اہل بدعت و معاصی کا جنازہ پڑھنے اور ان پر ترحم کا حکم؟

Ruling regarding praying funeral prayer and saying “rahimaullaah” for sinners and innovators?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام ابو جعفر الطحاوی  رحمہ اللہ  عقیدۂ طحاویہ میں فرماتے ہیں  کہ:

’’ونرى الصلاة خلف كل بر وفاجر من أهل القبلة وعلى من مات منهم‘‘

(اور ہم  اہل قبلہ میں سے ہر مسلمان کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں خواہ وہ نیک ہو یا بد اور اسی طرح سے اس کی نماز جنازہ پڑھنا بھی جائز سمجھتے ہیں خواہ نیک ہو یا بد)۔

اس کی شرح کرتے ہوئے شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

۔۔۔ اسی طرح سے اہل قبلہ میں سے ہر ایک کے اوپر نماز جنازہ پڑھتے ہيں جب تک کہ وہ توحید پر ہی فوت ہوا ہو اور کفر ونفاق اس کے بارے میں ثابت نہ ہو۔

چوتھا مسئلہ: ’’نَرَى الصَّلَاةَ…عَلَى مَنْ مَاتَ مِنْهُم‘‘ (اور جو ان میں سے فوت ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا) یعنی جو اہل قبلہ میں سے فوت ہوجائے ۔ اہل قبلہ وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں ان کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:

پہلی قسم: صالح مومنین۔

دوسری قسم: ایک مسلمان جن کا فسق وفجور اور مختلف معاصی ہیں۔

تیسری قسم: ایک مسلمان جس کی خاص قسم کی معاصی وگناہ ہیں (اس کا بیان آگے آئے گا)۔

چوتھی قسم: منافق۔

جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو ان پر نماز جنازہ پڑھنا برحق اور اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہے۔ اس طرح کے جب کوئی نیک سیرت مسلمان فوت ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اس میں حاضر ہوا جائے، اس کے جنازے کےساتھ چلا جائے کیونکہ یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔

دوسری قسم  ایسے مسلمان پر جنازہ پڑھنا جس کا فسق وفجور عام ہو یعنی مختلف قسم کی معاصی کا وہ مرتکب ہو اور ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ انہوں نے نیک وبرے ملے جلے عمل کیے ، اور وہ گناہوں کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہو۔ اس پر بھی علی الاطلاق نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اگر وہ اپنے اس فسق وفجور کی طرف دعوت دینے والا یا اس کا اعلان کرنے والا نہ ہو تو اس کے جنازے سے پیچھے رہنا شرعاً جائز نہیں ۔

تیسری قسم اہل اسلام میں سے ان لوگوں کی ہے جو خاص کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوں تو اس بارے میں دلیل موجود ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ان پر نماز جنازہ  پڑھے جیسے مال غنیمت میں خیانت کرنے والا اور خودکشی کرنے والا وغیرہ جیسے افراد یا پھر جن پر شرعی حد کا نفاذ ہوا ہو جیسے قتل کی حد قصاص وغیرہ۔ تو ایسوں پر بعض مسلمان ضرور جنازہ پڑھیں مگر اہل علم وفضل اور نامور شخصیات اس سے کنارہ کشی کریں، جیسا کہ یہ بات سنت نبوی سے ثابت ہے۔

چوتھی قسم اہل نفاق یعنی منافقین کی ہے، اور ان کی بھی مزید دو اقسام ہیں:

1- ایسا نفاق جسے ہر کوئی جانتا ہو۔ یہ مسلمانوں میں شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا شخص تو زندیق (بےدین وملحد)ہے یعنی وہ اپنی کتابوں، قصیدوں وغیرہ میں اللہ تعالی کا کھلے عام مذاق اڑاتا ہو۔ اور قرآن کریم وآخرت وغیرہ پر ایمان نہ لانے کا اعلان کرتا ہو۔ تویہ سب ظاہر زندقیت ہے۔

2- ایسا نفاق جو مخفی ہو یعنی اسے کچھ لوگ جانتے ہوں اور بعض نہیں جانتے ہوں۔

ان دونوں کا حکم یہ ہے کہ پہلی قسم والے کے بارے میں ظاہر ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں کہ جو کھلا منافق وزندیق ہو، کیونکہ اللہ تعالی کا ایسے منافقین کے متعلق فرمان ہے:

﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ﴾ (التوبۃ: 80)

(چاہے تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کرو گے تو بھی اللہ تعالی کبھی انہیں معاف نہیں فرمائے گا)

اور آخر تک جو آیت ہے۔

اسی طرح سے اللہ تعالی نے اپنی نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو یہ فرمایا:

﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ﴾ (التوبۃ: 84)

(ان منافقین میں سے جو مر جائے تو کبھی بھی اس کا جنازہ نہ پڑھنا اور نہ ہی ان کی قبر پر کھڑے ہونا)

چنانچہ جس شخص کے بارے میں سب کو معلوم ہو اور اس کا نفاق، زندقیت اور دین کے خلاف جنگ ظاہر ہو، تو اس ظاہر کفر کی وجہ سے ہی کوئی شخص خالص منافق بنتا ہے۔ اور ایسوں پر جنازہ پڑھنا جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس پر جنازہ نہ پڑھیں۔ کیونکہ بایں صورت وہ اہل قبلہ کی عام تعریف میں شامل نہیں ہوگا۔

منافقوں کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن کا معاملہ ملتبس ہو یعنی معلوم نہ ہوسکے کہ آیا وہ واقعی منافق ہے یا نہیں؟ تو اس کے بارے میں جسے یقینی طور پر معلوم ہے کہ یہ منافق ہے جیسے اسے مسجد وغیرہ میں دیکھا ہو تو وہ اس پر جنازہ نہ پڑھے، کیونکہ جب کسی کو بھی یقینی طور پر کسی کے منافق ہونے کا علم ہو تو وہ اس پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ لیکن ہاں دوسرے جو لوگ اس پر جنازہ پڑھ رہے ہیں انہیں پڑھنے دے کیونکہ وہ تو اس کے ظاہر اسلام کے اعتبار ہی کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں، اور اس شخص سے کوئی ایسی چیز ان کے سامنے ظاہر نہیں ہوئی جو اس کے اصل اسلام کے خلاف ہو۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ  عمر  رضی اللہ عنہ  جس منافق کاحال معلوم ہوتا تو اس کے اوپر جنازہ نہ پڑھتے اور وہ اس کا اندازہ  حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ  کو دیکھ کر لگاتے تھے ، کیونکہ  حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ  کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے منافقین کا نام لے لے کر بتادیا تھا۔ تو خلیفۂ راشد  عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  یہ دیکھتے کہ آیا اس جنازہ پر  حذیفہ  رضی اللہ عنہ  نے شرکت کی ہے یا نہیں، پس اگر  حذیفہ  رضی اللہ عنہ  اس پر جنازہ پڑھتے یا متوجہ ہوتے یا کوئی حکم نہ لگاتے تو  عمر  رضی اللہ عنہ  اس کا جنازہ پڑھ لیتے۔ اس طرح سے ان مسائل میں تفریق کی دلیل ملتی ہے کہ جس کا حال معلوم ہو اور جس کا نہ معلوم ہو ، اسی طرح سے جس کا نفاق معلوم وظاہر ہو اور جس کا معلوم وظاہر نہ ہو۔

جو اس کا حال یعنی نفاق جانتا ہو تو وہ اس کا جنازہ نہ پڑھے اور جو نہ جانتا ہووہ پڑھے۔ یہ لازم نہیں کہ جو جانتا ہے وہ اس کا اعلان کرے اور دوسروں کو بھی اس پر جنازہ پڑھنے سے روکے، کیونکہ اس کا اصل جس کی بنیاد پر باقی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں وہ تو ظاہر اسلام ہی ہے۔

آئمہ اہل سنت نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ منافقین کے وہی مسلمانوں والے احکام ہوتے ہیں، کیونکہ اس کا حکم ظاہر اسلام پر ہوتا ہے لہذا وہ مسلمان کا وارث بنے گا اور مسلمان اس کے وارث بنیں گے۔ اور اس پر وہ جنازہ پڑھے گا جسے اس کا حال معلوم نہ ہو وغیرہ اور جو دیگر ظاہر اسلام کے آثار ہوتے ہیں وہ سب اس کے ساتھ برتے جائیں گے۔

(شرح عقیدۂ طحاویہ – درس 7)

بعض بدعتیوں کو تو خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قتل کردینے کا حکم دیا ہے جیسے خوارج:

 علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘[1]

