کیا توحید عبادت قدیم ہوچکی ہے اور موجودہ دور توحیدِ حاکمیت بیان کرنے کا ہے؟

Is the Tawheed-ul-‘Ibaadah outdated and the current era is to explain the Tawheed-ul-Hakmiyyah?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کچھ داعیان نے توحید کی تین معروف اقسام کے ساتھ ساتھ توحید حاکمیت کو بہت زیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ تو کیا یہ چوتھی قسم ان تین اقسام ہی میں داخل ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیا ہم اسے ایک الگ قسم قرار دے کر اس کا خصوصی اہتمام کریں؟

اور یہ بھی کہا جاتا ہے شیخ محمد بن عبدالوہاب  رحمہ اللہ  نے توحید الوہیت کو اس لیے زیادہ اہمیت دی جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے  ہیں اور اسی طرح امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے توحید اسماء وصفات پر اس لیے خصوصی توجہ دی جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں۔ اب چونکہ فی زمانہ لوگ توحید حاکمیت میں غفلت کا شکار ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھیں، سوال یہ ہے کہ کہاں تک یہ بات درست ہے؟

[مثال کے طور پر حافظ سعید امیر جماعۃ الدعوۃ اپنی کتاب عقیدہ و منہج ص 107 میں اپنے گمراہ کن منہج کا پرچار کرتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں “توحید الحکم” (حاکمیت میں توحید)۔ پھر کہتے ہیں: عام طور پر علماء نے حاکمیت میں توحید کے مسئلہ کو توحید الوہیت یعنی توحید عبادت کا حصہ قرار دیا ہے اور اسے الگ طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن بہت سے علماء وہ بھی ہیں، جو حکم (حاکمیت) کے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ طور پر بیان کرتے ہیں]۔

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

 توحید کی تین اقسام ہیں: توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات اور کوئی چوتھی قسم نہیں۔ اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید الوہیت کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالی کے لیے ادا کی جانے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور ہر قسم کی عبادت توحید الوہیت کے تحت آتی ہیں۔

پس ’’حاکمیت‘‘ کو توحید کی ایک علیحدہ قسم قرار دینا ایک بدعت ہے جو ہماری علم کے مطابق کسی بھی عالم کا قول نہیں۔

ہاں البتہ بعض نے اسے عام رکھا اور کہا کہ توحید کی دو قسمیں ہیں:

1-  توحید معرفت و اثبات،  اور یہ توحید ربوبیت اور اسماء وصفات پر مشتمل ہے۔

2- توحید طلب و قصد، اور یہ توحید الوہیت ہے۔

اور کچھ نے اسے مزید مخصوص کرتے ہوئے تین اقسام کیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں،  واللہ اعلم۔

چنانچہ یہ واجب ہے کہ ہم مکمل توحید الوہیت پر توجہ دیں اور اس کی ابتداء شرک کا رد کرنے سے کریں کیونکہ یہ اکبر الکبائر ہے جس کی موجودگی میں تمام نیک  اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، اور اس کا مرتکب دائمی جہنمی ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام  نے اپنی دعوت کا آغاز ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیا، اور اللہ تعالی نے ہمیں انہی کے راستے کی پیروی کرنے اور دعوتِ دین ہو یا دیگر دینی امور ہمیں ان ہی کے منہج کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے[1]۔ پس توحید پر اس کی تینوں اقسام سمیت توجہ دینا ہر دور میں واجب ہے کیونکہ شرک اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار وتأويل آج بھی موجود ہے، بلکہ یہ تو پہلے سے زیادہ عام ہوچکے ہیں اور قرب قیامت تک ان کے خطرات  میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان دونوں امور کی یہ اہمیت و سنگینی بہت سے مسلمانوں پر مخفی ہے، اور ان دونوں کی طرف دعوت دینے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور  بہت سرگرم ہیں۔ لہذا شرک کا وجود صرف شیخ محمد بن عبدالوہاب  رحمہ اللہ  کے دور تک محدود نہ تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار و تأويل امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ  کے دور تک محدود تھی، جیسا کہ سوال میں کہا گیا۔

بلکہ اس دور میں تو اس کے خطرات دوچند ہوگئے ہیں اور  یہ پہلے سے زیادہ مسلم معاشروں  میں پھل پھول رہے ہیں۔ اسی لیے انہیں ایسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے جو انہیں اس میں ملوث ہونے سے روکیں اور اس کے نقصانات سے انہیں آگاہ کریں۔ آخر میں یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا اور اس کی شریعت کو نافذ کرکے اس کے مطابق فیصلے کرنا یہ سب توحید کو اپنانے اور شرک سے پاک رہنے ہی میں شامل ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم.

سماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز، والشيخ عبدالعزيز بن عبدالله آل الشيخ، والشيخ صالح بن فوزان الفوزان، والشيخ عبدالله بن عبدالرحمن الغديان، والشيخ بكر بن عبدالله أبو زيد.[2]

سوال:  بعض ایسے لوگ ہيں جو کہتے ہیں کہ تم اپنے اوقات قدیم شرک کے بیان میں ضائع کرتے ہو جو کہ قبروں سے توسل و فریادیں کرنا ہے، جبکہ جدید شرک یعنی شرک حاکمیت  یا حکام کے شرک کو بھول جاتے ہو، حالانکہ ان کے نزدیک آج حکام کی تکفیر اور  ان کے خلاف بغاوت وخروج کی تحریک چلانا  دعوتی عمل سے زیادہ ترجیح رکھتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

[مثال کے طور پر ساحل عدیم مولانا مودودی اور سید قطب کی گمراہ کن فکر کو ترویج دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو سیاست میں داخل ہونا چاہیے اور ان غیرشرعی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے نظام تبدیل کرنا چاہیے، اسی لیے اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ طاغوت ہیں اور یہ ہی ہماری اولین ذمہ داری ہے، باقی عقیدہ چاہے روافض کا ہو یا صوفیوں والا قبرپرستی، شرکیات اور دیگر بدعقیدگی پر مبنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس کسی بھی قسم کا اسلام نافذ کرو، حکمرانوں کی اطاعت اور ان پر صبر والی احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں بلکہ یزید بن معاویہ نے لکھوائی ہیں، نعوذ باللہ! ان کے مختلف ویڈیو بیانات میں یہ چیزیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں]

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ  :

یہ بات غلط ہے یہ بیچارے ہيں، جو بات اولیٰ ہے اور ترجیح رکھتی ہے وہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہے اور انہيں بصیرت دینا ہے۔ ان کے سامنے شرک کی اور کفریہ عقائد کی حقیقت بیان کرنا ہے خواہ وہ وثنیت (بت پرستی، قبرپرستی وغیرہ) کے پہلو سے ہو، یا کمیونزم کے پہلو سے یا چاہے اباحیت کے پہلو سے۔ لیکن جہاں تک بات حکمرانوں کے خلاف لڑنے  کی ہے تو ہم ان حکام سے تنازع نہيں کریں  گے۔ یہ تو خوارج اور معتزلہ کا وطیرہ ہے۔ لہذا اس قسم کے لوگوں میں خوارج سے مشابہت پائی جاتی ہے، ان کا سوائے حکام کے خلاف خروج کے اور کوئی سروکار نہيں۔

حالانکہ واجب ہے کہ ہم لوگوں کے احوال کی تصحیح و اصلاح کریں خواہ حکام ہو ں یا غیرحکام ہوں۔ ان کے احوال کی درستگی کریں، انہيں اللہ تعالی کی جانب دعوت دیں اور  انہيں نصیحت کریں۔ اور عوام کو بھی نصیحت کریں اور ان کے سامنے صحیح اسلامی عقیدہ بیان کریں۔

اس خروج سے آخر کیا فائدہ ہے؟! اس میں سوائے قتل و غارت وفساد کے کچھ حاصل نہيں ہوتا۔ خروج کے لیے نکل پڑتے ہیں حالانکہ کمزور ہوتے ہيں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ یہ راہ راست نہيں، راہ راست یہ ہے کہ لوگوں کو بصیرت فراہم کی جائے اور انہیں خیر کی جانب رہنمائی کی جائے، ناکہ بنا بصیرت کے حکام کے  خلاف بس خروج کیاجائے، اور قتل عام مچا دیا جائے۔

