
The legislated Shari’ah Hijab and the Hypocritical Hijab – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
بسم اللہ الرحمن الرحیم
واجب ہے کہ ایک مسلمان عورت کا لباس پورے بدن کو ڈھاپنے والا ہو، جو اس کے سارے بدن کو ان مردوں سے چھپا سکے جو اس کے محرم نہيں۔ اور محارم کے بھی سامنے وہ چیزیں ظاہر کرے جو عادۃً ظاہر ہوتے ہيں جیسے چہرہ ، موزے اور قدم۔
اور وہ حجاب کپڑے کے پیچھے جسم کو چھپانے والا ہو ایسا شفاف نہ ہو کہ اس کے پیچھے سے چمڑی کا رنگ نظر آئے۔
اور نہ وہ تنگ وچست ہو کہ جسم کے اعضاء کا حجم وخدوخال (بناوٹ ) ظاہر کرے۔
صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صنفان من أهل النار لم أرهما: نساء كاسيات عاريات مائلات مميلات، ورؤوسهن مثل أسنمة البخت، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، ورجال معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها عباد الله‘‘([1])
(دو اہل جہنم کی قسمیں ہیں جنہیں میں نے (اب تک) نہيں دیکھا: ایسی عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی کی ننگی ہوں، خود سیدھی راہ سے بہکنے والیں اور دوسروں کو بھی بہکانے والیں، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح جھکے ہوئے، یہ ہرگز بھی جنت میں نہیں جاپائیں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو تک پاسکیں گی، اور ایسے مرد جن کے پاس گائے کی دموں کی مانندکوڑے ہیں، جس سے وہ اللہ کے بندوں کو مارتے ہیں)۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ میں فرماتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی تفسیر یوں کی گئی ہے کہ: ’’كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ‘‘ یعنی ایسے کپڑے پہنتی ہيں جو ان کی ستر پوشی نہيں کرتے۔ لہذا اس نے کپڑے پہنے تو ہوتے ہيں مگر حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہے۔ یا اس کی مثل وہ ہے جو بہت باریک کپڑے پہنتی ہے جس کے اندر سے اس کی چمڑی تک دکھائی دیتی ہے یا اتنے تنگ وچست کپڑے پہنتی ہے جو اس کے جسم کے خدوخال کو ظاہر کرتے ہيں۔ عورت کا لباس تو ایسا ہونا چاہیے جو اس کی مکمل طور پر سترپوشی کرتا ہو نہ اس کے جسم کو ظاہر کرے، نہ اس کے اعضاء کے خدوخال کو نمایاں کرے یعنی کہ اتنا موٹا اور وسیع ہو‘‘۔
ساتھ ہی لباس میں مردوں کی مشابہت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلاشبہ لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہيں یا مرد کی مانند بننا چاہتی ہيں۔
اور مردوں سے لباس میں مشابہت یوں ہوگی کہ وہ ایسا لباس پہنیں جو مردوں کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی ہر معاشرے میں ان کے اپنے اعتبار سے جو مردوں کے لیے نوع اور صفت کے اعتبار سے مخصوص ہیں وہ لباس۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں فرماتے ہیں:
’’مردوں اور عورتوں کے مابین لباس میں فرق اس طرف لوٹتا ہے کہ جو مردوں کے لیے بہتر ہو اور جو عورتوں کے لیے بہتر ہو۔ یعنی جو اس چیز کے مناسب ہو جس کا حکم مردوں کو دیا گیا ہے اور عورتوں کا اس چیز کے مناسب ہو جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ پس عورتوں کو تو حکم ہے ستروحجاب کا جس میں بے پردگی ونمودونمائش کرنا نہ ہو۔ اسی لیے عورتوں کے لیے اذان میں آواز بلند کرنا مشروع نہیں، نہ ہی تلبیہ میں، نہ ہی صفا ومروہ پر چڑھتے ہوئے، نہ ہی اس کا احرام مردوں کی طرح کھلا ہوا ہوتا ہے۔ کیونکہ بے شک مرد تو مامور ہيں اس بات پر کہ وہ اپنے سر کو ننگا رکھیں اور تیارشدہ لباس نہ پہنیں یعنی جو ان کی جسامت کے مطابق سیا گیا ہوتا ہے، نہ قمیص پہنے نا پاجامہ، اور نہ ہی موزے۔ ۔۔