نماز جنازہ سرا ًپڑھنا چاہیے یا جہراً؟

Funeral Prayer should be Performed Silently or Aloud?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام ابن قدامہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

فصل: نماز جنازہ کی  قرأت اور دعاء کو سراً (آہستہ آواز) میں پڑھے گا۔ اس بارے میں ہم اہل علم میں کوئی اختلاف نہيں جانتے۔ ام القرآن کے بعد کچھ نہ پڑھے۔ یہ بھی ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت کیا جاتا ہے کہ آپ نے فاتحۃ الکتاب کو جہرا ً پڑھا۔

احمد فرماتے ہیں:  انہوں نے جہراً اس لیے پڑھا تاکہ انہيں تعلیم دیں([1])۔

سوال:  میت پر نماز جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ سرا ًپڑھی جائے گی یاجہراً؟ جزاکم اللہ خیراً

جواب از عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

یہ ایک مجمل سوال ہے۔ اگر سائل کی مراد  قرأت ہے تو  قرأت سری کی جائے گی، جنازے میں سرا ً قرأت کی جائے گی اور دعاء بھی سراً کی جائے گی۔ اور اگر اس کی مراد اس کے علاوہ کچھ ہے تو ہم نہيں سمجھے۔ بہرحال نماز جنازہ پوری کی پوری سری ہوتی ہے،  قرأت سری، دعاء بھی سری۔ ہاں اگر آس پاس کے لوگ اس کی آواز سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہيں، اس پر کچھ نہيں الحمدللہ۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی آواز جنازے کی دعاء میں سن لیا کرتے تھے۔

مقصود یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آس پاس والے اس کی آواز سن لیں، ہوسکتا ہے اردگرد والوں کو استفادہ ہو، لیکن ایسا جہر کرنا مشروع نہیں  جو آس پاس کے لوگوں کو تشویش میں ڈالے، بس ہلکا سا جہر ہو اس طرح کہ اس کے آس پاس والوں کو استفادہ ہو، اور بعض لوگ بعض دوسروں سے سیکھ لیں۔ ورنہ جنازے میں سنت تو یہی ہے  خواہ رات میں ہو یا دن میں کہ سری  قرأت کی جائے گی اور دعاء بھی سری کی جائے گی۔ البتہ معمولی سا جہر جس سے بس آس پاس والے سن لیں نقصان دہ نہيں([2])۔

البتہ وہ مشہور حدیث جس سے جہری نماز جنازہ پڑھنے کے قائلین استدلال کرتے ہیں  کہ صحیح بخاری میں باب ہے نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا  اس کے تحت طلحہ بن عبداللہ بن عوف  سے روایت ہے کہ فرمایا:

” صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ  قَالَ: لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ“([3])

 (میں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے فاتحۃ الکتاب (سورۂ فاتحہ) پڑھی اور فرمایا: تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یقیناً یہی سنت ہے)۔

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

باب اس بارے میں کہ نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا، یعنی اس کی مشروعیت کا بیان۔ اور یہ اختلافی مسائل میں سے ہے۔ ابن المنذر نے ابن مسعود، الحسن بن علی، ابن الزبیر اور المسور بن مخرمہ  رضی اللہ عنہم  سے اس کی مشروعیت نقل فرمائی ہے، اور یہی قول الشافعی، احمد اور اسحاق کا ہے۔ جبکہ ابو ہریرہ و ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے منقول ہے کہ اس میں  قرأت نہيں اور یہی قول مالک اور کوفے والوں کا ہے۔

اور یہ فرمانا: ” لتعلموا أنها سنة“ (تاکہ تم لوگ جان لو کہ بے شک یہ سنت ہے) الاسماعیلی فرماتے ہیں: البخاری نے شعبہ اور سفیان کی روایتوں کو جمع کیا ہے اور ان کا سیاق مختلف ہےاھ

