
Ruling on seeking auspicious omens from the Mushaf (Qur’an)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا مصحف قرآنی کھول کر فال لینا مکرو ہے؟
اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
۔۔۔جہاں تک مصحف کھول کر فال لینے کا مسئلہ ہے تو سلف سے اس بارے میں کوئی چیز منقول نہيں، جبکہ متاخرین نے اس بارے میں کچھ تنازع کیا ہے۔ اور قاضی ابو یعلیٰ رحمہ اللہ نے اس بارے میں اختلاف کا ذکر کیا ہے: ابن بطہ رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ وہ یہ کرتے تھے، اور ان کے علاوہ کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ وہ اسے مکروہ (ناپسندیدہ) جانتے تھے۔ کیونکہ بلاشبہ یہ اس فال لینے میں سے نہيں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند تھا کیونکہ (حدیث میں ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فال کو پسند کرتے بدشگونی کو ناپسند فرماتے۔
اور جس فال کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے تھے وہ یہ تھا کہ کوئی کام کررہے ہوں یا اس کا پختہ عزم و ارادہ ہو اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، پھر کوئی اچھی بات سن لیں جس سے خوشی ملے جیسے سنے کوئی یانجیح (اے کامیاب!)، یا مفلح (اے فلاح یاب!) ،یا سعید (اے خوش بخت!)، یا منصور (اے نصرت دیے گئے!) اور اس جیسے کلمات۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے سفر میں ایک شخص سے ملے تو پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: یزید۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” يَا أَبَا بَكْرٍ يَزِيدُ أَمْرُنَا “ [1]
(اے ابو بکر! ہمیں (اپنی اس مہم میں) اور بڑھوتری حاصل ہوئی)۔
اور جو بدشگونی لینا ہے اس طرح کہ کوئی کام اللہ تعالی پر توکل کرکے کر گزرا یا اس کا عزم کیا پھر کوئی ناپسندیدہ بات سن لی جیسے یہ پورا نہیں ہوگا، یا فلاح نہيں پائے گا اور اس جیسی بات۔ تو وہ بدشگونی لیتا ہے اور کام کو چھوڑ دیتا ہے، تو یہ وہ بات ہے جس سے منع کیا گیاہے۔ جیسا کہ الصحیح میں معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
” يا رسول الله منا قوم يتطيرون قال: ذلك شيء يجده أحدكم في نفسه فلا يصدنكم “ [2]
(یا رسول اللہ! ہم میں سے بعض لوگ بدشگونی لیتے ہیں۔ فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جو تم میں سے ایک اپنے دل میں پاتا ہے، ہرگز بھی یہ تمہیں (کام) سے نہ روکے)۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ کسی بندے کو بدشگونی جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اس سے روکے۔ فال کو پسند کرنا اور بدشگونی کو ناپسند کرنے میں جو طریقہ و مسلک اختیار فرماتے وہ اللہ تعالی سے استخارہ کرنا ہوتا، اور اسی پر توکل وبھروسہ کرنا، ساتھ ہی جو اسباب اس نے مشروع قرار دیے ہیں ان کے ذریعے عمل کرنا۔ فال کو ایسا نہيں بناتے کہ وہ انہیں حکم کرے، یا کسی فعل کو کرنے کا باعث ہو، اور نہ ہی بدشگونی انہيں کسی فعل کو کرنے سے باز رکھتی۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر کام کرنے یا رک جانے کا فیصلہ تو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے جو”الاستقسام بالأزلام“ (تیروں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے) میں سے ہے۔جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب کی دو آیات[3] میں حرام قرار دیا ہے۔ اورلوگ جب اپنے کاموں میں سے کسی کام کا ارادہ کرتے تو تیرجیسی لکڑیاں یا کنکریاں یا ان کے علاوہ کچھ لاتے اور جانتے یہ خیر کی علامت ہے، اور دوسرا شر کی علامت ہے، اور ان کے علاوہ والا غیر واضح ہے (یا دوبارہ فال لو)۔ تو اگر پہلا نکلتا تو کرگزرتے، دوسری قسم کا نکلتا تو چھوڑ دیتے، اور اگر آخری قسم کا نکلتا تو واپس سے قسمت کے تیروں سے فال نکالتے۔
