رمضان کے آخری جمعہ قضاء عمری کی نماز پڑھنے کی حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فتویٰ رقم 16910

سوال: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’جس کی اپنی عمر بھر میں نماز فوت ہوگئی ہوں اور وہ اسے شمار نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں کھڑا ہو اور چار رکعات نماز ایک تشہد کے ساتھ ادا کرے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۃ القدر پندرہ مرتبہ پڑھے، اسی طرح سے سورۃ الکوثر بھی۔ اور نیت کے وقت یہ کہے کہ: میں نیت کرتا ہوں چار رکعات ان تمام نمازوں کے کفارے کے طور پر جو مجھ سے فوت ہوئی ہيں۔ ابو بکر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: یہ چار سو سال کا کفارہ ہے۔ یہاں تک کہ علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ ہزار سال کا کفارہ ہیں۔ پوچھا گیا کہ جو زائد نمازیں ہيں پھر وہ کس کے کھاتے میں جائیں گی؟ فرمایا: وہ اس کے والدین، بیوی، اولاد، عزیز واقارب اور شہر کے لوگوں کی کے لیے ہوجائیں گی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر سو مرتبہ کسی بھی طرح کا درود بھیجے۔ پھر یہ دعاء تین مرتبہ پڑھے:

’’اللهم يا من لا تنفعك طاعتي، ولا تضرك معصيتي، تقبل مني ما لا ينفعك، واغفر لي ما لا يضرك، يا من إذا وعد وفى، وإذا توعد تجاوز وعفا، اغفر لعبد ظلم نفسه، وأسألك اللهم إني أعوذ بك من بطر الغنى وجهد الفقر، إلهي خلقتني ولم أكُ شيئًا، ورزقتني ولم أكُ شيئًا، وارتكبت المعاصي فإني مقر لك بذنوبي، إن عفوت عني فلا ينقص من ملكك شيء، وإن عذبتني فلا يزيد في سلطانك شيء، إلهي أنت تجد من تعذبه غيري، وأنا لا أجد من يرحمني غيرك، اغفر لي ما بيني وبينك، واغفر لي ما بيني وبين الناس يا أرحم الراحمين، ويا رجاء السائلين، ويا أمان الخائفين، ارحمني برحمتك الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات، وتابع بيننا وبينهم بالخيرات، رب اغفر وارحم وأنت خير الراحمين.. وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين‘‘

اس حدیث کی کیا حقیقت ہے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

یہ جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے، اس جیسی کوئی حدیث احادیث کی معتبر کتب میں موجود ہی نہيں ہے۔ جس کی نماز فوت ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی قضاء ادا کرنے میں جلدی کرے ۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا  إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ ‘‘([1])

(جو نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے، اس کا اس کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں)۔

البتہ یہ جو مذکورہ بالا نماز ہے جس میں سورۃ القدر اور الکوثر پندرہ مرتبہ دہرائی جاتی ہے تو یہ بدعتی نماز ہے جو کہ مشروع نماز کے مخالف ہے۔

ساتھ ہی اس نماز کے بعد جو دعاء ذکر ہوئی ہے اس میں بھی بعض غیر لائق عبارات ہيں جیسے:

’’إلهي أنت تجد من تعذبه غيري‘‘ (الہی! تجھے تو میرے علاوہ دوسرے مل جائیں گے عذاب کرنے کے لیے)۔

یا جیسے:

’’يا أمان الخائفين‘‘ (اے ڈرے ہوؤں کی امان)۔

ان تمام باتوں کی بنیاد پر یہ مذکورہ نماز جائز نہيں، کیونکہ بلاشبہ یہ ایک بدعتی نماز ہے۔

وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو              عضو              عضو                       عضو                       الرئيس

بكر أبو زيد       صالح الفوزان      عبد الله بن غديان  عبد العزيز آل الشيخ   عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الثانية > المجلد الثالث (التفسير وعلوم القرآن والسنة) > الحديث > حديث من فاتته صلاة في عمره ولم يحصها فليقم في آخر جمعة من رمضان)

