
Is Establishing Deeni Jama’at Prohibited in itself or because of their Corrupt Aqeedah & Manhaj? – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عالم اسلام میں لوگ آج جس فتنے سے دوچار ہیں وہ ہے حزبیت کی اساس پر دین داری۔ اور ہم اس ملک میں بھی اس فتنے کا سامنا کررہے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی ہيں جو آپ فضیلۃ الشیخ کے کچھ سابقہ جوابات سے یہ سمجھے ہیں کہ ان جماعتوں میں حق باطل دونوں پائے جاتے ہیں، لہذا آپ ان جماعتوں میں شامل ہونے سے منع نہیں فرماتے؟
جواب: جی، یہ تو ہے کہ ہمارے مطابق ان جماعتوں میں حق اور باطل دونوں پائے جاتے ہیں لیکن ہم ان جماعتوں کے قائم کرنے ہی کے قائل نہيں۔ کیونکہ ان جماعتوں کے قائم کرنے ہی سے اس کی بنیاد پر الولاء والبراء(دوستی و دشمنی) مرتب ہوتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ ہر جماعت ہی ان کو اپنا سمجھتی ہے جو ان کے ساتھ ہیں اور ان سے برأت کرتی ہے جو ان میں سے نہيں ہیں۔
اور عجیب بات ہے کہ بعض جماعتوں میں ان کے حسب حال وفعل ایک باطل قاعدہ پایا جاتا ہے اور وہ ہے کہ:
”جو بھی تمہارے ساتھ نہیں وہ یقیناً تمہارے خلاف ہی ہے! “
اور یہ ایک عظیم غلطی ہے۔ لہذا میں جس بات کا قائل ہوں وہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کو بنانا ہی غلط ہے اور اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں جو حکم دیا ہے اس کے خلاف ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)
اور اس تفرقے سے اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بھی منع فرمایا ہے:
﴿شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ﴾ (الشوریٰ:13)
(اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا، اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو)
اور یہ اپنے دین میں تفرقہ کرنے والے اللہ تعالی نے جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرمایا اس میں داخل ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ﴾ (الانعام: 159)
(بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے ، پھر وہ ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دے گا)
ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ان جماعتوں پر واجب ہے کہ وہ مجتمع ہوں اور باہم جڑ جائیں۔ اور دیکھیں کہ ان کے مابین آخر کیا فرق و اختلاف ہيں ان کا خاتمہ کریں۔ تاکہ وہ سب کے سب ایک پرچم تلے جمع ہوجائيں جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ کیونکہ بلاشبہ صحابہ کے درمیان جو اختلاف ہوا سو ہوا، اس کے باوجود وہ ایک دل اور ایک امت کی مانند رہے۔ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے خود کو جدا نہيں سمجھتا تھا۔ اس کی بہت سے مثالیں بھری پڑی ہيں جو بھی تاریخ اور علماء کے اقوال کا تتبع کرتا ہے وہ جانتا ہے۔ اسی لیے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ سرے سے ہی یہ جماعتیں اور احزاب نہ قائم کیے جائيں۔
سائل: لیکن فضیلۃ الشیخ کیا ہمیں بنیادی طور پر اس بات کے ضرورت ہے بھی کہ جماعتیں ہوں ۔ خصوصاً ہمارے اس ملک میں کہ اللہ کی ہم پر نعمت ہے کہ یہاں سلیم عقیدہ و جماعت واحدہ موجود ہے۔ عرض یہ ہے کہ واپس سے آپ کے کلام سے یہ مفہوم سمجھا جارہا ہے کہ جب آپ نے فرمایا یہ جماعتیں سب مجتمع ہوجائيں اور مصلحت کی خاطر متفق ہوجائيں، اس سے معلوم ہوا کہ ان جماعتوں کی بنیاد ڈالنے کی شروع میں تو بہرحال ضرورت ہے(پھر بعد میں سب جمع ہوجائيں!)؟
جواب: آخر یہ بات کیسے (میرے کلام سے) سمجھی گئی! میں تو صاف کہہ رہا ہوں کہ ہم ان جماعتوں کا انکار کرتے ہیں (نہیں مانتے)۔ اور ہم اس بات کے قائل ہيں کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ایک امت مسلمہ بن کر رہے جب تک وہ صراط مستقیم پر ہے۔ اور وہ راستہ وہ ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ اسی لیے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائيں گے سوائے ایک کے، تو انہوں نے پوچھا: وہ کون سی ہوگی؟ فرمایا:
’’وَهِيَ الْجَمَاعَةُ ‘‘[1]
(اور وہ جماعت ہیں)۔
یعنی جو اللہ کے دین پر مجتمع ہیں، اور ایک روایت میں ہے:
’’من كان على مثل مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘[2]
(جو اس چیز پر ہوں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں)۔
پس جب آپ اس روایت کو پہلی والی روایت سے جوڑ کر دیکھیں گے تو معنی یہ ہوگا کہ یہ وہ الجماعۃ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہوں۔ یہ ہے وہ بات جو ہم چاہتے ہیں۔
آج جب یہ حزبیت کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوئے جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ ہم نوجوانوں کو پاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور ایک دوسرے پر فسق کی بلکہ کبھی تو کفر تک کی تہمت لگاتے ہیں۔ ایسی حجت کے ساتھ جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی گویا:
﴿كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاءً ۭ حَتّيٰٓ اِذَا جَاءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَـيْــــًٔـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ﴾ (النور: 39)
(اس سراب (چمکتی ہوئی ریت ) کی مانند جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ تعالی کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے)
یہ سب اس وجہ سے کہ جس جماعت کے ساتھ اس نے خود کو جوڑا ہے، گویا کہ وہ ایک طرف ہے اور دوسری جماعت ایک دوسری طرف ہے۔