یوم اساتذہ منانے کا حکم؟

Celebrating the Teacher’s Day?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ہماری یہ بہن اپنے خط میں سوال کرتی ہيں کہ ہر سال میرے پاس  میری طالبات کی طرف سے عید المعلم (یوم اساتذہ)  کی مناسبت سے تحفے آتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ  میں اس کا حکم نہيں جانتی، پس میں امید کرتی ہوں کہ آپ اس بارے میں مجھے کچھ فائدہ پہنچائيں گے، بارک اللہ فیکم

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

اس کی کوئی اصل و بنیاد نہيں ہے۔  عید المعلم (ٹیچرز ڈے) کی کوئی اصل نہيں ہے۔ لوگوں کے لیے صرف جان پہچانی معروف عیدیں ہیں جو کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہيں اور ایام منیٰ ایام عید ہيں، اسی طرح یوم عرفہ یوم عید ہے، مسلمانوں کا اجتماع ہے۔

 جبکہ یہ جو عید المعلم ہے یا جب بچہ پیدا ہو اس کی عید (برتھ ڈے/سالگرہ) منانا۔ انسان کے پیدائش کے دن کو ہر سال کے شروع میں یا ہر سال مناتے ہیں، ان تمام باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے، یہ کوئی عیدیں (بار بار منائے جانے والے ایام) نہيں ہیں نہ سالگرہیں نہ ان کے علاوہ۔

 شرعی عیدیں معروف جانی پہچانی ہیں: عید الفطر، عیدالاضحیٰ اور جو اس کے تابع ایام تشریق، یوم عرفہ، یوم حج عظیم ہے جس میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ عید وہ دن ہوتا ہے جو بار بار تکرار کے ساتھ لوٹ کر آتا رہے خواہ ماہانہ ہو،  ہر گھنٹے ہو، ہفتہ وار ہو یا سالانہ ہو۔ چنانچہ مسلمانوں کی معروف عیدیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ ، ایام تشریق اور ان میں ہونے والے اعمال، یوم عرفہ ہیں کیونکہ یہ حج کے موقع پر لوگوں کے جمع ہونے کے ایام ہیں۔ یہ ہیں مسلمانوں کی عیدیں۔ پس ان کے علاوہ عیدیں منانا بچے کی سالگرہ ہو یا عید المعلم یا معلمہ اس کی کوئی اصل نہیں، اور یہ بدعت شمار ہوگی۔

میزبان: تو جو تحفے تحائف اس مناسبت سے پیش کیے جاتے ہیں جیسے عیدالمعلم پر(ان کا کیا کریں)؟

الشیخ: اسے قبول نہ کریں۔آپ اسے قبول نہ کریں، لیکن ان سے کہہ دیں: یہ ٹھیک نہیں ہے، ہمیں عیدالمعلم نہيں منانی چاہیے۔

میزبان:  تو کیا اس قسم کی موقع پر تحائف دینا رشوت کے زمرے میں آئے گا؟

الشیخ:  یہ ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ  اس میں ایک منکر عید کو زندہ کرنا  اور اس کا اقرار کرنا ہے۔[1]

سوال: فتویٰ رقم  21609

آج مسلمان جس چیز میں مبتلا ہیں کہ  مختلف قوموں کے شریعت اسلامیہ کے مخالف عقائد وعادات ان میں گھر کرچکے ہیں۔ اسی میں سے مختلف مناسبتوں پر منائی جانے والی تہذیب و تمدن کی عیدیں و  سالانہ تقریبات  ہیں۔ غیرت مند اساتذہ اس بات کی فکر کرتے اور غم  میں مبتلا ہوتے ہیں کہ عالمی سطح پر جس میں دنیا کی تمام قومیں شرکت کرتی ہیں یہ عالمی یوم اساتذہ مناتے ہيں۔ مسلمانوں کا اس میں اختلاف ہے کہ  کوئی جائز کہتا ہے اور کوئی حرام۔ کیونکہ یہ اب باقاعدہ سالانہ   جشن کے طور پر مخصوص دن (5 اکتوبر) میں سب ایک ساتھ مناتے ہیں۔ اس دن طلبہ، اساتذہ، بچوں کے والدین اور اسکول کی انتظامیہ  استاد کی فضیلت پر بات کرتے ہیں  اور طلبہ کی طرف سے اساتذہ کو تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔  اور کبھی اس قسم کی تقریب میں مختلف قسم کے کھانے پینے رکھے جاتے ہیں اور کبھی تو بعض لوگوں کی طرف سے مبارکباد بھی: کل عام وانتم بخیر! کہہ کر دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ باتیں جو شریعت میں غیر معروف ہیں اور نہيں جانی جاتیں۔ امید کرتے ہیں کہ آپ اسے منانے  اور اس میں شرکت کرنے کے بارے میں حکم بیان فرمائيں گے۔