یہاں تک کہ فرمایا: جبکہ عورت کو کسی لباس سے منع نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مامور ہیں ستروحجاب کی، اس کے مخالف اس پر کوئی چیز مشروع نہیں۔لیکن ہاں اسے نقاب کرنا اور دستانے پہننا منع ہے۔ کیونکہ یہ ایسا لباس ہے جو اعضاء کے مطابق بنایا گیا ہوتا ہے اور اسے اس وقت اس کی حاجت نہیں ہوتی۔ پھر آپ نے ذکر کیا کہ وہ ان کے علاوہ غیر مردوں سے چہرے کو ڈھانپے گی۔ ۔۔یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مردوں اور عورتوں کے لباس میں لازماً فرق ہونا چاہیے، اور یہ کہ عورتوں کے لباس میں ایسا ستروحجاب ہوتا ہے جس سے مقصود حاصل ہوجائے، اس سے اس باب کی اصل ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بے شک اگر کوئی لباس غالباً مردوں کا لباس ہو تو عورت کو وہ منع ہے۔۔۔ پھر فرمایا آگے: اگر کسی لباس میں سترپوشی بھی کم ہو اور مشابہت بھی ہو تو پھر وہ دو زاویے سے منع ہے۔ واللہ اعلم‘‘۔
اور اس لباس میں وہ زینت نہ ہو جو گھر سے نکلنے کی صورت میں لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف مائل کرے تاکہ کہیں وہ اپنے زینت کو ظاہر کرنے والیوں میں شمار نہ ہوں۔
حجاب کا معنی ہے کہ عورت اپنے پورے بدن کو ان مردوں سے چھپا لے جو اس کے محارم میں سے نہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ ۔۔۔﴾ (النور: 31)
(اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یا اپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں۔۔۔اور آخر تک جو آیت ہے)
اور فرمان باری تعالی ہے:
﴿ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ﴾ (الاحزاب: 53)
(اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے حجاب کے پیچھے سے مانگو)
اور حجاب سے مراد ہے جس سے عورت پردہ اختیار کرلے جیسے دیوار یا دروازہ یا لباس۔
اس آیت کا لفظ اگرچہ ازواج النبی رضی اللہ عنہن کے بارے میں وارد ہے لیکن اس کا حکم تمام مومن عورتوں کو عام ہے، کیونکہ اس کی علت اس قول میں ذکر فرمائی کہ:
﴿ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ﴾ (الاحزاب: 53)
( یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے)
اور علت کا عموم دلیل ہے حکم کے عموم کی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ﴾ (الاحزاب: 59)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں فرماتے ہیں:
’’اور ’’الجلباب‘‘ کا معنی ہے ’’الملاءة‘‘ (بڑی چادریں) یہ وہی ہے جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ نے ’’الرداء‘‘ (اوڑھنی) کہا اور عام لوگ اسے ’’الإزار‘‘ (لپیٹنے والی اوڑھنی )کہتے ہیں۔ اور یہ ایک بڑا ازار ہوتا ہے جو اس کے سر کو مکمل ڈھانپ لیتا ہے کہ اس میں سے سوائے اس کی آنکھ کے کچھ ظاہر نہيں ہوتا، اسی کی جنس میں سے نقاب بھی ہے‘‘۔
اور سنت نبویہ میں عورت کا نا محرموں سے اپنا چہرہ چھپانے کے دلائل میں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَع رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ‘‘([2]) (اسے احمد، ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا)
(قافلے والے ہمارے سامنے سے گزرتے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں ، پس جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم اپنی چادر کو سر سے چہرے پر لٹکا لیتیں، پھر جب وہ آگے گزرجاتے تو ہم اپنا چہرہ کھو ل لیتی تھیں)۔
عورت کا نامحرموں سے اپنے چہرے کا پردہ کرنا واجب ہے جس کے کتاب وسنت میں بہت سے دلائل ہيں۔ اور اے مسلمان بہن میں اس تعلق سے آپ کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتا ہوں:
رسالة الحجاب واللباس في الصلاة لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله.
