میت کی طرف سے قربانی کرنا؟

Sacrificing on behalf of the deceased?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

[میت کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کرنے کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ لہذا ہم نے دونوں مواقف ان کے دلائل کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ جن دلائل سے مطمئن ہوکر اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انسان عمل کرے تو ان شاء اللہ  اس میں گنجائش ہے۔ البتہ علماء کرام ایسے معاملات میں کسی رائے کے لیے تعصب اختیار کرنے  اور انہيں آپس میں نزاع وجھگڑے کا سبب بنانے سے منع فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی ہميں صحیح ترین و راجح قول کو اختیار کرنے کی توفیق دے اور اختلافی فقہی مسائل پر سلف صالحین کا اعتدال پر مبنی منہج اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے]۔

سوال: فضیلۃ الشیخ عرصہ بیس برس سے بھی زائد سے میں اپنے فوت شدہ والد کی طرف سے قربانی کرتا آرہا ہوں۔ لیکن میں نے ایک بھائی سے یہ سنا کہ مستقل طور پر میت کی طرف سے قربانی کرنا مکروہ ہے۔ فضیلۃ الشیخ یہ بات آپ کے علم میں رہے کہ میں اپنے فوت شدہ والد اور بھائیوں اور خود اپنے طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

میت کی طرف سے قربانی مشروع ہے کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی طرف سے قربانی فرمائی جو امت محمدیہ میں سے قربانی نہیں کرسکے، جس میں زندہ اور میت سب شامل ہیں۔  جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  عِيدَ الْأَضْحَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أُتَي بِكَبْشٍ، فَذَبَحَهُ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي‘‘([1])

(میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ عید الاضحیٰ کی نماز پڑھی جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو ایک دنبہ یا بھیڑ لائی گئی۔ پس آپ نے اس پر بسم اللہ (اللہ کے نام سے) اللہ اکبر (اللہ تعالی سب سے بڑا ہے)  پڑھا پھر فرمایا اے اللہ یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے جس جس نے قربانی نہیں کی ان کی طرف سے)۔

اسی طرح سے امیر المومنین  علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وفات کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ حنش الصنعانی سے روایت ہے فرمایا:

’’رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ‘‘([2])

(میں نے  علی رضی اللہ عنہ  کو دیکھا کہ وہ دو دنبے ذبح فرماتے تھے، میں نے ان سے کہا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں، پس میں ان کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں)۔

جو کوئی اس بات کا قائل ہے کہ میت کی طرف سے قربانی نہیں کی جاسکتی اس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس میں مانع ہو، لہذا اس کی رائے مرجوح ہے جس پر عمل نہیں۔

وباللہ التوفیق وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم

 (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ  ج 10، ص 415، فتوی رقم 16040)

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء  (مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب)

صدر: عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز 

نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی 

رکن: بکر ابو زید

رکن: عبدالعزیز آل الشیخ

رکن: صالح الفوزان

رکن: عبداللہ بن غدیان  

جبکہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

۔۔۔پھر یہ جاننا چاہیے کہ قربانی فوت شدگان  کے لیے نہیں بلکہ زندوں کے لیے ہوتی ہے، اور یہ فوت شدگان کے لیے سنت نہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت  اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے آتی ہے۔ لہذا جو بات سنت لے کر آئی ہے وہ یہ ہے کہ قربانی زندوں کی طرف سے  ہوتی ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عزیز واقارب فوت ہوئے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی طرف سے قربانی نہيں فرمائی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تمام اولاد جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پہلے وفات پاگئی، جن کی موت بلوغت کے بعد ہوئی ان میں سے بعض کی اولاد ہوئی اور بعض کی نہيں۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے تمام بیٹے تو سن تمیز سے پہلے ہی وفات پاگئے، جبکہ بیٹیاں بالغ ہونے کے بعد سوائے  فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے فوت ہوگئیں۔ جبکہ  فاطمہ  رضی اللہ عنہا  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں۔ اسی طرح سے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات میں دو بیویاں  خدیجہ و زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما  وفات پاگئیں ان کی طرف سے بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قربانی نہيں فرمائی۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے چچا  حمزہ بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  شہید ہوگئے ان کی طرف سے بھی قربانی نہيں فرمائی۔ پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے میت کی طرف سے قربانی پر نہ خود عمل کیا اور نہ ہی امت کو اس کی طرف دعوت دی۔

اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں میت کی طرف سے قربانی کرنا سنت میں سے نہیں کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے وارد نہيں، اور نہ ہی میرے علم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا کچھ ثابت ہے۔  ہاں البتہ اگر میت وصیت کرجائے کہ اس کی طرف سے قربانی کی جائے تو یہاں ہم اس کی وصیت پر عمل کریں گے اور اس کی طرف سے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کریں گے۔ اسی طرح سے اگر فوت شدگان کو زندوں کے ساتھ ضمناً شامل کرلیا جائے جیسے کوئی انسان اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور اس میں زندہ اور فوت شدگان سب کی نیت رکھے تو ٹھیک ہے۔ لیکن وہ الگ سے باقاعدہ مستقل طور پر فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرے تو یہ سنت میں سے نہيں۔

(فتاوى نور على الدرب [650] للشيخ محمد بن صالح العثيمين)

اور اپنے رسالے ’’الأحكام الأضحية والزكاة‘‘ میں فرماتے ہیں:

قربانی کے بارے میں اصل یہی ہے کہ  یہ زندوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے کیا کرتے تھے۔ البتہ جو بعض عوام گمان کرتے ہيں کہ قربانی کو فوت شدگان کے ساتھ ہی خاص کردیتے ہيں تو اس کی کوئی اصل نہيں۔

فوت شدگان کی طرف سے کی جانے والی قربانی کی تین اقسام ہیں:

اول: ان کی طرف سے قربانی کی جائے لیکن زندوں کی قربانی کے تابع جیسے کوئی شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو وہ یہ نیت کرلے کہ یہ زندوں اور فوت شدگان سب کی طرف سے ہے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے جن میں سے بعض ایسے بھی تھے جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پہلے وفات پاچکے تھے۔

دوم: فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا ان کی وصیت کے مطابق اس کی تنفیذ کرتے ہوئے۔ اور اس کی اصل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:

﴿فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُهٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴾ 

(پھر جو شخص اسے (وصیت کو) بدل دے، اس کے بعد کہ اسے سن چکا ہو تو اس کا گناہ انہی لوگوں پر ہے جو اسے بدلیں، یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے)

(البقرۃ: 181)

سوم: یہ کہ زندہ لوگ فوت شدگان کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کریں تاکہ ان کو ثواب پہنچے تو یہ جائز ہے۔ اور فقہاء حنابلہ سے منصوص ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اسے فائدہ ہوتا ہے اس کی طرف سے صدقہ کرنے پر قیاس کرتے ہوئے۔ لیکن ہم فوت شدگان کے ساتھ قربانی کو مخصوص کرنے کو سنت میں سے نہیں ‎سمجھتے۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے خصوصی طور پر اپنے فوت شدگان کے لیے قربانی نہيں فرمائی۔ اپنے چچا  حمزہ  رضی اللہ عنہ جو کہ ان کے عزیز ترین اقارب میں سے تھے ان کی طرف سے نہيں کی، نہ ہی ان کی حیات میں جو اولاد فوت ہوئيں ان کی طرف سے، جو کہ تین شادی شدہ بیٹیاں تھیں اور تین چھوٹے بیٹے تھے۔ نہ ہی اپنی زوجہ  خدیجہ  رضی اللہ عنہا  کی طرف سے کی، حالانکہ وہ تمام عورتوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ نہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عہد میں کسی صحابی نے اپنے فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی۔

ہم اس چیز کو بھی غلط سمجھتے ہيں جو بعض لوگ کرتے ہيں کہ فوت شدگان کے مرنے کے بعد پہلے سال میں اس کی طرف سے قربانی کرتے ہیں اور اسے ’’أضحية الحفرة‘‘  کا نام دیتے ہیں۔ یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس قربانی میں کسی اور کو اس کے ثواب میں شریک کرنا جائز نہیں۔ یا اپنے فوت شدگان کی طرف سے خود سے قربانی کرتے ہیں۔ یا ان کی وصیت کے مطابق کرتے ہيں لیکن اپنے یا اپنے اہل وعیال کی طرف سے نہيں کرتے۔ اگر ان لوگوں کو یہ علم ہوجائے کہ وہ اپنے مال میں سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرکے زندوں اور فوت شدگان سب کو ثواب میں شامل کرسکتے ہیں تو کبھی بھی اسے چھوڑ کر یہ والا عمل نہ کریں۔

ایک اور جگہ پر کسی سائل نے مختلف دلائل سے فوت شدگان کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کی عدم مشروعیت کو ثابت کیا تو شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  نے اس کی تائید فرمائی اور فرمایا کہ:

فوت شدگان کی طرف سےقربانی  اگر اس کی طرف سے وصیت کی ہو جو اس نے کی ہے تو اس کی تنفیذ کرنا واجب ہے، کیونکہ وہ اسی کے عمل میں سے ہے ناکہ حق تلفی یا ظلم ہے۔