تو یہ تمام انواع اس میں داخل ہيں جیسے کنکر ، اناج، تختی او رلکڑی پھینک کر، اور ایسے ورقے جن پر حروف ابجد لکھے ہوں، یا کچھ اشعار لکھے ہوں یا اس جیسی چیزیں جن سے کوئی شخص کسی بات کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے یا چھوڑنے کا، تو یہ سب ممنوع ہيں۔ کیونکہ بلاشبہ یہ تیروں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے میں سے ہے۔ اس کے لیے تو صرف یہی مسنون ہے کہ خالق سے استخارہ ، مخلوق سے مشورہ ، اور ان شرعی دلائل سے استدلال کرنا جو وضاحت کرتے ہیں کہ جن چیزوں کو اللہ پسند کرتا اور ان سے راضی ہوتا ہے اور جن چیزوں کو ناپسند کرتا اور ان سے منع فرماتا ہے ۔
اور یہ جو امور ہيں ان سے کبھی تو اس چیز پر استدلال کیا جاتا ہے جو بندہ کرتا ہے: کیا وہ خیر ہے یا شر؟ اور کبھی اس چیز پر کہ ماضی و مستقبل میں کس میں فائدہ ہے۔ اور یہ دونوں ہی غیر مشروع ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی اعلم[4]۔
علامہ حافظ الحکمی رحمہ اللہ بدشگونی کی مذمت اور اچھے فال کے پسندیدہ ہونے والی حدیث ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اچھا کلام ہے جو کوئی سنتا ہے اور اس بارے میں روایات لے کر آتے ہیں، پھر فرمایا:
ان مذموم و خطرناک بدعات و محدثات میں سے مصحف (قرآن) سے فال لینا ہے، کیونکہ بلاشبہ یہ اللہ کی آیات کو مذاق و کھیل تماشہ بنانے میں سے ہے، کتنا ہی برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
نہ جانے ان لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوتا ہوگا جب وہ قرآن کھولیں اور یہ فرمان الہی سامنے آجائے:
﴿لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ﴾ (المائدۃ: 78)
(ان لوگوں پر لعنت کی گئی جنہوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا)
اور یہ فرمان:
﴿وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ﴾ (النساء: 93)
(اور اللہ کا اس پرغضب ہوا اور اس نے اس پر لعنت کی)
اور اس جیسی دیگر آیات!
اور یہ روایت کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے جس نے اس بدعت کو ایجاد کیا تھا و ہ مروانی لوگوں میں کوئی تھا، اور اس نے ایک دن مصحف کھولا تو اتفاقاً اس وقت وہ فتح چاہتا تھا پر اللہ کا یہ فرمان سامنے آگیا:
﴿وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ﴾ (ابراہیم: 15)
(اور انہوں نے فتح مانگی اور ہر سرکش، سخت عناد رکھنے والا ہٹ دھرم نامراد ہوا)۔۔۔آیات۔
کہا جاتا ہے کہ اس نے اس بات پر مصحف کو غصے میں جلا ڈالا اور وہ اشعار کہے کہ جنہيں ہم یہاں ذکر کرکے صفحات کالے نہيں کرنا چاہتے۔مقصود یہ ہے کہ بلاشبہ یہ قبیح بدعت ہے۔ اور فال جس کا باقاعدہ قصد وارادہ کیا فال لینے والے نے تو یہ بھی شگون لینے میں سے ہی ہے جیسا کہ لوگ تیروں کے ذریعے قسمت آزمائی کرتے ہيں۔
اور امام احمد نے الطیرۃ (شگون) کی تعریف میں الفضل بن العباس رضی اللہ عنہما کی حدیث روایت کی ہے کہ:
”إِنَّمَا الطِّيَرَةُ مَا أَمْضَاكَ أَوْ رَدَّكَ“ [5]
(شگون تو صرف وہ ہے جو تمہیں چلا دے یا روک دے)[6]۔
[1] التمہید لابن عبدالبر 24/73 میں روایت کچھ اس طرح ہے کہ جب پوچھا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ” مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا بُرَيْدَةُ. فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ بَرُدَ أَمْرُنَا وَصَلُحَ“ (مترجم)
[2] مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ، حدیث رقم: 33، واحمد فی المسند 5/447۔
[3] سورۃ المائدۃ آیت 3 اور90۔
[4] مجموع الفتاوی ج 23ص 66-68۔
[5] المسند 1/213 میں انقطاع کے سبب ضعیف اسناد سے روایت کیا ہے۔
[6] معارج القبول بشرح سلم الوصول الی علم الاصول فی التوحید ج 3 ص 1163۔
ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی
Be the first to comment