
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Ramadan a month of guidance – Imam ‘Emaad-ud-Deen bin Katheer
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ﴾ (البقرۃ: 185)
(ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کےاورحق و باطل میں تمیز کے واضح دلائل ہیں)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی ماہ صیام کی دیگر تمام مہینوں کے مابین خصوصی طور پر مدح وتعریف فرماتا ہے کہ اس نے ان مہینوں کے درمیان قرآن عظیم کے نزول کے لیے اسے چنا ، اور جیساکہ اسے اس خصوصیت کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے، اسی طرح سے ایسی حدیث بھی وارد ہوئی ہے کہ بلاشبہ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں کتب الہیہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر نازل ہوا کرتی تھیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہمیں ابن سعید مولیٰ بنی ہاشم نے خبردی، ہمیں عمران ابو العوّام نے خبر دی، وہ قتادہ سے اور وہ ابی الملیح سےروایت کرتے ہيں اور وہ واثلہ یعنی ابن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ أُنْزِلَتْ صُحُفُ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَتْ التَّوْرَاةُ لِسِتٍّ مَضَيْنَ مِنْ رَمَضَانَ، الْإِنْجِيلُ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ لِأَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ‘‘
(صحف ابراہیم رمضان کی پہلی رات کو نازل ہوئے، اور توراۃ رمضان کی چھٹی تاریخ کو، اور انجیل 13 تاریخ کو ، اور اللہ تعالی نے قرآن کریم کو 24 رمضان کو نازل فرمایا)۔
اور یہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے بھی مروی ہے جس میں ہے کہ:
’’أَنَّ الزَّبُورَ أُنْزِلَ لثنتَي عَشْرَةَ [لَيْلَةً] خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَالْإِنْجِيلُ لِثَمَانِي عَشْرَةَ ‘‘
(زبور 12 رمضان کو، انجیل 18 رمضان کو)۔
اور باقی جیسا کہ پہلے بیان ہوا اسی طرح نازل ہوئیں۔ اسے ابن مَردُویہ نے روایت فرمایا۔
جو صحف ، توراۃ، زبور اور انجیل ہیں یہ سب تو جن جن نبیوں پر نازل ہوئیں تو ایک ہی باری میں مکمل نازل ہوگئیں۔ لیکن قرآن مجید ایک ہی باری میں آسمان دنیا پر بیت العزۃ میں ماہ رمضان کی شب قدر میں نازل ہوا، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (القدر: 1)
(بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں نازل فرمایا)
اور فرمایا:
﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ﴾ (الدخان: 3-4)
(یقیناً ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے)
پھر اس کے بعد واقعات کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔اسی طرح سے ایک سے زیادہ طریقوں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جیسا کہ اسرائیل نے روایت کی السدی سے انہوں نے محمد بن ابی الْمُجَالِدسے انہوں نے مِقْسَم سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ ان سے عطیہ بن الاسود نے دریافت کیا اور فرمایا:
’’وَقَعَ فِي قَلْبِي الشَّكُّ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ﴾، وَقَوْلُهُ:﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ﴾، وَقَوْلُهُ:﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ وَقَدْ أُنْزِلَ فِي شَوَّالَ، وَفِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَفِي ذِي الْحِجَّةِ، وَفِي الْمُحَرَّمِ، وَصَفَرٍ، وَشَهْرِ رَبِيعٍ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّهُ أُنْزِلَ فِي رَمَضَانَ، فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَفِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ جُمْلَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ أُنْزِلَ عَلَى مَوَاقِعِ النُّجُومِ تَرْتِيلًا فِي الشُّهُورِ وَالْأَيَّامِ‘‘
(میرے دل میں اللہ تعالی کے اس فرمان کے تعلق سے شک (اشکال) پیدا ہوا:
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ‘‘
اور یہ فرمان:
’’یقیناً ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے‘‘
اوریہ فرمان:
’’بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں نازل فرمایا‘‘
حالانکہ یہ تو شوال میں بھی نازل ہوتا تھا، اورذی القعدہ میں بھی، اور ذی الحجہ میں، اور محرم، اور صفر اور ربیع کے مہینے میں۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بے شک یہ رمضان ہی میں نازل ہوا ہے، شب قدر اور مبارک رات میں ایک ہی مرتبہ۔ پھر ستارو ں کی منزلوں کے اعتبار سے ترتیل کے ساتھ مہینوں اور دنوں میں اترتا رہا)۔
اسے ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے روایت ہے، اور یہ ان کے الفاظ ہیں۔
اور سعید بن جبیر کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے کہ فرمایا:
’’أُنْزِلَ الْقُرْآنُ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَجُعِلَ فِي بَيْتِ العِزَّة، ثُمَّ أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عِشْرِينَ سَنَةً لِجَوَابِ كَلَامِ النَّاسِ‘‘
(قرآن کریم نصف رمضان میں آسمان دنیا پر اترا پس اسے بیت العزۃ میں رکھا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیس برسوں میں لوگوں کے سوالات کے جواب میں نازل ہوتا رہا)۔
اور عکرمہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے کہ فرمایا:
’’نَزَلَ الْقُرْآنُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ إِلَى هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا جُمْلَةً وَاحِدَةً، وَكَانَ اللَّهُ يُحْدِثُ لَنَبِيِّهِ مَا يَشَاءُ، وَلَا يَجِيءُ الْمُشْرِكُونَ بمثَل يُخَاصِمُونَ بِهِ إِلَّا جَاءَهُمُ اللَّهُ بِجَوَابِهِ، وَذَلِكَ قَوْلُهُ: ﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ڔ كَذٰلِكَ ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا، وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا﴾ [الْفُرْقَانِ: 32، 33]‘‘
(قرآن مجید ماہ رمضان کی شب قدر میں ایک باری میں ہی اس آسمان دنیا پر نازل ہوا۔ اور اللہ تعالی اپنے نبی کے لیے جو چاہتا واقعہ رونما فرماتا۔ مشرکین کوئی بھی مثال (شبہہ) نہيں لاتے کہ جس کے ذریعے وہ جھگڑا کریں مگر اللہ تعالی اس کا جواب لے آتا، اور اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور کافروں نے کہا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کردیا گیا ؟ اسی طرح (ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ترتیل سے پڑھا، اور وہ تمہارے پاس کوئی مثال نہیں لاتے (جھگڑنے کے لیے) مگر ہم تمہارے پاس حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں‘‘)۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمانا:
﴿ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ﴾ (البقرۃ: 185)
(جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کےاورحق و باطل میں تمیز کے واضح دلائل ہیں)
یہ قرآن مجید کی مدح وتعریف کی جارہی ہے کہ جسے اللہ تعالی نے ان بندوں کے دلوں کی ہدایت کی خاطر نازل فرمایاجو اس پر ایمان لاتے ہیں، اور تصدیق کرتے ہیں اور ا س کی پیروی کرتے ہيں۔ ﴿وَ بَيِّنٰتٍ﴾ یعنی واضح وبین اور روشن دلائل وحجتیں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو ان کو سمجھتا ہے اور ان پر تدبر وغوروفکر کرتا ہےکہ یہ دلالت کرتی ہیں اس ہدایت کے صحیح ہونے پر جو کہ ضلالت کے منافی ہے، اس رشد پر جو کہ گمراہی کے منافی ہے، حق وباطل اور حلال وحرام میں فرق کرنے والے ہیں۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: تفسير القرآن العظيم، ابن كثير۔