غائبانہ نماز جنازہ کا حکم؟

Ruling regarding Offering the Funeral Prayer in Absentia?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اگر کسی شخص کو اپنی قرابت دار خاتون کی موت کی خبر ملے جبکہ وہ کسی دوسرے ملک  میں رہتی ہیں تو کیا ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

نہیں، البتہ اس کی مغفرت کے لیے دعاء کی جائے گی۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  غائبین پر نماز جنازہ نہیں پڑھا کرتے تھے سوائے اس پر جو کسی بڑے درجے اور شان والا ہو جیسا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی کیونکہ دعوت الی اللہ کے سلسلے میں ان کی ایک شان ومنزلت تھی، اور آپ  رحمہ اللہ  اپنے طرف آنے والے مہاجرین کا اکرام فرماتے تھے۔پس اگر میت ایسی ہو کہ جس کی شان وشوکت ہو جیسے صالح حکمران، صالح عالم اور ان جیسے لوگ اگر ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھ لی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عوام الناس پر نماز جنازہ غائبانہ نہيں پڑھی جائے گی۔ کیونکہ مکہ وغیرہ میں ایک جم غفیر کی وفات ہوئی  لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان میں سے کسی پر نماز جنازہ غائبانہ ادا نہیں فرمائی۔

(نور علی الدرب 14067)

سوال: غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ کیا جو ابھی تک دفن نہیں ہوا اس پر بھی غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب  از شیخ ابن باز  رحمہ اللہ :

غائب میت پر نماز جنازہ پڑھنے کی تفصیل ہے:

بعض اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ جس غائب پر اس کی شہر میں نماز جنازہ پڑھی جاچکی ہے تو اس پر دوبارہ نہ پڑھی جائے، اور بعض اہل علم اس کے پڑھنے کے قائل ہیں۔

لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے جس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جارہی ہے اس کی اسلام میں خاص شان وشوکت  ہو جیساکہ نجاشی  رحمہ اللہ  تھے۔ کیونکہ جب نجاشی  رحمہ اللہ  اپنے وطن میں فوت ہوئے تھے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو اس کی خبر دی اور ان پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ ان کے علاوہ بھی اس طرح سے اوروں پر غائبانہ نماز جنازہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے پڑھی ہو۔

اگر جس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جارہی ہے کوئی عادل واچھا حکمران ہوتو اس پر ولی امر غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتا ہے اور ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح سے علماء حق وداعیان ہدایت پر بھی اگر غائبانہ نماز جنازہ  ادا کردی جائے تو اچھی بات ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر ادا فرمائی تھی۔

البتہ عام لوگوں پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر غائب شخص پر غائبانہ نماز جنازہ نہیں ادا فرماتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بس ایک شخص نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ کیونکہ آپ  رحمہ اللہ  کی اسلام کی خاطر بڑی خدمات تھیں اور اس لیے کہ آپ  رحمہ اللہ  نے ان مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو اپنے پاس پناہ دی جو حبشہ ہجرت کرگئے تھے، انہیں پناہ دی، ان کی نصرت کی، دفاع فرمایا اور بہت اچھا برتاؤ فرمایا۔ ان کی طرف سے اسلام کو عظیم تائید حاصل ہوئی۔ اسی لیے جب وہ فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے بھی ان پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔

لہذا جس شخص کا ایسا درجہ ہو اور اسلام کے لیے اس کی ایسی خدمات ہوں تو اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک سعودی عرب میں ضیاء الحق  رحمہ اللہ  صدر پاکستان پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔ ان کے اچھے اسلامی مواقف کی وجہ سے ہمارے حکمران نے حکم دیا کہ ان پر حرمین میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا جائے۔ چنانچہ ان پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی کیونکہ وہ اس کے اہل تھے کہ ان کے بڑے اچھے مواقف تھے اور تحکیم شریعت پر خاص توجہ دیتے تھے، اس کا حکم بھی دیتے اور اس کی حرص رکھتے تھے۔ ہم اللہ تعالی سے اپنے اور ان کے لیے  عفو ومغفرت کا سوال کرتے ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ جو شخصیت اس پائے کی ہو مسلمان حکمرانوں میں سے یا علماء کرام میں سے اس صورت میں مسلمانوں پر مشروع ہے کہ وہ ان پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کریں خواہ وہ کسی دوسرے ملک یا شہر میں فوت ہوں یا ان کے اپنے ملک وشہر میں، جس کی دلیل یہی نجاشی  رحمہ اللہ  کا مذکورہ بالا قصہ ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔

(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة المجلد الثالث عشر)

سوال: ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کی وفات پر نماز جنازہ پڑھا جاتا ہے پھر اسے دفن بھی کردیا جاتا ہے ، لیکن جب یوم جمعہ آتا ہے تو اہل میت آئمہ مساجد سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی میت پر نماز جمعہ کے بعد دوبارہ سے غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا جائے۔ کیا اس کیفیت کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے، یہ بات بھی علم میں رہے کہ میت اسی شہر میں فوت ہوئی تھی، اور دفن سے قبل اس پر پہلے ہی نماز جنازہ پڑھا جاچکا ہے؟

جواب از شیخ ابن باز  رحمہ اللہ :

یہ بدعت ہے جس کی کوئی اساس نہیں۔ یہ بدعت ہے جس کی کوئی اساس نہیں۔ دوبارہ سے اس پر نہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ حاضر، کیونکہ الحمدللہ اس پر تو نماز جنازہ پہلے ہی پڑھی جاچکی ہے۔ یہ عمل جائز نہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے، ایسی بدعت ہے جس کی کوئی اصل وبنیاد نہیں۔ غائبانہ نماز جنازہ تو اس کی پڑھی جاتی ہے جس کی کوئی خاص شان وشوکت ہو جیسے کوئی داعی الی اللہ یا بڑا عالم ہو جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی کیونکہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالی نے مومنوں کو بہت نفع پہنچایا تھا۔ لیکن اس طرح سے ہفتے بعد میت پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا یہ منکر ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔

شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ  اپنے کتاب ’’احكام الجنائز وبدعها‘‘   ص 115-120 میں فرماتے ہیں:

ساتواں مسئلہ: جو کوئی ایسے ملک میں فوت ہوجائے کہ جہاں اس پر کوئی جنازہ پڑھنے والا نہ ہو تو اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ غائبانہ پڑھے گی کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی جسے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی ایک جماعت نے روایت کیا کہ ان میں سے بعض نے بعض کے الفاظ پر اضافہ کیا ہے، میں نے اس بارے میں ان کی احادیث کو جمع کیا ہے پھر سب کو ملا کر ایک سیاق میں بیان کیا ہے تاکہ فائدے سے زیادہ قریب تر ہو۔۔۔پھر شیخ نے وہ احادیث نقل فرمائی۔۔۔پھر فرمایا:

جان لیں ہم نے جو کچھ نماز جنازہ غائبانہ کے تعلق سے ذکر کیا ہے ان احادیث میں کوئی دوسرا احتمال نہیں۔ اسی لیے اس مؤقف کو اختیار کرنے میں ہم سے پہلے محققین مذاہب کی ایک جماعت گزر چکی ہے۔ امام ابن القیم  رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ 1/205-206 میں اس بارے میں جو کچھ بیان فرمایا اس کا خلاصہ آپ کے پیش خدمت ہے:

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ سنت نہ تھی کہ ہر میت پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے زمانے میں بہت سے مسلمان فوت ہوئے جو غائب تھے مگر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان میں سے کسی کا بھی غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا۔ البتہ یہ بات صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ جنازہ ادا فرمایا تھا۔ اس کے بارے میں علماء نے اختلاف فرمایا جن کے تین اقوال ہیں:

1- یہ مشروع وسنت ہے کہ امت ہر غائب پر غائبانہ جنازہ پڑھ سکتی ہے یہ امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کا قول ہے۔

