
بسم اللہ الرحمن الرحیم
What is Hizbiyyah? and how to deal with Hizbees? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
سوال:احسن اللہ الیکم، حزبیت (گروہ بندی) کا کیا معنی ہے؟ اور جب کہا جاتا ہے فلاں کے پاس حزبیت پائی جاتی ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اور ان کی دعوت اور منہج کیا ہوتا ہے؟
جواب: جو کوئی بھی سلفی منہج کی مخالفت کرتا ہے تو وہ گمراہ احزاب میں سے ہے۔ حزبیت کی شروط میں سے تنظیم کا ہونا ضروری نہیں۔ اللہ تعالی نے تو گزشتہ امتوں کو احزاب کہا، اور قریش کو بھی جب انہوں نے دوسروں کو اپنے ساتھ جمع کرلیا تھا احزاب کہا۔ ان کے یہاں کوئی تنظیم وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ پس حزب ہونے کے لیے شرط نہیں کہ وہ منظم ہی ہو، ہاں اگر منظم تنظیم ہو تو یہ برائی وشرپسندی میں اور بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔
پس کسی بھی معین فکر کے لیے تعصب کرنا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہو، اور اسی کے لیے دوستی ودشمنی برتنا یہ تحزب (گروہ بندی)ہے۔ یہ حزبیت ہے اگرچہ منظم نہ بھی ہو، جو ایک خاص فکر پر بنیاد رکھے اور اس پر لوگوں کو جمع کرے تو یہ حزب ہے خواہ تنظیم ہو یا نہ ہو، جب تک وہ کتاب وسنت کے خلاف ہے تو حزب ہے۔
یہ جو کفار کا حزب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کررہا تھا ان کے یہاں موجودہ دور کی طرح تنظیم نہیں تھی۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے ان پر احزاب کا اطلاق فرمایا۔ کیسے؟ کیونکہ بلاشبہ انہوں نے باطل کے لیے تحزب اختیار کرکے حق کے خلاف جنگ کی تھی:
﴿كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۠ وَهَمَّتْ كُلُّ اُمَّةٍۢ بِرَسُوْلِهِمْ لِيَاْخُذُوْهُ وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُهُمْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ﴾ (غافر: 5)
(ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا اور ان کے بعد بھی کئی احزاب نے، اور ہر امت نے اپنے رسول کے متعلق ارادہ کیا کہ اسے گرفتار کرلیں، اور انہوں نے باطل کے ذریعے جھگڑا کیاتاکہ اس سےحق کو دبا سکیں، تو میں نے انہیں پکڑ لیا، پھر میری سز ا کیسی رہی)
اللہ تعالی نے انہیں احزاب کا نام دیا، اور وہ عملاً احزاب بنے، اس میں قریش، غطفان اور قریظہ اور قبائل میں سے دوسرے اصناف جمع ہوئے۔ ان تنظیموں کی طرح منظم تو نہ تھے، بس گٹھ جوڑ سا کیا تھا تو اللہ تعالی نے انہیں احزاب قرار دیا اور اسی نام سے پوری سورۃ کا نام الاحزاب رکھا۔
چنانچہ حزب کی شرط میں سے نہیں کہ وہ تنظیم ہی ہو، اگر وہ کسی باطل فکر پر ایمان لاتے ہیں، اور اس کی خاطر لڑائی جھگڑا کرتے ہيں اور اس کی بنیاد پر دوستی ومحبت کرتے ہیں، تو یہ حزب ہے۔ اور اگر اس پر تنظیم اور چندہ فنڈز جمع کرنا بھی شامل ہوجائے۔۔۔تو ظاہر ہے یہ حزبیت میں اور بھی بڑھ کر ہوگی اور وہ باقاعدہ گمراہ احزاب میں شمار ہوگی۔ العیاذ باللہ۔
سوال: احسن اللہ الیکم، کیا آج منظر عام پر موجود تمام جماعتیں حدیث میں وارد بہتّر ہلاک ہونے والے فرقوں میں داخل ہیں؟ اور کیا جماعت اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت بھی ان کے ساتھ ہیں؟
جواب: ہر کوئی جو اپنے عقیدے، منہج اور دعوت میں اس چیز پر نہ ہو جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے تو وہ گمراہ فرقوں میں سے ہے۔ اوراخوان المسلمین نے تو بہت سے فرقوں کو جمع کررکھاہے، یوں کہ انہوں نے اپنے دروازوں کو مکمل طور پر کھلا رکھا ہے روافض، خوارج، زیدیہ، معتزلہ بلکہ نصاریٰ تک کے لیے۔پس وہ گمراہ فرقوں کا ایک مجموعہ وملغوبہ ہے۔ ہم اسے گمراہ فرقہ نہیں بلکہ فرقوں کا مجموعہ کہیں گے۔ اسی طرح سے تبلیغی جماعت ان سے قریب قریب ہی ہے، وہ صوفی سلسلوں کی بیعت کرتے ہیں، اور ہر ایرے غیرے کے لیے ان کے دروازے کھلے ہيں۔
بلاشبہ یہ گمراہ فرقوں میں سے ہيں۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے یہی پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا:
’’یہ اہل سنت والجماعت میں سے نہیں بلکہ ان کے علاوہ دوسروں فرقوں میں سے ہيں‘‘۔