اور جو شعبہ کی روایت ہے اسے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور النسائی دونوں نے محمد بن بشار  جو کہ البخاری کے شیخ ہیں سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:  ”فأخذت بيده ، فسألته عن ذلك ، فقال : نعم يا بن أخي ، إنه حق وسنة “ (میں نے انہیں ہاتھ سے پکڑا اور اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، میرے بھتیجے! بے شک یہ حق اور سنت ہے)  اور الحاکم میں آدم عن شعبہ کے طریق سے  ہے کہ: ”فأخذت بيده ، فسألته عن ذلك ، فقال : نعم يا بن أخي ، إنه حق وسنة “ ۔ اور جو سفیان کی روایت ہے اسے الترمذی نے عبدالرحمن بن مہدی کی ان سے ان الفاظ کے ساتھ روایت بیان کی: ” فقال : إنه من السنة ، أو من تمام السنة“ (کہا: بے شک یہ سنت میں سے ہے، یا تمام سنت میں سے ہے)  اسی طرح النسائی نے ہی ابراہیم بن سعد عن ابیہ سے اس اسناد سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی: ”فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة ، وجهر حتى أسمعنا ، فلما فرغ أخذت بيده فسألته ، فقال : سنة وحق “ (انہوں نے سورۃ الفاتحہ اور ایک سورۃ پڑھی، اور اتنی جہراً پڑھی کہ ہمیں سنا دی،  جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر یہ پوچھا، تو فرمایا: سنت ہے اور حق ہے)  اور الحاکم میں ابن عجلان کے طریق سے کہ انہوں نے سعید بن ابی سعید سے سنا فرماتے ہوئے کہ : ” صلى ابن عباس على جنازة فجهر بالحمد ، ثم قال : إنما جهرت لتعلموا أنها سنة“ (ابن عباس  رضی اللہ عنہما   نے ایک جنازہ پڑھا اور الحمدللہ کو جہراً پڑھا، پھر فرمایا: میں نے اس  لیے جہراً پڑھا تاکہ تم  جان لو کہ یقیناً یہ سنت ہے)۔ اور اس بارے میں اجماع ہے کہ صحابی کا قول”یہ سنت ہے“ مسند حدیث ہے، اسی طرح سے اجماع نقل ہوا ہے، حالانکہ اہل حدیث اور اصولیوں کے نزدیک اس بارے میں اختلاف مشہور ہے۔ اور اس تعلق سے الحاکم پر ایک اور مؤاخذہ ہے اور وہ اس کا استدراک کرنا ہے جبکہ یہ بخاری میں ہے۔ اور الترمذی نے ایک دوسرے طور پر ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت کیا ہے کہ  نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے خود ایک جنازہ پر فاتحۃ الکتاب پڑھی، اور فرماتے ہیں: یہ صحیح نہیں۔ جو صحیح ہے وہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کا اپنا قول ہے کہ یہ سنت میں سے ہے۔یہ ان کی طرف سے  دونوں صیغوں میں فرق کرنے کا نتیجہ ہے، شاید کہ ان کے مطابق فرق سے مراد صراحت اور احتمال ہے، واللہ اعلم۔

اسی طرح الحاکم ہی  میں شرحبیل بن سعد عن ابن عباس کے طریق سے روایت کرتے ہیں: ” أنه صلى على جنازة بالأبواء فكبر ، ثم قرأ الفاتحة رافعا صوته ، ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم قال : اللهم عبدك وابن عبدك أصبح فقيرا إلى رحمتك ، وأنت غني عن عذابه ، إن كان زاكيا فزكه ، وإن كان مخطئا فاغفر له . اللهم لا تحرمنا أجره ، ولا تضلنا بعده . ثم كبر ثلاث تكبيرات ثم انصرف ، فقال : يا أيها الناس ، إني لم أقرأ عليها – أي جهرا – إلا لتعلموا أنها سنة“  (انہوں نے ابواء کے مقام پر ایک جنازہ پڑھا تو تکبیر کہی  پھر بآواز بلند فاتحہ پڑھی، پھر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود بھیجا، پھر یہ دعاء پڑھی: اے اللہ! یہ تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا تیری رحمت کا محتاج بن گیا ہے، اور تو اسے عذاب دینے سے بے نیاز ہے، اگر وہ پاک تھا تو تو اسے مزید پاک کر، اور اگر وہ خطاءکار تھا تو اس کی بخشش فرما۔ اے اللہ! اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ کرنا،  اور نہ اس کے بعد ہمیں گمراہ کرنا۔  پھر تین تکبیرات  کہہ کر فارغ ہوئے۔ اور فرمایا: اے لوگو! میں نے یہ جہراً تم پر نہيں پڑھی مگر صرف اسی لیے کہ تاکہ تم جان لو یہ یقیناً یہ سنت ہے۔ الحاکم فرماتے ہیں: شرحبیل سے شیخان حجت نہیں پکڑتے، میں صرف اس لیے لایا ہوں  کیونکہ یہ سابقہ طرق کی تفسیر کرتے ہیں۔اھ اور شرحبیل کی توثیق میں اختلاف ہے۔ اور الطحاوی نے باقی تکبیرات میں  قرأت کو چھوڑنے اور تشہد کو چھوڑنے سے استدلال کیا ہے کہ پہلی میں بھی  قرأت نہ ہو۔ اور کہتے ہیں: شاید کہ صحابہ میں سے جنہوں نے فاتحہ کی  قرأت کی وہ دعاء کے طور پر تھی ناکہ تلاوت کے طورپر، اور ان کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے تو اس میں احتمال ہے کہ ان کی مراد ہوگی کہ دعاء کرنا سنت ہے۔اھ