2- امام ابو حنیفہ اور مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ خاص تھا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔

3- شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

صواب بات یہ ہے کہ اگر میت ایسے ملک میں فوت ہو جہاں اس پر جنازہ نماز نہیں پڑھی گئی ہے تو اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر پڑھی کیونکہ وہ کفار کے درمیان فوت ہوئے تھے ا ور ان پر نماز نہیں پڑھی گئی تھی۔ لیکن اگر کوئی شخص جہاں فوت ہوا ہے وہاں اس پر پڑھ لی گئی ہو تو پھر اس پر غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ مسلمانوں کا اس پر نماز جنازہ پڑھ لینے سے وہ فرض ساقط ہوچکا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے غائب پر جنازہ پڑھا بھی اور ترک بھی فرمایا، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فعل اور ترک دونوں ہی سنت ہوتا ہے۔ اور اس کا اپنا موقع محل ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

امام احمد  رحمہ اللہ  کے مذہب میں تین اقوال ہیں جن میں سے صحیح ترین یہی تفصیل ہے جو میں نے بیان کی۔ میں یہ کہتا ہوں:

شافعیہ میں سے محققین نے اسے اختیار کیا ہے جیسا کہ امام خطابی  رحمہ اللہ  ’’معالم السنن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

میں یہ کہتا ہوں: ’’نجاشی  رحمہ اللہ  ایک مسلمان شخص تھے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر ایمان لائے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نبوت کی تصدیق کی تھی۔ لیکن وہ اپنا ایمان چھپاتے تھے۔ اور مسلمان اگر فوت ہوجائے تو مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس پر جنازہ نماز پڑھیں۔ مگر چونکہ وہ اہل کفر کے درمیان رہتے تھے اور وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو ان پر نماز جنازہ پڑھنے کا حق ادا کرتا۔ پس نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر یہ لازم ہوا کہ وہ اسے ادا کریں کیونکہ وہ اس کے نبی، ولی اور لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار تھے‘‘۔

(شیخ البانی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں) پس یہی واللہ اعلم سبب تھا کہ ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔

چنانچہ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک میں فوت ہو اور اس پر نماز جنازہ کا جو حق تھا وہ ادا کردیا گیا ہو تو پھر جو دوسرے ملکوں شہروں میں رہتے ہیں وہ اس پر اب نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھیں گے۔ لیکن اگر علم ہوجائے کہ اس پر نماز نہیں پڑھی گئی ہے کسی رکاوٹ، مانع یا عذر کی وجہ سے تو پھر گویا کہ یہ سنت ٹھہری کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور بعید مسافت کی وجہ سے اسے چھوڑا نہ جائے۔

اور جب اس پر نماز پڑھی جائے تو قبلہ رخ ہوکر پڑھی جائے گی ناکہ اس کے ملک یا شہر کا رخ کرکے اگر وہ قبلے کی جانب نہ ہو۔

بعض علماء میت پر غائبانہ نماز جنازہ کی کراہیت کی طرف گئے ہیں اس گمان کے ساتھ کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فعل آپ ہی کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ وہ غائب نہیں بلکہ ان کے لیے مشاہد کے حکم میں تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ  بعض اخبار میں یوں بھی آیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے زمین سمیٹ دی گئی تھی اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی جگہ دیکھ لی تھی۔

لیکن یہ تاویل فاسد ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جو بھی شرعی عمل کرتے ہیں ہم پر اس کی پیروی اور متابعت ضروری ہوتی ہے جبکہ تخصیص کا علم بنادلیل کے نہیں ہوسکتا۔

جو بات اس کو واضح کرتی ہے وہ یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  باہر مصلیٰ کی طرف نکلے اور لوگوں کو جمع کرکے ان کی صف بندی فرمائی پھر ان کے ساتھ نماز ادا فرمائی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ واللہ اعلم۔