اور اگر کسی زندہ کی طرف سے اس کے لیے کی گئی ہو تو سلف صالحین کے آثار سے یہ عمل ثابت نہیں، کیونکہ یہ ان سے منقول نہيں، اور ان سے نقل نہ ہونا جبکہ اس کی ضرورت بھی موجود تھی اور کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی، اس بات پر دلیل ہے کہ یہ ان کے مابین معروف نہيں تھا۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جب رہنمائی فرمائی اپنی حدیث میں کہ جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہوجاتے ہیں سوائے یہ کہ اس کے لیے ہم دعاء کریں تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے وہاں اس کی طرف سے کوئی عمل کرنا نہيں بتلایا، حالانکہ حدیث جس سیاق میں تھی اس میں تو موت کے بعد کے اعمالِ جاریہ کا ذکر تھا۔۔۔

ساتھ ہی شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

یعنی میت کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کرنے کی عدم مشروعیت پر جو آپ نے لکھا وہ صحیح ہے لیکن جو کوئی فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرتا بھی ہے تو ہم اس پر نکیر نہيں کرتے، بلکہ ہم تو صرف اس پر تنبیہ کرتے ہیں جو بعض لوگ پہلے کیا کرتے تھے کہ ان میں سے ایک اپنے فوت شدگان کی طرف سے تو قربانی کرتا تھا مگر خود اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے نہیں، بلکہ بعض تو قربانی کی سنت کو جانتے ہی نہیں تھے مگر صرف اس طور پر کہ یہ فوت شدگان کی طرف سے ہوتی ہے ! یعنی یا تو مستقل طور پر کوئی ان کے لیے کرے، یا ان کی وصیت کی وجہ سے، بس۔ تو یہ غلطی ہے جسے بیان کرنا اہل علم پر واجب ہے۔

(کتبہ محمد الصالح العثیمین فی 16/8/1419ھ، مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن صالح العثيمين -ج 17)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

میت کی طرف سے جائز ہے یعنی یہ کہ انسان ایام النحر یعنی عید الاضحیٰ اور تین دن بعد کے قربانی کرے اور اس میت کے لیے نیت کرے مثال کے طور پر ذبح کرتے وقت یوں کہے: ’’اللهم هذا منك ولك اللهم هذه عن فلان‘‘ (اے اللہ یہ تیری ہی دی ہوئی ہے اور تیرے ہی لیے ہے، اے اللہ یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے)۔ لیکن یہ کوئی مشروع عمل نہيں ہے کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے یہ ثابت نہيں کہ آپ فوت شدگان رشتہ داروں کے لیے قربانیاں کرتے ہوں یا صحابہ کرام۔۔۔ لیکن اگر کوئی کرے میت کی طرف سے تو منع نہيں کیا جائےگا اگرچہ بعض علماء کرام فرماتے ہيں کہ اس کا میت کو کوئی فائدہ نہيں پہنچے گا، اور فرماتے ہيں کہ قربانی کے پیسوں سے اگر صدقہ کردیا جائے میت کی طرف سے تو وہ قربانی سے افضل ہے۔ البتہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے کرتے وقت زندوں مردوں سب کی نیت کرلے تو یہ نفع پہنچائے گا انہيں ان شاء اللہ، کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی اپنے اور اہل وعیال کی طرف سے قربانی فرماتے تھے جس کے بارے میں احتمال ہے کہ زندوں مردوں سب کو نیت میں شامل کرتے ہوں، اور یہ بھی احتمال ہے کہ صرف زندوں کی نیت کرتے ہوں۔۔۔

(مفہوم  فتاوى نور على الدرب للعثيمين 13/2)

سوال: کیا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، یا پھر صرف ان کی طرف سے صدقہ ہی کرسکتے ہيں؟

جواب از شیخ عبدالمسحن العباد حفظہ اللہ:

قربانی جائز ہے، لیکن اولیٰ یہی ہے کہ زندہ اپنی طرف سے اور اپنے فوت شدگان کی طرف سے کرے۔ البتہ صرف فوت شدگان کی طرف سے ہو تو اس بارے میں ہم کوئی خاص دلیل نہيں جانتے۔ لیکن اگر تابع ہو یعنی انسان اپنے زندوں اور فوت شدگان دونوں کو نیت میں شامل کرلے تو یہ انہيں نفع دے گا۔ اگر وہ قربانی کرتا ہے تو امید ہے اس میں کوئی محذور نہیں، کیونکہ یہ منجملہ صدقے میں سے ہے۔

(شرح سنن أبي داود للعباد 444/34)


[1] احمد، صحیح ابو داود2810 ، ترمذی 1521 ۔

[2] اسے اما م ابو داود نے 2790 میں روایت فرمایا جبکہ شیخ البانی ضعیف ابوداود میں اسے ضعیف قرار دیتے ہيں۔(مترجم)

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*