لیکن ان کے کلام میں جو تعقب ہے اور ان کے استدلال میں جو بے جا تکلف ہے وہ مخفی نہیں۔اھ([4])

سنن النسائی والی روایت کی شرح میں شیخ عبدالمحسن العباد  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

سنت اور حق ہے مطلب سورۃ الفاتحہ پڑھنے  اور نماز جنازہ میں  قرأت کرنے کا حکم بلاشبہ سنت اور حق ہے۔ اور جہر کرنے سے مقصود ہے جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے  تاکہ تم جان لو کہ  یہ سنت ہے۔ یعنی انہو ں نے یہ سنوایا کہ  قرأت کرنی ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ نماز جنازہ جہراً پڑھتے تھے اور یہ کہ امام جہری نماز جنازہ پڑھے۔ بلکہ اس سے مقصود صرف یہ بتلانا تھا کہ وہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے اور تاکہ جان لیں کہ یہ سنت ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے۔ اور یہ تو نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ویسے بھی سنت رہی کہ سری  قرأت والی نمازوں میں کبھی کبھار آیات جہراً بھی پڑھ لیتے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے، اور وہ جان لیں کہ کونسی سورۃ اس سری نماز میں پڑھی ہے، کیونکہ آپ کبھی کبھار جہرا ًپڑھ کر انہيں سناتے۔اسی وجہ سے بعض روایات میں آیا ہے کہ: میں نے صرف اس لیے جہراً پڑھی تاکہ تمہیں سناؤ اور تم یہ جان لو کہ یہ سنت ہے۔ اور اس حدیث میں دعاء کا ذکر نہيں بلکہ صرف فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھنے کا ذکر ہے، جبکہ سورۂ فاتحہ بھی ایک دعاء پر مشتمل ہے  جو کہ یہ فرمان ہے:

﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ﴾ 

(ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت دے)

 (الفاتحۃ: 6)

لیکن نماز جنازہ سے مقصود میت کے لیے دعاء ہوتا ہے۔ اور یہ دعائيں مختلف صیغوں کے ساتھ سنت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے مروی ہیں۔

آگے چل کر سنن النسائی میں ایک اور حدیث ابوامامہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:

” السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً، ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ“

(نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر اولیٰ کے بعد ام القرآن (فاتحہ) کی مخفی تلاوت کی جائے، پھر تین تکبیرات ہوں اور آخری کے بعد سلام پھیر دیا جائے)۔

اس کی شرح میں شیخ عبدالمحسن فرماتے ہیں:

یہاں النسائی ابو امامہ بن سہل بن حنیف جن کا نام اسعد  رضی اللہ عنہ  تھا کی حدیث لائےہیں کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر اولیٰ کے بعد ام القرآن (فاتحہ) کی مخفی تلاوت کی جائے، یعنی  سراً  قرأت کی جائے۔ اور یہ ہمارے لیے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز جنازہ میں  قرأت سری ہوگی، اور جو کچھ ابن عباس  رضی اللہ عنہما  والی حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے فاتحہ اور کوئی سورۃ جہراً پڑھی اور انہیں سنایا، تو ہم یہ جان گئے کہ اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ انہیں سنانا چاہتے تھے تاکہ وہ جان لیں کیا پڑھا جاتا ہے۔ اور یہ اس حدیث کے مخالف نہیں کہ اس میں مخفی پڑھنے کا ذکرہے کیونکہ سنت یہی مخفی پڑھنا ہے کہ سری طور پر پڑھی جائے لیکن جہر صرف تنبیہ کے لیے تھا  اور لوگوں کی توجہ  قرأت کی طرف دلانے کے لیے تھا، یا پھر جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کی طرف۔ تو یہ تھا اصل مقصود کہ مخفی اور جہری  قرأت کا جو ذکر آیا ہے۔ یعنی اصل تو یہی ہے کہ آپ  رضی اللہ عنہما  مخفی پڑھتے تھے لیکن جو جہر کا ذکر آیا ہے تو اس سے مراد ہے کہ ان کی تعلیم کے لیے جہراً پڑھ لیتے  تاکہ لوگ جان لیں انہوں نے پڑھا کیا ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ، اور یہ کہ بے شک یہ حق اور سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔اھ([5])

اسی طرح جنازے میں پڑھی جانے والی دعاء جو صحیح مسلم میں ہے کہ صحابی نے سن کر تمنا کی کہ:

” حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ “ ([6])

(حتی کہ میں نے تمنا کی کاش میں یہ میت ہوتا)۔

اس سے بھی جہری پڑھنے والے استدلال کرتے ہیں، اس کی شرح میں امام النووی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