الرویانی رحمہ اللہ نے بھی جو کہ شافعی ہیں اس مؤقف کو مستحسن فرمایا جس کی طرف الخطابی  رحمہ اللہ گئے ہیں اور یہی مذہب امام ابوداود  رحمہ اللہ  کا ہے کیونکہ انہوں نے اس حدیث کا اپنی سنن میں یوں ترجمہ کیا ہے ’’باب في الصلاة على المسلم يموت في بلاد الشرك‘‘ (اس مسلم پر نماز جنازہ پڑھنے کا باب جس کی موت بلاد شرک میں ہوئی ہو)۔

اور متأخرین میں سے اسے اختیار کیا ہے علامہ محقق شیخ صالح المقبلی  رحمہ اللہ  نے جیسا کہ ’’نیل الاوطار‘‘ 4/43 میں ہے ۔ اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی جانب سے بعض روایات میں یہ الفاظ زائد ہیں جن سے انہوں نے استدلال فرمایا ہے کہ:

’’إن أخاكم قد مات بغير أرضكم، فقوموا فصلوا عليه‘‘[1]

(تمہارا بھائی تمہاری سرزمین کے علاوہ کہیں فوت ہوگیا ہے، پس کھڑے ہو اور اس پر نماز پڑھو)۔

اس کی سند شیخین کی شرط پر ہے۔

اور ہر غائب پر نماز جنازہ کی عدم مشروعیت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین وغیرہ کی جب وفات ہوئی تو کسی بھی مسلمان نے ان پر نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو تواتر کے ساتھ ان سے یہ نقل ہوتا۔

پس اس کا تقابلہ اس سے کریں جس پر آج بہت سے مسلمان عمل پیرا ہیں کہ وہ ہر غائب پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں خصوصاً اگر وہ مشہور ہو یا اس کی وصیت ہو اگرچہ محض سیاسی طور پر ہی کیوں نہ ہو، نہ تو وہ نیک کردار کے طور پر جانا جاتا ہو اور نہ ہی خدمت اسلام کے طور پر۔ بلکہ اگرچہ اس پر جنازہ حرم مکی میں حج کے موسم میں ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ حاضر پڑھا ہو پھر بھی غائبانہ پڑھتے ہیں۔ اس کا تقابلہ کریں اس سے جو اس قسم کی نماز کے تعلق سے ہم نے ذکر کیا تو آپ کو یقینی طور پر علم ہوجائے گا کہ یہ ایسی بدعات میں سے جس کے بارے میں کسی بھی عالم کو جو سنن پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مذہب سلف  رضی اللہ عنہم  کا علم رکھتا ہو شک نہ ہوگا ۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  سے جب غائبانہ نماز جنازہ اور اسی طرح سے قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا اور کیا اس کی کوئی حد ہے؟

تو آپ رحمہ اللہ  نے جواب ارشاد فرمایا:

جہاں تک غائبانہ نماز جنازہ کا تعلق ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ سنت نہیں ہے الا یہ کہ کسی شخص پر نماز نہ پڑھی گئی ہو تو اس پر پڑھی جاسکتی ہے۔ جیسے کوئی سمندر میں فوت ہوگیا یا دارکفر میں اور اس کا علم نہ ہوسکے کہ اس پر نماز پڑھی گئی یا نہیں۔ تو اس پر نماز جنازہ پڑھنا واجب ہے۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور اپنے صحابہ کو بھی حکم دیا کہ ان پر نماز جنازہ پڑھو۔ پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کو لے کر مصلیٰ کی طرف گئے۔

اور یہ مسئلہ یعنی غائبانہ نماز جنازہ سوائے نجاشی  رحمہ اللہ  کے کسی کے بارے میں وارد نہیں کیونکہ ان کا علم نہیں ہوسکا کہ آیا ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی یا نہیں۔

البتہ اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس پر اس کے شہر میں نماز جنازہ پڑھ لی گئی ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ اس پر پھر نماز پڑھنا سنت نہیں۔

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 17/146)

