ماہ صفر کو منحوس تصور کرنا اور اس میں ہونے والی بدعات – فتوی کمیٹی، سعودی عرب

Considering the month of Safar as Unlucky and some of the innovations that occur in this month – Fatwaa Committee, Saudi Arabia

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :

مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘[1]

(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔

 پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔

اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد) نہیں پاتے۔

اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:

’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘[2]

(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔

یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:

’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘

(اور نہ ہی نچھتر[3] ہے اور نہ ہی بھوت [4]

کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر و بھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔

صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیر یا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شر و برائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا، امام مسلم  نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :

’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘[5]

(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔

اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔

اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا  وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لیے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔

وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.


[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔

[2] حدیث گزر چکی ہے۔

[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (مترجم)

[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (مترجم)

[5] حدیث گزر چکی ہے۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ

یوٹیوب

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*