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

بدعتی عیدیں منانا اور ان کے لیے تقریب و جشن منعقد کرنا جائز نہيں ہے، نہ ان لوگوں کے ساتھ شرکت اور اس مناسبت سے مبارکباد دینا جائز ہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون ہے۔ اور اللہ E نے عباد الرحمٰن کی صفات میں سے یہ ذکر فرمایا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ

جو  جھوٹ و ناحق کاموں میں شریک نہيں ہوتے۔[2]

یعنی کافرو ں کی عیدو ں میں شریک نہیں ہوتے، جیسا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں آیا ہے۔ چاہے انہيں عید کہا جائے یا ایام یا مناسبات، ناموں سے حقیقت نہيں بدلتی۔ اور مسلمانوں کے لیے کوئی عیدیں نہيں سوائے دو معزز عیدوں کے: عید الفطر و عید الاضحیٰ۔

            پس واجب ہے کہ ان بدعات اور جاہلی عیدوں کو ترک کیا جائے، جس میں سے یہ عالمی یوم اساتذہ بھی ہے۔ اللہ تعالی سب کو اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہونے اور بدعات و محدثات کو چھوڑنے  کی توفیق عنایت فرمائے۔

وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء(2/291)المجموعة الثانية

بكر أبو زيد … رکن

صالح الفوزان … رکن

عبد الله بن غديان … رکن

عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ … صدر

سوال: کیا عید المعلم کی محفل میں جو اسکولوں میں منعقد ہوتی ہے حاضر ہونا  جائز ہے؟ اور کیا استانی کے لیے وہ تحائف قبول کرنا جائز ہے جو اسکول والے دیتے ہیں؟

جواب از شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ :

جواب اس کا یہ ہی ہے کہ یہ مشکل دراصل ہماری کافروں کی تقلید و نقالی کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اور اس سے چھٹکارا حاصل نہيں ہوسکتا  جب تک تعلیمی نصاب کو تبدیل نہ کیا جائے۔ ورنہ تو آپ بس یہی جوابات سنتے رہیں گے جائز نہیں، جائز نہيں، جائز نہيں، لیکن اگرچہ جائز نہيں مگر اس کے باوجود  بگڑے ہوئے نصاب کی وجہ سے ہم اس میں مبتلا ہونے پر مجبور ہیں ۔

            ۔۔۔پھر شیخ اس کے بعد دین میں عید الفطر، عیدالاضحیٰ اور ہفتہ وار جمعہ کے دن کو عید کہا گیا ہے بیان فرماتے ہیں، اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو بدعت قرار دے کر نصاریٰ کی مشابہت میں کیا جانا قرار دیتے ہیں کہ وہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کا کرسمس  مناتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ پیر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ رکھتے اور اس  دن اپنی پیدائش اور نبوت کا ذکر بھی فرمایا ہے، اور وہ بھی کسی خاص ہفتے یا سال میں نہيں بلکہ ہر پیر کو اتنی بڑی نعمتوں کا شکر ادا کرتے، اور پیر کو ہی اعمال بارگا ہ الہی میں پیش ہوتے ہیں۔ مگر آج ان سنتوں پر کون عمل کرتا ہے؟! خصوصا ًمیلادیں منانے والے تو انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