رسالة الحجاب للشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله.
رسالة الصارم المشهور على المفتونين بالسفور للشيخ حمد بن عبد الله التويجري.
رسالة الحجاب للشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله.
ان رسائل میں جتنا کچھ ہے وہ کافی ہے۔
اور اے مسلمان بہن یہ بات بھی اچھی طرح سے جان لو کہ جن علماء کرام نے آپ کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کو مباح (جائز) قرار دیا بھی ہے (حالانکہ یہ قول مرجوح ہے) تو انہوں نے بھی یہ قید لگائی ہے کہ فتنے سے امن ہو۔
حالانکہ یہاں فتنے سے امن نہیں ہے خصوصاً اس زمانے میں جب مردوں اور عورتوں میں برائی سے روکنے والی دینداری کی قلت ہے، حیاء کی کمی ہے، اور داعیانِ فتنہ کثرت سے ہيں۔ او رعورتیں نت نئے انداز کی زینتیں اپنے چہرے پر لگاتی ہیں جو فتنے کی طرف دعوت دیتی ہیں، لہذا ایک مسلمان عورت اس سے خبردار رہیں، اور ایسے حجاب کی پابندی کریں جو فتنے سے بچانے والا ہو اللہ تعالی کے اذن سے۔
مسلمانوں کے قدیم وجدید علماء کرام میں سے کسی بھی معتبر عالم نے ان فتنے میں ڈالنے والی خواتین کو اس کی اجازت نہيں دی ہے جس طرح وہ کرتی ہیں۔
اور بعض مسلمان عورتیں ایسی بھی ہيں جو منافقانہ حجاب کرتی ہیں، اگر وہ کسی ایسے ماحول میں ہوتی ہیں جہاں حجاب کی پابندی کی جاتی ہے تو پردہ کرتی ہيں، اور جب ایسے ماحول میں جاتی ہيں جہاں حجاب کی پابندی نہيں تو پھر پردہ نہيں کرتیں۔
اور ان میں سے بعض ایسی ہیں جب وہ کسی عام جگہ (باہر) ہوتی ہيں تو پردہ کیے رکھتی ہيں، مگر جب کسی شاپنگ مال میں، یا ہسپتال میں، یا کسی سنار کے پاس ہوتی ہیں، یا لیڈیز ٹیلر ماسٹر (درزی) کے پاس ہوتی ہيں تو اپنا چہرہ اور کلائیاں کھول لیتی ہیں گویا کہ وہ اپنے شوہر کے پاس ہیں یا کسی محرم کے! اللہ تعالی سے ڈریں جو یہ حرکت کرتی ہيں۔
ہم نے بعض عورتوں کو دیکھا جو باہر ملک سے ہوائی جہاز میں یہاں آرہی ہوتی ہیں تو پردہ اسی وقت کرتی ہيں جب جہاز اس ملک (سعودی عرب) کے کسی ائیر پورٹ پر لینڈ ہونے والا ہوتا ہے، گویا کہ حجاب ان کے یہاں عادات بن چکا ہے ناکہ کوئی دینی وشرعی حکم۔
اے مسلمان عورت! بلاشبہ یہ حجاب آپ کی حفاظت کرتا ہے ان زہریلی نظروں سے جو مریض دلوں اور انسانی کتوں کی طرف سے لپک رہی ہوتی ہیں، اور کسی کی بھی عشق و دیوانگی پر مبنی خواہشات کٹ کر رہ جائيں۔ اسے لازم کرلو اور مضبوطی سے پکڑ لو اور ان بدنیت دعوتوں کی طرف دھیان نہ دو جو حجاب کے خلاف لڑتی ہيں او راس کی شان گھٹاتی ہیں۔ کیونکہ یہ تمہارے لیے شر وبرائی کی خواہاں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 27)
(اور جو لوگ خواہشات وشہوات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم (سیدھے راستے سے) بہت دور ہٹ جاؤ)
جب عورت مسجد کی طرف نماز کے لیے نکلے تو لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھے:
مکمل کپڑوں اور حجاب کے پردے میں نکلے: عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’كان النساء يصلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم ينصرفن متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس‘‘([3]) (متفق علیہ)
(عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز(فجر) پڑھتیں،پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹ کر واپس لوٹتیں، تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا)۔
اور بنا خوشبو لگائےنکلیں: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ، وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلَاتٍ‘‘([4]) (اسے احمد اور ابو داود نے روایت کیا)
