نصف شعبان کی فضیلت اور شب برأت کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

The virtue of the middle of Sha’ban and the reality of the 15th night (Night of Bar’at)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِنَّ اللّٰهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ، إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ‘‘ [1]

(بے شک اللہ تعالی ضرور نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر مطلع ہوتا ہے پس تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور مشاحن کے)۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مشرک سے مراد ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے خواہ اس کی ذات میں ہو یا صفات یا عبادت میں۔

اور مشاحن کے بارے میں امام ابن الاثیر  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: مشاحن کا مطلب ہے بغض وعناد سے بھرا ہوا شخص۔

امام الاوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہاں مشاحن سے مراد ہر وہ صاحب بدعت جو امت کی الجماعۃ  سے الگ ہے[2]۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مشاحن سے مراد اہل بدعت ہیں جو اہل اسلام سے بغض وعداوت رکھتے ہیں[3]۔

دوسری حدیث میں فرمایا:

’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ‘‘ [4]

(بے شک اللہ تعالی نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے، پس بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے)۔

[البتہ بعض علماء کرام جیسے سعودی عرب فتویٰ کمیٹی کے علماء کرام ان تمام احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں، اور شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس فضیلت والی حدیث کو حسن قرار دینے کے باوجود اس رات کی عبادت یا دن کے روزے اور شب برأت وغیرہ کا رد کرتے ہيں اور بدعت قرار دیتے ہيں۔ اسی طرح سے سورۃ الدخان کی جو آیت لیلۃ مبارکۃ سے متعلق شب برأت کے لیے بتائی جاتی ہے اس سے حقیقی مراد شب قدر ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ جاہل عوام اسی  پر یقین کرتے ہوئے اس رات ایک دوسرے کو معافی نامے بھیجنے کی بھی بدعت ایجاد کرچکی ہے]۔

شعبان کے روزے اور شبِ برأت کی حقیقت

سوال: احسن اللہ الیکم، سائل رجب اور پندرہ (15) شعبان کے روزے اسی طرح اس رات کے قیام کا حکم دریافت کرتا ہے؟

جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:

ان تمام کاموں کی کوئی اصل نہیں۔ جہاں تک رجب کے روزوں کا تعلق ہے تو وہ دیگر ایام کی طرح ہیں نہ تو اس کے دن روزوں کے لیے اور نہ اس کی راتیں قیام کے لیے مخصوص ہیں۔ جبکہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باکثرت روزے رکھا کرتے تھے لیکن اس مہینے کی پندرہ (15) تاریخ کو مخصوص نہیں فرمایا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:

’’كان أكثر ما يصوم يعني في النفل شعبان‘‘[5]

(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ (نفلی) روزے شعبان میں رکھا کرتے تھے)۔

 اس کے علاوہ جو عوام میں مشہور ہے کہ نصف شعبان کی رات (15ویں رات) کی کوئی خاص تہجد کی نماز ہے اور اس کے دن کا کوئی خاص روزہ ہے اور یہ کہ اس رات سارے سال کے اعمال لکھے جاتے ہیں وغیرہ تو ان کی کوئی اصل وحقیقت نہیں کہ جس پر اعتماد کیا جاسکے[6]۔


[1] یہ سنن ابن ماجہ 1390 کی روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں شواہد کے پیش نظر حسن قرار دیا ہے۔

[2] السلسلة الصحيحة الحديث رقم: ١٥٦٣۔

[3] الدعاء ج 1 ص 195۔

[4] السلسلۃ الصحیحۃ 3/138 میں شیخ البانی فرماتے ہیں: رجاله ثقات لكن حجاج وهو ابن أرطأة مدلس وقد عنعنه۔

[5] صحیح بخاری 1969 کے الفاظ ہیں:

’’وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ‘‘

(میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا)۔ (مترجم)۔

[6] فتاوی نور علی الدرب – فتاوی الزکاۃ والصیام۔

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی

یوٹیوب

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*