
بسم اللہ الرحمن الرحیم
Adopt Zuhd (asceticism), not Sufism! – Shaykh ʾAbd al-Muḥsin al-ʾAbbād
الحمد لله، وصلى الله وسلم وبارك على رسول الله نبينا محمد بن عبد الله وعلى آله وصحبه ومن والاه.
أما بعد؛
میں مشایخ([1]) میں سے ایک کے کلام بعنوان: ”فكيف المخدوم“ پر مطلع ہوا جو کہ صحیفہ الشرق الاوسط بتاریخ 30/11/1433ھ کو نشر ہوا، جس کے آخر میں یہ کہا گیا:
”ایک قوم کے ہاں اپنے خطابات میں جذبات کی روح، تصوفِ محمود کے اشارے بہت کم ہوتے ہیں، جبکہ دوسروں کے ہاں تصوف کا دروازہ بالکل ہی کھلا رکھ دیا جاتا ہے خواہ محمود ہو یا مذموم بنا کسی عقل و خرد یا سرچشمۂ علم کے۔ اور یہ دونوں ہی گروہ صحیح راہ سےہٹے ہوئے ہیں۔ اور دوسرے والے پہلے والوں سے بدتر ہیں۔ اور ایک قولِ ماثور جو کہ حسن درجے کا ہے ،اس میں ہے کہ:
”جو کوئی بغیر فقہ کے تصوف اختیار کرتا ہے تو زندیق بن جاتا ہے، اور جو کوئی بغیر تصوف کے فقہ اختیار کرتا ہے فاسق بن جاتا ہے، البتہ جو فقہ و تصوف کو جمع کرلیتا ہے تو یہ حق کو پالیتا ہے“۔
اور قطعی طور پر یہاں تصوف سے مراد جذبات کی روح، دل کی رقت اپنانا اور سنگدلی کو چھوڑنا ہے، ساتھ ہی قرآنی اشارات اور نبوی دلالات پر عظیم غور و فکر و فقہ ہے۔ اور اللہ تعالی کے اپنی جنت کے اہل لوگوں کے تعلق سے اس فرمان پر غور کریں:
﴿وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ (الطور: 24)
(اور ان پر چکر لگاتے رہیں گے ان کے لڑکے، جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں)
﴿غِلْمَانٌ﴾ سے مراد وہ خادم ہيں جو اہل جنت کے لیے مخصوص ہيں۔ اور ﴿لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ یعنی (وہ موتی) جو صدف (سیپی) میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ خالص ترین، تازہ ترین اور نفیس ترین ہوتے ہیں۔ پس اے مبار ک آپ فقہ وتصوف دونوں کو جمع رکھیں اور کہیں: یہ ہے خادم تو پھر مخدوم کیسا ہوگا؟ کیا اللہ تعالی کے ہاں جو کچھ ہے اس کی ترغیب میں اس بیان سے بڑھ کر دیکھا ہے آپ نے، ہرگز نہیں، اللہ تعالی نے فرمادیا کہ:
﴿فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ﴾ (المرسلات: 50)
(پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے ؟)“۔
میں اس کلام پر یہ تنبیہات کرنا چاہوں گا:
1- جو کچھ انہوں نے ذکر کیا کہ تصوف کے معانی میں یہ بات شامل ہے کہ قرآنی اشارات و نبوی دلالات کی فقہ ، اور اس کی مثال کے طور پر اللہ تعالی کا یہ فرمان ذکر کیا:
”اور اللہ تعالی کے اپنی جنت کے اہل لوگوں کے تعلق سے اس فرمان پر غور کریں:
﴿وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ (الطور: 24)
(اور ان پر چکر لگاتے رہیں گے ان کے لڑکے، جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں)
﴿غِلْمَانٌ﴾ سے مراد وہ خادم ہيں جو اہل جنت کے لیے مخصوص ہيں۔ اور ﴿لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ یعنی (وہ موتی) جو صدف (سیپی) میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ خالص ترین، تازہ ترین اور نفیس ترین ہوتے ہیں۔ پس اے مبارک! آپ فقہ وتصوف دونوں کو جمع رکھیں اور کہیں: یہ ہے خادم تو پھر مخدوم کیسا ہوگا؟ کیا اللہ تعالی کے ہاں جو کچھ ہے اس کی ترغیب میں اس بیان سے بڑھ کر دیکھا ہے آپ نے، ہرگز نہیں، اللہ تعالی نے فرمادیا کہ:
﴿فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ﴾ (المرسلات: 50)
(پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے ؟)“۔
میں یہ کہتا ہوں:
بلاشبہ جنت میں مخدومین (خادموں) کی صفات و احوال کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وضاحت کے ساتھ آئے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ﴾ (المطففین: 24)
(تم ان کے چہروں میں نعمت کی تازگی پہچان لوگے)
﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ (القیامۃ: 22-23)
(اس دن کئی چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کا دیدار کرنے والے ہوں گے)
﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ، ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ﴾ (عبس: 38-39)
(کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے، بہت خوش باش)
﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ، لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ﴾ (الغاشیۃ: 8-9)
(کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنی کوشش پر خوش ہوں گے)
اور نعمت و اکرام کے اتمام میں سے یہ نوازش بھی ہوگی کہ لڑکے ان کی خدمت پر مامور کیے ہوں گے۔ کیونکہ بلاشبہ ان کی صفات کے بارے میں اور جو کچھ اکرام ہوگا اس کے بارے میں جو تصریح (کھلم کھلا بیان) موجود ہے وہ اس واضح استنباط سے بے نیاز کردیتا ہے، جس کے بارے میں یہ گمان کررہے ہيں کہ کوئی مخفی چیز تھی، اور اس کے تعلق سے کہا کہ: یہ قرآنی اشاروں کی فقہ ہے! اور اس کی بنیاد پر تصوف کے گن گارہے ہیں اور اس پر ابھار رہے ہیں اپنے اس قول کے ذریعے کہ:
”پس اے مبارک! آپ فقہ وتصوف دونوں کو جمع رکھیں اور کہیں: یہ ہے خادم تو پھر مخدوم کیسا ہوگا؟“
حالانکہ تفسیر ابن جریر میں سورۃ الطور کی آیت کے تحت قتادہ رحمہ اللہ کا اثر ہے کہ:
”مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کہا گیا: یا رسول اللہ! جب یہ خادم چھپے ہوئے موتیوں جیسا ہے تو مخدوم کیسا ہوگا؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بے شک ان کے مابین فضیلت میں فرق ایسا ہوگا جیسے چودہویں کے چاند اور ستاروں میں ہوتا ہے“۔
اور یہ اثر صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں ابہام و انقطاع ہے۔ اسی طرح امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ”حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح“ میں کتاب و سنت کے بہت سے نصوص اہل جنت کی صفات و احوال، اور جو کچھ نعمتیں اور انواع واقسام کے اکرام وعزت افزائیاں ان کے لیے تیار کیے گئے ہیں لے کر آئے ہیں۔
2- اور جہاں تک بات ہے ان کا فقہ و تصوف کو جمع کرنے پر ابھارنا اپنے اس قول کے ذریعے:
”پس اے مبارک! آپ فقہ وتصوف دونوں کو جمع رکھیں اور کہیں: یہ ہے خادم تو پھر مخدوم کیسا ہوگا؟“
تو میں کہتا ہوں:
وہ بات جو کسی پر مخفی نہیں یہ ہے کہ دین میں تفقہ حاصل ہونا اللہ تعالی کا بندے سے خیر کا ارادہ ہونے کی علامت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهُّ فِي الدِّينِ‘‘([2])
(اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی فقاہت وسمجھ دے دیتا ہے)۔
دین میں فقہ تو کتاب عزیز و سنت صحیحہ سے اس امت کے سلف صالحین کے طریقے کے مطابق استنباط کرنے کا نام ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس امت کے تہتر فرقوں میں سے فرقۂ ناجیہ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:
’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘
(جس چیز پر میں ہوں اور میرے صحابہ)۔
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اس کی تخریج میں نے اپنے رسالے ’’ الانتصار لأهل السنة والحديث في رد أباطيل حسن المالكي“ میں کی ہے جو کہ میرے کتب و رسائل کے مجموعے کےضمن میں 7/275طبع ہوچکا ہے۔ جتنا ہمیں علم ہے کتاب و سنت اور اقوال صحابہ میں تصوف کا ذکر نہیں آیا ہے۔ اور اس کا غالب استعمال بعد میں اس مذموم معنی میں ہوا ہے جو صراط مستقیم کی مخالف راہیں ہیں، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام: 153)