اس میں دعاء کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ نماز جنازہ کی دعا ء میں جہر ہو۔ اور ہمارے اصحاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر دن میں پڑھی جائے تو سری  قرأت ہو اور اگر رات کو پڑھی جائے تو اس میں دو اقوال ہیں جن میں سے صحیح وہ ہے جس پر جمہور ہیں کہ اس میں بھی سری پڑھی جائے، اور دوسرا قول ہے کہ جہری پڑھی جائے۔ البتہ جو دعاء ہے تو اسے بلااختلاف سری پڑھا جائے۔ اس صورت میں اس حدیث کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ:  ” حَفِظْت مِنْ دُعَائِهِ “ (میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعاء میں سے یہ یاد کرلی) یعنی انہوں نے مجھے نماز کے بعد سکھلائی  اور میں نے یاد کرلی۔اھ([7])

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمہ اللہ  اپنی کتاب احکام الجنائز و بدعھا میں فرماتے ہیں:

78- نماز جنازہ میں سری تلاوت کی جائے گی جس کی دلیل  ابو امامہ بن سہل  رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے کہ فرمایا:

(نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر اولیٰ کے بعد ام القرآن (فاتحہ) کی مخفی تلاوت کی جائے، پھر تین تکبیرات ہوں اور آخری کے بعد سلام پھیر دیا جائے)

اسے النسائی وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے جیسا کہ پہلے مسئلہ رقم 74 میں گزرا۔۔۔

79- پھر دوسری تکبیر کہے اور نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود بھیجےکیونکہ اس بارے میں ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  کی مذکورہ حدیث میں ہے انہيں اصحاب رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں سے کسی نے بتایا کہ:

نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر پہلی تکبیر کے بعد فاتحۃ الکتاب  اپنے دل میں سری طور پر پڑھے، پھر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود بھیجے، اور میت کے لیے اخلاص سے دعاء کرے تینوں تکبیرات میں، ان میں سے کسی میں  قرأت نہ کرے، پھر اپنے دل میں دائیں طرف سری سلام پھیرے جب وہ فارغ ہو، اور یہ سنت ہے کہ جو مقتدی ہيں وہ اسی طرح کریں جیسا ان کا امام کرتا ہے۔

اسے الشافعی نے الام 1/239-240 میں البیہقی 4/39 اور ابن الجارود 265 کے طریق سے الزہری عن ابی امامہ سے روایت کیا ہے، اور الزہری اس کے آخر میں فرماتے ہیں: مجھے محمد الفہری نے الضحاک بن قیس سے حدیث بیان کی کہ انہو ں نے ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  جیسی بات کہی۔

الشافعی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

اصحاب نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کسی چیز کے بارے میں سنت اور حق نہیں کہتے تھے الا یہ کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت ہی ہوتی ہے ان شاء اللہ۔اھ([8])

سوال 121: طلحہ بن عبداللہ بن عوف کا قصہ کہ انہوں نے فرمایا: میں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورۃ الفاتحہ اور ایک سورۃ پڑھی اور جہر کیا یہاں تک کہ ہمیں سنایا، جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر (اس بارے میں) پوچھا تو فرمایا: میں نے جہراً اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ بے شک یہ سنت اور حق ہے۔ اب اگر آج ایک انسان امام بن کر جنازہ پڑھائے تو کیا اس کے لیے جائز  ہے ایسا کرنا جیسا کہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نے کیا؟

جواب از شیخ مقبل بن ہادی الوادعی  رحمہ اللہ :

اگر لوگ نماز جنازہ کے احکام نہ جانتے ہوں تو پھر ان کی تعلیم کی غرض سے جہر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔([9])

سوال: سائل کہتا ہے  کیا نماز جنازہ میں جہری  قرأت کرنا سنت ہے؟

جواب از شیخ صالح الفوزان  حفظہ اللہ :

نہيں، یہ سنت میں سے نہيں، نماز جنازہ میں جہری  قرأت کرنا  سنت میں سے نہيں، یہ خلاف سنت ہے([10])۔

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی


[1] المغنی 1558۔

[2] نور على الدرب صفة القراءة في صلاة الجنازة۔

[3] صحیح بخاری 1335

[4] فتح الباری ج 3 ص 243۔

[5] شرح سنن النسائي – كتاب الجنائز – باب الدعاء للشيخ : عبد المحسن العباد۔

[6] صحیح مسلم 964

[7] شرح النووی

[8] احکام الجنائز و بدعھا ص 154-155

[9] الرحلة الأخيرة لإمام الجزيرة ص 212-213

[10] هل من السنة الجهر بالقراءة في صلاة الجنازة؟ – العلامة صالح الفوزان حفظه الله

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*