کیونکہ اہل سنت والجماعت تو وہ ہیں جو اس چیز پر ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ یہی میزان ہے اخوان المسلمین ہویا ان کے علاوہ کوئی بھی سب کے لیے۔ کیا وہ اپنے عقائد، مناہج، دعوت، الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) میں اس چیز پر ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے یا پھر ان کے کچھ اور ہی مناہج ہیں؟ جواب: واقعی ان کے کچھ اور ہی مناہج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدے، منہج، الولاء والبراء سے بالکل مختلف ہیں۔
سوال: احسن اللہ الیکم، بعض طلاب العلم ایسے لوگوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں جو حزبی مناہج سے متاثر ہوتے ہیں جیسے اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت اوران کے ساتھ بیٹھتے ہيں، اور ان کی محافل وسرگرمیوں میں حاضر ہوتے ہيں۔ اور اسی حالت میں ان پر کئی برس گزرتے جاتے ہیں اور ان کا حال ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے کچھ تبدیلی نہيں آتی، پس کیا یہ عمل صحیح ہے؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا منہج ہے جس کے تعلق سے آج بہت سے وہ لوگ جو سلفی منہج کا دعوی کرتے ہيں اشتباہ وغلط فہمی میں مبتلا ہيں؟
جواب: مجھے شدید افسوس ہے کہ بلاشبہ یہ بات بہت سے ان لوگوں پر خلط ملط ہوگئی ہے جو اس ملک میں رہتے ہیں جہاں سلف کی کتابیں ان کے سامنے موجود ہیں، اور اہل سنت والجماعت کے اہل بدعت کے بارے میں مواقف بھی سورج کی طرح روشن وواضح ہيں، لہذا یہ بہت حیران کن بات ہے کہ یہ امور ان لوگوں پر مشتبہ ہوگئے جو سلفی منہج کی طرف منسوب ہوتے ہیں!
خاص طور پر جبکہ بلاشبہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بدعت واہل شر کی مجلس اختیار کرنے سے عمومی طور پر ڈرایا، اور سلف صالحین نے بھی اس سے خبردار کیا۔ جو کوئی ان ڈراوں اور انتباہات (وارننگ) کی مخالفت کرتا ہےتو وہ انحرافات میں جاگرتا ہے۔ جو کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس رہنمائی وتوجیہات کو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل شر کی مجلس اختیار کرنے سے خبردار کرنے کے سلسلے میں فرمائی ٹھکرا دیتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ:
’’مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا كَرِيهَةً‘‘[1]
(نیک اور برے ساتھی کی مثال مشک (خوشبو) ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے، پس جس کے پاس مشک ہے وہ یا تو تمہیں اس میں سے کچھ تحفے کے طور پر دے گا، یا تم اس سے خرید لوگے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے، اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے ہی جلا دے گا یا (ایسا نہ بھی ہو) پھر بھی تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبو آتی رہے گی)۔
تو پھر کیوں نہیں یہ لوگ نصیحت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیتے، کہ ان کے ساتھ میل جول رکھنے والے کو اگر سو فیصد اثر نہ بھی ہو تو نوے فیصد تک بھی ان کے شر سے بچ نہیں سکتا۔ خصوصاً جبکہ خود صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے خبردار فرمایا اور اس کی یہ بہترین مثال پیش فرمائی:
﴿ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ﴾ (العنکبوت: 43)
(اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں)
پس عالم تو اس مثال سے مستفید ہوتے ہيں جو قرآن کی مثالوں سے ہی ماخوذ ہے، یا بلکہ یہ (حدیث کی مثال) اور قرآن کی بیان کردہ مثالیں ایک ہی مشکوٰۃ (طاق) سے تو نکلی ہيں، یعنی وحی کی مشکوٰۃ ۔ کیا یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت کو نہيں لیتے؟ اور کیا یہ لوگ آئمہ وعظماء اسلام کی نصیحتوں کو نہيں لیتے؟
بلکہ ان کے اجماع کو نہیں لیتے، جیسا کہ کئی ایک آئمہ اسلام نے اس پر اجماع تک نقل کیا ہے جن میں سے امام بغوی[2] اور امام صابونی[3];بھی ہیں۔ انہوں نے اجماع نقل کیا ہے کہ غالی اہل بدعت سے ہجر (بائیکاٹ) کرنا اور ان کی اہانت وبغض واجب ہے۔ جو کوئی ان سےمیل ملاپ رکھتا ہے اور انہیں اپنی دلی محبت ودوستی دے دیتا ہے، تو وہ ان کے اسالیب وافکار سے متاثر ہوتارہتا ہے، اور چاپلوسی ومداہنت میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور غالباً وہ منحرف ہوکر انہی کے ساتھ ہولیتا ہے۔ جیسا کہ ہم ایسے بہت سوں کو جانتے ہیں جو اس منہج کی طرف منسوب ہوا کرتے تھے مگر شدید افسوس ہے کہ ان کا حال یہ ہوا۔