(اور یہ کہ بے شک یہ ہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گے۔ یہ ہے جس کی وصیت اس نے تمہیں کی ہے تاکہ تم بچ جاؤ)
اور کبھی اس کا ذکر آتا ہے جس سے مراد زہد و ورع ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ 11/28 میں فرماتے ہیں:
’’جو مشروع زہد ہے وہ اس چیز کو ترک کرنا ہے جو آخرت میں فائدہ نہ دیتی ہو۔ البتہ ہر وہ چیز جو بندے کو اللہ کی اطاعت میں مدد دے تو اس کو ترک کرنا مشروع زہد نہيں ہے۔ بلکہ ان فضولیات کو جو اللہ رسول کی اطاعت سے مشغول کردیتی ہے انہيں ترک کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح سے دوسری صدی میں انہوں نے اس کی تعبیر صوفی کے لفظ سے کرنا شروع کردی، کیونکہ زاہد لوگ کثرت سے اونی لباس پہنتے تھے “۔
چنانچہ واضح کلام سے تعبیر کرنا اولیٰ ہے احتمالی و متشابہہ کلام کے بنسبت([3])۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا﴾ (البقرۃ: 104)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم ” رَاعِنَا “ (ہماری رعایت کریں) مت کہو اور ” اُنْظُرْنَا “ (ہماری طرف دیکھیں) کہو)
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ آپ سے ثابت ہے کہ:
’’دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ‘‘([4])
(جو چیز تمہارے دل میں شک وتردد پیدا کرے اسے چھوڑ کر اسے اپناؤ جو شک وتردد پیدا نہ کرے)۔
حسان بن ابی سنان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَهْوَنَ مِنَ الْوَرَعِ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ‘‘
(ورع (زہد و پرہیزگاری) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شک شبہ کی چیزوں کو چھوڑ دو اور وہ اختیار کر وجس میں کوئی شک شبہ نہ ہو)۔
اسے امام بخاری نے اپنی صحیح کے ’’بَابُ تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ‘‘ میں حدیث رقم 2052 سے پہلے تعلیقا ًذکر کیا ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ فَقْد اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ‘‘ ([5])
(پس جو شبہات سے بچا اس نے یقیناً اپنا دین و عزت بچا لی)۔
پھر کیسے وہ شخص جو تصوف کی ترغیب دے رہا ہے اس بات سے محفوظ ہے کہ کچھ لوگ اس کی وجہ سے تصوف کا باطل معنی اپنائيں گے تو ان کے گناہوں کا وبال اس پر بھی ہوگا؟! اور یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے قدیم و موجودہ علماء فقہ، زہد و ورع کے تعلق سے مشہور ہیں لیکن انہيں اس وصف سے موصوف نہیں کیا جاتا نہ ہی کیاجانا چاہیے کہ جس وصف پر باطل معنی غالب ہے۔ ان شخصیات میں سے جنہوں نے اصول و فروع میں فقہ فی الدین کے ساتھ زہد و وورع کو جمع کیا تھا شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور اپنے زمانے کے شیخ الاسلام شیخ عبدالعزیز بن باز و شیخ علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہم اللہ تھے۔ کیونکہ بلاشبہ جو کوئی بھی ان کی بعض آیات قرآنیہ کی جمع شدہ تفاسیر کا مطالعہ کرے گا تو اس کے سامنے یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ کس قدر ان کے پاس فہم قرآن اس کے مواعظ وعبرتوں کے تعلق سے باریک بینی پائی جاتی تھی۔ اسی طرح سے ہمارے شیخ علامہ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن‘‘ میں کیا، اور ان ہی کی طرح شیخ علامہ عبدالرحمن بن سعدی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر قرآن کریم میں کیا۔ ان مثالوں میں سے جو شیخ رحمہ اللہ کی دقت فہم و استنباط پر دلالت کرتی ہیں آپ کی تفسیر اس فرمان باری تعالی کے تعلق سے دیکھی جاسکتی ہے:
﴿وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَيْرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ﴾ (البقرۃ: 158)
(اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے توبے شک اللہ قدر دان ہے، سب کچھ جاننے والا ہے)
آپ نے فرمایا:
”یہاں تطوع (اپنے خوشی سے نفلی کام کرنا) کو خیر سے مقید کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو ایسی بدعت کے ذریعے تطوع کرے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار نہیں دیا نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اسے اس کے بدلے سوائے تھکان و مشقت کے کچھ نہیں ملے گا بلکہ ہوسکتا ہے اسے شر و برائی ملے اگر وہ اس عمل کی عدم مشروعیت کو جانتے ہوئے بھی ایسا کرے“۔
بلاشبہ جس چیز پر اہل فقہ فی الدین و محققین علمی مسائل کے تعلق سے گامزن رہے اسی پر چلتے رہنا اس سے بہتر ہے کہ قرآن مجید سے ایسے استنباط کرنے میں تکلف سے کام لیا جائے جو اس چیز کے موافق نہ ہوں جس پر سلف تھے۔ میں اس سے پہلے بھی اس مقالے کو لکھنے والے حضرت پر جو کچھ ان سے صادر ہوا تنبیہ کرچکا ہوں اپنے مقالے بعنوان ” ليس من الدعاء: سيؤتينا الله من فضله إنا إلى الله راغبون“ جو بتاریخ 4/1/1433ھ میں اور مقالہ بعنوان ”الدعاء بالألفاظ الشرعية لا بالتجارب الشخصية“ جو بتاریخ 30/6/1433ھ میں نشر ہوا۔
3- اور جہاں تک ا س کا یہ کہنا ہے:
”اور ایک قولِ ماثور جو کہ حسن درجے کا ہے، اس میں ہے کہ:
”جو کوئی بغیر فقہ کے تصوف اختیار کرتا ہے تو زندیق بن جاتا ہے، اور جو کوئی بغیر تصوف کے فقہ اختیار کرتا ہے فاسق بن جاتا ہے، البتہ جو فقہ و تصوف کو جمع کرلیتا ہے تو یہ حق کو پالیتا ہے“۔
اور قطعی طور پر یہاں تصوف سے مراد جذبات کی روح، دل کی رقت اپنانا اور سنگدلی کو چھوڑنا ہے، ساتھ ہی قرآنی اشارات اور نبوی دلالات پر عظیم غور و فکر و فقہ ہے“۔
اس تعلق سے میں مندرجہ ذیل باتوں کی جانب اشارہ کروں گا:
1- مجھے کہیں بھی اس اثر کی جسے وہ حسن درجے کا کہہ رہے ہیں کسی سلف کی جانب اسناد کے ساتھ نسبت نہیں ملی، بلکہ بعض متاخرین نے اسے بغیر اسناد کے امام مالک رحمہ اللہ کی جانب منسوب کیا ہے، اور اس کی نسبت ان کی جانب ہونا اس کی صحت کو اور بعید تر کردیتا ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ کا تو یہ فرمان ہے کہ:
”جس کسی نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اسے وہ مستحسن (اچھا) سمجھتا ہے تو اس نے یقینا ًیہ گمان کرلیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسالت کی ادائیگی میں خیانت کی ہے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ (المائدۃ: 3)
(آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا) “([6])۔
اور اس لیے بھی یہ بعید ہے کہ یہ ان کا کلام ہو، کیونکہ اس میں تکلف پر مبنی مسجع عبارت آرائی (تک بندی) کی گئی ہے جیسا کہ کاہنوں کی ہوتی ہے، خصوصاً ان دو کلمات ”تفسّق “ اور ”تحقَّق “ ([7])میں۔
2- اس شیخ نے ذکر کیا کہ اس اثر مین تصوف سے مراد محمود (قابل تعریف ) تصوف ہے۔ تو پھر کیسے کوئی شخص بلا فقہ کے تصوف اپنا کر زندیق بن سکتا ہے حالانکہ مسلمانوں کی عام عوام میں تو ایسے ہیں جو زہد و ورع سے متصف کیے جاتے ہیں اور ان امور عبادات کا فقہ فہم بھی رکھتے ہیں جن کی معرفت ان پر متعین ہے، اگرچہ انہیں فرض کفایہ والی فقہ نہ بھی حاصل ہو، پھر بھی انہیں اس مذموم صفت سے موصوف کرنا جائز نہیں؟!
اور جہاں تک عقیدے کی بات ہے تو یہ لوگ فطرت پر ہیں اور اُن پڑھے لکھوں سے بہتر ہیں جن کی تعلیم کی بنا پر فطرت ہی بگڑ چکی ہے۔ ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بعض اہواء(بدعات و دین میں نت نئے کلام) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:
”بچے جو مدرسے میں پڑھتے ہیں اور (سادہ لوح) دیہاتی لوگوں کے عقیدے کو پکڑ لے، اور ان کے سوا سب کو چھوڑ دے“([8]) ۔
اور الرازی اپنے تبحر علمی کے باوجود کہا کرتے تھے:
”جو کوئی (سادہ لوح) بوڑھی عورتوں کے ہی دین پر جم جاتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے“([9]) ۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے اور اس مقالہ لکھنے والے اور تمام طلبہ علم اور عام مسلمانوں کو دین میں فقہ اور حق پر ثابت قدمی عطاء فرمائے۔ اور سب کو حق حق بنا کر دکھائے اور اس کی اتباع کی توفیق دے، اور انہیں باطل باطل بناکر دکھائے اور اس سے اجتناب کی توفیق دے۔ اور ہم سب کو برے اخلاق، اعمال، اہواء وبیماریوں سے پناہ میں رکھے۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
وصلى الله وسلم وبارك على عبده ورسوله نبينا محمد وعلى أله وصحبه.
[1] یہ مقالہ الدكتور صالح المغامسي نے لکھا تھا، جريدة “الشرق الأوسط” يوم الثلاثـاء 30 ذو القعـدة 1433 هـ 16 اكتوبر 2012 العدد 12376، تحت عنوان: ((فكيف المخدوم؟))۔
[2] رواه البخاري (71) ومسلم (2389)۔
[3] ہمارے ہاں بھی یہ نسبت و الفاظ اپنی گمراہیوں کی شدت میں کمی زیادتی کے باوجود کم و بیش تمام فرقے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ درگاہوں مزاروں میں قلندری مولائی نسبتیں شیعہ مذاہب کی نمایاں عکاسی کرتی ہيں، جس میں بریلوی بھی برابر کے شریک ہیں ان کی قادری وغیرہ صوفی سلاسل کی نسبتیں ہی جاننے کے لیے کافی ہیں، البتہ علماء دیوبند پر ان کی جانب سے اپنے جیسے صوفی منش لوگوں کے سامنے اعتراض ہوا کہ یہ صوفی نہيں ہیں تو علما ء دیوبند نے باقاعدہ جوابی رسالہ لکھا کہ یہ غلط ہے بلکہ ہم بالکل صوفی ہيں اور تصوف کے چاروں سلاسل قادری، چستی، نقشبندی و سہروردی کو مانتے اور ان سے بیعت ہيں (دیکھیں المہند علی المفند) اسی طرح سے جو لوگ اپنے آپ کو اہل حق سمجھ کر اہل سنت و حدیث و سلفیت کی جانب منسوب ہوتے ہيں ایسے نام نہاد اہلحدیث جماعتوں والے بھی یہ اعلان کرتے ہیں جیسا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث اپنے عقیدے، منہج و ومنشور کے ص 5 میں جو کہ مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ اپریل 2005ع جامعہ سلفیہ، فیصل آباد میں پاس ہوا کہتے ہیں: ” اہل حدیث کی دعوت ایک حقیقی تصوف کی دعوت ہے“۔ (مترجم)
[4] رواه الترمذي (2518) وقال: ((هذا حديث صحيح))۔
[5] رواه البخاري (52) ومسلم (4094)۔
[6] الاعتصام للشاطبي 1/28۔
[7] پوری عربی عبارت یہ تھی: من تصوف بلا فقه فقد تزندق، ومن تفقه بلا تصوف فقد تفسق، ومن تفقه وتصوف فقد تحقق۔
[8] رواه ابن سعد في الطبقات: 5/374، وصحّح إسناده النووي في تهذيب الأسماء واللغات، قسم الأسماء: 2/22۔
[9] لسان الميزان لابن حجر:4/427۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: يُجمع بين الفقه والزهد والورع ويُبتعد عن التصوف لفظاً ومعنى۔