(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔  مخلوق میں سے سب سے بہترین بات کریں گے (یعنی قرآن سے)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ ان کے قتل کرنے پر بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔

چنانچہ خلیفۂ راشد امیر المؤمنین  علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  نے ان کے خلاف قتال فرمایا  جس سے متعلق کئی ایک روایات موجود ہیں۔

ابو غالب فرماتے ہیں کہ  ابو امامہ الباہلی  رضی اللہ عنہ  نے دمشق کی مسجد کے در وازے پر (قتل ہونے کے بعد) خوارج کے سر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمایا:

’’كِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ خَيْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوهُ ثُمَّ قَرَأَ: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾  إِلَى آخِرِ الْآيَةِ‘‘[2]

(یہ جہنم کے کتے ہيں۔ آسمان کی چھت کے نیچے سب سے بدترین مقتول۔ اور جنہیں ان لوگوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ پھر یہ آیت (سورۃ آل عمران 106) تلاوت فرمائی: جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ۔۔۔آخر تک جو آیت ہے)۔

میں نے  ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سنی ہے؟! فرمایا: اگر میں نے یہ بات آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ایک بار، دوبار، تین بار، چار بار یہاں تک کہ سات مرتبہ گنوایا ، نہ سنی ہوتی تو کبھی تمہیں بیان نہ کرتا (یعنی کئی بار میں نے سنا ہے اور مکمل یقین ہے)۔

ابو غالب فرماتےہیں کہ  ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے (انہوں نے خوارج کے بارے میں) فرمایا:

’’شَرُّ قَتْلَى قُتِلُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، وَخَيْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوا كِلَابُ أَهْلِ النَّارِ، قَدْ كَانَ هَؤُلَاءِ مُسْلِمِينَ فَصَارُوا كُفَّارًا‘‘[3]

(یہ آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میں سے بدترین مقتول ہيں، اور جنہیں یہ قتل کریں وہ بہترین مقتول ہيں۔ جہنم کے کتے ہيں یہ۔ یہ مسلمان تھے پھر کفار بن گئے)۔

میں نے  ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا: اے ابو امامہ! یہ بات آپ خود سے کہہ رہے ہيں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں بلکہ میں نے یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سنا ہے۔

الباجی  رحمہ اللہ  ’’المنتقیٰ‘‘ (2/20-21) میں فرماتے ہیں:

’’۔۔۔ہر وہ نقص جو انسان کو ایمان سے نہيں نکالتا جیساکہ اہل کبائر (کبیرہ گناہ کے مرتکب) ہوتے ہيں، یا پھر ایسے اہل بدعت جو ایمان سے متمسک ہوتے ہيں، تو پھر امام اور اہل فضل کا اس پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ تاکہ ایسا کرنے سے دوسرے  ان لوگوں کے لیے عبرت اور تنبیہ ہو جن کا حال ان جیسا ہو۔

اس بارے میں جو اصل ہے وہ  جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت جو وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں روایت کرتے ہيں کہ ان کے پاس ایسا شخص لایا گیا جس نے نیزے یا برچھی سے خودکشی کی تھی تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔

مسئلہ: یہ اس صورت میں ہوگا جب ایسا کرنے سے اس پر نماز ہی نہ پڑھنا لازم آئے (یعنی کوئی بھی نماز نہ پڑھے)، اگر ایسا ڈر ہو تو پھر اس پر پڑھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ نماز کی فرضیت لازم ہے اس کے سبب کی وجہ ہے، جو کہ ان کے کبائر یا بدعات کی وجہ سے ساقط نہيں ہوتا، جب تک وہ اسلام سے متمسک ہیں۔ اسی طرح سے جو باغی گروہ کے مقتولین ہیں انہيں غسل دیا جائے گا اور ان پر نماز پڑھی جائے گی، برخلاف امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  کے مؤقف کے(یعنی وہ منع فرماتے ہیں)۔ کیونکہ وہ ایک مسلمان ہے اس کی معصیت کی وجہ سے اس پر نماز کا وجوب ختم نہيں ہوگا جیسا کہ شادی شدہ زانی ہو۔ اس بارے میں جو اصل ہے وہ روایت کہ جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایسی مقروض میت لائی جاتی جو اپنے پیچھے اتنا مال نہيں چھوڑ گئی کہ جس سے اس کے قرض کی ادائیگی کی جاسکے تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس پر جنازہ نہ پڑھتے اور فرماتے:

’’صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ‘‘[4]

(اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو)۔

مسئلہ: البتہ جس شخص کو امام بطور قصاص وغیرہ قتل کردے، تو پھر امام اس پر نماز نہيں پڑھے گا، بلکہ دوسرے لوگ اس پر نماز پڑھیں گے۔ اس بارے میں جو اصل ہے وہ روایت ہے کہ اسلام لانے والوں میں سے ایک شخص نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا اور اس کا اعتراف بھی کیا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اسے رجم (سنگسار) کردینے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ تو اس کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اچھی بات کی مگر اس پر جنازہ نہيں پڑھا‘‘۔

امام ابن قدامہ  رحمہ اللہ  ’’المغنی ‘‘ (3/506-507) میں فرماتے ہیں:

امام احمد  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’میں جہمی اور رافضی کے جنازے میں حاضر نہیں ہوتا، باقی جو چاہتا ہے وہ حاضر ہوتا ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو اس سے کم تر بات پر بھی جنازہ چھوڑ دیا تھا جیسے قرض، خیانت اور خودکشی‘‘۔

اور فرمایا:

’’رافضی پر جنازہ نہ پڑھو‘‘۔

اور امام ابو بکر بن عیاش  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’میں نہ رافضی پر جنازہ پڑھتا ہوں نہ حروری (خارجی) پر‘‘۔

امام الفریابی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’جو  ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کو سب وشتم کرتا ہے وہ کافر ہے، اس پر جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ ان سے کہا گیا: تو پھر اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا، جبکہ وہ تو لا الہ الا اللہ کہتا ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ اسے نہ لگاؤ، کسی لکڑی سے اس کی لاش کو گھڑے میں دھکیل دو‘‘۔

امام احمد  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’اہل بدعت کی عیادت نہیں کی جائے گی اگر وہ مریض ہوجائیں، اور اگر مر جائيں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہونا‘‘ اور یہ قول امام مالک  رحمہ اللہ  کا بھی ہے۔

البتہ امام ابن عبدالبر  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’(وہ) تمام علماء (جو) اہل بدعت اور خوارج وغیرہ پر نماز پڑھ لیتے ہیں  (اس کی وجہ) نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس فرمان کا عموم ہے:

’’صَلُّوا عَلَى مَنْ قَالَ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ‘‘

(ہر اس شخص پر نماز پڑھ لو جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہو)۔

لیکن ہمارے لیے تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بلاشبہ بہترین نمونہ ہيں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس سے بہت چھوٹی بات پر بھی نماز جنازہ چھوڑ دیا تھا تو پھر اولیٰ یہی ہے کہ ہم بھی ان پر جنازہ پڑھنا چھوڑ دیں۔

اور  ابن عمر  رضی اللہ عنہما   سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسًا، وَإِنَّ مَجُوسَ أُمَّتِي الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا قَدَرَ، فَإِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ‘‘[5]

(بے شک ہر امت کے مجوس ہوتے ہيں، اور بلاشبہ میری امت کے مجوس وہ ہیں جو کہتے ہيں کہ کوئی تقدیر نہيں۔ اگر یہ لوگ مریض ہوجائيں تو ان کی عیادت نہ کرنا، اوراگر مر جائيں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہونا)‘‘۔

امام نووی  رحمہ اللہ  ’’المجموع شرح المہذب ‘‘ (5/167-168) میں فرماتے ہیں:

’’حدیث: ہر اس کے پیچھے نماز پڑھ لو جو لا الہ الا اللہ کہتا ہے، اور ہر اس پر نماز (جنازہ) پڑھ لوجو لا الہ الا اللہ کہتا ہے) ضعیف ہے۔ اسے الحاکم ابو عبداللہ نے تاریخ نیشاپور  میں  ابن عمر  رضی اللہ عنہما   عن النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی روایت سے ذکر کیا ہے، اور اس کی اسناد ضعیف ہیں۔ اور الدارقطنی نے بھی ضعیف اسانید کے ساتھ ہی اسے روایت کیا ہے۔ اور فرمایا: ان میں سے کوئی ثابت نہيں‘‘۔

اور فرمایا:

’’الدارقطنی اور البیہقی نے صحیح اسناد سے عن مکحول عن ابی ہریرہ  رضی اللہ عنہ  روایت کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’صَلُّوا خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ، وَصَلُّوا عَلَى كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ، وَجَاهِدُوا مَعَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ‘‘

(ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لو، اور ہر نیک وبد کے اوپر نماز (جنازہ) پڑھ لو، اور ہر نیک وبد کے ساتھ مل کر جہاد کرلو)۔

دونوں نے فرمایا: یہ منقطع ہے۔ مکحول نے  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کو نہيں پایا۔ اور البیہقی فرماتے ہیں: اس بارے روایات آئی ہيں کہ ہر نیک وبد کے اوپر نماز پڑھ لو، یا جو بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے، مگر ساری احادیث غایت درجے کی ضعیف ہيں۔ اور فرمایا: اس میں سے جو سب سے صحیح ہے یہ مرسل ہے۔ واللہ اعلم‘‘۔

اسی طرح سے ’’الموسوعة الفقهية‘‘ (8/37) میں آیا ہے کہ:

’’فقہاء کرام کا بدعتی میت پر جنازہ پڑھنے کے تعلق سے اختلاف ہے۔ چنانچہ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس بدعتی پر جنازہ پڑھنا واجب ہے کہ جو اپنی بدعت کے ذریعے کفر میں مبتلا نہيں ہوا (یعنی اس کی بدعت مکفرہ نہیں ہے)۔ کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

’’ہر اس شخص پر جنازہ نماز پڑھ لو جو لا الہ الا اللہ کہتا ہو‘‘۔

سوائے مالکیہ کے، ان کے نزدیک اہل فضل لوگوں کا بدعتی پر جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، تاکہ اس طرح سے دوسروں کے لیے جن کا حال ان کے حال سا ہو زجر وعبرت ہو، اور اس لیے بھی کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایسے شخص کو لایا گیا جس نے خودکشی کی تھی تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔

اور حنابلہ بدعتی پر نماز پڑھنے سے منع کرنے کی طرف گئے ہیں کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جب مقروض شخص اور خودکشی کرنے والے تک پر جنازہ نماز نہ پڑھی حالانکہ یہ بدعتی سے کم تر جرم کے مرتکب تھے‘‘۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  ’’منہاج السنۃ‘‘ (5/235-237) میں فرماتے ہیں:

’’۔۔۔ ہر وہ مسلمان جس کے بارے میں یہ نہيں معلوم کہ وہ منافق ہے تو اس کے لیے استغفار کرنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، اگرچہ اس میں کوئی بدعت اور فسق ہو، لیکن ہر ایک پر واجب نہيں کہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھے۔  اور اگر اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے، اور فسق وفجور کو ظاہر کرنے والے پر نماز جنازہ چھوڑنے میں مصلحت ہو تاکہ لوگ آئندہ ایسا کرنے سے ڈریں تو پھر اس پر نماز پڑھنے سے رک جانا مشروع ہے اس شخص کے لیے کہ جس کی اس میت پر نماز چھوڑنا لوگوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے، اور وہ پھر ایسی حرکت سے باز رہیں گے، تو اسے چاہیےکہ ایسے پر نماز نہ پڑھے۔ جیسا کہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ جس نے خودکشی کی تھی:

’’صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ‘‘[6]

(اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو)۔

اسی طرح سے خیانت کرنے والے پر:

’’صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ‘‘

(اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو)۔

اور  سمرۃ بن جندب  رضی اللہ عنہ  سے کہا گیا:

’’إِنَّ ابْنَكَ لَمْ يَنَمِ الْبَارِحَةَ، فَقَالَ: أَبَشِمًا؟ قَالُوا: بَشِمًا، قَالَ: لَوْ مَاتَ، لَمْ أُصَلِّ عَلَيْهِ‘‘[7]

(آپ کا بیٹا کل رات سویا ہی نہیں۔ انہوں نے فرمایا: کیا بسیار خوری(حد سے زیادہ کھانے) کی وجہ سے؟ کہا لوگوں نے: جی ہاں اسی وجہ سے۔ فرمایا آپ نے کہ: اگر وہ مرگیا تو میں اس پر جنازہ نہيں پڑھوں گا)۔

یعنی گویا کہ وہ اپنے نفس کو خود قتل کرنے والا ہے۔

علماء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی مر جائے تو کیا صرف امام اس پر جنازہ چھوڑ دے  کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو‘‘۔

