غیر اللہ کے نام کی سبیل لگانا، نذرونیاز وحلیم کھانا کھلانا شرک ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)

(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو)

اور ایک مسلمان یہ اقرار کرتا ہے کہ:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، لَا شَرِيْكَ لَهٗ  ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (الانعام: 162-163)

(کہو کہ  بےشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں)

علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ‘‘ ([1])

(اللہ تعالی نے اس پر لعنت کی جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا)۔

اور نذرونیاز بھی جو کہ عبادت ہے صرف اللہ کے نام کی ہی پوری کی جائیں:

﴿وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ﴾ (الحج: 29)

(انہیں چاہیے کہ (اللہ کے لیے) اپنی نذریں پوری کریں)

اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ، فَلْيُطِعْهُ‘‘ (صحیح بخاری 6696)

(جس نے نذر مانی کہ میں اللہ کی اطاعت کروں گا تو اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے)۔

اسی طرح جو خاص جگہیں اور ایام خاص شخصیات اور ہستیوں کے ساتھ نامزد ہوں تو ا س کا حکم بھی اسی غیراللہ کا تقرب حاصل کرنے کا حکم ہے جسے شرکیہ عقائد رکھنے والے اچھی طرح سے جانتے ہيں، البتہ کہہ دیا جاتا ہے یہ تو اللہ کے نام کا ہے! لہذا اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ: 173)

(اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے)

یہاں پر ﴿وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ﴾  میں ﴿اُهِلَّ﴾ ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب اہلال (افعال) مصدر سے ہے جس کے معنی ہلال (چاند) دیکھتے وقت آواز لگانے اور پکارنے کے ہیں۔ پھر ہر آواز کے متعلق اس کا استعمال ہونے لگا۔ چناچہ ولادت کے وقت بچے کے رونے اور حاجیوں کے لبیک لبیک کہنے کو بھی اہلال کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی اہلال کے وہی لغوی اور عرفی معنی نامزد کرنا ،آواز لگانا اور ذکر کرنا مراد ہیں ۔

لہذا جو دن جگہ جس کے قرب حاصل کرنے اور نذر نیاز کے لیے مشہور ہے تو وہ اسی کے نام کی ہے خواہ اسے اللہ تعالی کے نام کا باور کروایا جائے جیسے گیارہوں شریف پیر عبدالقادر جیلانی  رحمہ اللہ کے نام کی کی جاتی ہے، اور محرم الحرام کی سبیل و حلیم حسین  رضی اللہ عنہ  کے نام کی کی جاتی ہے وغیرہ۔

بلکہ اس بارے میں بھی ایک حدیث ہے کہ جو جگہ یا دن غیراللہ کی عبادت کے لیے مشہور ہو وہاں  اس کی مشابہت سے بچتے ہوئے اللہ کی عبادت بھی نہ کرو۔

چناچہ اللہ تعالی حرام کردہ چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ﴾  (المائدۃ: 3)

(اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو(وہ بھی حرام اور فسق ہے))

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ایک شخص نے بوانہ نامی جگہ پر اللہ تعالی کے نام کاایک اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی جس کی اس نے اللہ تعالی کے لیے نذر مانی تھی، تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دریافت فرمایا:

’’هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِن أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أَوْفِ بِنَذْرِكَ‘‘ ([2])

(کیا وہاں جاہلیت کے اوثان (جس بھی چیز کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جاتی ہےخواہ بت ہو یا اس کے علاوہ) میں سے کوئی وثن تھا جس کی عبادت کی جاتی ہو؟ کہا: نہيں۔ فرمایا: کیا وہاں ان کی عیدوں (میلے/عرس وغیرہ) میں سے کوئی عید ہوا کرتی تھی؟ فرمایا: نہيں۔ تب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو)۔

اسی طرح طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ   کی سلمان الفارسی  رضی اللہ عنہ  سے موقوفا ًصحیح روایت ہے کہ فرمایا:

’’دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ!  قَالُوا: وَكَيْفَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:  مَرَّ رَجُلانِ عَلَى قَوْمٍ لَهُمْ صَنَمٌ لا يَجُوزُهُ أَحَدٌ حَتَّى يُقَرِّبَ لَهُ شَيْئًا، فَقَالُوا لأَحَدِهِمَا: قَرِّبْ قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي شَيْءٌ أُقَرِّبُهُ، فَقَالُوا لَهُ: قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا فَقَرَّبَ ذُبَابًا، فَخَلَّوْا سَبِيلَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَقَالُوا لِلآخَرِ: قَرِّبْ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَيْئًا دُونَ اللَّهِ عزوجل،فَضَرَبُوا عُنُقَهُ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ‘‘ ([3])

(ایک شخص مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور ایک شخص مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   نے عرض کی بھلا یہ کیسے یا رسول اللہ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: دو آدمیوں کا گذر ایک قوم پر ہوا ، جس کا ایک بت تھا اورکسی کو وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے جب تک وہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ چڑھاوا نہ چڑھائے۔ پس انہوں نے ان میں سے ایک کو کہا،چڑھاوا چڑھاؤ۔اس نے کہا میرے پاس کوئی چیز نہیں کہ جس کا چڑھاوا چڑھاؤ۔ انہوں نے کہا: چڑھاوا چڑھاؤ اگرچہ ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو۔  لہذا اس شخص نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھا دیا۔اور انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا ۔چناچہ وہ اس مکھی کے سبب جہنم میں جا پہنچا۔پھر ان لوگوں نے دوسرے سے کہا، تم بھی کوئی چڑھاوا چڑھاؤ، تو اس نے کہا: میں تو اللہ عزوجل کے سوا کسی کے لیے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔چناچہ انہوں نے اس کی گردن مار دی( قتل کر دیا ) اور وہ جنت میں جا پہنچا)۔

ایسے کھانے کھلانے کو بھی شرک قرار دیا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ﴾ (الانعام: 121)

(اور اس میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور بلاشبہ یہ یقیناً سراسر فسق (نافرمانی)  ہے، اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے (اس بارے میں) جھگڑا کریں،  اور اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو بلاشبہ تم یقینا ًمشرک ہو)

مصدر: کتاب و سنت


[1] صحیح مسلم 1979۔

[2] اسے ابو داود نے 3313 میں روایت کیا ، اور شیخ ا لبانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا۔

[3] رواه أحمد في الزهد برقم: 84, وأبو نعيم في الحلية ج1 ص 203۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*