چنانچہ اہل بدعت کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا نظریہ ، (یہ کہتے ہوئے) کہ ہم ان سے حق بات لیتے ہیں اور شر کو چھوڑ دیتے ہیں، یہ بہت زیادہ خطرناک نظریہ ہے، اور اس کے نہایت سنگین نتائج ہوتے ہيں جسے ہم نے خود ہاتھ سے چھو کر دیکھا ہے۔ اہل بدعت کی کتابوں میں سے پڑھنا اور ان کے ساتھ بیٹھنا بلاشبہ نقصان کا سبب ہے۔ پس ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دین کو لے کر نجات پاجائے اور اپنے عقیدے ومنہج کی حفاظت کرے، اگر وہ واقعی اس عقیدے اور اس منہج کا کوئی احترام کرتا ہے۔
البتہ اگر اسے کچھ پرواہ ہی نہیں کہ یہ باقی رہے نہ رہے تو پھر ایسے کا معاملہ تو اللہ تعالی ہی کے سپرد ہے، اور وہ عنقریب اس کا نتیجہ بھگتے گا کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتوں اور سلف صالحین کی رہنمائی وتوجیہات سے منہ موڑا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ کی قسم! زیادہ حکمت شناس، علم ، عقل اور جانکاری رکھتے تھے کہ اس برے میل جول کا آخر کیا نتیجہ نکلتا ہے جس سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے۔
اس پر کلام طویل ہوسکتا ہے لیکن ہم ان کو نصیحت کرتے ہيں کہ وہ کتب سلف کی طرف لوٹ آئیں اور اس عظیم منہج کو ان کے اصل مصادر سے ماخوذ کریں۔ تاکہ انہيں معلوم ہوجائے کہ وہ کس غلطی وانحراف میں پڑے ہوئے ہيں تو امید ہے کہ وہ توبہ کرلیں اور حق کی جانب رجوع کریں۔
سوال: احسن اللہ الیکم، بعض لوگوں نے اسلامی جماعتوں اور حزبیت کے خلاف سکوت اختیار کرنے کو اپنا منہج بنارکھا ہے اور اسے حکمت کا نام دیتے ہیں، اب یہ باقاعدہ ایک منہج کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کے متبعین موجود ہے جو اس پر گامزن ہیں، آج کے(اختراع شدہ )اس جدید منہج کا کیا حکم ہے؟
جواب: مجھے خدشہ ہے کہ اس سوال میں کچھ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی عالم ایسا منہج رکھتا ہو خصوصاً سلفی عالم۔ لہذا مجھے خدشہ سا ہے کہ اس سوال میں کچھ مبالغہ آرائی ہے۔ بالفرض ایسا واقع ہو اور اس کا وجود ہو تو یہ ایک غلطی ہے۔ اور اس شخص پر یہ واجب ہے کہ جو ایسا نظریہ رکھتا ہے اور ایسے اصول گھڑتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کرے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اس امت کو دیگر تمام امتوں سے اس طور پر ممتاز کیا ہے اور فضیلت دی ہے کہ وہ (منکر پر) سکوت اختیار نہیں کرتی، بلکہ تصریح، توضیح اور جہاد کرتی ہے اور ان سب میں سرفہرست امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی ہے:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾ (آل عمران: 110)
(تم وہ سب سے بہتر امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو)
اللہ تعالی نے اسی قسم کا منہج اپنانے پر بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی یعنی حکمت کے غلاف میں باطل پر سکوت گویا کہ اس کا اقرار کیا جارہا ہو! فرمان الہی ہے:
﴿لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۭذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ، كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ﴾ (المائدۃ: 78-79)
(وہ لوگ جنہوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا، ان پر داود اور مسیح ابن مریم کی زبانى لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے، وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے، جو انہوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے، بے شک برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ‘‘[4]
