ختم قرآن پر پارٹی یا کھانے کی دعوت کا اہتمام کرنے کا حکم؟ – شیخ عبید بن عبداللہ الجابری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ختم قرآن پر پارٹی یا کھانے کی دعوت کا اہتمام کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس میں بہت سے لوگوں نے بہت توسع اختیار کیا ہے یہاں تک کہ شادی کے ولیمے کے مشابہ بنادیا ہے۔ جو اسراف کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ جب یہ اسراف وشہرت کے حد کو پہنچ جائے تو یہ مذموم ہے۔

لیکن اگر حافظ قرآن یا اس کے ولی جیسے والد یا والدہ چاہتے ہوں کہ شکرانے کے طور پر کوئی دعوت کریں جس میں اس کے دوستوں، واقف کاروں اور عزیز و اقارب کو مدعو کیا جائے۔ ہلکی سے دعوت جس میں وہ کھائیں پئیں اور اس حافظ کے لیے دعاء کریں جس پر اللہ تعالی نے احسان فرمایا کہ اسے حفظ قرآن کی توفیق دی(یعنی اس میں کوئی مضائقہ نہیں)۔

دعاء کریں کہ اللہ تعالی اسے قرآن مجید پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے جیسا کہ اسے حفظ کی توفیق دی۔ کیونکہ محض حفظِ قرآن کافی نہیں بلکہ لازم ہے کہ اس پر عمل کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جو قرآن کے ذریعے جنت کے بلند درجوں پر چڑھتا جائے گا، اور دنیا وآخرت میں اہل قرآن اور اس کے خواص میں شمار ہوگا۔اھ

اس کے علاوہ بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں  کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

تعلم عمر بن الخطاب رضي الله عنه البقرة في اثنتي عشرة سنة، فلما أتمها نحر جزورًا

 عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ البقرۃ بارہ سال میں سیکھی اور جب اسے مکمل فرمایا تو اونٹ نحر فرمایا۔

اسے بیہقی نے شعب الایمان میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اور الذھبی نے سیر اعلام النبلاء سیرت عمر الفاروق ص 81 ج 28 ط مؤسسۃ الرسالۃ میں روایت فرمایا ہے۔

اس کے بارے میں  امام ابن کثیر مسند الفاروق2/571  میں  فرماتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس میں ابو بلال الاشہری کو الدارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اللہ اعلم

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء۔