یا پھر یہ ترک کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ خاص تھا ؟ یا پھر یہ مشروع ہے اس کے حق میں جس پر نماز پڑھنا طلب کیا گیا ہو؟ اور کیا امام یعنی خلیفہ یا امام راتب (مسجد کا امام) ہو؟ اور کیا یہ ان دو کے ساتھ مخصوص ہے یا پھر ان کے علاوہ کے لیے بھی ثابت ہے؟

یہ تمام مسائل اس مقام کے علاوہ ہم نے ذکر کیے ہیں۔ لیکن بہرحال وہ مسلمان جو اسلام کا اظہار کرتے ہیں دو قسم میں تقسیم ہوتے ہیں:

یاتو مومن ہوں گے۔

یا پھر منافق ہوں گے۔

اب جس کا نفاق معلوم ہو تو پھر اس پر نہ نماز پڑھنا درست ہے اور نہ ہی اس کے لیے استغفار کرنا۔ اور جسے اس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو تو وہ پڑھ لے۔ یعنی جسے معلوم ہے وہ نہ پڑھے اور جسے معلوم نہيں وہ پڑھ سکتا ہے۔  عمر  رضی اللہ عنہ  اس شخص پر جنازہ نہ پڑھتے تھے جس پر  حذیفہ  رضی اللہ عنہ  جنازہ نہ پڑھتے۔ کیونکہ آپ  رضی اللہ عنہ  غزوۂ تبوک کے موقع پر تھے اور ان منافقین کو جان لیا تھا جنہوں نے غداری کے ساتھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کےقتل کا عزم کررکھا تھا۔

یہ بات جان لیں کہ ان دو باتوں میں کوئی تضاد نہیں کہ ایک شخص کو دنیا میں اس کے گناہ پر سزا دی گئی ہو اور پھر اسی پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور بخشش کی دعاء کی جائے، کیونکہ جو زانی، چور یا شراب خور وغیرہ  جیسے گناہ گار ہوتے ہیں، ان پر حد قائم کی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود ان کے حق میں دین ودنیا کے لیے دعاء کرکے ان کے ساتھ یہ بھلائی کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ جتنی شرعی سزائیں ہيں بندوں پر بطور رحمت کے مشروع کی گئی ہيں۔ یہ اللہ تعالی کی رحمت اور احسان کے ارادے کے ساتھ صادر ہوئی ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ لوگ جس کو اس کے گناہ کی سزا دے رہے ہوں تو اس سے ان کا مقصد اس پر احسان کرنا ہو، اور بطور رحمت کے ان پر اسے نافذ کیا جارہا ہو۔ جیسا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کی تادیب کرنا چاہتا ہے، یا جیسے ایک طبیب اپنے مریض کا علاج معالجہ چاہتا ہے۔ کیونکہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ‘‘[8]

(میں تو تمہارے لیے (تعلیم، تربیت وتادیب میں) ایک والد کی طرح ہوں۔۔۔)۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ﴾ (الاحزاب: 6)

(یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے)‘‘۔

فقہ مالکی کی کتاب ’’المدونۃ‘‘ میں فصل ہے اس بارے میں کہ: ’’في الصلاة على قتلى الخوارج والقدرية والاباضية‘‘ (خوارج، قدریہ اور اباضیہ کے مقتولین پر جنازہ نماز پڑھنا)۔

میں نے کہا: خوارج کے مقتولین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا ان پر نماز پڑھی جائے یا نہیں؟

فرمایا: ’’امام مالک  رحمہ اللہ  قدریہ اور اباضیہ (خارجی) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کے مرنے والوں پر نماز نہ پڑھی جائے، نہ ہی ان کے جنازوں کے ساتھ چلا جائے، نہ ان کے مریضوں کی عیادت کی جائے، اور اگر یہ قتل کردیے جائيں پھر تو اور بھی زیادہ یہ اس لائق ہیں کہ ان پر نماز نہ پڑھی جائے‘‘۔

سوال: اہل سنت والجماعت کے ہاں کیا ضابط ہے اہل بدعت پر نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اور کیا ان کے لیے ترحم (رحمت کی دعاء جیسے رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ) کرنا جائز ہے؟

جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی  حفظہ اللہ :