(تم میں سے جو کوئی منکر (برائی) دیکھے تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے (برا جانے)، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے)۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی اصولوں میں سے عظیم ترین اصول ہے۔ اسلام تو قائم ہی نہیں ہوسکتا مگر اسی کے ساتھ اور اس امت کو خیر پر ہونے یا دیگر تمام امتوں پر سبقت حاصل ہونے کا عظیم مرتبہ جبھی حاصل ہوتا ہے جب وہ اسے قائم کریں۔ اور اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو غضب الہی کے مستحق قرار پاتے ہیں، بلکہ اس کی لعنت کے مستحق قرار پاتے ہیں جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی۔ اگر بنی اسرائیل لعنتوں کی مستحق ہے کیونکہ انہوں نےامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہيں دیا تو ہم اس کے بالاولیٰ مستحق ہوئے(اگر ہم ایسا نہ کریں)، العیاذ باللہ۔ کیونکہ ہمارا دین ان کے دین سے زیادہ عظیم ہے۔ اگر ہم اس دین کے بارے میں کوتاہی کریں اور اسے چھوڑ دیں کہ اہل اہوا وضلالت جس طرح چاہیں کھلواڑ کریں، اگر ہم صرفِ نظر کرکے اسے چلنے دیں اور ان پر خاموش ہوجائیں، اور اسے حکمت کا نام دینے لگیں تو پھر ہم نے بھی غضب الہی کو اپنے آپ پر واجب ٹھہرا لیا۔ ہم اللہ تعالی کے غصے سے اس کی پناہ میں آتے ہیں۔
اور اللہ تعالی سے دعاء ہے اگر واقعی اس صنف کے لوگ موجود ہیں تو وہ انہیں ہدایت دے، انہیں راہ حق دکھائے اور جس عظیم عیب میں وہ مبتلا ہیں وہ بھی انہيں دکھائے ، اور انہیں اس سے نکال کر داعیان حق کی فہرست میں لاکھڑا کرے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں ، اور علی الاعلان اس کا اظہار کرتے ہیں:
﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ (الحجر: 94)
(پس اس کا صاف اعلان کر دیں جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیں)
اسی طرح سے اس کا صاف اعلان کر دیں جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور بدعتی وگمراہ لوگوں سے بھی منہ پھیر لیں۔
سوال: احسن اللہ الیکم، آپ کی ان اہل سنت کی کتب کے بارے میں کیا رائے ہے جن کی تحقیق حزبی مناہج رکھنے والوں نے کی ہو؟
جواب: اللہ کی قسم! ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ یہ حزبی لوگ ان کتابوں کا برا حشر کرتے ہیں کہ اس میں سے اپنا منہج تمییع (اہل بدعت کے تعلق سے بےجانرمی) اپناتے ہیں۔ مؤلف کا مقصود کوئی خاص معین بات یا معین معاملہ ہوتا ہے جس کا وہ معالجہ کررہا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمان کتاب وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں اسے تسلیم کرلیں لیکن کوئی حزبیت سے جلا شخص آتا ہے اور اسے بدل دیتا ہے اور جو نکتۂ نظر وہ پیش کرنا چاہتا ہے اسے بدلنے کا یہ کھیل کھیلتا ہے، اور لوگوں کو مؤلف کی صحیح مراد سمجھنے سے پھیر دیتا ہے۔
بہرحال جو کتب کا ورثہ ہے انہیں ایسی عقلوں کی ضرورت ہے جو خواہش نفس کی پیروی سے خالی ہوں، اور ایسے ہاتھ جو صاف ہوں، اور ایسے افکار جو سلیم ہوں وہ اس کی خدمت کریں، تخریج کریں، اس کے اصل نصوص کی حفاظت کے ساتھ اس کے معانی، مقاصد ومراد کی بھی حفاظت کریں۔
ماضی میں اشاعرہ اور صوفیہ نے کتب حدیث اور کتب تفسیر قرآن لیں اور اپنی خواہش کے مطابق ان میں تحریف کرڈالی، اور یہی حال بعد میں آنے والے متأخرین محققین کا ہے۔ اس الکوثری کو دیکھ لیں کتاب کی اصل غرض غایت اور رجحان تک سے کھیلتے ہوئے کسی اور روپ اور رجحان میں پیش کیا۔ اسی طرح کوئی حزبی ہوتا ہے تو وہ کتاب کو لے کر اور جو کچھ نصوص اس کے اندر موجود ہیں انہیں اس طور پر پھیر کر پیش کرتا ہے کہ جو اس کے منہج کے موافق بن جائے، تو یہ حرکت ہوتی ہے ان کی۔
یہ علم کے تعلق سے خیانت ہے۔ پس اہل سنت پر واجب ہےکہ وہ سلفی ورثے کی خدمت کے لیےبھرپور محنت کریں ۔ حتی کہ اگر یہ لوگ ان سے سبقت لے گئے ہوں کسی کتاب پر کام کرنے میں اور اس کا یہ حشر کردیا ہو تو انہیں چاہیے کہ اس کی تصحیح کریں، واپس سے مخطوطات نکالیں اور اس کی تصحیح کریں اور صحیح تحقیق کریں۔ اور اس کے مضامین کو منہج سلف کی روشنی میں بیان کریں۔
سوال: احسن اللہ الیکم، ہم دیکھتے ہيں کہ بعض حزبیوں نے اشاعرہ وغیرہ جیسے اہل بدعت پر رد کیا ہوتا ہے تو کیا ہم ان ردود سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
جواب: ہم نے تو ان کے ایسے ردود نہیں دیکھے جس سے فائدہ ہوتا ہو اور نہ ایسے ردود ہوں گےجن سے فائدہ ہو۔ بلکہ ہم نے تو انہیں دیکھا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام پیش کریں گے، پھر اپنا منہج موازنات([5]) اٹھا کر لے آئیں گے اور ان ردود کو موم کردیں گے۔
