وہ نماز سے باہر ہوتا تھا۔ اور نماز کے اندر کسی چیز کا ہونا اور اس کے باہر ہونے میں فرق ہے۔

لہذا ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم کہیں: بلاشبہ نماز میں ختم قرآن کے وقت دعاء کی کوئی اصل موجود نہيں، اور اسے نہيں کرنا چاہیے جب تک شریعت میں سے اس کی دلیل نہ مل جائے کہ یہ نماز میں مشروع ہے([8])۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

سنت نبوی سے ختم قرآن کریم کے وقت کوئی خاص دعاء ثابت نہيں حتی کہ صحابہ کرام یا مشہور آئمہ میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں۔ اس باب میں جو مشہور ترین ہے وہ مصاحف کے آخر میں لکھی جاتی ہے اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کی جانب منسوب کیا جاتا ہے، حالانکہ اس کی کوئی اصل ان سے بھی ثابت نہیں([9])۔

اور فرمایا:

نماز سے باہر تو انس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے لیکن نماز کے اندر نہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اور نہ ہی کسی صحابی سے میں نے سنا ہے۔ ہاں البتہ بعض علماء اسے مستحب قرار دیتے ہیں لہذا یہ مسئلہ لوگوں کے مابین اختلافی مسئلہ ہوا۔ اگر بعض علماء اسے مستحب کہتے ہیں اور ہم ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں جو اس کا قائل ہو تو ہم اس کی پیروی کریں گے۔ لیکن ہمارا جماعت سے علیحدہ ہونا اور پیچھے رہ کر اس میں نہ آنا تو یہ غلط بات ہے۔ جب مجھے معلوم ہو کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے اور میں وہاں  موجود ہوں  تو میرے لائق نہیں کہ میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کروں۔ یہاں تک کہ امام احمد  رحمہ اللہ  سنت  اور اس کی پیروی کی حرص کےباوجود  فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو جو نماز فجر میں قنوت پڑھتا ہے تو اسے اس کی پیروی کرنی چاہیے اور ا س  کی دعائوں پر آمین کہنا چاہیے۔  کیونکہ امام احمد کے نزدیک نماز فجر میں قنوت نہیں ہے، اور نہ ہی اس میں قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اس کے باوجود فرماتے ہیں: اگر ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھو جو قنوت پڑھتا ہے تو اس کی پیروی کرو اور اس کی دعاء پر آمین کہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے ہوجاؤ، اجتماع سب کا سب خیر ہے۔

کاش کے ہمارے نوجوان اس مسئلے کا لحاظ کریں یعنی  اجتماع برقرار رکھنا اور ایسی باتوں کو اپنی پیٹھ پیچھے اٹھا پھینکنا جو دلوں  میں اختلاف کا باعث ہوں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہيں تو خیر کثیر ہوگی۔ لیکن بہت سے نوجوانوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ اس مؤقف پر چل رہا ہوتا ہے جس پر اس کا بھائی نہیں چل رہا ہوتا تو وہ اس سے اسی بناء پر دشمنی شروع کردیتا ہے، اور اس کے خلاف مجالس میں باتیں کرتا ہے، اس سے خبردار کرتا ہے، اوریہ بہت بڑی غلطی ہے۔ سبحان اللہ! اہل خیر اور جو خیر چاہتے ہيں اور وہ صحیح سمت و رجحان رکھنے والے ہيں وہی آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب دے رہے ہيں، اور وہی تفرقہ کررہے ہیں، جبکہ اہل شر تو بڑے متحد ہیں، کیا یہ اہل خیر کے لیے عار کی بات نہيں؟!([10])

سوال: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے جس کی طرف بعض لوگ گئے ہيں کہ بے شک ختم قرآن کی دعاء نوایجاد بدعت ہے؟

جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ :

میں نماز میں ختم قرآن کی دعاء کی سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور نہ ہی صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے کوئی ایسی صحیح اصل نہيں جانتا  کہ جس پر اعتماد کیا جاسکے ۔ زیادہ سے زیادہ جو اس بارے میں آیا ہے وہ یہی کہ انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  قرآن مجید ختم کرنے پر اپنے اہل و عیال کو جمع کرکے دعاء کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ ایسا نماز میں نہيں کیا کرتے تھے۔ اور نماز کے بارے میں سب جانتے ہيں کہ اس میں اپنی طرف سے کسی خاص مقام پر دعاء کو ایجاد کرنا کہ جس بارے میں سنت وارد نہ ہو مشروع نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

” صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي “([11])

(نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)۔

البتہ رہا اس نماز میں ختم قرآن کی دعاء پر بدعت کا اطلاق کرنا تو یہ مجھے پسند نہیں کہ اس پر بدعت کااطلاق کیا جائے کیونکہ علماء کرام جو علماء سنت ہیں اس بارے میں اختلاف کرتے ہيں۔  ہمارے لائق نہيں کہ اس بارے میں اتنی سختی و ترش روی اختیار کریں کہ جس کے بارے میں بعض  اہل سنت مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ لیکن ایک انسان کے لیے اولیٰ یہی ہے کہ وہ اتباع سنت کا حریص ہو۔

پھر یہاں ایک اور مسئلہ ہے  جو بعض سنت کی تطبیق کے حریص بھائی کرتے ہيں اور وہ یہ کہ وہ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوتے ہيں جو نماز میں ختم قرآن کی دعاء کا قائل ہوتا ہے، تو جب آخری رکعت آتی ہے وہ نکل کر لوگوں سے الگ ہوجاتے ہیں اس دلیل کے ساتھ کہ یہ ختم قرآن کی دعاء بدعت ہے۔ یہ بات درست نہيں ہے کیونکہ اس سے دلوں میں اختلاف اور نفرتیں پیدا ہوتی ہيں۔ اور اس لیے کیونکہ یہ ایسا اختلاف ہے جس کی طرف آئمہ گئے ہیں۔ (پھر شیخ نے وہی امام احمد کا فتویٰ فجر میں قنوت پڑھنے والے امام کی اقتداء میں پیروی کرنے کو ذکر فرمایا)۔

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ بعض اتباع سنت کے حریص بھائی تراویح میں رکعتوں کی تعداد کے تعلق سے کرتے ہیں کہ جب وہ ایسے امام کے پیچھے پڑھ رہے ہوں جو گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھتا ہے تو وہ اس وقت اس سے الگ ہوجاتے ہیں جب وہ اس تعداد سے زیادہ پڑھنے لگے۔ ایسا کرنا بھی ٹھیک نہيں۔یہ صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے عمل کے خلاف ہے، کیونکہ بے شک صحابہ نے اس وقت جب عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ نے ایک تاویل کے ذریعے منیٰ میں نماز مکمل پڑھائی تو اس (قصر کے بجائے مکمل پڑھنے) کا انکار کیا  لیکن اس کے باوجود ان کے پیچھے مکمل نماز ہی پڑھی([12])۔ اور یہ بات معلوم ہےکہ ایسی حالت میں مکمل نماز پڑھنا جس میں قصر کرنا مشروع ہے سنت کی زیادہ شدید مخالفت ہے بنسبت تیرہ رکعات سے زائد (تراویح) نماز پڑھنے سے۔ اس کے باوجود صحابہ نے عثمان  رضی اللہ عنہ  سے علیحدگی اختیار نہ کی، یا ان کے ساتھ نماز پڑھنا نہيں چھوڑی۔ اور وہ بے شک ہم سے زیادہ اتباع سنت کے حریص تھے، اور ہم   سےزیادہ صحیح رائے رکھنے والے اور ہم سے بڑھ کر شریعت اسلامیہ کے تقاضوں کو مضبوطی سے پکڑنے والے تھے۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہم سب کو ان میں سے کردے جو حق کو حق دیکھ کر اس کی اتباع کرتے ہیں اور باطل کو باطل دیکھ کر اس سے اجتناب کرتے ہیں([13])۔

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ  سے پوچھا گیا:

سوال:دعائے ختم قرآن صحیح ہے یا بدعت ہے؟

جواب: ختم قرآن پر دعاء کرنا مستحب ہے، صحابہ باقاعدہ جمع ہوتے تھے  اس کے پاس جہاں جس نے قرآن ختم کیا ہوتا اور دعاء کررہا ہوتا، لیکن معین مخصوص قسم کی دعائوں کی تحدید کرنا اس پر کوئی دلیل نہیں۔ مخصوص دعائوں کی تحدید کرکے کہنا کہ یہ ختم قرآن  کے لیے ہیں اس پر کوئی دلیل نہيں۔

دعاء کا باب کھلا ہے  ہر اس دعاء کے ساتھ اللہ سے دعاء کرسکتے ہيں جو آپ کے لیے آسان ہو اپنے دینی اور دنیاوی امور کے لیے([14])۔