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو، اور انہیں چاہیے کہ ’’تفلات‘‘ نکلیں)۔
اور ’’تَفِلَاتٍ‘‘ کا معنی ہے بغیر خوشبو لگائیں۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا، فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الآخِرَةَ‘‘([5]) (اسے مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا)
(جو بھی عورت بخور لگائے تو پھر ہمارے ساتھ آخری نماز عشاء میں حاضر نہ ہو)۔
کپڑوں کی زیبائش اور زیور کا ہار سنگھار کرکے نہ جائے: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَوْ أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَأَى النِّسَاءَ مَا نَرَى لَمَنَعَهُنَّ مِنَ الْمَسجِدِ كَمَا مَنَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ نِسَاءَهَا ‘‘([6]) (متفق علیہ)
(اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں کو دیکھتے اس حال میں جیسے ہم دیکھ رہے ہیں تو ضرور انہيں مسجد سے منع کردیتے، جیساکہ بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کردیا تھا)۔
اگر عورت اکیلی ہو تو بھی وہ مردوں کے پیچھے اکیلی ہی صف بنائے گی جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی، تو فرماتے ہیں کہ:
’’قُمْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ، وقامتِ الْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا‘‘([7]) (اسے کتب ستہ نے سوائے ابن ماجہ کے روایت فرمایا)
(میں اور ایک یتیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور وہ بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا‘‘([8]) (اسے بخاری نے روایت کیا)
(میں نےاور ایک یتیم نےجو ہمارے گھر میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جبکہ میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں)۔
اور اگر حاضر ہونے والی عورتیں ایک سے زائد ہوں تو وہ ایک صف یا صفوں کی صورت میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں گی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
’’يَجْعَلُ الرِّجَالَ قُدَّامَ الْغِلْمَانِ، وَالْغِلْمَانَ خَلْفَهُمْ، وَالنِّسَاءَ خَلْفَ الْغِلْمَانِ‘‘([9]) (اسے احمد نے روایت کیا)
(مردوں کو لڑکوں سے آگے کھڑے کرتے، اور لڑکوں کو ان کے پیچھے، اور عورتوں کو لڑکوں کے پیچھے)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا، وَشَرُّهَا آخِرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا، وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا‘‘([10]) (اسے کتب ستہ نے سوائے بخاری کے روایت کیا)
(مردوں کی سب سے اچھی صف پہلی ہے اور سب سے بری آخری، او رعورتوں کی سب سے اچھی صف آخری ہے اور سب سے بری پہلی)۔
چنانچہ ان دو احادیث میں دلیل ہے اس بات کی کہ بلاشبہ عورتوں کی صف مردوں کے پیچھے ہوتی ہے۔ لہذا اگر وہ مردوں کے پیچھے نماز پڑھ رہی ہوں توالگ الگ متفرق نمازیں نہ پڑھیں ، خواہ فرض نماز ہو، یا تروایح یا گرہن کی نماز، یا پھر نماز عید وجنازہ ہو۔
اگر امام بھول جائے تو عورت ہتھیلی کے پیچھے دوسری ہتھیلی سےتھپکی لگا کر متنبہ کرے گی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ، وَلْتُصَفِّقِ النِّسَاءُ‘‘([11])
(اگر تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آجائے تو مردوں کو تسبیح (سبحان اللہ) کہنی چاہیے، اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہیے)۔