جس نے ایک معروف رد نکالا بھی تھا تو اس رد کو چھپا لیا اور اس کے نشر کی یا نئی طباعت کی یا کسی بھی چیز کی اجازت نہیں دی۔ یعنی اس میں بھی وہ اپنے اسی منہج کی خدمت کررہے ہیں جس پر وہ گامزن ہیں اور اس دعوت کی جس کی طرف وہ بلاتے ہیں، پس یہ کتاب چھپا دی گئی۔ اور ہم نے ایک کو یہ کہتے ہوئے سنا: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف اشاعرہ کے بارے میں، پھر آکر اپنا منہج موازنات امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں ٹھونس دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قطعاً مقصد موازنات نہيں تھا۔ آپ کا قصد حق بات تھی اور یہ کہ حق بات اور ہدایت وگمراہی کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ حق کو پہچانا جائے تو اسے لے لیا جائے اور باطل کو جان لیا جائے تو اس سے بچا جائے۔
مگر یہ شخص آیا تاکہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے کلام کو موم کردے اور اس میں منہج موازنات داخل کردے!
میں منہج موازنات کی نسبت سے یہ کہوں گا کہ یہ ارجاء[6] کے خبیث ترین قواعد میں سے ہے۔ آپ کو یہ لوگ (یعنی منہج موازنات والے) کہیں گے کہ وہ یقیناً ارجاء کے منہج کے خلاف لڑرہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ہی قواعد گڑھ لیے جن میں سے یہ منہج موازنات بھی ہے تاکہ بدعت وگمراہی کا دفاع کیا جائے، اور اسی میں سے ارجاء کی بدعت بھی ہے، یہ اس کا دفاع کرنے والے ہیں۔
سوال: احسن اللہ الیکم، آپ کی ان نوجوانوں کے لیے کیا نصیحت ہے جن پر حال ہی میں اللہ تعالی نے ہدایت واستقامت کا احسان فرمایا ہے، جبکہ حزبی جماعتیں ہر طرف موجود ہیں جو اسلام کے نام پر سب کو اپنے اندر ضم کرلیتی ہیں؟
جواب: میں انہیں وصیت کرتا ہوں استقامت وہدایت پر ثابت قدمی کی اور انحراف کے اسباب سے دوری برتنے کی۔ ان احزاب سے میل ملاپ ، آنا جانا نہ رکھیں اور نہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔ بلکہ علماء اہل سنت والجماعت سے علم حاصل کریں اور ان نوجوانوں کے ساتھ تعلقات رکھیں جو اچھے ہوں اور خواہش نفس وبدعات کی پیروی سے پاک صاف ہوں، یہاں تک کہ ان کے قدم علم میں راسخ ہوجائیں۔ اس کے بعد پھر اگر وہ چاہیں تو ان لوگوں کے پاس آئیں تاکہ صرف ان کو دعوت دے سکیں ناکہ میل ملاپ، رہن سہن، یاری دوستی، کھانے پینے اور ہنسنے کھیلنے کے لیے۔
بلکہ صرف اور صرف ان کی نصیحت چاہتے ہوئے اور حق کے بیان کے لیے۔ جب ان کی کمر مضبوط اور قوی ہوجائے تو پھر وہ ان کو اور ان کے علاوہ دوسرے کو دعوت دینے کی طرف متوجہ ہوں۔
لیکن ایسے کہ وہ ابھی چھوٹا ہو (یا نیا ہو) اور سامنے قوم (تنظیم والے ،جماعت والے) شبہات، فتن اور مشاکل سے بھرپور اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں تو پھر بہت خدشہ رہتا ہے کہ اس قسم کے نوجوان منحرف ہوجائیں، انہیں چاہیے کہ سلف کی نصیحتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی وتوجیہات کو اچھی طرح سے سنیں جن میں سے کچھ ابھی ہم نے بیان کیں۔
(كشفُ الستار عما تحمله بعض الدعوات من أخطار)
سوال: آج جماعتوں میں سے بہت سے نام سامنے آگئے ہيں، کوئی کہتا ہے اخوان المسلمین یا اس جیسے نام، یہ کہتا ہے سلفیہ، یا شیخ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس قسم کے ناموں سے ہی مسلمانوں کے اندرمعین تفرقہ پھیلتا ہے۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی کا تو فرمان ہے: ﴿هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ﴾ (الحج: 78) (اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے) تو کیا یہ کافی نہیں کہ ہم سب مسلمان کہلائیں بغیر کسی۔۔۔؟
جواب: اگر اخوان المسلمین نے اپنے لیے ایک منہج اختراع وایجاد کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ دوستی ودشمنی برتتے ہیں، اسی طرح سے تبلیغی جماعت نے اپنے لیے ایک گمراہ منہج اختراع وایجاد کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ دوستی ودشمنی برتتے ہیں، تو پھر کیا ہمارے لیے جائز نہیں کہ انہیں انہی کے ناموں سے پکاریں جیسا کہ سلف نے نام دیے: جہمیہ، مرجئہ اور خوارج؟!
اگر پورا معاشرے ایک ہی عقیدے ومنہج پر ہو تو ظاہر ہے پھر مختلف ناموں کی گنجائش نہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت موجود ہے۔ ہر جماعت کا اپنا خاص منہج ہے، اور وہ سلفی منہج کے خلاف برسرپیکار ہے، تو کیا ہم انہیں ان کے ناموں سے نہ پکاریں؟!
بلکہ انہوں نے خود ہی اپنا یہ نام رکھا ہے، جیسے حسن البنا نے خود ہی اپنا دعوت کا یہ نام ’’اخوان المسلمین‘‘ رکھا ہے۔ اور تبلیغی جماعت نے بھی خود ہی اپنا یہی نام رکھا ہے۔ اور اپنے لیے فاسد مناہج وضع کیے ہیں، تو ہم کیا کہیں ان کو؟ خود انہوں نے ہی سلفی منہج کو ٹھکرا دیا ہے اور اس منہج کے مخالف مناہج اختراع وایجاد کیے ہیں۔ اور اپنے مناہج کے ضمن میں سلفی منہج کے خلاف لڑنا بھی ایک اصول بنا رکھا ہے۔ اور ان ناموں سے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، تو پھر ملامت کس پر ہونی چاہیے؟ جس نے یہ حرکت خود کی یا پھر سلفیوں پرجو تبلیغی او راخوانی کہتے ہیں؟!!
انہوں نے خود اپنے لیے مناہج اختراع وایجاد کیے اور ان ناموں سے خود کو موسوم کیا، اور سلفی منہج کے خلاف باقاعدہ ایک جنگ شروع کردی، تو کیا ہم انہیں سلفی پکاریں یا اہل سنت یا فقط مسلمان کہہ کر خاموش ہوجائيں؟! جیسا کہ روافض نے کیا، اور جیسا تیجانیہ ومرغنیہ نے کیا، یا جیسا دیگر گمراہ لوگوں نے کیا، جب وہ کام ہی اہل ضلالت وگمراہی والا کریں گے تو ہم پھر کیا کریں؟
یہ بات بالکل حقیقت ہے اور لازم ہے کہ ہم اہل سنت اور اہل ضلالت وگمراہی میں امتیاز کریں۔ اسی لیے جب گمراہ فرقے آئے تو اہل سنت والجماعت نے کہا کہ یہ جہمیہ ہیں، اور یہ مرجئہ ہیں، اور وہ خوارج ہیں، پس کیا کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ ان پر اعتراض کرے؟
آج بھی وہی چیز منظر عام پر چل رہی ہے، جماعتیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مناہج اور فاسد طریقے بنا رکھے ہیں، اور انہی فاسد مناہج کے ضمن میں ایک نکتہ ان کے یہاں سلفی دعوت کے خلاف لڑنے کا بھی ہے، تو پھر ملامت انہی کے سر ہے۔
اولاً: انہیں چاہیے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کریں۔
ثانیاً: اپنے اوپر سے ان ناموں کا ٹھپہ ہٹائیں۔ اپنی اسلام سے والہانہ محبت اوراسلام کے احترام کو واضح کریں، اور وحدت اسلامیہ کی چاہت جس کا جھوٹا ڈھنڈھورا وہ پیٹتے رہتے ہیں اسے سچے طور پر سامنے لائیں۔ اپنے مناہج کو کالعدم کریں، ان سے اپنی برأت وبیزاری کا اعلان کریں اور کہیں کہ ہم اس منہج سے بری ہیں۔ چنانچہ اخوان المسلمین کہے کہ اے بھائیوں اخوانی منہج سے بری ہوجاؤ۔ اور تبلیغی جماعت کہے کہ تبلیغی جماعت کے منہج سے بری ہوجاؤ۔ اور آؤ کہ ہم سب بس مسلمان بن کر رہیں۔ تب جاکر ہم کہیں گے کہ ہم نے سلفی کہلانا چھوڑ دیا، اور ان ناموں سے موسوم ہونا جائز نہيں، پھر اس کے بعد کہیں جاکر یہ سب نام بالکل بھی جائز نہیں ہوں گے۔
لیکن حال یہ ہو کہ وہ اپنے فاسد مناہج پر جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہیں اور سلفی منہج کے خلاف جنگ کرتے ہيں پر مصر ہیں، تو پھر ہم اس بات پر مجبور ہیں، مجبور ہیں کہ ہم کہیں: تبلیغی، اخوانی، روافض اور صوفیہ۔تاکہ لوگوں کو ان سے خبردار کیا جاسکے۔
ٹھیک ہیں چلیں اگر ہم نہیں کہتے تبلیغی تو کیا ہم یہ کہیں مسلمانوں سے بچو اور خبردار رہو؟! یا ہم کہیں: مسلمان تو قبروں کی عبادت کرتے ہيں، یا پھر ہم یوں کہیں کہ: فلاں جماعت والے کرتے ہیں۔۔۔؟!
سائل: ہم یہ دعوت دیں کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سے کچھ نہ لیا جائے لیکن۔۔۔؟
الشیخ: یہ توبس ایک مغالطہ ہے۔ ابھی میرے سامنے مثلاًتبلیغی جماعت قبروں کا طواف کرتی ہے تو میں یوں کہوں: مسلمانوں سے بچو، کیونکہ وہ قبروں کا طواف کرتے ہیں؟ یا میں یوں کہوں کہ: تبلیغی جماعت سے بچو؟
اشاعرہ کو لے لیں ان کے یہاں صفات الہی کی تعطیل (انکار) ہے اور ان کے یہاں دوسری بدعات بھی ہیں تو میں یوں کہوں: مسلمانوں سے بچو کیونکہ وہ صفات الہی کی تعطیل کرتے ہیں؟ یا یوں کہوں کہ: فلاں فرقے سے بچو اور خبردار رہو؟
یہ سارا کلام بس کھیل ہے، اور لوگوں کی عقلوں کا مذاق اڑانا ہے، چاہتے ہیں کہ اپنے باطل پر جمے رہیں، یعنی اپنی اس حقیقت پر جو بہت بڑی، لمبی چوڑی اور ہلاکت خیز ہے اس پر باقی بھی رہنا چاہتے ہیں اور جو اس خباثت پر مبنی حقیقت کے نتیجے میں ان کی جماعتوں کی شکلیں بنیں اور پروان چڑھی ہیں وہ بھی سب باقی رہے ہم سے لڑتے بھی رہیں ماشاء اللہ لیکن(یہ کہتے پھریں) : جی ہم تو مسلمان ہیں سب، اللہ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے!
ہم تو کہتے ہیں بھائی اللہ تعالی نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے لیکن وہ تم ہی لوگ تو ہو جنہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈال رکھا ہے، اور ایسے مناہج اٹھا کر لے آئے ہو جو اسلام کے منافی ہے تو پھر ظاہر ہے ہم اور کیا کرسکتے ہیں؟
اسی لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو جو آپ سے سوال کررہی تھی یہ کہا تھا کہ:
’’أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ‘‘[7]
(کیا تو حروری ہے)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں حروریہ نام دیا کیونکہ وہ اپنی گمراہی کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ تھے اور وہ گمراہی بھی ایسی تھی جو تبلیغی جماعت اور اخوان المسلمین کی گمراہی سے کم تر تھی۔
اور ہم تو اخوان المسلمین ، تبلیغی جماعت اور تمام گمراہ فرقوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی گمراہیوں سے باز آجائیں، اور واجب ہے کہ ان جماعتوں کو کالعدم کرنے کے بعد ان تمام ناموں پر خط تنسیخ پھیر دیں۔
جب یہ جماعت جو اپنے آپ کو اخوان المسلمین کہلاتی ہے ایسی حرکتیں کریں جو اسلام کے متصادم ہو تو کیا یہ جائز نہیں کہ میں کہوں: اخوان المسلمین نے یہ یہ کیا اور یہ یہ کہا؟ میں تو اسے اس کے نام سے موسوم کررہا ہوں، اور ان کے ظلم وفجور کو انہی کی اخوان المسلمین کی طرف منسوب کررہاہو؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ ﴾ (المائدۃ: 38)
(اور چور مرد اور چور عورت)
﴿ اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ ﴾ (النور: 2)
(زانی عورت اور زانی مرد)