            آخر میں فرماتے ہیں: چنانچہ  یہ عیدیں منانا جائز نہيں ہیں  اور کتنی ہی زیادہ اب یہ عیدیں بن چکی ہيں عید المعلم (ٹیچرز ڈے)، عید الام (مدرز ڈے)، یوم الشجرۃ (یوم شجرکاری) جیسا کہ تمام دن  عید ہی عید بن چکے ہیں، اور کاش واقعی یہ عید ہوتے بھی! کیونکہ عید میں تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ مزے کرتے خوش و خرم ہوتے ہیں، لیکن آج تو لوگ تنگئ معاش و حیات میں رہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اتنی کثرت سے وہ عیدیں مناتے پھرتے ہیں، اور ان پر تو اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ:

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ

یہ تو  بس نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ چھوڑے ہیں، اللہ نے ان کے حق میں کوئی دلیل نازل نہيں فرمائی۔[3]

            جب معاملہ ایسا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تو پھر سمجھ لیں کہ اسلام میں ان تین عیدوں(عید الفطر، الاضحیٰ، جمعہ)  کے سوا اور کوئی عید نہیں۔لہذا عید المعلم کو منانا ایسے ہی ہے جیسے دیگر دین اسلام میں غیرمشروع عیدوں کو منانا ہے۔

سائل: اور تحفے کا کیا حکم ہے؟

الشیخ: تحفہ اس کے اصل حکم کے تابع ہے، جب اصل ہی فاسد ہے، تو جو اس فاسد پر قائم ہوگا وہ بھی فاسد ہے، (یعنی جائز نہیں)۔

سائل: جزاک اللہ خیرا۔[4]

سوال: فضیلۃ الشیخ احسن اللہ الیکم،  یہ سائل کہتا ہے: یوم المعلم میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟ تعلیمی ادارے والے ہمیں اس میں شرکت کرنے کا کہتے ہیں، تو کیا یہ بدعت میں سے ہے؟

جواب از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:

جی،  یہ ان کاموں میں سے ہے جو مسلمانوں کے کام نہیں ہیں: یوم المعلم، یوم الوالد (فادرز ڈے)، عید الام (مادرز ڈے) اور عید فلاں یہ سب کے سب، چاہے اسے یوم کہیں یا عید  یا مناسبت  کہيں، معنی ایک ہی ہے۔  اصل اعتبار معانی کا ہوتا ہے ناکہ صرف ناموں کا، جو بار بار لوٹ کر آئے تو یہ عید ہے چاہے عید المعلم ہو یا کچھ اور جو لوٹ کر باتکرار آتے رہیں وہ سب  عید کہلاتے ہیں۔ اسے عید کہا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ دن بار بار لوٹ کر تکرار کے ساتھ آتا رہتا ہے۔[5]

سوال: ہمارے ملکوں میں اسکول سالانہ  ایک دن یوم اساتذہ کے نام سے مناتے ہیں، پس اس موقع پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں اسٹیج خاکے ، گانے باجے و موسیقی بھی ہوتی ہے اور طلبہ گاتے ہيں، اور اساتذہ و استانیوں کا بھی آپس میں اختلاط ہوتا ہے، اور اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں، اس قسم کی محافل  کا کیا حکم ہے اور اس میں اساتذہ واستانیوں کی شرکت کا کیا حکم ہے اگر یہ ملکی سطح پر ہو؟

جواب از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس جشن کی کوئی اصل نہیں، اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں جسے جشن یوم اساتذہ کہا جاتا ہو، یہ ایک نیا کام ہے۔

اور دوسری بات وہ منکرات ہیں  جو ذکر کیے گئے جیسے ڈرامے، مرد و زن  کا اختلاط ، یہ سب شر ہیں۔ اسے ترک کرنا اور اس سے اجتناب واجب ہے ۔[6]


[1] نور على الدرب – حكم الهدية في عيد المعلم

[2] الفرقان: 72

[3] النجم: 23

[4] الفتاویٰ الاماراتیۃ کیسٹ 9

[5] شرح المنظومۃ الحائیۃ کیسٹ 1

[6] فتاویٰ الحرم المکی (فتاوی دروس التفسیر) ما حكم الاحتفال بعيد المعلم؟ وما حكم الغناء والاختلاط في هذه الاحتفالات۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی