
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
استقبال رمضان یا چاند نظر آنے نہ آنے کے احتیاط کے نام پر رمضان شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنا منع ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ‘‘[1]
(تم میں سے کوئی بھی ہرگز رمضان سے ایک یا دو دن پیشگی روزے نہ رکھےسوائے کوئی ایسا شخص ہو کہ جو اپنے روزے رکھتا ہے تو وہ اس دن بھی رکھ لے)۔
صحیح مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں:
’’لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ، إِلَّا رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ‘‘ [2]
(رمضان سے پیشگی ایک یا دو دن روزے نہ رکھو، سوائے وہ شخص کہ جو روزہ رکھتا آیا ہے تو وہ رکھ لے)۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم‘‘ [3]
(جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا یقیناً اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی)۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ :
اس حدیث میں واضح طور پر روزہ رکھنے کی حرمت بیان ہوئی ہے سوائے جس کی عادت ہو مثلاً پیر و جمعرات کا روزہ یا صوم داودی (متبادل دنوں کے روزے) وغیرہ اگر اس دن اتفاقاً پڑ جائے تو وہ رکھ سکتا ہے[4]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اپنی رائے سے نہیں ہوسکتا اسی لیے علماء نے اس سے شک کے دن کے روزے کی حرمت پر استدلال فرمایا ہے[5]۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علماء کا اس کے حرام یا مکروہ ہونے کے بارے میں اختلاف ہے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ یہ حرام ہے خصوصاً شک کے دن کا روزہ[6]۔
[1] صحیح بخاری 1914۔
[2] صحیح مسلم 1084۔
[3] اسے الترمذی نے اپنی سنن 636، ابو داود نے 2334، النسائی نے 2188 اورابن ماجہ نے 1635 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے اسے صحیح النسائی وغیرہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
[4] مختصر مفہوم شرح النووی۔
[5] مختصر مفہوم فتح الباری۔
[6] شرح ریاض الصالحین 3/394۔
ترجمہ و ترتیب
طارق بن علی بروہی
Be the first to comment