پس یہاں زانی اور چور کو ان کے وصف سے موصوف کیا گیا ہے۔ اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا یا اسے سنگسار کیا جائے گا اسی نام سے کہ وہ زانی ہے یا چور ہے۔ اب اگر یہ تبلیغی قبر کا طواف کرتا ہے اور ایسی حرکتیں کیے جاتا ہے، کیے جاتا ہے تو میں کس کی طرف اس عمل کو منسوب کروں گا، کیا اسے اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کروں گا، یا اسے انہی کی طرف منسوب کروں گا تحدید وتعین کے ساتھ، کیونکہ انہوں نے ہی خود اپنے لیے یہ فاسد منہج وضع کیا ہے۔ اور اپنے آپ کو اس نام سے موسوم کیا ہے۔ تو کیا میرے لیے جائز نہیں کہ میں انہیں انہی کے نام سے پکاروں تاکہ امتیاز ہو؟ حالانکہ وہ خود اس نام کے ساتھ اپنا تمیّز رکھتے ہیں!! خود انہوں نے اپنی حرکتوں اور ناموں سے امت میں تفرقہ ڈالا ہے، چنانچہ اعتراض ان پر ہونا چاہیے اور ملامت بھی انہی پر ہونی چاہیے ، میرے بیٹے۔
جہاں تک سلفی کا تعلق ہے تو یہ دیکھیں جب یہ تبلیغی وجود میں آئے اور وہ اخوانی، تو انہوں نے اپنی آپ کو تبلیغی اور اخوانی نام دیا یا پھر اپنے آپ کو مسلمان نام دیا؟
اسی لیےاگر کوئی سلفی یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں اور یہ تبلیغی اور اخوانی ہیں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا، یہی ہوگا کہ بلاشبہ یہ لوگ گویا کہ مسلمان نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس طرح کہا جائے؟!
لہذا ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، اورعقل مند ہوناچاہیے، ہم آپ کو بدھو یا غافل نہیں دیکھنا چاہتے۔ میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ: ان گمراہ فرقوں نے مناہج ایجاد کیے اور ان ناموں سے خود کو موسوم کیا، تو پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم تو مجبور ہیں ظاہر ہے، ہم خود سے یہ نام تو نہیں چاہتے: تبلیغی، اخوانی، اللہ کی قسم! ہماری یہ چاہت نہیں۔ ہم بس مسلمان نام چاہتے ہیں، بس یہی نام۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ توحید وسنت کا التزام کیا جائے تو پھر ہم سب مسلمان ہی ہیں، لیکن انہوں نے ہی ہمیں اس پر مجبور کیا ہے، اور ضرورات اپنی حاجت کے بقدر ہی ہوا کرتی ہیں۔
(الإجابات الجلية عن القضايا المنهجية)
[1] اخرجہ احمد 4/404، والبخاری برقم 2101، وبرقم 5534 میں’’رِيحًا خَبِيثَةً‘‘ کے الفاظ ہیں، ومسلم برقم 2628 من حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ۔
[2] دیکھیں: شرح السنۃ 1/124 اور 1/226-227۔
[3] دیکھیں: عقیدۃ السلف واصحاب الحدیث ص 114-115 اور 123۔
[4] اخرجہ احمد 3/10 (11089)، 3/20 (11167)، 3/49 (11480)، 3/54 (11534)، 3/96 (11898) اور مسلم حدیث رقم 49 بروایت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ۔
[5] منہج موازنات یعنی اہل بدعت وگمراہوں کے تعلق سے ان کی اچھائیاں اور برائیوں کا تقابلہ پیش کرنا اور اسے عدل وانصاف کا نام دینا۔ یہ طریقہ سلفی منہج کے خلاف ہے، جس کے رد پر علماء کا کلام ہماری ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[6] ارجاء کا عقیدہ یہ ہے کہ عمل کو ایمان سے خارج سمجھنا اور ایمان میں کمی زیادتی کو تسلیم نہ کرنا، مرجئہ فرقے کے رد پر علماء کرام کا تفصیلی کلام ہماری ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ (مترجم)
[7] صحیح بخاری 321، اور مسلم 335 حدیث کا ایک ٹکڑا۔ (حروری خوارج کی ایک جماعت تھی جو اس علاقے کی طرف منسوب تھی جہاں وہ پروان چڑھی، اور اس عورت نے بظاہر عبادت میں شدت اپنانے کے متعلق بات کی تھی، جو کہ خوارج کے منہج میں سے ہے) (مترجم)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی