طاغوت کی تعریف – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Definition of Taghoot – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

طاغوت طغیان سے مشتق ہے جو کہ صفت مشبہہ ہے۔

اور طغیان حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:

﴿اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ﴾ 

(بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی میں طغیانی آئی تو تمہیں کشتی میں سوار کیا)

(الحآقۃ: 11)

یعنی پانی اپنی حد سے تجاوز کرگیا۔

جامع ترین بات جو اس کی تعریف میں کی گئی ہے وہ وہ ہے جو حافظ ابن القیم  رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی ہے:

الطاغوت ما تجاوز به العبد حده من متبوع، أو معبود، أو مطاع. ومراده من كان راضياً بذلك

(طاغوت ہر وہ بندہ ہے جو اپنی حد سے بطور متبوع (جس کی اتباع کی جاتی ہے) یا معبود یا مطاع(جس کی اطاعت کی جاتی ہے)  تجاوز کرجائے اور اس مراد وہ ہے جو  اس سے راضی بھی ہو)۔

یا انہیں طاغوت ان کی عبادت یا اتباع یا اطاعت کرنے والوں کے لحاظ کہا گیا ہے یعنی اگر وہ اس سے راضی نہ ہوں۔ کیونکہ اس عبادت یا اطاعت گزار نے حد سے تجاوز کیا کہ اسے اس کی حقیقی قدر و منزلت جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائی ہے سے بڑھا دیا۔ لہذا اس کی اس معبود کی عبادت یا اس متبوع کی اتباع یا اس مطاع کی اطاعت طغیان ہے کہ جس کے ذریعہ وہ حد سے تجاوز کرگیا۔ ان کی مثالیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

متبوع کی مثال جیسے کاہن، جادوگر اور علماء سوء۔

معبود کی مثال جیسے بت اصنام۔

مطاع کی مثال جیسے ایسے امراء و حکام جو اطاعت الہی سے خارج ہیں اگر انسان انہیں ارباب من دون اللہ (اللہ کے علاوہ رب) بناتا ہے اس طور پر کہ وہ اللہ کی حرام کردہ کو محض ان کے حلال کرنے کی وجہ سے حلال کرتا ہے اور اللہ تعالی کی حلال کردہ کو محض ان کے حرام کرنے کی وجہ سے حرام کرتا ہے تو یہ طواغیت ہیں۔

 یعنی فاعل طاغوت کے تابع ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوت﴾

(کیا تم  نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہیں کتاب میں سے کچھ حصہ دیا گیا پھر بھی  وہ بتوں اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں)

(النساء: 51)

یہ نہیں فرمایا کہ یہ خود طواغیت ہیں([1])۔


[1] مزید تفصیل کے لیے دیکھیں شرح الاصول الثلاثہ از شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ اور شرح معنی الطاغوت از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ۔ (مترجم)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: القول المفید علی کتاب التوحید ص 21 ط دار ابن الجوزی۔