سلف صالحین کی اگر آپ کتب کا مطالعہ کریں گے تو آپ پائیں گے کہ وہ ظاہری امور میں جو انسان سے واقع ہوتے ہیں مثال کے طور پر خلق قرآن کا قول اختیار کرنا یا صفات الہی کو معطل قرار دینا جیسے ظاہری امور میں واقع ہو تو سلف اس کی تبدیع کرتے تھے، بارک اللہ فیک۔ لیکن جو ترحم کا معاملہ ہے تو سلف تمام اہل قبلہ پر نماز پڑھنا جائز سمجھتے تھے جب تک وہ اہل قبلہ میں داخل ہیں، اس قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہيں۔ یہ بات تو موجود ہے اور بہت کثرت کے ساتھ ہے سلف کی کتب میں۔ لہذا ان پر نماز پڑھنا ان پر ترحم ہی ہے اگر اس پر نماز پڑھی گئی۔

لیکن اگر کوئی امام ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے بدعتی پر جنازہ نہ پڑھے تاکہ بدعت کی حقارت لوگ جان سکیں۔ البتہ جو دیگر لوگ ہيں  وہ چاہیں تو اس بدعتی پر جنازہ پڑھ سکتے ہيں، بلکہ یہ ان پر واجب ہوگا کیونکہ یہ فرض کفایہ میں سے ہے کہ اس مسلمان پر جنازہ نماز پڑھی جائے، اگرچہ وہ بدعات میں غرق ہو۔ اور وہ اس پر ترحم بھی کرسکتے ہيں۔ البتہ اگر کوئی انسان ایسا ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور مانی جاتی ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی تادیب کرے تو وہ ترحم نہ کرے۔ لیکن اس پر ترحم کرنا نہ حرام ہے اور نہ اس سے منع ہے۔

(کیسٹ بعنوان: تقوى الله وثمارها الطيبة)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کا کلام اوپر گزرا مزید الفتاوی 7/217 میں یہی اصول ذکر فرماتے ہیں کہ :

’’اگر امام، یا اہل علم ودین بعض بدعت وفسق وفجور کو ظاہر کرنے والوں پر نماز جنازہ چھوڑ دیتے ہيں تاکہ لوگوں کے لیے زجر وعبرت ہو، تو اس کا مطلب یہ نہيں کہ اس پر نماز پڑھنا یا استغفار کرنا حرام ہے۔ بلکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی جن کی جنازہ نہيں پڑھی تھی جیسے خیانت کرنے والا، خودکشی کرنے والا یا مقروض جو قرض کی ادائیگی کے لیے پیچھے کچھ چھوڑ نہيں گیا، ان کے بارے میں دوسروں کو فرماتے کہ اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ اور یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ آپ ایسے شخص کے لیے باطن میں استغفار فرماتے ہیں اگرچہ ظاہر میں اسے چھوڑ دیتے  تاکہ لوگ اس قسم کی حرکت کرنے سے باز رہیں۔ جیسا کہ محلم بن جثامہ کی حدیث میں یوں روایت ہے‘‘۔

اسی طرح کا فتوی شیخ ابن باز، الفوزان، امان الجامی، احمد النجمی ، الالبانی، عبدالعزیز الراجحی اور فتوی کمیٹی، سعودی عرب وغیرہ کا بھی ہے(اللہ ان کے زندہ کی حفاظت فرمائے اور فوت شدگان پر رحم فرمائے)۔

سوال: احسن اللہ الیک، اہل بدعت کے خلاف بددعاء کرنے کا کیا حکم ہے، اور ان پر ترحم کرنے کا کیا حکم ہے؟ او رکیا  اہل بدعت پر طعن اگر باتکرار کیاجائے تو وہ حرام غیبت میں شمار ہوگا؟

جواب از شیخ زید المدخلی رحمہ اللہ :

اہل بدعت کی دو اقسام ہیں:

اہل بدعت کفریہ یعنی ان کی بدعت انہیں کافر بنادیتی ہے اور اسلام سے خارج کردیتی ہے۔ جیسا کہ قبروں کی عبادت کرنے والے قبرپرست لوگ ہيں، اور اولیاء وغیرہ سے استغاثہ کرنے والے، اور جو دین کو گالی دے اور جیسی دیگر بدعات جو کہ کفر ہيں، تو ایسے لوگوں میں کسی قسم کی خیر نہيں، ان پر بددعاء بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ کفار ہیں۔