فتویٰ رقم 2438

سوال: بعض آئمہ مساجد رمضان میں جمعۃ الوداع کی نماز کے بعد پانچ نمازیں ان کے اوقات میں پڑھتے ہيں اذان واقامت کے ساتھ، پورے فرض اور واجب کے التزام کے ساتھ اور اسے وہ قضائے عمری کی نماز کہتے ہيں۔ اور لوگ اسی نام کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہيں، اس عقیدے کے ساتھ کہ یہ تمام عمر کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء ہے۔ جبکہ جو خواص ہیں یعنی آئمہ اس لیے ادا کرتے ہیں تاکہ یہ نمازوں میں ہونے والے نقص کو پورا کردے۔  اور یہ نئی چیز ایجاد کرنے والے اس پر طعن وتشنیع کرتے ہيں جو اس نماز کو ادا نہيں کرتا۔ آں جناب سے سوال ہے کہ: کیا اس نماز کو ادا کرنا جائز ہے یعنی قضائے عمری کی نماز اس التزام کے ساتھ کہ اسے رمضان کے آخری جمعے جمعۃ الوداع کے بعد ادا کیا جائے۔ اور کیا شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی بنیاد ہے؟

دوسرا سوال: مرد کے لیے یہ دو رکعتیں گھر پر ادا کرنا افضل ہے یا قضائے عمری نماز کو مسجد میں پڑھنا افضل ہے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

نماز ایک عبادت ہے جس کے بارے میں اصل توقیف ہے (یعنی جب تک کتاب وسنت سے ثابت نہ ہو توقف اختیار کیا جائے)، اور اس کی قضاء کا طلب کرنا اور اس کا بیان شریعت ہے۔ لہذا اس بارے کسی چیز کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں سوائے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورایسا اجماع جو ان دونوں کی یا ان میں سے کسی ایک کی طرف مستند ہو۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے اور نہ ہی آئمہ ہدایت  رحمہم اللہ  سے ثابت ہے کہ انہوں نے یہ نماز پڑھی ہو یا اس کا حکم دیا ہو یا ترغیب دی ہو، یا اس میں رغبت رکھی ہو۔ اگر یہ ثابت ہوتی تو ضرور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اسے جانتے ہوتے، اور ہم تک اسے نقل کرتے، اور اس کی جانب ان کے بعد آنے والے آئمہ ہدایت  رحمہم اللہ  رہنمائی فرماتے۔ لیکن یہ ان میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں نہ قولاً نہ فعلاً۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو نماز قضائے عمری کے نام سےسوال میں ذکر کی گئی ہے شریعت میں ایک بدعت ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں دی۔ اور یہ بات نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت شدہ ہے کہ فرمایا:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])

(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، تو وہ مردود (نا قابل قبول) ہے)۔

بلکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صرف جس چیز کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان سے کوئی نماز نیند یا بھول کی وجہ سے فوت ہوجائے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے تو وہ اس کی قضاء ادا کرلے۔ اور ہمارے لیے یہ وضاحت فرمائی کہ ہم اسے اسی وقت ادا کریں جب جاگ جائیں یا یاد آجائے، ناکہ رمضان کے آخری جمعہ میں اسے ادا کریں۔

جواب 2:

نفلی نماز مسجد کی نسبت گھر پر پڑھنا افضل ہے کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ ‘‘([3]) (متفق علیہ)

(کیونکہ بلاشبہ مرد کی افضل نماز اس کے گھر پر ہے سوائے فرض نماز کے)۔

وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو                        عضو                        نائب رئيس اللجنة                   الرئيس

عبد الله بن قعود            عبد الله بن غديان          عبد الرزاق عفيفي           عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الثامن (الصلاة 3) > صلاة الاستخارة والحاجة > صلاة القضاء العمري)

سوال: لوگوں کی ایک جماعت ہے جن کی رمضان میں یہ عادت ہے کہ وہ پانچ فرض نمازیں رمضان کے آخری جمعہ کے بعد پڑھتے ہيں اور کہتے ہيں یہ ان تمام فرضوں میں سے جو بھی فرض پوری زندگی میں رہ گئے تھے اور انہیں انسان نے ادا نہيں کیا تھا یا بھول گیا تھا رمضان میں تو یہ ان سب کی قضاء ہے ؟ ہمیں اس بارے میں فتویٰ دیں اجر پائيں۔

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ :

اس نماز کا یہ حکم ہے کہ یہ بدعات میں سے ہے، اور اس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہيں۔ اور یہ انسان کی اپنے رب سے دوری میں ہی اضافہ کرنے والی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ‘‘([4])

(اورہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے)۔

پس جو بدعت ہے اگرچہ اسے ایجاد کرنے والے اسے بہت اچھا کام سمجھتے ہیں اور اسے بلکہ دل میں حسنہ ہی سمجھتے ہيں لیکن بلاشبہ یہ اللہ تعالی کے نزدیک  سيئة (بری)  ہی ہے۔ کیونکہ اس کے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ‘‘

یہ جو پانچ فرض نمازیں انسان رمضان کے آخری جمعہ میں ادا کرتا ہے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔

پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا اس انسان کی بس پانچ وقت کی نمازوں میں خلل ہے؟ بلکہ ہوسکتا ہے کئی نمازوں کے بجائے کئی دنوں کی نمازوں میں خلل ہو۔ لہذا انسان کو جب یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے فرائض میں سے کسی فرض میں خلل ہے تو وہ جیسے ہی یہ جان لے اسی وقت اس کی قضاء ادا کرے کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا  إِذَا ذَكَرَهَا ‘‘([5])

(جو نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے)۔

لیکن کوئی انسان ان پانچ نمازوں کو احتیاطاً پڑھے جیسا کہ ان کا گمان ہے تو یہ منکر ہے جائز نہیں۔

(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثاني عشر – باب المواقيت)

سوال: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ حدیث پڑھی کہ جس میں فرمایا:

’’جس کی اپنی عمر میں نماز فوت ہوگئی ہوں اور وہ اسے شمار نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں کھڑا ہو اور چار رکعات نماز ایک تشہد کے ساتھ ادا کرے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۃ القدر پندرہ مرتبہ پڑھے، اسی طرح سے سورۃ الکوثر بھی۔ اور نیت کے وقت یہ کہے کہ: میں نیت کرتا ہوں چار رکعات ان تمام نمازوں کے کفارے کے طور پر جو مجھ سے فوت ہوئی ہيں‘‘ یہ حدیث کہاں تک صحیح ہے؟

جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ :

اس کی سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں کوئی اصل نہيں۔ جو بات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے وہ یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا  إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ ‘‘([6])(اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے)

(جو نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے، اس کا اس کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں)۔

پس جو نمازیں آپ نے پہلے چھوڑیں ہیں اگر وہ مثلاًنیند کی وجہ سے یا بیہوشی یا کسی اور عذر کی وجہ سے چھوڑی ہيں کہ جس کے بارے میں آپ کا گمان تھا کہ اس کی وجہ سے تاخیر جائز ہے، تو پھر آپ پر واجب ہے کہ ان کی قضاء ادا کریں، اور انہيں ترتیب کے ساتھ اور فوراً پڑھیں۔

البتہ اگر آپ نے انہيں جان بوجھ کر چھوڑاتھا تو علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق آپ پر اللہ تعالی کے حضور توبہ واجب ہے۔ کیونکہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑتا ہےتو اس کا معاملہ بہت خطرناک ہے اگرچہ وہ اس کی فر‌ضیت کا منکر نہ بھی ہو پھر بھی صحیح بات یہ ہے کہ وہ اس سے کافر ہوجاتا ہے۔ تو آپ کو چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں اگر آپ نے جان بوجھ کر انہيں چھوڑا تھا۔ اور آئندہ مستقبل کے لیے آپ نمازوں کی محفاظت وپابندی کریں۔ اور اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی جناب میں تائب ہوتا ہے۔

لیکن اگر آپ نے نیند یا بیہوشی یا کسی اور وجہ سے جو آپ کے اور نماز کو وقت پر ادا کرنے کے مابین حائل ہوگئی تھی چھوڑا ہے تو آپ کو چاہیے کہ لازماً اس کی قضاء ادا کریں۔

مگر یہ جو نماز آپ نے ذکر کی ہے جو رمضان کے آخر میں خاص طریقے سے پڑھی جاتی ہے تو اس کی دین اسلام میں کوئی اصل وبنیاد نہيں اور نہ ہی اس کے ذریعے ان نمازوں کا کفارہ ہوتا ہے جو آپ نے چھوڑی ہيں۔

(مجموع فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/303,304)


[1] صحيح البخاري، مواقيت الصلاة 597، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة 684، سنن الترمذي، الصلاة 178، سنن النسائي، المواقيت 613، سنن أبي داود، الصلاة 442، سنن إبن ماجه، الصلاة 696، مسند أحمد بن حبنل 3/269، سنن الدارمي، الصلاة 1229.

[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).

[3] صحيح البخاري، الأذان731، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 781، سنن الترمذي الصلاة (450) ، سنن النسائي قيام الليل وتطوع النهار (1599) ، سنن أبو داود الصلاة (1447) ، مسند أحمد بن حنبل (5/186) ، موطأ مالك النداء للصلاة (293) ، سنن الدارمي الصلاة 1336۔

[4] اسے النسائی نے اپنی سنن 1578 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح النسائی 1577 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[5] حدیث گزر چکی ہے۔

[6] حدیث گزر چکی ہے۔

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر