ذوالحج کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت واحکام – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Virtues and rulings of the first ten days of DhilHajjah – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ  فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])

(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا  ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔

پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:

’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])

(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔

کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])

(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔

لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔

یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:

﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ  فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ 

(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)

(الحج: 28)

اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے  انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں:

’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])

(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔

لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔

آپ میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں  یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت  ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں کسی بھی قسم کی تراش خراش منع ہے، تاکہ حج نہ کرسکنے کے باوجود اس کے ذریعہ وہ بھی حاجیوں کے ساتھ اگرچہ قلیل ہی کیوں نہ ہو مشارکت اختیار کرسکیں ، پس یہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ہے۔ اور اس بات سے اس کا نعمت الہی ہونا آپ پر مزید واضح ہوگا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع نہ کرتے تو اسے عبادت کے طور پر ترک کرنا ایک بدعت کہلاتا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود منع فرمادیا تو اسے چھوڑنا ایک عبادت کہلائے گا جس پر انسان کو اجروثواب حاصل ہوگا([5])۔

اے لوگو! یہ بات بھی جان لو کہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد میں تراش خراش سے منع صرف اس کے لیے خاص ہے جو قربانی کررہا ہو ناکہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو۔ البتہ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یعنی خاندان کی طرف سے تو ان پر اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد کی تراش خراش کرلینے پر کوئی پابندی نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسے منع فرمایا ہے جو قربانی کررہا ہے انہیں منع نہیں فرمایا جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو بھی اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد کی تراش خراش کرنے سے منع فرمایا ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ گھر والوں پر حرام نہیں کہ وہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد کی تراش خراش کرلیں۔ کیونکہ شریعت میں بھی اصل حکم کسی بھی عمل سے برئ الذمہ ہونا اور حلال ہونا ہے یہاں تک کہ اس کی حرمت کی دلیل مل جائے۔

اے مسلمانو! بعض جاہل لوگ جنہیں اللہ تعالی نے داڑھی مونڈنے کے جرم میں اصرار کرنے پر مبتلا کررکھا ہے۔ حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی، انبیاء ومرسلین وصالحین کے طرز عمل کی مخالفت اور مجوسیوں ومشرکوں کے طرز عمل کی موافقت ہے۔ پس داڑھی مونڈنا حرام ہے اور یہ مسلمانوں کے شعار کے مخالف ہے۔

لہذا ان جاہلوں میں سے ہم نے بعض کے بارے میں سنا ہے کہ وہ قربانی اس خوف سے ترک کردیتے ہیں کہ انہیں ان دس دنوں میں اپنی داڑھی کاٹنی ہوتی ہے حالانکہ یہ نری حماقت ہے۔ کیسے اتنی عظیم عبادت کو ان دس دنوں میں معصیت الہی کرنے کی خاطر چھوڑتے ہو؟ یہ تو نری حماقت ہے، اے میرے بھائی! اللہ تعالی سے ڈرو۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑو، اور میں اپنے ان بھائیوں کے بارے میں پرامید ہوں کہ اگر انہیں پکڑ کر کہا جائے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور یہ مجوسیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے تو وہ ضرور طریقۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دیں گے اگر واقعی ان سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں لیکن عزم وحوصلے کی کمزروی کے سبب ان کی نفسانی خواہشات ان پر غالب آجاتی ہیں ۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہوں گے تو یقیناً کہیں گے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی جب ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی جائے گی:

’’خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَوْفُوا اللِّحَى، وَأَرْخُوا اللِّحَى وَحُفُّوا الشَّوَارِبَ‘‘([6])

(مشرکین کی مخالفت کرو، اور داڑھی کو خوب بڑھاؤ اور معاف کردو  (یہ سب الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں)  اور مونچھوں کو پست کرو)۔

اور مجھے یہ یقینی طور پر علم ہے کہ ان کے ہاں یا ان میں سے بعض کے ہاں اتنا کچھ دینی جذبہ ضرور ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کے حریص ہوں۔ لیکن عزم وارادے کی کمزوری ان کے نفسوں پر غالب آجاتی ہے تو وہ اس داڑھی مونڈھنے کو قبول کرلیتے ہیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعاء گو ہیں کہ وہ انہيں اس معصیت کو ترک کرنے میں مدد فرمائے تاکہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وفرمانبرادار اور انبیاء وصالحین کے شعار کو اختیار کرنے والے بن جائیں۔ اور عین ممکن ہے کہ اس مناسبت سے یعنی ان دس ایام میں داڑھی مونڈنے سے پرہیز انہیں تاحیات اپنے رب سے ملنے تک چھوڑے رکھنے اور اس سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کا سبب بن جائے۔ ہم پھر اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان کی اس میں مدد فرمائے اور جو کچھ ہوگزرا اس سے درگزر فرمائے۔ اور ہم سب کو دین پر استقامت عطاء فرمائے اور ہمیں اپنی سیدھی راہ کی جانب ہدایت دے،  ان کی راہ جن پر اللہ تعالی کا انعام ہوا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی۔۔۔


[1] أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب الجمعة من حديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما رقم (916)،وأخرجه الإمام الترمذي -رحمه الله تعالى- في سننه في كتاب الصوم رقم (68، وأبو داود في سننه في كتاب الصيام رقم (2082)، وابن ماجة في سننه رقم (1717)، وأخرجه الإمام أحمد في مسنده رقم (1867)، والدارمي في سننه رقم (170 من حديث ابن عباس رضي الله عنهما .

[2]  أخرجه النسائي -رحمه الله تعالى- في سننه عن بعض أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- في كتاب الصيام باب كيف يصوم ثلاثة أيام من كل شهر وذِكْر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك رقم (2374).

[3]  أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب الصوم من حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه رقم (1771)، وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الصيام رقم (1942).

[4] وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في صحيحه في كتاب الأضاحي باب استحباب الضحيَّةوذبحها مباشرة بلا توكيل والتسمية والتكبير من حديث أنس بن مالك -رضي الله تعالى عنه- رقم (3635).

[5] أخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الأضاحي رقم (2653) من حديث أم سلمة رضي الله تعالى عنها، وأخرجه الإمام أحمد -رحمه الله تعالى- في مسنده رقم (25269) (25359) وأصحاب السنن من حديث أم سلمة رضي الله تعالى عنها.

[6]  أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب اللباس باب إعفاء اللحى (عفواً) كثروا وكثرت أموالهم من حديث ابن عمر رضي الله تعالى عنهما رقم (5442-5443)، ت ط ع ، وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الطهارة باب حفظ خصال الفطرة رقم (380-381-382-383) من حديث عبد الله بن عمر وأبي هريرة رضي الله تعالى عنهم أجمعين.

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