اہل بدعت مفسقہ یعنی جو فاسقوں میں سے ہیں کفار نہيں جیساکہ  اہل حزبیات اور ان تنظیموں والے لوگ جو اہل سنت والجماعت کےمنہج کی مخالفت کرتے ہيں جہاد، نصیحت، امر بالمعروف، الولاء والبراء وغیرہ ابواب میں۔ ایسو ں کے لیے ہدایت کی دعاء  کے ساتھ ساتھ اگر وہ اسلام پر مرجائيں تو کوئی حرج نہيں کہ ان پر ترحم کیا جائے اور یوں کہہ دیا جائے کہ: رحمہ اللہ۔

لیکن کوئی اس کی موت پر افسوس کا اعلان وتشہیر نہ کرتا پھرے کیونکہ وہ بدعتی ہے اور اہل سنت کے دشمنون میں سے ہے۔ چنانچہ اہل سنت اس پر افسوس کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موت تو اہل زمین کے لیے اس کے باقی رہنے سے زیادہ بہتر تھی۔

لہذا اسلام کے حکم کے اعتبار سے اس پر ترحم کیا جائے گا مگر اس کے اور اپنے مابین بس، اعلان نہيں کرتے پھرنا۔ کیونکہ اہل بدعت کا اہل سنت پر خطرہ اور دشمنی بالکل واضح ومعلوم ہے۔

پھر یہ بات کہ ان کے خلاف بات کرنا تاکہ ان کی بدعات اور ان کی اہوا کی دھوکہ دہی سے لوگوں کوخبردار کیا جائے یہ حرام غیبت میں سے نہيں ہے۔ بلکہ یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے۔ اسی لیے جب ایک شخص امام احمد  رحمہ اللہ  کے پاس آیا اور کہا کہ: اے ابو عبداللہ! مجھ پر یہ بات گراں گزرتی ہے کہ میں اہل بدعت شخصیات کے بارے میں بات کروں فلاں ایسا فلاں ایسا ہے۔۔۔تو انہوں نے فرمایا: اگر تم بھی چپ رہو گے اور میں بھی چپ رہوں گا، تو پھر کیسے ایک جاہل پر حق واضح ہوپائے گا؟!۔

لازم ہے کہ بیان ووضاحت ہو۔ آپ جو کچھ اس میں سنت مخالف جرح وبدعت ہے اسے بیان کریں، ان کے بارے میں یہ غیبت نہيں۔ کیونکہ اس کا سبب وہ خود ہیں کہ وہ اہل سنت والجماعت کی مخالفت کرتے ہيں، تو ان پر کلام کرنا نصیحت کے باب میں سے ہے۔

ان پر کلام کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ان کی بدعت کا علم رکھتا ہو اور اس پر مطلع ہو، اور سنت کو بھی خوب جانتاہو، ساتھ ہی مخلص ہو اور اپنے کلام سے محض رضائے الہی کا طالب ہو کہ اس کے ذریعے سے میں لوگوں کو خبردار کرسکوں گا تاکہ وہ اس کی بدعت سے بچ سکیں۔

آپ بہت سے علماء افاضل کو پائيں گے کہ وہ اہل بدعت سے خبردار فرماتے ہيں، اور لوگوں کو وصیت کرتے ہيں ان سے دور رہنے کی۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا جو کہ امام تھے کہ:

’’میں کسی یہودی ونصرانی کے پاس تو کھا سکتا ہوں لیکن بدعتی کے پاس نہيں‘‘۔

یہ سب کچھ وہ بدعتی کے خطرناک ہونے کی وجہ سے فرمایا کرتے تھے۔ اور سلف تو ان کا بائیکاٹ کیا کرتے تھے جیتے جی بھی اور مرنے کے بعد بھی‘‘۔

(آڈیو فتوی: ما حكم الدعاء على البدع والترحم عليهم؟ وهل تكرار الطعن عليهم يعتبر من الغيبة المحرمة؟)


[1] صحیح مسلم 1066۔

[2] صحیح ترمذی 3000۔

[3] صحیح ابن ماجہ 146۔

[4] صحیح بخاری 2291 وغیرہ۔

[5] اسے امام احمد نے روایت فرمایا ہے، اور شیخ البانی نے اس کے بعض طرق کو ’’تخریج کتاب السنۃ ‘‘ میں حسن قرار دیا ہے۔

[6] حدیث گزر چکی ہے۔

[7] السنۃ لابی بکر بن الخلال 1641۔

[8] صحیح ابی داود 8۔

ترجمہ، جمع و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*