اس کے علاوہ شیخ بکر ابو زید  رحمہ اللہ  کا اس موضوع پر رسالہ بعنوان  ”جزء في مرويات دعاء ختم القرآن وحكمه داخل الصلاة وخارجها“  بھی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

ختم قرآن كے متعلق مطلقاًدعاء كرنا (یعنی نماز کے علاوہ)  تو اس بارے میں جو کچھ مرفوع آیا ہے  وہ نبى كريم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے صحیح طور پر ثابت نہيں، يا تو وہ موضوع ہے يا پھر ضعیف،لہذا عین ممکن ہے مرفوع کے طور پر اس کا وجود ہی نہ ہو كيونكہ جن علماء كرام نے علوم قرآن اور اس كے اذكار كے متعلق لكھا ہے جیسے امام النووى، ابن كثير، القرطبى اور السيوطى رحمہم اللہ ان سب نے وہ كچھ بيان نہيں كيا جو ذكر كيا گيا ہے، اور اگر ان كے پاس كچھ ہوتا جس كى سند صحيح اور اعلىٰ ہوتى تو وہ اسے ضرور ذكر كرتے۔

يہ صحيح ہے كہ انس بن مالك  رضی اللہ عنہ نے ختم قرآن کے بعد اپنے اہل و عیال کو جمع کرکے دعاء فرمائی اور تابعین ميں سے ايك جماعت نے اس میں ان كى پیروی كى ہےجیسا کہ مجاہد بن جبر  رحمہ اللہ  کے اثر میں ہے۔

امام ابو حنیفہ اور الشافعى رحمہما اللہ كے ہاں اس كى مشروعیت ثابت نہيں۔

اور امام مالک  رحمہ اللہ  کا قول اوپر گزر چکا ہے۔

البتہ ختم قرآن کے بعد دعاء كا استحباب امام احمد  رحمہ اللہ  سے آتا ہے، جيسا كہ ہمارے حنابلہ علماء كرام سے منقول ہے، اور مذاہب ثلاثہ (حنفی، مالکی و شافعی) كے متأخرين ميں سے بعض نے اس كا اقرار كيا ہے۔

اور جہاں تک بات ہے نماز میں ختم قرآن کی دعاء کی تو اس بارے میں کچھ بھی نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یا کسی صحابی سے ثابت نہيں، خواہ نماز میں رکوع سے پہلے ہو یا بعد میں، اکیلا ہو یا امام کے ساتھ۔

البتہ اس باب  میں علماء مذاہب جو بيان كرتے ہيں بس وہی ہے جو امام احمد سے حنبل اور فضل حربى كى روايت ميں ہے،  جس كى سند شیخ کو نہیں ملی كہ تراويح ميں ختم قرآن كے بعد ركوع سے قبل دعاء کرنی ہے، اور ايك روايت ميں ہے کہ اسے بیان کرنے والے تک کا علم نہيں  كہ انہوں نے وتر كى دعاء ميں اسے پڑھنا آسان قرار ديا ہے۔ اللہ اعلم


[1] ((المدخل)) (2/299). ويُنظر: ((الذخيرة)) للقرافي (2/408)، ((المختصر الفقهي)) لابن عرفة (1/ 415). وقال مالكٌ: (ليس خَتْمُ القرآن في رمضان بسنَّةٍ للقيامِ). ((المدونة الكبرى)) لسحنون (1/288).

[2] المحيط البرهاني)) (5/313).

[3] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 1482 میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[4] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 1425 میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[5] من ضمن الأسئلة الموجهة لسماحته المنشورة في رسالة: (الجواب الصحيح من أحكام صلاة الليل والتراويح). (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 11/ 354).

[6] اسے امام النسائی نے اپنی سنن الصغریٰ 1578 میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نےصحیح  النسائی 1577 میں اسے صحیح قراردیا ہے۔

[7] سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء في الأمة – ج13 ص 315۔

[8] ((الشرح الممتع)) (4/42).

[9] فتاوى الشيخ ابن عثيمين (14/226) .

[10] اللقاء الشھری 41۔

[11] صحیح بخاری 631 وغیرہ۔

[12] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 1960 میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

[13] المجموع الثمين من فقه ودروس وفتاوى رمضان للعلامة ابن عثيمين ص 516۔

[14] فتویٰ: دعاء ختم القرآن، هل هو صحيح أم بدعة۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*