یہاں عورتوں کو نماز میں ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی اجازت دی جارہی کہ اگر نماز میں کوئی بات پیش آجائے جس میں سے امام کا بھولنا بھی ہے تو اس کے لیے ہاتھ پر ہاتھ مارنا مباح ہے۔اور وہ اس لیے کیونکہ عورت کی آواز میں مردوں کے لیے فتنہ ہے، لہذا اسے ہاتھ پر ہاتھ مارنے کا حکم دیا بولنے کا نہیں۔
اور جب امام سلام پھیرے تو عورتیں مسجد سے نکلنے کی جلدی کریں، اور مرد حضرات بیٹھے رہیں تاکہ کہیں ان میں سے جانے والی کسی کا سامنا نہ ہوجائے جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
’’أَنَّ النِّسَاءَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كُنَّ إِذَا سَلَّمْنَ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ قُمْنَ، وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَنْ صَلَّى مِنَ الرِّجَالِ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَإِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَامَ الرِّجَالُ‘‘([12])
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں عورتیں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد (واپسی کے لیے )جلد کھڑی ہوجاتیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ بیٹھے رہتے اور جن مرد حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہوتی وہ بھی بیٹھے رہتے جب تک اللہ تعالی چاہتا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوتے تو مرد حضرات بھی کھڑے ہوجاتے)۔
امام نووی رحمہ اللہ المجموع میں فرماتے ہیں:
’’عورتیں مردوں سے نماز باجماعت میں مختلف باتوں میں الگ ہیں:
1- ان کے حق میں اس کی ایسی تاکید نہيں جیسا کہ مردوں کے حق میں ہے۔
2- ان کی امام ان ( کی پہلی صف) کے ہی بیچ میں کھڑی ہوگی (آگے نہیں)۔
3- اگر ایک عورت ہو تو وہ بھی مردوں کے پیچھے کھڑی ہوگی ناکہ برابر میں برخلاف مردوں کے(کہ وہ برابر میں کھڑے ہوتے ہیں)۔
4- اور اگر پوری صف کی صورت میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھ رہی ہوں تو ان کی آخری صف ان کی پہلی صف سے زیادہ افضل ہے‘‘۔
جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کا حرام ہونا معلوم ہوا۔
اور جب عبادت تک کے موقع پر اختلاط ممنوع ہے تو پھر اس کے علاوہ تو بالاولی منع ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين۔
[1] صحیح مسلم 2131 کے الفاظ ہیں: ’’صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا‘‘۔
[2] شیخ البانی نے ’’حجاب المرأة‘‘ ص 32 میں شواہد کے اعتبار سے حسن فرمایا ہے۔
[3] صحیح بخاری 578، صحیح مسلم 646۔ صحیح بخاری کے ایک الفاظ ہیں: ’’كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ‘‘۔
[4] شیخ البانی ’’إرواء الغليل‘‘ میں فرماتے ہیں: إسناده حسن۔
[5] صحیح مسلم 447۔
[6] صحیح بخاری 1/165، صحیح مسلم 4/163 اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: ’’لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ، لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ، كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ: أَنِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ‘‘۔
[7] مسند احمد 11931۔
[8] صحیح بخاری 727۔
[9] مسند احمد 22403، شیخ البانی ’’تمام المنۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: إسنادهما ضعيف, فيه شهر, وهو ضعيف۔
[10] صحیح مسلم 442۔
[11] صحیح بخاری 2689، 7190 وغیرہ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ۔
[12] صحیح بخاری 866۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: الحجاب الشرعي وحجاب النفاق۔
Be the first to comment