سائل: آپ کی ان نوجوانوں کے لیے کیا نصیحت ہے؟

الشیخ: میری ان کے لیے یہی نصیحت ہے کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور لوگوں کو بھی دین کا فقہ و فہم دیں، ناکہ انہيں حکام کے خلاف خروج میں مشغول رکھیں۔ کیونکہ یہ دعوت کو ختم کرنے کا سبب بن جائے گا، اور یہ خود اپنے ہاتھوں دعوت کو مار دیں گے۔کیونکہ ظاہر ہے حکومت انہيں ہرگز نہيں چھوڑے گی کہ وہ ان پر چڑھائی کریں، اگر کوئی سرکشی کرے گا تو وہ اسے قتل کردیں گے اور اس تحریک کو کچل کر رکھ دیں گے، اور دعوت کا خاتمہ کردیں گے۔

لہذا واجب ہے یہ کہ لوگ دعوت و توجیہہ و رہنمائی  کرنے میں محنت کریں، اور لوگوں کو ان کے دین کا فقہ و فہم دیں۔ پہلے خود دین کا فقہ و فہم حاصل کریں تاکہ وہ وضاحت و بصیرت پر ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ بس یہی سروکار رہ جائے کہ حکام وسلطان کو برا بھلا کہو ، ان کے خلاف منصوبہ بندی کرو۔ یہ کام تو بہت بڑے فساد اور عظیم خطرے کی طرف لے جاتے ہيں۔ اور یہ دعوت اور اس دعوت کے حاملین نوجوانوں  کے خاتمے کا سبب بنتے ہيں۔

پس واجب ہے کہ  یہ تفقہ فی الدین، دعوت الی اللہ اور اس کی جانب رہنمائی کرنے کا خصوصی اہتمام کریں۔ اور عوام الناس کو بھی دین کی سمجھ دیں ،ساتھ میں  حکمرانوں کی بھی نصیحت وخیرخواہی چاہيں خط وکتابت کے ذریعے([3])۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے اور ان کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت دے۔ یہ ہے راہ راست پر مبنی صحیح طریقہ۔[4]


[1]   اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ

 (یہ (انبیاء کرام) وہ لوگ ہيں کہ جنہيں اللہ تعالی نے ہدایت دی تھی، پس تم انہی کی ہدایت کی پیروی کرو)

(الانعام: 90)

(مترجم)

[2] المسلمون رقم: 639، جمعہ 25 ذوالحج  1417ھ بمطابق  2 مئی 1997ع۔

[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا:

الدِّينُ النَّصِيحَةُ (ثلاثا) قيل: لمن يا رسول الله؟ قال:لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ 

دین تو نصیحت و خیرخواہی کا نام ہے، دریافت ہوا کہ خیرخواہی کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے حکام اور عام مسلمانوں کے لیے۔

(أخرجه مسلم (55) عن تميم الداري -رضي الله عنه-)

عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ  بیان فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے فرمایا:

مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِي سُلْطَانٍ فَلا يُبْدِهِ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيَخْلُوا بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَاكَ، وَإِلا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ۔

(جو کوئی حاکم وقت کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اسے علانیہ نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی میں لے جاکر نصیحت کرے۔ اگر وہ اس سے قبول کرلیتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اس کے ذمے جو تھا اس نے ادا کردیا ہے)۔

(کتاب السنۃ لابن ابی عاصم صححہ الالبانی 1096اس کے علاوہ یہ روایت مسند احمد اور ابن عساکر میں بھی ہے)

تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری شائع کردہ  شیخ ابن باز  رحمہ اللہ   کی کتاب “حاکم او رمحکوم کا باہمی تعلق” وغیرہ ۔ (مترجم)

[4] الأولى تصحيح عقائد الناس و تبصيرهم و يبين لهم حقيقة الشرك أما الخروج على السلاطين فهذا شأن الخوارج۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*