اور آپ ہی سے پوچھا گیا کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے نجاشی  رحمہ اللہ  پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جس کا سبب یہ تھا کہ وہاں کوئی مسلمان نہ تھا جو ان پر نماز جنازہ پڑھتا۔ جبکہ مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے ان کی جماعت کی جماعت کہیں فوت ہوجاتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی جیسا کہ ہمارے موجودہ دور میں ہوتا ہے یعنی تاکیدی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان پر نماز نہیں پڑھی گئی ہے؟

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ :

اگر آپ کو یقین ہو کہ ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تو ان پر پڑھیں، کیونکہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اہل وعیال نے ان پر پڑھی ہو کیونکہ نماز جنازہ ایک شخص سے بھی ہو ہی جاتی ہے۔ بہرحال اگر آپ کو کسی کے بارے میں یقین ہو کہ اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تو آپ ضرور اس پر نماز جنازہ پڑھیں کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے لہذا اسے لازمی طور پر ادا کیجیے۔

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 17/148)

آپ سے پوچھا گیا: غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں راجح قول کیا ہے؟

آپ  رحمہ اللہ  نے جوا ب ارشاد فرمایا:

غائبانہ نماز جنازہ مشروع نہیں ہے سوائے اس کے لیے جس پر نماز نہ پڑھی گئی ہو، یہی قول راجح ہے۔

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 17/149)

اور پوچھا گیا: کیا ہر میت پر غائبانہ نماز جنازہ مشروع ہے؟

آپ نے جواب دیا: اہل علم کے اقوال میں سے جو قول راجح ہے وہ یہ ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ غیر مشروع ہے سوائے اس شخص پر کہ جس کی نماز جنازہ ادا نہ کی گئی ہو۔ جیسے کوئی شخص بلاد کفار میں فوت ہوجائے اور کسی نے اس پر جنازہ نماز نہ پڑھی ہو تو پھر واجب ہے کہ اس پر نماز پڑھی جائے۔ البتہ جس پر پڑھی جاچکی ہو تو اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ اس پر نماز غیرمشروع ہے یعنی غائبانہ۔ کیونکہ یہ سنت میں وارد نہیں ہے سوائے نجاشی  رحمہ اللہ  کے قصے میں اور نجاشی  رحمہ اللہ  پر ان کے ملک میں نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی ۔۔۔اسی لیے ان پر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مدینہ میں نماز پڑھی۔۔۔مگر ان کے علاوہ بڑے بڑے زعماء فوت ہوتے رہے لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے منقول نہیں کہ آپ نے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔

اور بعض اہل علم کہتے ہیں جس نے اپنے مال یا علم کے ذریعے دین کو بہت نفع پہنچایا ہو تو اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے۔۔۔ اور جو ایسا نہ ہو تو اس پر نہ پڑھی جائے۔

اور بعض اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ: غائبانہ نماز جنازہ مطلقاً ہر ایک پر پڑھنا جائز ہے اور یہ ضعیف ترین قول ہے۔

(70 سؤالاً في أحكام الجنائز ( ص9 ) لفضيلة الشيخ محمد الصالح العثيمين)

فتوی کمیٹی سعودی عرب سے 8/41 میں سوال پوچھا گیا کہ:

کیا میت کے اوپر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے حبیب نجاشی  رحمہ اللہ  کے ساتھ کیا، یا پھر وہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ خاص تھا؟

جواب: غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فعل موجود ہے۔ اور یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ خاص نہیں۔ کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ نے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔ اور اصل اصول عدم خصوصیت کا ہے۔ لیکن ا س بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ اس میت کے حق میں خاص ہے جس کی اسلام میں کوئی خاص شان ہو ناکہ ہر ایک کے حق میں۔


[1] صحیح ابن ماجہ 1257کے الفاظ ہیں: ’’صَلُّوا عَلَى أَخٍ لَكُمْ مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ، قَالُوا: مَنْ هُوَ؟، قَالَ: النَّجَاشِيُّ‘‘۔

ترجمہ، جمع و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*