اپریل فول منانے پر تنبیہ – شیخ محمد بن صالح العثیمین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ ‘‘ (صحیح ابی داود 4800)

(میں ضامن ہوں جنت کی ایک جانب گھر کا اس کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے اگرچہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور جنت کے وسط میں گھر کا اس کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے اگرچہ مذاق میں ہی کیوں نہ ہو، اور جنت کی اعلیٰ منازل میں اس کے لیے  جو اپنے اخلاق اچھے بنادے)۔

سوال: سائل پوچھتا ہے کہ کیا مذاق میں جھوٹ بولنا جائز ہے؟

جواب: جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں چاہے مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں۔ کیونکہ یہ تو ان مذموم اخلاق میں سے ہے جن سے سوائے منافق کے کوئی متصف نہیں ہوتا۔

بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو اس جھوٹ جیسے گناہ کو بھی دو اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے سنتے ہیں۔ سفید جھوٹ اور سیاہ جھوٹ۔ یعنی اگر جھوٹ بولنے سے کوئی نقصان ہو جیسے کسی کا ناجائز مال کھانا یا زیادتی کرنا وغیرہ تو اسے وہ سیاہ جھوٹ کا نام دیتے ہیں، اور اگر اس میں ایسی باتیں نہ ہوں تو اسے وہ سفید جھوٹ کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ تقسیم باطل ہے۔ کیونکہ جھوٹ کُل کا کُل سیاہ ہی ہے۔ البتہ جس قدر اس کے نتیجے میں نقصان وضرر بڑھتا ہو اسی قدر اس کی سیاہی میں اضافہ ہوگا۔ اس موقع مناسبت کے لحاظ سے میں اپنے بعض کم عقل مسلمان بھائیوں کو اپریل فول  منانے سے خبردار کرنا چاہوں گا جو اسی جھوٹ کی قبیل سے ہے کہ جسے انہوں نے یہود، نصاریٰ، مجوس یا دیگر کفار سے مستعار لیا ہے۔

اس میں مندرجہ ذیل برائیاں اور محظورات پائے جاتے ہیں:

اول:  اس کی شناعت تو اس لیے بھی دوچند ہے کہ نہ صرف اس کی بنیاد جھوٹ پر ہے اور جھوٹ شرعا ًحرام ہے ، بلکہ۔۔۔

دوم: ساتھ ہی ساتھ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘[1]

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد جید ہیں اور اس کا کم از کم حکم بھی حرمت کا ہے اگرچہ اس حدیث کا ظاہر تو مشابہت اختیار کرنے والے کے کفر پر دلالت کرتا ہے۔

سوم: اور ان دو برائیوں کے علاوہ بھی اس میں مزید برائی یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کی اس کے دشمن کے سامنے تذلیل ہے کیونکہ یہ بات انسانی طبیعت کے لحاظ سے ایک حقیقت ہے کہ جو شخص کسی کی تقلید ونقالی اختیار کرتا ہے تو نتیجتاً جس کی تقلید کی جارہی ہے وہ اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے اور یہ تصور رکھتا ہے کہ میں اس سے اعلیٰ وافضل ہوں۔ اور یہ مقلد پست وکمزور ہے اسی لیے تو وہ میری تقلید ومشابہت اختیار کررہا ہے۔ لہذا یہ ایک مومن کی توہین وذلت ہے کہ وہ  کافروں کے سامنے نیچ،کم تر، ذلیل اور اس کے تابع ہوجائے۔

چہارم: اس خبیث جھوٹ (اپریل فول) میں غالباً لوگوں کا مال باطل طور پر کھایا جاتا ہے یا مسلمان کو ڈرایا اور خوفزدہ کیا جاتا ہے۔

کبھی ایسا کرتے ہیں کہ گھر والوں کو فون کرکے کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں کل پارٹی ہے بہت لوگ آرہے ہیں تو بہت سا کھانا گوشت وغیرہ پکالیتے ہیں۔ یا پھر ایسی خبردیتے ہیں کہ جس سے کوئی خوفزدہ ہوجائے یا گھبرا جائے جیسے کہتے ہیں کہ آپ کے سرپرست کا کار حادثہ ہوگیا ہے یا اس جیسی دوسری باتیں جواس حالت کے علاوہ بھی جائز نہیں ہیں ۔  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیےکہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اور اپنے دین کے ذریعہ عزت دار، غالب، فخر کرنے والا اور اسے پسند کرنے والا بنےتاکہ یہ کافروں کے دلوں میں ہیبت کا باعث بنے اور وہ اس کا احترام کریں۔ اور میں ضمانت دیتا ہوں ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کے دین کے ذریعہ عزت کا خواہاں ہو کہ وہ لوگوں کے نزدیک بھی عزیز ہی رہے گااور اس کے برعکس جو اس دین کے دشمنوں کے سامنے ذلت اختیار کرے گا تو وہ اللہ تعالی کے یہاں ذلیل سے ذلیل تر  ہوتا چلا جائے گا اور ساتھ ہی خود ان دین کے دشمنوں کے نزدیک بھی۔

اسی لیے اے مسلمان کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ تمہارا ان کافروں کی متابعت کرنا اور ان کے اخلاق اپنانا تمہیں ان کے نزدیک کوئی عزت کا رتبہ دلا دےگا۔ نہیں، بلکہ یہ تو تمہیں ان کی نظر میں غایت درجہ ذلت وپستی میں دھکیل دے گا۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اگر ابھی کوئی آپ کے افعال میں آپ کی پیروی شروع کردے تو آپ اپنے آپ میں فخر محسوس کریں گے اور یہ محسوس کریں گے کہ آپ کا پیروکار آپ کے آگے کمتری وذلت اختیار کررہا ہے کہ وہ آپ کا مقلد بن گیا۔ اور یہ بات تو بالکل بشری فطرت کے اعتبار سے ایک حقیقت ہے۔ اس لیے جب بھی ہمارے دشمن ہمیں دیکھیں گے کہ ہم اپنے دین کے ذریعہ قوی، عزت دار وغالب ہیں اور ہمیں ان کی کوئی پرواہ نہیں اور ان سے ہم کوئی معاملہ نہیں کرتے سوائے جس کا شریعت الٰہی تقاضہ کرتی ہے۔ و ہ شریعت جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے تمام عالم کے لیے شریعت ہے:

﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ 

(کہو اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا رسول ہوں)

(الاعراف: 158)

 اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’والذي نفسي بيده لا يسمع بي يهوديٌ ولا نصرانيٌ ثم لا يؤمن بما جئت به إلا كان من أهل النار‘‘[2]

(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سنے، پھر اس پر ایمان نہ لائے جو میں لے کر آیا ہوں، تو وہ جہنمیوں میں سے ہے)۔ 

جب یہ اہل کتاب کا معاملہ ہے جو کتاب کا علم رکھنے والے ہیں تو پھر دوسرے کافروں کے بارے میں آپ کا یہ مقلدانہ رویہ کیا شمار ہوگا۔ جو کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سنے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار نہ کرے تو وہ جہنمی ہے، جب معاملہ ایسا ہے تو ہم مسلمانوں کا کیا حال ہوگا کہ اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہیں اور غیروں کی نقالی کرتے ہیں۔ جبکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جو مکالمہ ہرقل روم کے بادشاہ جو کافر تھا اور سیدنا ابوسفیان  رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا اورابوسفیان چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہیں اور خود بادشاہ کو بھی خوشی ہوتی اگر وہ اس صالح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کوئی کذب بیانی کرجاتا مگر اس ڈر سے کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا نہ بول سکے۔ جب ایک کافر کو جھوٹ بولنے میں اتنا خوف ہے تو پھر اے مومن تمہارا کیا حال ہے  کہ جھوٹ بولتے ہو! اللہ تعالی ہی نیکی کی توفیق دینے والا ہے۔


[1] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔

[2]صحیح مسلم 155 اور مسند احمد 27420 میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے:

’’وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ‘‘

(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، اس امت میں سے کوئی بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سن لے، پھر وہ اس حال میں مرے کہ جو کچھ میں دے کر بھیجا گیا  ہوں اس پر ایمان نہ لایا تھا، تو وہ جہنمیوں میں سے ہے) (مترجم)۔

مصدر: فتاوی نور علی الدرب: متفرقہ، شیخ کی آفیشل ویب سائٹ آرٹیکل 9039۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*